Home مباحثہ اتحادِ ملت کانفرنس : مثبت نتائج کی امید کیسے کی جائے؟-نقی احمدندوی

اتحادِ ملت کانفرنس : مثبت نتائج کی امید کیسے کی جائے؟-نقی احمدندوی

by قندیل

اتحاد ملت کانفرنس آی او ایس اور ملی کونسل کی طرف سے منعقد ہوا، ہم ڈاکٹر منظور عالم صاحب کے اس اقدام کی ستائش کرتے ہیں ، مگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس قسم کے کانفرنسوں کے کیا اثرات ہماری امت پر مرتب ہوتے ہیں ، اور اس قسم کے کانفرنسوں پر جو رسورسز اور انرجی خرچ کی جاتی ہے، کیا اس سے خاطر خواہ رزلٹ حاصل ہوسکتا ہے۔
جب ہم اتحاد کی بات کرتے ہیں تو یہ مان لیتے ہیں کہ ہمارے درمیان افتراق اور انتشار ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مرض کے پتہ چل جانے کے باوجود مرض کے اسبا ب سے جان بوجھ کر غفلت برتتے ہیں اور شفایابی کی امید کرتے ہیں۔ مرض کیا ہے،امت کا مختلف جماعتوں اور مسلکوں کی بنیاد پر بٹ جانا ۔ اسباب کیا ہیں، سب سے بڑا سبب ہمارے مدارس کا وہ نصاب ہے جس میں ہمیں یہ پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور باقی گمراہ ہیں، اور ان میں بیشتر مسلماں ہیں ہی نہیں۔ مدارس سے نکلے ہوے یہ افراد ائمہ اور مقررین کی شکل میں جب ہمارے سماج میں داخل ہوتے ہیں تو ہر وقت یہ اپنے اپنے مسلک کی ترویج اور دوسرے مسلک والوں کی تکفیر اور تذلیل میں مصروف ہوتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شیعہ ، سنی، بہائی، دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی جن کی تعداد زیادہ ہے آپس میں ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ، ان کے یہاں شادی بیاہ تو دور، بلکہ ان کے بعض مقریرین اور علماء ایک دوسرے کا کافر اور نجس قرار دینے سے دریغ نہیں کرتے۔ ان کے مدارس میں ہم جانا پسند نہیں کرتے، انکی محفلوں میں بیٹھنا گناہ سمجھتے ہیں اور انکے افراد سے ہاتھ تو ملا لیتے ہیں مگر دل میں جو نفرت اور گھرنا بٹھائی گئی ہے اس کی وجہ سے ہمارے دل نہیں ملتے۔ ہمارے سماج کو بانٹے اور افتراق وانتشار پیدا کرنے کاایک پورا سسٹم قائم ہے جو پوری طاقت سے ہردم ہر لمحہ اپنا کام کررہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر ان کے قایدین کسی اتحادملت کانفرنس میں اتحاد کی باتیں کرتے ہیں تو عوام کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دل بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
علاج کیا ہے؟ اگر واقعی علماء کرام اور قایدین عظام مخلص ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ امت متحد ہوں، تو انکو عملی اقدامات کرنے ہونگے۔ مگر افسوس ہے کہ ہم وہ مردہ قوم ہیں جو عملی اقدامات میں یقین نہیں رکھتے ۔صرف دو کام کریں آپ کو صرف پانچ دس سالوں میں مثبت نتائج نظر آنے شروع ہوجایں گے۔ اہل مدارس اپنے نصاب سے دوسروں مسلکوں کے خلاف زہر افشانی کے مواد کو نکال دیں۔ ہر مسلک کے علماء کرام یہ اعلان کریں اور بار بار کریں کہ ہم آپ کو مسلمان مانتے ہیں اور آپ سب ہماری امت کا حصہ ہیں، اگر آپ اتحاد ملت کانفرنس میں اتحاد کی باتیں کرتے ہیں اور اپنے اسٹیج پر انکے خلاف زہر اور نفرت اگلتے ہیں تو کیا ممکن ہے کہ ان کے دلوں میں آپ کے لیے ہمدردی اور اخوت پیدا ہو۔ دوسرا کام یہ کریں کہ ہر مسلک کے علماء دوسرے مسلک کے علماء کے ساتھ اپنی اخوت کا مظاہرہ کریں، تقریریں نہ کریں۔ دیوبندی علماء بریلوی طبقہ کے مدارس میں جائیں، انکی محفلوں میں جاکر اپنی اخوت کا اظہار کریں۔ ان کی مسجدوں میں جاکر اپنی بھائی چارگی کا مظاہرہ کریں۔ اسی طرح اہل حدیث، شیعہ ، سنی ، سبھی طبقہ کے علماء اور قایدین ایک دوسرے کے مدارس، اداروں ، اور مجالس میں شریک ہوں اور اپنی منافقت چھوڑ کر سچے د ل سے اخوت اور تعالوا الی کلمت سواء بیننا و بینکم کے عنوان پر اپنی محبت اور دیکجہتی کا اظہار کریں۔ دیکھیے کہ صرف چند سالوں میں حالات بدلنے شروع ہوجایں گے۔
کیا یہ منافقت نہیں کہ ہم اتحاد کی باتیں کریں اور اپنے مدارس میں انکے خلاف نفرت کی تعلیم دیں۔ کیا یہ امت کے ساتھ دغا نہیں کہ ہم اتحاد ملت پر کانفرنسیں کریں اور اپنے اسٹیج سے انکو کافر کہیں ، کیا یہ دھوکہ نہیں کہ ہم انکو اپنے دل میں برا سمجھیں ، انکوکافر سے زیادہ نجس مانیں اوراپنی زبان سے وحدت امت کے نعرے بلند کریں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس قسم کی کانفرنس امت کے وسائل اور رسورسز کا غلط استعمال ہے، امت نے قایدین کو جو بھی فنڈ دیا ہے، اس کا بے جا استعمال خیانت کے زمرہ میں آتا ہے، مصیبت یہ ہے کہ ہماری تنظیموں اور اداروں کے مالکان اپنے ذاتی تعلقات اور رسوخ کی بنا پر جو چندے حاصل کرکے اپنے ادارے کے لیے لاتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی محنت سے لاتے ہیںاور بہت سارے مفید کام بھی کرتے ہیں، مگر امت ان سے یہ پوچھ نہیں سکتی کہ آپ نے ہمارے فنڈ کا غلط یا بے جا استعمال کیوں کیا۔ کیونکہ جو لوگ انکو چندے دیتے ہیں وہ انکے اپنے چاہنے والے اور مریدین ہوتے ہیں لہذا وہ اپنا حق سوال استعمال کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔
اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ دنیا کی ہر قوم بٹی ہوئی ہے، ہر قوم کے اندر افتراق وانتشار پایا جاتا ہے، مگر بہت ساری قومیں ہم سے زیادہ متحد ہیں اور بھارت کے ہندو اس دور میں بھارت کی تاریخ میں سب سے زیادہ متحد ہیںاور جب کسی امت کے اندر اتحاد پیدا ہوجاتا ہے تو اس کے اندر طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ بھارت کے ہندو اس وقت یہاں تک متحد ہیں کہ اگر ریپ کرنے والا ہندو ہے تو اس کے پیچھے انکی پوری قوم کھڑی نظر آتی ہے، اگر موب لنچنگ کرنے والا ہندو ہے تو اس کو منسٹر سے لیکر ایک عام ہندو ہار پہناتا ہے، آخر وہ اس قدر متحد کیوں ہیں، اس کا بہت سیدھا جواب ہے کہ انکے قایدین نے انکے سامنے ایک ویزن اور مشن پیش کردیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ملک کے بہت سے ہندو افراد اور سیکولر لوگوں کو اس ویزن اور مشن پر اختلاف ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ مگر نقطہ اتحاد ایک ویزن اور مشن ہے، ہماری قوم کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے قایدین اور رہنما کے پاس کوئی ویزن نہ پہلے تھا اور نہ اس وقت ہے، انکو پتہ ہی نہیں کہ انکو اپنی قوم کو کہاں لے جانا ہے، جب تک آپ ایک مشترکہ ویزن اور مشن اپنی قوم کو پیش نہیں کریں گے جس میں سب کو اپنا ویزن اور مشن نظر آتا ہو اس وقت تک کوئی قوم متحد نہیں ہوسکتی ۔
اس دور میں جب ہمارے سامنے اس صدی کے سب سے زیادہ خطرناک مسائل درپیش ہیں، اور بھارت کے مسلمانوں کو اپنے وجود وبقاء کی جنگ لڑنی پڑرہی ہے، اور ملک ایک ایسے دور سے گذررہا ہے جہاں ملک کی سلامتی اور ملک کا اتحاد سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، ایسے دور میں ہمارے قائدین کو اپنے پرانے روش کو چھوڑ کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ انھیں معاف نہیں کرے گی۔

You may also like

Leave a Comment