افلاطون اور ارسطو دو یونانی فلاسفہ ہیں – فلسفہ کے میدان میں ان دونوں کی غیر معمولی شہرت ہے – مسلم فلاسفہ نے بھی ان سے کسبِ فیض کیا ہے اور ان کے نظریات کی تشریح و ترویج میں اپنی بہترین صلاحیتیں وقف کی ہیں – ارسطو افلاطون کا مشہور شاگرد ہے ، جس نے اس کے نظریات کی شرح و تعبیر کی خدمت انجام دی ہے اور انہیں عام کیا ہے – لیکن وہ نظریاتِ افلاطون کا اندھا معتقد نہیں تھا – شاگردِ رشید ہونے کے باوجود اس نے اپنے استاد کے بہت سے نظریات پر تنقید کی ہے – اس کا ایک جملہ بہت مشہور ہے : ” مجھے حق سے محبت ہے اور اپنے استاد افلاطون سے بھی ، لیکن جب ان دونوں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو حق مجھے زیادہ محبوب ہے – “
اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے محبّت و عقیدت رکھنے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے باوجود شاگردوں کی طرف سے ان کی بعض آراء پر تنقید اسلامی روایت ہے ، جسے کبھی بُرا نہیں سمجھا گیا – علم تفسیر میں مفسّر تابعین کی بہت بڑی جماعت ہے ، جنھوں نے تفسیری آراء میں مفسّر صحابہ سے اختلاف کیا ہے – علم حدیث میں احادیث کی روایت ، درایت اور جرح و تعدیل میں بہت سے محدثین نے اپنے شیوخ سے مختلف آراء پیش کی ہیں – علم فقہ میں مسائل کے استنباط میں فقہاء کا ایک دوسرے سے اختلاف معروف ہے – بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ سے ان کے شاگردوں : قاضی ابو یوسف ، امام محمد اور امام زُفَر نے اختلاف کیا ہے –
موجودہ دور میں شاگردوں کے ذریعے اپنے محبوب اساتذہ سے اختلاف کی دو نمایاں مثالیں پیش کرنا چاہوں گا – علامہ سید سلیمان ندوی علامہ شبلی نعمانی کے شاگردِ رشید ہیں – سیرۃ النبی دونوں کا مشترکہ شاہ کار ہے – اس کی ابتدائی دو جلدیں علامہ شبلی کی تصنیف کردہ ہیں – ان کی تدوین کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی نے حواشی میں بہت سے مقامات پر اپنے استاذ سے اختلاف کیا ہے – ان اختلافات کو استاذ گرامی پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی نے ایک مقالے میں جمع کردیا ہے – اسی طرح مولانا امین احسن اصلاحی علامہ حمید الدین فراہی کے شاگردِ رشید ہیں – انھوں نے فراہی تصوّرِ نظم قرآن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپنی مشہور تفسیر ‘تدبّرِ قرآن’ لکھی ہے – انھوں نے تفسیر کے متعدد مقامات پر ، اور خود ‘نظمِ قرآن’ کی بعض جزئیات میں اپنے ‘استاذ امام’ سے اختلاف کیا ہے – ان کے اختلافات کو بعض مقالہ نگاروں نے جمع کردیا ہے –
مولانا مودودی بیسویں صدی کی عظیم شخصیت ہیں – ان کی تحریروں اور ان کی برپا کی ہوئی تحریک سے لاکھوں افراد کی زندگیاں بدل گئی ہیں – میں بھی ان کے خوشہ چینوں میں سے ہوں اور ان کے احسانات کا معترف ہوں – لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان کی بعض تحقیقات اور آراء سے مجھے اختلاف ہو تو اس کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ہے –
ابھی میں نے مولانا مودودی سے بعض باتوں میں اپنے اختلاف کا صرف اظہار کیا ہے – اسی پر ان کے بہت سے معتقدین نے طوفان برپا کر رکھا ہے – اگر میں نے وہ اختلافات مع دلائل تفصیل سے بیان کردیے تو لگتا ہے کہ ان کا اضطراب اور غصہ ساتویں آسمان پر ہوگا – لیکن مجھے اس کی پروا نہیں – میں ارسطو کی آواز میں آواز ملا کر کہوں گا : ” مجھے حق سے محبت ہے اور اپنے محسن و مربّی مولانا مودودی سے بھی ، لیکن جب ان دونوں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو حق مجھے زیادہ محبوب ہے – “