Home تجزیہ ووٹ کے بدلے نوٹ ! – شکیل رشید

ووٹ کے بدلے نوٹ ! – شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)

مدھیہ پردیش میں ۱۷ ، نومبر کو اسمبلی کے الیکشن ہیں ۔ اس الیکشن اور راجستھان ، تلنگانہ ، چھتیس گڑھ ، اور میزروم کی اسمبلیوں کے الیکشن کو ۲۰۲۴ کے لوک سبھا کے فائنل الیکشن سے پہلے ہونے والے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان ریاستی انتخابات کے نتائج یہ طے کریں گے کہ فائنل کا فاتح کون ہوگا ۔ مرکز میں نریندر مودی کی سرکار کے اقتدار کے دس سال جلد ہی پورے ہونے کو ہیں ، اور بی جے پی کو پوری امید بلکہ مکمل یقین ہے ، کہ اس بار بھی لوک سبھا کی بازی اس کے ہی ہاتھ میں رہے گی ۔ لیکن اس دفعہ جیت آسان نظر نہیں آ رہی ہے ، کیونکہ دس سال کے اقتدار میں بی جے پی نے کسانوں سے لے کر عام لوگوں تک کو اپنے کئی اقدامات سے شدید طور پر ناراض کیا ہے ۔ مودی حکومت میں مہنگائی ، بے روزگاری کا عفریت بے قابو ہو چکا ہے ، اور عام جنتا کے فائدے سے کہیں زیادہ فائدے میں وہ دھنّا سیٹھ ہیں جو حکومت کے ، یا کہہ لیں پی ایم مودی کے منظورِ نظر ہیں ۔ کرپشن کے نام پر مودی حکومت اپوزیشن کو تو تنگ کرتی نظر آتی ہے ، لیکن جو کرپشن اور بدعنوانی کے بڑے بڑے معاملات اور گھوٹالوں کے لیے بدنام ہیں ، انہیں گلے لگا رہی ہے ۔ عوام کو اب خوب اندازہ ہورہا ہے کہ بجلی ، پانی اور روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء کے دام بڑھا کر ان کی جیبیں کاٹی جا رہی ہیں ، اور اڈانی و امبانی جیسے صنعت کاروں کی جیبیں بھری جا رہی ہیں ۔ عوام یہ بھی سمجھ رہی ہے کہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مرکزی حکومت فرقہ پرستی کا خطرناک کھیل کھیل رہی ہے ۔ مزید دو اہم باتیں ہوئی ہیں ؛ ایک تو یہ کہ دہلی اسمبلی و کارپوریشن ، ہماچل پردیش و کرناٹک کی اسمبلیوں کے الیکشن ، اور مہاراشٹر کے کئی بلدیاتی و دیگر انتخابات میں بی جے پی کو زبردست شکست نصیب ہوئی ہے ۔ مودی کے جس جادو اور کرشمے کا بڑا شہرہ تھا ، کرناٹک میں وہ جادو اور کرشمہ ہوا ہو گیا ہے ۔ اور اب اپوزیشن کا ’ انڈیا ‘ کے نام سے ایک ایسا اتحاد عمل میں آ گیا ہے جس نے حقیقتاً بی جے پی کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔ ایک اہم بات ذات کا سروے بھی ہے ، جو فی الحال بی جے پی کے کمنڈل پر بھاری پڑتا نظر آ رہا ہے ۔ یہ وہ زمینی صورت حال ہے جو مذکورہ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو بی جے پی کے لیے مشکل بنا رہی ہے ۔ لیکن چونکہ اقتدار کا مزہ بی جے پی نے چکھ لیا ہے ، اس لیے وہ اقتدار کی کرسی کو ہتھیانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے ۔ مدھیہ پردیش سے گزشتہ دنوں دو ایسے ویڈیو سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اپنی جیت کے لیے اس قدر اتاؤلی ہے کہ اس کے امیدواروں نے اسٹیج سے ووٹروں کو روپیے پیسے کا لالچ دینا شروع کر دیا ہے ، یعنی ووٹ کے لیے نوٹ پھینکنے کی پوری تیاری ہے ۔ بی جے پی کے قومی جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگیہ ’ اندور – 1 ‘ سے بی جے پی کے امیدوار ہیں ، ان کا ایک ویڈیو وائرل ہے ، جس میں انہیں یہ کہتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے کہ جو بوتھ پر کانگریس کو ایک بھی ووٹ نہیں لینے دے گا ، اُسے ۵۱ ہزار روپیہ انعام دیا جائے گا ۔ ایم پی کے ٹرانسپورٹ اور ریوینیو کے وزیر گوؤند سنگھ راجپوت کا بھی ایک ویڈیو وائرل ہے ، وہ سکھری اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے امیدوار ہیں ، اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے وہ ۲۵ لاکھ روپیے کے انعام کا اعلان کر رہے ہیں ! ان کے خلاف الیکشن کمیشن نے انتخابی ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزام میں معاملہ درج کر لیا ہے ، لیکن راجپوت کو خوب پتہ ہے کہ ہونے والا کچھ نہیں ہے ، کیونکہ الیکشن کمیشن پر بی جے پی کی مکمل گرفت ہے ۔ الیکشن کے دوران روپیے پیسے کی ریل پیل ایک عام بات ہے ، نوٹ کے بدلے ووٹ کی خریداری ہوتی چلی آ رہی ہے ، لیکن یہ پہلا موقع ہے جب کھلے عام ووٹ دینے اور دلانے والے کے لیے اسٹیج سے انعام کا اعلان ہو رہا ہے ۔ چوری چھپے کیا ہو رہا ہوگا ، اس کا بس اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پانچوں ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں روپیہ پانی کی طرح بہایا جائے گا ، اور اس معاملہ میں بی جے پی کا مقابلہ کوئی بھی پارٹی نہیں کر سکے گی ، کانگریس بھی نہیں ۔ لیکن کیا روپیے دے کر ووٹ مل سکیں گے ؟ شاید یہ سوال بی جے پی کے امیدواروں کو پریشان کیے ہوئے ہے ، کیونکہ کرناٹک میں بھی نوٹ بانٹے گیے تھے ، لیکن لوگوں نے نوٹ لے کر بھی ووٹ نہیں دیے ، اور ایم پی و دیگر ریاستوں میں بی جے پی کے لیے حالات بڑی حد تک کرناٹک جیسے ہی ہیں ۔ بی جے پی کو سب سے زیادہ پریشانی کارکنان کی ناراضی اور بغاوت سے ہے ۔ کارکنان کو روپیے کا لالچ دیا جا رہا ہے ۔ لیکن شاید یہ لالچ بھی کچھ کام نہیں آ رہا ہے ، کیونکہ اب تک ایم پی الیکشن کے اوپینین پول ، یعنی جیت اور ہار کے اندازے ، جو آئے ہیں ، ان میں چند ایک کو چھوڑ کر ہر ایک میں کانگریس کو حکمراں جماعت بی جے پی پر بازی مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے ۔ لیکن روپیے پیں بڑی طاقت ہوتی ہے ، ممکن ہے کہ الیکشن کی تاریخ کے قریب آتے آتے صورتِ حال کچھ بدل جائے ۔ ویسے الیکشن کمیشن سے کوئی امید نہیں لیکن درخواست چونکہ ضروری ہے ، لہذا اس سے درخواست ہے کہ وہ الیکشن میں نوٹ کے بدلے ووٹ کے چلن پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like