Home تجزیہ گیسو ئے وقت جب آشفتہ بیانی مانگے

گیسو ئے وقت جب آشفتہ بیانی مانگے

by قندیل

مولانا احمد حسین قاسمی
روزروشن کی طرح اب یہ بات بھارت کے عوام کے سامنے واضح ہوگئی ہے کہ مودی حکومت ایک وسیع پس منظر میں CAA(سیٹیزن شپ امینڈ منٹ ایکٹ) کے ذریعہ عوام کو گمراہ کر رہی ہے،اس قانون کے تیر سے وہ بیک وقت کئی شکار کرنا چاہتی ہے،جن کے خد وخال ملک کے تعلیم یافتہ شہریوں کے ساتھ عوام پر بھی ظاہر ہو چکے ہیں، خصوصیت کے ساتھ ایک بات اب زبان زد ہوچکی ہے کہ: حکومت صرف اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے یہ قانون لائی ہے ”ظاہر ہے کہ جہاں حکومت کی سیاست کا اصول ہی سراسر منفی اور غلط ہو وہاں ترقی ممکن ہی نہیں، اوربہت دنوں تک ایسی حکومت قائم بھی نہیں رہ سکتی ہے۔ادھرچند دہائیوں سے سیاست میں ایک ناپاک روایت در آئی ہے، جس کے چلن نے آج اصول وضابطہ کی شکل اختیار کر لی ہے:”عوام کے ذہن کو اہم ایشوز سے غیر ضروری ایشوز کی طرف کسی بھی ہولناک واقعہ یا حادثہ کے ذریعہ پھیر دینا“تاکہ عوام اسی میں الجھے رہیں، اور حکومت بہ آسانی اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو چھپاتی رہے، ملک کے شہریوں کو کوئی ایسا موقع فراہم ہی نہ کیا جائے جس میں وہ حکومت کا گریبان پکڑ سکیں،اور ان سے جواب طلب کر سکیں،موجودہ حکومت کا اب تک یہی طریقہ رہا ہے۔
GST،نوٹ بندی،منصوبہ بند پلوامہ حملہ کے جواب میں سرجیکل اسٹرائیک،تین طلاق مخالف بل،کشمیر سے ۰۷۳ /ایکٹ کا ہٹانا،عدلیہ پر آستھاکادباؤبناکربابری مسجد، رام جنم بھومی کا غیر منصفانہ عدالتی فیصلہ اور ان تمام سے بڑھ کر جمہوریت کو پارہ پارہ کردینے والے، ملک کو دو نظریوں میں تقسیم کردینے والے اور مذہبی منافرت کی چنگاری کو ہوا دے کر ملک کو دہکتی آگ میں جھونک دینے والے CAAجیسے قانون نے حکومت کی قلعی کھول دی ہے، اس حکومت نے ہندوستان کی خارجی سیاست میں پاکستان کو محور بنایااور عوام کو اس میں الجھانے کی تمام کوششیں کیں، جن کا ماحصل جانی ومالی نقصانات کے سوا کچھ بھی نہیں۔
دوسری جانب داخلی سیاست میں اس نے مختلف طریقوں سے یہاں کی اقلیتوں کو نشانہ بنایا، یہ دونوں منفی طریقہئ سیاست اب رازہائے سر بستہ نہیں رہے، بلکہ ان دونوں موضوعات پر ملک کے ارباب بصیرت اور دنیا کے اہل فکرونظر نے کھل کر لکھا اورصاف وشفاف بیانات دئیے کہ ملک کو ترقی کی شاہ راہ پر لے جانے کے وہ نسخے ہرگز نہیں جن کو بی جے پی حکومت نے اپنامنشور بنارکھاہے۔
دنیا کے بے باک اہل قلم نے حکومت کے اس منفی رویے پر بہت کچھ لکھا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک کی اپنی فضا ء، اپنی ضروریات،اپنی نفسیات،اپنا مزاج ومذاق،ترقی کے اپنے نوع بہ نوع تقاضے ہیں، مگر مودی حکومت ان مذکورہ حقائق سے بالکل مختلف لائحہ عمل پر کام کر رہی ہے، جوکسی بھی طرح ملک کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے،وہ اسٹر یٹجی اور طریقہ کار جو اس نے اسرائیل سے سیکھاہے، وہ اس عظیم جمہوری ملک کے لیے سم قاتل ہے، حکومت کے یکے بعد دیگرے ترتیب وار ماضی کے اہم فیصلے حکومت کے منفی ذہن کا واضح عکاس ہیں۔بدقسمتی سے نفرت کے سوداگر انگریز،”پھوٹ ڈالو اور راج کرو“ کے اصول پر ملک کو غلامی کی زنجیر میں جکڑے رکھنے کی ناپاک روایت دے کر چلے گئے، جس نفرت کا بیج انہوں نے بھارت کے عوام کے دلوں میں مذہبی بنیاد پر بویا تھا اب اس کی زمین کوتر کرنا اوراپنے زہریلے افکار ونظریات اور گفتار وکردار سے اس کے پودے کووجود بخشنا اور پھر اسے ایک تناور درخت کی شکل دینا کسی بھی طرح اس عظیم ملک کے حق میں سود مند ثابت نہیں ہوسکتا اورنہ ہی یہ ملک اس کا متحمل ہے۔انسانی سماج کے لئے نفرت زہرہلاہل ہے،کوئی بھی سماج نفرت کے ساتھ اجتماعی زندگی نہیں گذار سکتا ہے، نفرت تو انگریزوں نے آزادی کی صبح سے پہلے ہی پھیلا دی تھی،جس کا نتیجہ تقسیمِ ملک کی شکل میں ظاہر ہوا۔ دوسری جانب انگریزوں سے لڑنے والے ملک کے بہادر سپوت اس نفرت کے سایہ میں خودبا ہم لڑ پڑے، جس سے اس وقت ملک کو بڑے پیمانے پر مصیبتوں سے دو چار ہو نا پڑا۔اس کے بعد تقسیم اور فرقہ وارانہ تباہی کے زخموں سے چور اس بھارت کو اطمینان وسکون اور دلداری کی ضرورت تھی، طویل غلامی کے بعداسے اپنی آزادی کی فضا، خوشحالی وترقی اور سماجی زندگی میں باہم اخوت ومحبت اور مسرت وشادمانی درکار تھی،جس کا بعض پیش رو حکومتوں نے خیال بھی رکھنا چاہا، مگر سیاست کے بھیڑیوں اور تخت وتاج کے حریصوں نے وقفہ وقفہ سے فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے بھارت کے پرانے زخم پر نمک پاشی کا مستقل کام کیا۔خصوصا جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے ملک کی صورت حال اب تر ہوتی جارہی ہے۔وہ لگاتار ایسے مہلک اور خطرناک فیصلے لینے لگی جس سے ملک میں انارکی پھیلی، ملک اوراس کے عوام ترقی کیاکرتے،اپنی تجارت وملازمت،گوناگوں مصروفیت اور سکون زندگی چھوڑ کر سڑکوں پر آگئے،جس سے طلبہ وطالبات کی تعلیم اورعوام کے روزمرہ کے معمولات زندگی بے حدمتاثر ہوئے۔
CAA کا پس منظر اب یہاں کے شہریوں کے سامنے پورے طور پر آچکا ہے، RSSکا ہندوتوا نظریہ بھی پوری دنیا میں معروف ہوچکا ہے، اس کی تہ در تہ حقیقتیں بھی طشت از بام ہوچکی ہیں، دنیا کی سب سے خفیہ ترین سمجھی جاے والی تنظیم آر ایس ایس(RSS) اب کسی سے مخفی نہیں رہی، ملک اور ملک سے باہر اس کے نظریا ت کی وسیع پیمانے پر تشریح ہو رہی ہے، موجودہ ملکی حالات کے پیش نظرپوری دنیا کا یہ کہناہے کہ یہ ملک گول والکر، ساورکر او ر گوڈ سے کے متشدد نظریہ پر ہر گز نہیں چل سکتا، جن کی ملک کی آزادی میں کبھی کوئی حصہ داری اور شراکت نہیں رہی ہے، ان کے نظریات کے حاملین اس ملک میں صرف اور صرف برہمن ہیں جو منوواد کے قائل اور منواسمرتی کا نفاذ چاہتے ہیں،ان کی تاریخ رہی ہے کہ یہ ہمیشہ سیکولرزم اور جمہوریت کے دشمن رہے ہیں، یہاں کا دستور روز اول ہی سے ان کی آنکھوں کا کانٹا بناہوا ہے، جنہیں ترنگا سے سخت نفرت ہے، آج تک انہوں نے آرایس ایس کی مرکزی آفس میں ہندوستان کے ترنگا کی پرچم کشائی نہیں کی۔ برسر اقتدار حکومت کے بڑے بڑے سورما بشمول مودی اورا میت شاہ ان کے ہی ترجمان ہیں،جنہوں نے یہ ٹھان لیاہے کہ ملک کہیں جائے،اس کی معیشت کا دیوالیہ ہوجائے،تعلیم گاہیں بند ہوجائیں،ترقی کے سارے نقشے دھرے رہ جائیں،ملک کی چھوٹی بڑی صنعتیں برباد ہوجائیں،کسانوں کی خودکشی عام ہوجائے،مقامی مصنوعات دھول کی نظر ہوجائیں،بے روزگاری سرچڑھ کر بولے،مہنگائی آسمان چھولے،شہریوں کی زندگیاں تباہ ہوجائیں،بیٹیوں کی عصمتیں تارتار ہوجائیں،ملک میں بڑھتی غربت کی شرح کا گھٹاٹوپ اندھیرا پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے اورفرقہ وارانہ فسادات سے پورا ملک جل اٹھے،مگر ہمیں وہی کرنا ہے جس کی آرایس ایس نے ہمیں تعلیم دی ہے، جس سے ہماری سیاست کا بازارگرم رہے، ہماری حکومت قائم ودائم رہے اوراپنے فانی اورختم ہونے والے عارضی تخت وتاج کے لئے پورے ملک کو اگر نفرت کی بھٹی میں جھونکنابھی پڑے توہم اس کے لئے تیار ہیں،حکومت کے اعلیٰ عہدہ داروں اورامیت شاہ کے حالیہ بیانوں سے توایساہی لگتاہے۔حالانکہ ایشیا کے اندر ایسے بہت سے ممالک ہیں جو ہرطرح کی ترقیات سے مالامال ہیں، حکومت کی نظر میں وہ نہیں ہیں۔ وہاں کی تعلیمی،اقتصادی، معاشی اورسماجی نقطہ ہائے نظر سے استفادہ کرنے کے لئے کوئی لائحہ عمل مرتب کرے اوران ممالک کی نئی ترقیات،تعلیمی منصوبہ بندیوں،معاشی حصولیابیوں اوروہاں کے شہریوں کو حاصل شدہ بنیادی ضروریات زندگی اورمیسر آسائش حیات کو اپنے حکومتی منشور میں شامل کرنے لئے ان کا حقیقت پسندانہ مطالعہ کیاجائے، حکومت کو ان امورپر توجہ دینی چاہئے،ترجیحی بنیادپر ایک ایک کرکے پہلے اہم عوامی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے اورعوام کو روزگار کے اہم مواقع اورمعیشت کے ضروری میدان فراہم کئے جائیں اورملک کے نوجوانوں کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی کی جائے۔ دیکھاجائے تواس کے لئے حکومت کے پاس کوئی فکری اورارادی قوت نظرنہیں آتی۔بھارت جیسے کثیرالمذاہب والے ملک میں اجتماعی ہم آہنگی اورسماجی اتحاد بنیاد کے پتھر کی مانند ہے، جس کی فکراہل حکومت کو سب سے پہلے کرنی چاہئے،ملک میں سکون وعافیت اورامن وامان کا قیام مختلف نظریات کے حامل شہریوں کے لئے اولین ترجیح کادرجہ رکھتاہے، عقلمند حکومت ہمیشہ ان اصولوں کو مقدم رکھتی ہے،حکومت سے بھارت کے عوام کا پرزور مطالبہ ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے اسے شرمسارہونا پڑے،پوری دنیا میں حکومت کی جگ ہنسائی توہوہی رہی ہے ساتھ میں اس سے ملک کی اعلیٰ شبیہ بھی خراب ہورہی ہے جس کے لئے حکومت جوابدہ ہے۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ کے معاون ناظم ہیں)

You may also like

Leave a Comment