Home مباحثہ قوم و ملّت کی افسوس ناک بحث !-شکیل رشید

قوم و ملّت کی افسوس ناک بحث !-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
ان دنوں سوشل میڈیا پر بالخصوص واٹس ایپ اور فیس بک پر ایک افسوس ناک بحث چھڑی ہوئی ہے ، جس کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، لیکن بحث میں شامل ہر فریق یہ ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہے کہ اگر اس کی یا اُن کی بات نہ مانی گئی تو ایمان اور یقین کی بنیادیں ڈھے جائیں گی ، اور نہ ماننے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائیں گے! دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بحث مسلکی نہیں ’ ازم ‘ یعنی ’ نظریے ‘ کو مدنظر رکھ کر کی جا رہی ہے ۔ بحث یہ کہ علامہ سیّد ابوالاعلی مودودیؒ کیا فتنہ تھے ؟ ایک فریق شدومد کے ساتھ فتنہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، اور دوسرا فریق شدومد سے انہیں دین کے لیے ، یا دین کو سمجھنے کے لیے ، ایک خیر قرار دے رہا ہے ۔ اس بحث کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ بحث چاہے ابدالاباد تک چلے کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے ۔ ٹھیک ہے نہ ہٹے لیکن یہ بحث اُن بے شمار بزرگ شخصیات کو اپنی غلاظت سے ناپاک قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے ، جو دین ، ملّت اور شریعت کے تئیں مخلص تھیں ۔ بلا کسی شک و شبہ کے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ آج کے اُن مولویوں کے گروہ کے مقابلے جو دو دو ٹِکے پر بک جاتے ہیں ، وہ جو گذر گئے ہیں ، کہیں زیادہ فہم دین بھی رکھتے تھے ، اور یہ فکر بھی کہ قوم اور ملّت گمراہ نہ ہو ، صراطِ مستقیم سے نہ بھٹکے ۔ اس بحث کا ایک افسوس ناک پہلو قوم و ملت کی نفسیات پر پڑنے والے اثرات ہیں ۔ مسلمان ویسے ہی مسالک کے جال میں الجھا ہوا ہے ، اور یہ الجھاؤ اُسے منتشر کر رہا ہے ۔ اور اِنتشار اُسے کمزور کر رہا ہے ۔ اور کمزوری اُسے اپنے مخالفین کے لیے ، جن کی بہت بڑی تعداد ہے ، ترنوالہ بنا رہی ہے ۔ ترنوالہ صرف ہندوستانی مسلمان ہی نہیں ہیں ، وہ بھی ہیں جو مسلم ممالک میں رہتے ہیں ۔ کیا لوگ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ سعودی عرب آج اسرائیل سے ، جو فلسطینی مسلمانوں کی زمینوں کا غاصب بھی ہے ، اور ان پر ظلم و جبر کرنے والا ظالم اور جابر بھی ہے ، اور جس کے منصوبے میں سارے عرب خطے کو بشمول حسمین شریفین ’ گریٹر اسرائیل ‘ میں شامل کرنا ہے ، پینگیں بڑھا رہا ہے ! یہ سرنگوں ہونا ہے اور تقریباً سارا خطۂ عرب اور سارے افریقی مسلم اکثریتی ممالک ، چاہے وہ مصر ہو کہ سوڈان ، سب کے سب ترنوالہ بن گئے ہیں ۔ کیا مصر میں حجاب پر پابندی یوروپی ممالک کے سامنے گٹھنے ٹیکنا نہیں ہے؟ ہندوستانی مسلمان تو نوالہ بن ہی چکا ہے ۔ کیا ستارا کی مسجد پر فرقہ پرستوں کا حملہ ، نوح کا تشدد اور ماب لنچنگ کے بے شمار واقعات یہ ثابت کرنے کےلیے کافی نہیں ہیں کہ مسلمان حاشیے پر پہنچ گئے یا پہنچا دیے گئے ہیں؟ اس پر مستزاد یہ کہ ان کی شریعت زد پر ہے ، ان کی شہریت پر نشانہ ہے ، اور ان کے تعلیمی مراکز بند کرنے کے بہانے ڈھونڈنے جا رہے ہیں ، اور رہ رہ کر نعرہ لگتا ہے کہ انہیں رائے دہی کے حق سے محروم کر دیا جائے ۔ ان حالات میں یہ بحث ، جو نہ دینی ہے نہ مذہبی ، منتشر مسلمانوں کو کتنے خانوں میں تقسیم کرے گی اس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ، لہذا یہ بحث بند ہو جانی چاہیے اور مولوی حضرات و علمائے کرام کو ، ہوش کے ناخن لینا چاہیے ۔ اس بحث میں ’ قوم ‘ اور ’ ملّت ‘ کی بحث بھی در آئی ہے ! محترم حضرات پہلے ’ قوم ‘ اور ’ ملّت ‘ تو بن کر دکھائیں ۔ پاکستان ایک ’ ملّت ‘ کے نام پر وجود میں آیا اور بے شمار فرقوں میں بٹ گیا ۔ ہر ایک کے لیے ایک دوسرے پر حملہ کارِ ثواب ٹھہرا ہے ، اور حملوں میں ضعیفوں ، ادھیڑ عمر کے مردوں اور عورتوں کا ، نوجوانوں اور بچوں کا کوئی لحاظ نہیں ، مساجد ، مدارس اور درگاہوں و امام باڑوں کا کوئی احترام نہیں ، دنیاداری کے لیے کی جانے والی جنگوں کی طرح سب جائز ہے ، ریپ بھی ۔ اوررہی ’ قوم ‘ کی بات تو ہندوستان میں مسلمانوں کو کون ہے جو ’ قوم ‘ کا حصہ سمجھتا ہے ! مسلمان نہ ’ ملّت ‘ بن سکے نہ ’ قوم ‘ کے طور پر قبول کیے جا سکے ، اور اب مزید منتشر ہونے کی کگار پر لے جا کر کھڑے کر دیے گئے ہیں ۔ بچیں مسلمانوں کو بانٹنے سے ، اور وہ کام کریں جسے بہت پہلے سے کرنا چاہیے تھا ؛ جوڑیں ، ملائیں اور تفریق کو مٹائیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like