میوات میں جن مظلوموں کے مکانوں کو بلڈوزر سے گرا دیا گیا تھا ، انہیں زمین کے کاغذات اور بنائے گئے مکانوں کی چابیاں سونپتے ہوئے جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سیّد ارشد مدنی نے ایک بہت ہی اچھی نصیحت کی کہ ’’ مذہبی تفریق اورتعصب کی بنیادپر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا ۔‘‘ یہ نصیحت میرے خیال میں صرف متعصب سرکاروں اور فرقہ پرست بابوؤں کے لیے ہی نہیں ہے ، اور نہ ہی عوام کی اس بھیڑ کے لیے ہی ہے جو فرقہ پرستی کے نشے میں چُور ہے ، یہ نصیحت اُن کے لیے بھی ہے جو مسلکی تعصب میں اندھے ہوکر قوم یا قوموں کو بانٹتے ہیں ، اور ان جماعتوں ، تنظیموں اور اداروں کے لیے بھی ہے جن کے ذمے داران صرف ’ عہدوں ‘ کی لالچ میں بنے بنائے اداروں کو ، قدیم ترین جماعتوں اور تنظیموں کو ، انتہائی بے حِسی کے ساتھ ، یہ سوچے بغیر کہ ان کے قیام میں اجداد نے کس قدر محنت کی ہے ، کتنا پسینہ بہایا اور کتنی محنت سے ان کے قیام کے لیے لوگوں کو جوڑا ہے ، بانٹ دیتے ، توڑ دیتے یا تقسیم کر دیتے ہیں ۔ سو سال سے بھی زائد قدیم تنظیم ’ امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ و جھارکھنڈ ‘ اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ میں پھلواری شریف گیا ہوں ، اور اس ادارے کے کام بھی دیکھے ہیں ، متاثر کرنے والے کام ! یقیناً اس ادارے پر ایسے بہتوں کی نظریں لگی رہی ہوں گی جن کے سینے خلوص سے خالی ہیں ، وہ چاہتے ہوں گے کہ اس ادارے کی باگ ڈور ان کے ہاتھ آجائے ، اس چاہنے کے پسِ پشت عہدے کی ، شہرت کی اور اس ادارے کے بَل پر سماج میں ایک اسٹیٹس بنانے کی لالچ کے سِوا ان کا کوئی اور مقصد نہیں رہا ہوگا ، لیکن جب تک حضرت مولانا ولی رحمانی حیات تھے اِس طرح کے لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے حالانکہ ان کے دور میں بھی عہدے یا عہدوں پر قبضے کے لیے امارت میں خوب ہنگامے رہے ہیں ، لیکن امارت کو تقسیم کرنے ، اسے بانٹنے یا دو دھڑے بنانے کی میری معلومات کے مطابق کبھی نہ کوئی کوشش ہوئی اور نہ ہی کسی نے کبھی ایسی جرأت کی ۔ لیکن اب امارت تقسیم ہونے کی راہ پر ہے ، بلکہ تقریباً تقسیم ہو چکی ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ امیر شریعت بہار و اڈیشہ ( اب جھارکھنڈ ان کے ہاتھ نہیں رہا ) احمد ولی فیصل رحمانی کا کیا موقف ہے ، یا ان کا کیا قصور ہے ، اور نہ ہی مجھے یہ پتہ ہے کہ جھارکھنڈ کی امارت کے نو منتخب امیر شریعت مفتی نذر توحید مظاہری نے کیوں یہ قدم اٹھایا ، میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ اِن سب کی قیادت میں چلنے والا ایک قدیم ادارہ اسی طرح سے دو ٹکڑوں میں بَٹ گیا جیسے کبھی جمعیۃ علماء ہند بَٹی تھی ، یا کبھی دارالعلوم دیوبند تقسیم ہوا تھا ، یا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بخیے ہوئے تھے ، یا تبلیغی جماعت بٹی تھی یا مزید ادارے ، جماعتیں اور تنظیمیں بَٹی ہیں ، جن میں تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں ۔ یہ تقسیم اور اختلاف کوئی اس طرح کا ’ اختلافِ رائے ‘ نہیں ہے جس میں کچھ خیر کا پہلو ہوتا ہے ، یہ اختلاف خطرناک ہے ، مسلمانوں کو دھڑوں میں بانٹنے والا ہے ، اور اس کے مجرم امارت کے اس قضیے میں شامل تمام ہی لوگ ہیں ۔