مولانا ابوالکلام آزاد کے دینی افکار زیرِ بحث ہیں، اور اس سلسلے میں سب سے اہم بحث وحدتِ دین کی ہے۔
فکرِ ولی اللہی کے متخصص، شاہ عبدالقادر دہلویؒ کی تفسیر موضحِ قرآن کے ترجمان اور قابلِ قدر مفسر و محقق حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی دہلویؒ نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کی مایۂ ناز تفسیر ترجمان القرآن پر ”ترجمان القرآن کا تحقیقی مطالعہ“ کے عنوان سے ایک باقاعدہ کتاب تالیف فرمائی ہے۔ اس کتاب پر امیرِ شریعت مولانا منت اللہ صاحب رحمانیؒ کا تقدمہ ہے، جس میں حضرت امیرِ شریعت نے ترجمان القرآن کی خصوصیات کا تذکرہ کِیا ہے اور کتاب کی بالخصوص اس لیے تحسین کی ہے کہ اس میں ترجمان القرآن پر کِیے جانے والے اعتراضات کا کافی و شافی جواب ہے۔
مولانا دہلوی لکھتے ہیں کہ مولانا آزاد فکرِ ولی اللہی کے ترجمان تھے، شاہ صاحبؒ نے حجۃ اللہ البالغہ میں عنوان قائم کِیا ہے: باب بيان أن أصل الدين واحد و الشرائع و المناهج مختلفة، اسی طرح شاہ عبدالقادر دہلویؒ نے ترجمۂ قرآن کریم میں جابجا اس مفہوم کو بیان کِیا ہے، مناہج کے اختلاف کو شاہ صاحبؒ نے صوَر هذه الأمور سے تعبیر کِیا ہے، شاہ عبدالقادر دہلویؒ نے انہیں احکام سے اور مولانا آزاد نے انہیں رسوم و ظواہر سے تعبیر کِیا ہے۔ مولانا آزاد کی بیان کردہ وحدتِ دین اسی مفہوم کی مکمل اور منظم ترجمانی ہے، وحدتِ دین اور وحدتِ ادیان دو متضاد تصورات ہیں، مولانا آزاد وحدتِ دین کے ترجمان ہیں اور اس کی ترجمانی کرتے ہوئے انہوں نے وحدتِ ادیان کے تصور کی مؤثر تردید کی ہے، اس سلسلے میں مولانا دہلوی نے ترجمان القرآن ہی کی دو عبارتیں پیش کر کے بات مدلل کر دی ہے، راقم کی کوشش ہو گی کہ ترجمان القرآن کی اس پوری بحث کا خلاصہ پیش کر کے وحدتِ دین کے تصور اور اس کے ضمن میں وحدتِ ادیان کی تردید کو قارئین کی خدمت میں واضح کر دیا جائے۔
ترجمان القرآن کا محوری تصور وحدتِ دین ہے، اور اس تصورکو مولانا آزاد نے سب سے زیادہ تفصیل اور یکجائی کے ساتھ سورہ فاتحہ میں إهدنا الصراط المستقيم کی تفسیر میں بیان فرمایا ہے۔ دین صرف ایک ہے، اور وہ یہ ہے کہ صرف اللہ رب العزت کی عبادت کی جائے، عملِ صالح کِیا جائے، عمل کی جزا کا یقین رکھا جائے اور جتنے انبیا و رُسُل اس دینِ واحد کی مختلف شریعتیں لے کر آئے اُن میں سے کسی ایک کا بھی انکار نہ کِیا جائے بلکہ سب پر ایمان رکھا جائے، قرآن اسی دینِ واحد کو اسلام کا نام دیتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب اپنی اصل میں اسی سچے دین کی تعلیمات پر مبنی تھے، مگر وہ سب کے سب مسخ ہو گئے اور ان کے ماننے والے ایک دین کی پیروی کرنے کے بجائے الگ الگ مذہبی گروہ بن گئے، قرآن ان سب کو یہ دعوت دیتا ہے کہ تم بزعمِ خود جس مذہب کے مدعی ہو، اسی کے حقیقی اصولوں کو صحیح طور پر تسلیم کر لو، یعنی عبادت اللہ کے سِوا کسی کی نہ کرو، عملِ صالح کرو اور جتنے انبیا و رُسُل اس سچے دین کو لے کر آئے ان سب میں سے ہر ایک پر ایمان لاؤ، کسی ایک کا بھی انکار مت کرو، اسی دینِ واحد کا نام اسلام ہے۔ مولانا آزاد اس تصور کو قرآن سے مدلل کرتے ہیں اور اسلام کے تصورِ توحید و رسالت اور مسخ شدہ مذاہب کے مزعومہ تصورِ توحید و رسالت کے مابین تقابل کرتے ہیں اور مسخ شدہ تصورات کی تردید کرتے ہیں۔ آگے انہی تقابلات کو ذکر کِیا جائے گا تاکہ خود مولانا آزاد کا تصورِ توحید و رسالت بھی واضح ہوتا جائے اور انہوں نے اس تصور پر اپنی داعیانہ تحدّی کی بنیاد قائم کر کے مسخ شدہ تصورات کی جو تردید کی ہے، اس سے بھی استفادہ ہو۔
إياك نعبد کی تفسیر میں توحید کے مسئلے پر دینِ واحد اسلام کا تقابل مسخ شدہ مذاہب سے کرتے ہوئے مولانا آزاد لکھتے ہیں کہ دنیا کے وہ مسخ شدہ مذاہب جو توحید کے مدعی بھی ہیں، ان کے یہاں توحید کے سلبی پہلو پر توجہ نہیں ہے، نتیجتاً ان میں غیراللہ کی پرستش کی کوئی نہ کوئی صورت مثلاً اوتار، ابن اللہ وغیرہ موجود ہے، ہندوستان میں تو شروع سے ہی یہ تسلیم کر لیا گیا تھا کہ عوام کی تشفی کے لیے دیوتاؤں اور انسانی عظمتوں کی پرستاری ناگزیر ہے۔ اس کے مقابل قرآن نے توحید کا ایجابی پہلو بھی دیا کہ اللہ کی ذات یگانہ ہے اور سلبی پہلو بھی دیا کہ اس جیسا کوئی نہیں یعنی اس کی صفات میں شریک کوئی نہیں۔ آیاتِ قرآنیہ اور اسلام کے کلمۂ شہادت کو دلیل بناتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں کہ اسلام نے ذاتِ رسالت مآبؐ کے مقام کی تعیین پر خاص زور اسی لیے دیا تاکہ حضورﷺ کی معبودیت کا شائبہ تک باقی نہ رہے۔ مولانا کے الفاظ ہیں: ”اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کِیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح پیغمبرِ اسلامﷺ کی بندگی اور درجۂ رسالت کا بھی اعتراف ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں کِیا گیا؟ صرف اس لیے کہ پیغمبرِ اسلام کی بندگی اور درجۂ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل و اساس بن جائے اور اس کا کوئی موقع ہی باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔“
اسلام کے تصورِ توحید اور مسخ شدہ مذاہب کے مزعومہ تصورِ توحید میں دوسرا فرق مولانا یہ بتلاتے ہیں کہ مسخ شدہ مذاہب عوام کے لیے مجازی اور خواص کے لیے حقیقی تصورِ خدا پیش کرتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں: ”ہندوستان میں خدا شناسی کے تین درجے قرار دیے گئے: عوام کے لیے دیوتاؤں کی پرستش، خواص کے لیے براہِ راست خدا کی پرستش اور اخص الخواص کے لیے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیرمجسم خدا کا تصور صرف اہلِ علم و حکمت ہی کر سکتے ہیں، عوام کے لیے اِسی میں امن ہے کہ وہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔“ اس کے مقابل اسلام نے یہ فرق باقی نہیں رکھا، اسلام کا تصورِ خدا ہر عام و خاص کے لیے یکساں ہے، خدا کی ذات و صفات کے جس تعارف پر ایک صاحبِ حکمت مسلمان ایمان لاتا ہے اسی تعارف پر ایک عام مسلمان بھی ایمان لاتا ہے۔
ہندؤوں کے یہاں تصورِ خدا کی مذکورہ بالا درجہ بندی کی روشنی میں مولانا ہندؤوں کے تصورِ رواداری کو زیرِ بحث لاتے ہیں، کہ ہندؤوں کے مؤحِد خواص کو ادراک ہے کہ خدا پرستی بت پرستی سے بالاتر ہے، پھر بھی وہ عوام کی بت پرستی کو خدا پرستی کی ایک صورت مانتے ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں کہ رواداری کی اِسی غالیانہ صورت نے ”ہندوستانی دماغ کی شکل و صورت بگاڑ دی، اس کی فکری ترقیوں کا تمام حسن اصنامی عقیدوں اور وہم پرستیوں کے گرد و غبار میں چھپ گیا۔“ مولانا کہتے ہیں کہ صحیح رواداری یہ ہے کہ جس کے عقیدے کو آپ غلط سمجھتے ہیں اسے بھی اپنے عقیدے پر قائم رہنے کا حقدار سمجھیں، لیکن اگر آپ اِس حد تک چلے گئے کہ دوسرے کا غلط عقیدہ آپ کے صحیح عقیدے میں مداخلت کر سکتا ہے تو یہ رواداری نہیں بلکہ استقامتِ فکر کی نفی ہے۔ (یہاں وحدتِ ادیان کے خوشنما عنوان سے باطل عقائد کو حق قرار دینے والی قدیم ہندوستانی فلسفیانہ فکر کی مضبوط تردید ہے۔)
إياك نعبد کی تفسیر میں اسلام کی حقیقی توحید اور ہندواِزم و دیگر چند نظریات کی شرک زدہ مزعومہ توحید کا تقابل کرنے کے بعد مولانا آزاد إهدنا الصراط المستقيم کی تفسیر میں اسلام کے تصورِ رسالت اور یہودیت و نصرانیت کے تصورِ رسالت میں تقابل کرتے ہیں، کیونکہ ان دونوں مسخ شدہ مذاہب کے نام لیوا خود کو کسی ایسے رسول اور ایسی کتاب کا متبع بتاتے ہیں جس کی خبر قرآنِ کریم میں ہے۔
مولانا لکھتے ہیں کہ یہود، نصاریٰ اور اہلِ کتاب ہونے کے دیگر مدعیان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سیدنا موسیٰؑ یا سیدنا عیسیؑ اور توریت یا انجیل پر ایمان رکھتے ہیں۔ مگر یہ تمام انبیا اور کتابیں جس دینِ واحد یعنی اسلام کی مختلف شریعتوں کی جانب داعی ہیں، جب وہی دینِ اسلام ان کے سامنے کسی اور نبی یا رسول کی شریعت کی صورت پہنچتا ہے تو وہ اسے جھٹلا دیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے سیدنا موسی و عیسی علیہما السلام کو دینِ واحد اسلام کا داعی نہیں سمجھا، بلکہ ان کے کردار کو ایک مذہبی گروہ کے سربراہ تک محدود کر دیا، اور بجائے دینِ واحد کی تعلیمات پر عمل کرنے کے ایک مذہبی گروہ بن کر رہ گئے۔ مولانا اس رویے کو تحزّب، تشیّع اور مذہبی گروہ بندی سے تعبیر کرتے ہیں، اور ان مسخ شدہ مذاہب کے پیرووں کو بتاتے ہیں کہ تم دینِ واحد کو مسخ کر کے الگ الگ مذہبی گروہ بنا کر انسانیت کو بانٹنے کے مرتکب ہو۔ (یہاں منکرینِ مذہب کے اس بہتان کا مؤثر جواب ہے کہ مذہب انسانوں کو بانٹتا ہے۔ مذہب انسانوں کو نہیں بانٹتا، صحیح دین کو مسخ کر کے مذہبی گروہ بنانے والے انسانوں کو بانٹتے ہیں۔)
اس کے برعکس قرآن تفریق بین الرسل کو کفر قرار دیتا ہے، انبیا و رسل میں سے کسی ایک کے انکار کو بھی پورے سلسلۂ ہدایتِ الٰہیہ کا انکار قرار دیتا ہے، لہذا جو شخص سیدنا محمّد رسول اللہﷺ کی رسالت کا منکر ہے وہ پورے سلسلۂ ہدایت کا منکر ہے۔ مولانا کے الفاظ ہیں:
”قرآن کہتا ہے کہ خدا ایک ہے، اس کی سچائی ایک ہے، لیکن سچائی کا پیغام بہت سی زبانوں نے پہنچایا ہے، پھر اگر تم کسی ایک پیغمبر کی تصدیق کرتے ہو، دوسروں کا انکار کر دیتے ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک ہی حقیقت کو ایک جگہ مان لیتے ہو، دوسری جگہ ٹھکرا دیتے ہو، یا ایک ہی بات کو مانتے بھی ہو، رد بھی کرتے ہو، ظاہر ہے کہ ایسا ماننا ماننا نہیں بلکہ بہت بری قسم کا انکار ہے۔“
اتباعِ رسول کا جھوٹا دعویٰ کر کے مذہبی گروہ بندی کرنے والوں کو مولانا یہی باور کراتے ہیں کہ تم خود اپنے رسول کی تعلیمات کو مسخ کر چکے ہو، اور جونہی تم اس رسول کی حقیقی تعلیم کو اپناؤ گے، تم اپنے آپ کو قرآن کا متبع پاؤ گے، مولانا کے الفاظ ہیں: ”قرآن نے کسی مذہب کے پیرو سے بھی یہ مطالبہ نہیں کِیا کہ وہ کوئی نیا دین قبول کر لے، بلکہ ہر گروہ سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیم پر جسے تم نے طرح طرح کی تحریفوں اور اضافوں سے مسخ کر دیا ہے، سچائی کے ساتھ کاربند ہو جاؤ۔ وہ کہتا ہے اگر تم نے ایسا کر لیا تو میرا کام پورا ہو گیا کیونکہ جونہی تم اپنے مذہب کی حقیقی تعلیم کی طرف لَوٹو گے تو تمہارے سامنے وہی حقیقت آ موجود ہو گی جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں۔ میرا پیام کوئی نیا پیام نہیں ہے، وہی قدیم اور عالمگیر پیام ہے جو تمام بانیانِ مذاہب دے چکے ہیں۔“
اور پھر مولانا آگے چل کر لکھتے ہیں: ”قرآن کہتا ہے، یہی راہِ عمل نوعِ انسانی کے لیے خدا کا ٹھہرایا ہوا فطری دین ہے، اور فطرت کے قوانین میں کبھی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی الدين القيم ہے یعنی سیدھا اور درست دین جس میں کسی طرح کی کجی اور خامی نہیں۔ یہی دینِ حنیف ہے جس کی دعوت ابراہیم علیہ السّلام نے دی تھی۔ اسی کا نام میری اصطلاح میں ”الإسلام“ ہے یعنی خدا کے ٹھہرائے ہوئے قوانین کی فرمانبرداری۔“
یہ ہے مولانا آزاد کا تصورِ وحدتِ دین جو اسلام کی ابدی اور آفاقی پوزیشن کو پوری قوت سے قائم کرتا ہے، اور اسلام کے مقابل قائم مذہبی گروہوں کے مسخ شدہ مذہبی تصورات کا اِبطال کر کے اُنہیں دعوت دیتا ہے کہ وہ حقیقی مذہبی تصورات کی طرف واپس آئیں، جن حقیقی مذہبی تصورات کا نام اسلام ہے۔
حق تو یہ ہے کہ پوری سورہ فاتحہ کی تفسیر دیکھی جائے، یا کم از کم اِس موضوع کا حق یہ ہے کہ إياك نعبد کی تفسیر کے تحت قائم عنوان ”قرآن اور صفاتِ الٰہی کا تصور“ کے ذیلی عنوان ”اِشراکی تصورات کا کُلّی انسداد“ سے شروع کر کے إهدنا الصراط المستقيم کی تفسیر مکمل دیکھ لی جائے۔ اسلامی اکادمی لاہور کی اشاعت میں یہ حصہ صفحہ 203 سے شروع ہوتا ہے اور تقریباًً 50 صفحات پر محیط ہے۔
مولانا آزادؒ کے دینی افکار کے سلسلے میں دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ انہیں بعض لوگوں نے نزولِ مسیح کے اسلامی عقیدے کا منکر سمجھا ہے۔ جب کہ بالکل واضح حقیقت یہ ہے کہ مولانا نزولِ مسیح کے قائل ہیں، اس کے سلسلے میں آنے والی احادیث کے قائل ہیں، احادیث کی حجیت کے قائل ہیں بلکہ حجیتِ حدیث کے پرزور ترجمان ہیں اور یہ ساری باتیں مستند طور پر خود مولانا کے قلم سے معرضِ کتابت میں آ چکی ہیں۔
مولانا سے ایک مکتوب میں لاہوری احمدی (وہ کافر گروہ جو مرزا قادیانی کو مجدد مانتا ہے) گروہ کے ایک فرد نے نزولِ مسیح کے تعلق سے سوال کِیا۔ مولانا نے جواب میں قادیانی اور لاہوری دونوں گروہوں کو باطل بتاتے ہوئے ان دونوں گروہوں کے عقیدۂ ظہورِ مسیح کو پوری قوت سے رد کر دیا۔ اس مکتوب کے مناظرانہ اسلوب سے بتدریج یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ مولانا اسلامی عقیدۂ نزولِ مسیح کی معاذاللہ تردید کر رہے ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں خاصی خط و کتابت ہوئی، یہاں تک کہ شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ نے اپنے اخبار اہلِ حدیث میں مولانا کے نام ایک کھلا خط لکھ کر وضاحت طلب کی، یہ تمام خط و کتابت 1952 میں ایک رسالے کی صورت میں شائع ہوئی جس کا عنوان تھا: ”نئے ظہور پر ایمان“ اور یہ رسالہ عالمی مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کی جانب سے ”احتسابِ قادیانیت“ کی 39 ویں جلد میں موجود ہے۔
ان مکتوبات میں مولانا آزادؒ لکھتے ہیں:
”دینِ اسلام اپنی تکمیل میں اب کسی نئے ظہور کا محتاج نہیں۔ اس کے لیے نہ تو کسی بروزی مسیح کی ضرورت ہے نہ تو حقیقی کی۔ ہاں بلاشبہ احادیث میں حضرت مسیح علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک ایسے نزول کی خبر دی گئی ہے جو قیامت کے آثار و مقدمات میں سے ہو گا۔ کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ ان ظہور بحیثیت رسول کے ہو گا یا تکمیلِ دین کا معاملہ ان کے نزول پر موقوف ہے۔ پس تکمیلِ دین کے لیے ہم کسی نئے ظہور پر اعتقاد نہیں رکھتے۔“
یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا اس گروہ کی تردید کر رہے ہیں جو سیدنا عیسیؑ بن مریم کے بجائے ایک نئے مسیح کے ظہور پر یقین رکھتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ اس نئے مسیح کا ظہور مکملِ دین (مکمل کے م کے نیچے زیر) کی حیثیت سے ہو گا، یعنی معاذاللہ اس بات کا انکار کرتا ہے کہ حضورﷺ پر وہ دین مکمل ہو چکا جس دین کی مختلف شرائع انبیائے کرام لے کر آئے تھے۔ اور اس کے مقابلے میں مولانا اس عقیدے کا اعتراف کر رہے ہیں کہ سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام قیامت کے قریب حضورﷺ کے امتی اور حضورﷺ کی شریعت کے متبع کی حیثیت سے تشریف لائیں گے۔
مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:
”بلاشبہ روایات میں نزولِ مسیح علیہ السلام کی خبر دی گئی ہے اور صحیحین کی روایات اِس باب میں معلوم و مشہور ہیں۔ اس سے کسے انکار ہے؟ لیکن اس معاملے کا تعلق قیامت کے آثار و مقدمات سے ہے نہ کہ تکمیلِ دین کے معاملے سے۔ نیز انہی روایات میں تصریحات موجود ہیں کہ حضرت مسیحؑ کا نزول بحیثیت رسول کے نہیں ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں اس تیرہ سو برس میں مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ یہ رہا ہے کہ دین ناقص نہیں اور اپنی تکمیل کے لیے کسی نئے ظہور کا محتاج نہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں ایسا نہیں ہے؟ آپ پوچھتے ہیں احادیث کے بارے میں میرا کیا عقیدہ ہے؟ میں آپ کو اِس کا کیا جواب دوں؟ کیا آپ کو میرے عقیدے کی خبر نہیں؟ کیا آپ کی نظر سے میری بے شمار تحریرات نہیں گزر چکی ہیں؟ یہ سوال آپ اس شخص سے کر رہے ہیں جو اپنی تحریرات میں نہ صرف حدیث کو حجت اور واجب العمل ثابت کر چکا ہے بلکہ جس کو اس فہم کی توفیق ملی ہے کہ و يعلمهم الكتاب و الحكمة میں حکمت سے مقصود سنت ہے، اور جس نے جا بجا مقدامؓ کی روایت سے استدلال کِیا ہے کہ ألا إني أوتيت الكتاب و مثله معه نیز روایت مشہور يوشك رجل شبعان على أريكته يقول: عليكم بهذا القرآن، فما وجدتم فيه من حلال فأحلوه، وما وجدتم فيه من حرام فحرموه (سے استدلال کِیا ہے)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جس کی تمام قلمی جدوجہد یکسر دعوتِ اتباعِ کتاب و سنت پر مبنی رہی ہے اور جس کے عقیدے میں کتاب کا ہر وہ اتباع اتباع نہیں جو سنت کے اتباع سے خالی ہو۔ ایں دو شمع اند کہ از یک دگرا فروختہ اند۔ (کتاب و سنت دو ایسی شمعیں ہیں جو ایک دوسرے کے ذریعے روشن ہیں۔) یہ ظاہر ہے کہ میں ایک شخص کے استفسار کا جواب لکھ رہا تھا، کوئی کتاب تصنیف نہیں کر رہا تھا۔ اس طرح کے سوالات روز لوگ کرتے ہیں اور کم سے کم جملوں میں جو جواب دے سکتا ہوں، دے دیا کرتا ہوں۔ اسی استفسار کا جواب سینکڑوں آدمیوں کو دیا ہو گا۔ ہر بات کا ایک محل ہوتا ہے اور چاہیے کہ اس محل میں رہ کر اس پر غور کِیا جائے۔ پھر خصوصاً اگر تحریر کسی ایسے شخص کی ہو جس کے عقائد و مسلک سے ہم ناواقف نہیں تو اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ مطلب ٹھہرائیں جو اس کے عقیدہ و مسلک کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔“
اس پوری بات سے یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا نے ظہورِ مسیح کے اس عقیدے کی تردید کی جو قادیانیوں اور لاہوریوں نے اپنا رکھا ہے، نزولِ مسیح کے اسلامی عقیدے کا اقرار کِیا اور حجیتِ حدیث کے مولانا صرف قائل نہیں بلکہ ترجمان ہیں۔
حضرت محدث العصر علامہ محمد یوسف صاحب بنوری رحمۃ اللہ علیہ (جو جمعیت علمائے ہند کے رہنما تھے، پہلے جمعیت علماء پشاور اور بعد میں جمعیت علماء گجرات و مہاراشٹر کے صدر تھے، تقسیمِ ہند کے مخصوص حالات میں ہندوستان میں رکنے والے علماء میں سے تھے اور 1951 میں بعض مشاہیر کے اصرار پر پاکستان تشریف لے گئے تھے) نے علومِ تفسیر سے متعلق اپنی ایک تالیف میں مولانا آزادؒ کی جانب نظریۂ وحدتِ ادیان اور انکارِ نزولِ مسیح کو منسوب کِیا ہے، جو بلاشبہ حضرت کے غایت درجہ خلوص اور تصلب کی دلیل ہے، البتہ تحقیقی لحاظ سے نظرِ ثانی کا طالب ہے، اور یہ نظرِ ثانی صرف جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کا حق ہے، امید ہے اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہو گی۔ اسی تالیف میں حضرتؒ نے مولانا آزادؒ کے امام الہند بننے کا تذکرہ بھی کِیا ہے، مولانا آزادؒ کو نظامِ امارتِ شرعیہ ہند کے تحت امام الہند بنانے کے حق میں سب سے مؤثر رائے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تھی، مگر یہ نظام ہی باقاعدہ ملکی سطح پر قائم نہ ہو سکا، اس سلسلے میں اچھی خاصی تحقیق مفتی اختر امام عادل قاسمی کی تالیف ”تذکرۂ ابوالمحاسن“ میں امارتِ شرعیہ کے تعارف کے ضمن میں آ چکی ہے۔ اسی طرح جمہور سے اختلاف کے شرعی حکم پر علامہ ظفر احمد عثمانیؒ نے امداد الاحکام میں ایک باضابطہ رسالہ شامل کِیا ہے جس میں صراحت ہے کہ مسائلِ شرعیہ فرعیہ میں عالمِ واحد یا جماعتِ قلیلہ کی رائے جمہور کے خلاف بھی ہو تب بھی اس میں اسی طرح صواب کا احتمال ہے جس طرح جمہور کی رائے میں صواب کا احتمال ہے، ہاں البتہ مسائلِ شرعیہ اعتقادیہ میں جمہور سے اختلاف کا مسئلہ نازک ہے۔