رافعہ زینب
اک وقت پرانا ایسا تھا
جب علم پہ لاکھوں پہرے تھے
حق پڑھنے،بڑھنے کے خالص
کچھ خاص کے ہاتھ ہی ٹھہرے تھے
تب ساوتری نے ٹھانی تھی
یہ رسم بدلنی ہوگی اب
اور چلن بدلنے کی کوشش
عورت کوہی کرنی ہوگی اب
زنجیریں توڑ کے جب نکلی
وہ وقت نہایت مشکل تھا
طعنے،دھکے اور دشنام
اس کام کابس یہ حاصل تھا
ظلمت کے سیاہ اندھیرے میں
اک چنگاری پھر بھڑکی تھی
اک پھولے کے خواب کی خوشبوپھر
اک شیخ کے گھر میں مہک اٹھی
عورت ہی عورت کی دشمن
یہ کہنے والے کب سمجھے
دوعورتوں نے کل ذات کی خاطر
کتنے دردنہیں جھیلے!
گرآج برابرحق ہیں ملے
تواس کی بانی عورت ہے
اک دریاہے یہ انقلاب
اوراس کی روانی عورت ہے
وہ اپنی ضد پر قائم ہیں
تم اپنی بات سے ہٹنامت
کردار،شرافت،ہمت میں
تم کسی طرح سے گھٹنامت
ہے جنگ جہالت سے اپنی
سوعلم کو اپنی ڈھال رکھو
اے اہلِ وطن ان دونوں کا
یہ ورثہ خوب سنبھال رکھو!