( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
آج جہاں چند خبریں تشویش میں ڈالنے والی ہیں ، وہیں دو خبریں حوصلے بڑھانے والی بھی ہیں ۔ ایک ہفتہ کے اندر سی اے اے لاگو کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ، اور آج ہی مرکزی حکومت نے ’ سیمی ‘ پر مزید پانچ سال کے لیے پابندی بڑھا دی ہے ۔ ادھر کرناٹک کے منڈیا میں بھگوا ہٹا کر ترنگا لہرانے پر حالات کشیدہ ہو گئے ہیں ۔ راجستھان سے بھی ایک تشویش ناک خبر آئی ہے ، ہوا محل سے بی جے پی کے ایک ایم ایل اے بال مکند آچاریہ نے ، گنگا پال گرلز اسکول کی طالبات کو انتباہ دیا ہے کہ اس اسکول میں حجاب نہیں چلے گا ، جبکہ اس اسکول میں پچاسی فیصد مسلم بچیاں ہیں ! سی اے اے کو یقیناً آنے والے لوک سبھا الیکشن کے لیے موضوع بنانے کی کوشش ہوگی ، اسی لیے اب اس معاملے کو گرم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، اور اس کا بہتر جواب خاموشی ہے ۔ یہ معاملہ گرم اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ اقلیت بالخصوص مسلم اقلیت کسی طرح کے ردعمل کا اظہار کرے ، لہذا مسلم اقلیت کو چاہیے کہ وہ کسی طرح کا ردعمل نہ ظاہر کرے ، بلکہ یہ کام اُن افراد پر چھوڑ دے جو اس تعلق سے قانونی لڑائی لڑ رہے ہیں ، یا لڑنے کی تیاری میں ہیں ۔ بھگوا اتار کر ترنگا کا لہرانا مسٔلہ نہیں بننا چاہیے ، لیکن اسے مسٔلہ بنانے کی کوشش یقیناً فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کی غرض سے کی جا رہی ہے ۔ یہ معاملہ فرقہ پرستوں اور انتظامیہ کے بیچ ہے کیونکہ بھگوا اتارنے اور ترنگا لہرانے کا کام انتظامیہ نے کیا ہے ۔ اقلیت کو ہر طرح سے خود کو اس معاملہ سے دور رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور وہ ایسی کوشش کرتے بھی ہیں ، لیکن انہیں کسیی نہ کسی طرح الجھا دیا جاتا ہے ، اس بار زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ رہا حجاب کا معاملہ ، تو اسے کیوں بار بار گرم کیا جا رہا ہے ؟ اس سوال کا جواب کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ راجستھان میں ابھی تازہ تازہ بی جے پی کی حکومت بنی ہے ، وہ چاہے گی کہ اس کی مسلم دشمنی کی خوب تشہیر ہو ، اور حجاب سے بہتر اس کے لیے اور کون سا موضوع ہو سکتا ہے ! یہ معاملہ تشویش ناک اس لیے بھی ہے کہ حجاب کے خلاف فرقہ پرست تو سرگرم ہیں ہی ، مسلم فرقے سے بھی کچھ لوگ اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں ، اسے لڑکیوں کے لیے ایک ’ قید ‘ قرار دیتے ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ مسلم لڑکیاں بے حجاب رہیں ۔ بہر حال اس مسٔلے کو حل کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسکول انتظامیہ کو اعتماد میں لیا جائے ، اور کسی بھی طرح کے لڑائی جھگڑے سے بچتے ہوئے مفاہمت کی راہ نکالی جائے ۔ رہا ’ سیمی ‘ پر پابندی کا معاملہ تو اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ اسے اپنی صفائی کا موقع نہیں مل پا رہا ہے ، اور اس پر بار بار پابندی عائد کر دی جاتی ہے ، بہتر ہوگا کہ اسے اپنا موقف پیش کرنے کا منسب موقع دیا جائے ۔ مذکورہ تشویش ناک خبروں کے درمیان دو حوصلہ بڑھانے والی خبریں بھی ہیں ۔ ایک خبر اسٹینڈ اَپ کامیڈین منوّر فاروقی کی ہے ، جنہوں نے ’ بگ باس ‘ کا سیزن جیت لیا ہے ، اور دوسری خبر سرفراز خان کی ہے ، جنہیں بالآخر کرکٹ کی قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ منوّر فاروقی کی جیت اہم ہے ، اس لیے کہ اس جیت میں برادرانِ وطن کا بھی ایک بڑا حصہ ہے ۔ یہ جیت یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ فرقہ پرستی کے اس دور میں بھی منوّر فاروقی کو نہ نظرانداز کیا گیا ، اور نہ ہی ان کے ووٹ کاٹنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ۔ اس جیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ منوّر فاروقی کی ’ فین فالونگ ‘ زبردست ہے ، اور اس اسٹینڈ اَپ کامیڈین کو مرکز بنا کر جس طرح سے فرقہ وارانہ زہر پھیلانے کی کوشش کی گئی ، جس طرح اسے جیل کے پیچھے ڈالا گیا ، اور جس طرح اس کے جگہ جگہ ہونے والے شو پر پابندیاں لگائی گئیں ، اُن سب کا اُسے فائدہ پہنچا ، اسے لوگوں کی ہمدردیں ملیں ، اور فرقہ پرستوں کو منھ کی کھانا پڑی ۔ منوّر فاروقی کی جیت اس لیے حوصلہ بخش ہے کہ یہ سبق دیتی ہے کہ مشکل حالات میں بھی انسان اپنی سوچ مثبت رکھے اور عزم و حوصلے کا مظاہرہ کرے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے ۔ منوّر فاروقی کو مبارک ہو ۔ مبارک سرفراز خان کو بھی ہو ، جسے کرکٹ کی قومی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے ۔ یہ بھی عزم ، حوصلے اور یقین کی کہانی ہے ۔ سرفراز خان کو اور اس کے والد نوشاد خان کو یقین تھا کہ محنت رنگ لائے گی ، اور اہلیت کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جا سکے گا ، اور ان کا یہ یقین ایک حقیقت بن گیا ۔ لوگوں کے لیے سرفراز خان کی شکل میں ایک سبق ہے کہ اگر اہلیت ہو ، اور یقین ہو تو ایک دن خواب پورا ہوتا ہی ہے ۔ اب سرفراز خان کو میدان پر اپنے کمال کا مظااہرہ کرنا ہوگا ، کیونکہ ایک بھی ناکامی اسے باہر کا راستہ دکھا سکتی ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)