Home نظم اداسی کی رُت-بینش احمد اٹک

اداسی کی رُت-بینش احمد اٹک

by قندیل

فروری کا مہینہ بھی ختم چکا ہے
عام طور پر مجھے ان دنوں کچھ ایسا محسوس نہیں ہوتا
پر جانے کیوں آج کل مجھے ہر طرف اداسی دکھائی دیتی ہے
پھول،چاند، سورج، ستارے، سب مجھے اداس لگتے ہیں
کہتے ہیں دل کا موسم جیسا ہو باہر کا بھی ویسا ہی لگتا ہے
میرا دل اداس رہتا ہے
تبھی مجھے ہر طرف اداسی محسوس ہوتی ہے
نا جانے میرے دل کو کیا ہو گیا ہے
نا ہی یہ کچھ بولتا ہے نا سنتا ہے
میں خوش رہتی ہوں
لوگوں کے سامنے میں کبھی اداس نہیں رہی
کبھی کبھی تو میں اتنا ہنستی ہوں کہ
مجھے لگتا ہے کوئی دیکھے گا
تو مجھے پاگل سمجھے گا
پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ
اگر کوئی مجھ سے کچھ پوچھ بیٹھا
تو میں بغیر کچھ بتائے بس رو پڑوں گی
کبھی کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ
میں زندگی کے نام ایک خط لکھوں
اور اس میں یہ تحریر کروں کہ
میں جینا چاہتی ہوں
پر میرے جینے سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے
اور وہ کچھ لوگ وہ ہیں جو میرا سب کچھ ہیں
میں اپنی وجہ سے ان کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی
شاید اس لیے مجھے اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے
لیکن اس چیز کےلیے مجھے بہت بڑا دل چاہیے
لیکن میں اب تھک گئی ہوں
بہت تھک گئی ہوں
پلیز تم ہر گلہ شکوہ ختم کر کے ایک بار میری زندگی میں پھر سے آجاؤ نا
میں تمہیں بھلانے کی بہت کوشش کرتی ہوں
پر بھلا ہی نہیں پاتی
تم میرے دل و دماغ پر قابض ہو
تمہیں دیکھے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا ہے
ایک بار آ جاؤ نا
مجھے تمہارے کندھے پر سر رکھ کر بہت سا رونا ہے
مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہے کیونکہ
میں نے جب پیار کیا تھا
تو کبھی بھی یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ
تم بھی مجھ سے اتنا ہی پیار کرو گے
جتنا میں تم سے کرتی ہوں
کیونکہ مجھے معلوم ہے
پیار شرطوں پر قائم نہیں ہوتا
ضروری تو نہیں نا
کہ سب کہانیوں میں دو لوگ شامل ہوں
بعض اوقات ایک کہانی میں
بس ایک ہی کردار ہوتا ہے
جیسے ہم دونوں کی کہانی میں
بس صرف میرا کردار ہے
تمہارا کوئی نہیں
یہ کہانی صرف میری ہے
اور ہر کہانی کا انجام خوشگوار تو نہیں ہوتا نا
میں نے بعض اوقات لوگوں سے سنا ہے کہ
میں بےحس ہوں
پتھر دل ہوں
یہ کہنا کتنا آسان ہے نا
پر کاش یہ لوگ جان پائیں کہ
انسان بےحس اور پتھر دل کب اور کیسے بنتا ہے
بےحس اور پتھر دل بننا بالکل آسان نہیں ہے
ہم بہت کچھ سہتے ہیں
کئی رویے کئی تعلق ہمیں ہماری اوقات دکھاتے ہیں
تب جا کر ہم ہر شے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں
ہم اپنی زندگی کے اس مقام پر آجاتے ہیں
جہاں ہمیں کسی کے بھی روکھے
لہجوں اور رویوں سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا
ہم بالکل بےحس ہو جاتے ہیں
میں بھی اب بےحس اور پتھر دل ہو گئی ہوں
پر شاید یہی میرے لیے بہتر ہے

You may also like

Leave a Comment