بھاگ کر اندھیروں سے
روشنی کی خواہش میں
جانے کیسے رستوں پر
پاؤں خود نکل آئے
تھے جہاں اندھیرے بس
روشنی کے درپردہ
تیرگی کے سائے تھے
پھر بھی ایک حیرت میں
نیلگوں اندھیرے میں
سانس کی بس آہٹ پر
پاؤں بڑھتے جاتے تھے
دور اس اندھیرے میں
ایک جھیل خوابوں کی
تشنہ روح تشنہ لب
بیکراں و بے پایاں
جو تھی میری
اس کے پاس میں جس دم
آگئی تو کیا دیکھا
میری روح کی ٹھنڈک
جھیل میں نمایاں تھی
میری خواہشوں کا عکس
چاندنی میں گھل مل کر
ارضِ جاں پہ آ اترا
میں نے یک بیک یونہی
ہاتھ جو بڑھایا تو
صرف ایک سایہ تھا
چاندنی کے پیکر میں
خواب جھیل پانی میں
چاند بن کر آیا تھا
وہ تو صرف سایہ تھا
وہ تو صرف سایہ تھا- گلشن مسرت
previous post