زمیں ہمارے خلاف ساری
فلک بھی ہم سے گریز پا ہے
ہم ایسی بستی کے والی وارث
خدا بھی جس سے بچھڑ گیا ہے
نہ کوئی آئے نہ حال پوچھے
نہ زخم دیکھے ،سوال پوچھے
سفید یا پھر سیہ لبادے
لہو کی رنگت سے میل کھاتے
یہ کاشت کرتا ہے صرف قبریں
یہ شہر مردوں کو سینچتا ہے
یہ کس سے لفظوں کے پھاہے مانگیں
یہ کس سے بولیں تسلیوں کا
یہ خود پڑھائیں جنازے اپنے
یہ خود بلائیں فلاح کی جانب
یہ لوگ قبروں پہ ساتھ دینے
دعا اٹھائے چلے ہوئے ہیں
یہ جن کی خاطر نگاہیں نم ہیں
وہ سوختہ بخت جل بجھے ہیں
ہمیں بھی کوئی دلاسے لوگو
ہماری آنکھیں بھی مرگئی ہیں
وہ کیوں نہ سینوں کو پیٹیں اپنے
کہ جن کی گودیں اجڑگئی ہیں
وہ جس کلائی میں پھول گجرے
سہاگ پن کی نشانیاں تھے
انہی میں ٹوٹی ہیں چوڑیاں اب
بدن میں چبھتی ہیں کرچیاں اب
وہ اونچے محلوں میں قہقہہ زن
ہمارے اشکوں کی کترنوں میں
ہنسی کے بھالے اتارتے ہیں
ہمیں مٹاتے ہیں ایسے گھر سے
کہ جیسے جالے اتارتے ہیں
نمک کی خندق بھی بھر گئی ہے
خوشی کی فصلیں اجڑ گئی ہیں
کہ چھینا جھپٹی میں زندگی کی
ہمیں خبر ہی نہیں ہوا کیا
ہماری بستی میں لکڑیوں سے
سوائے تابوت کے بنا کیا