علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر، طارق منصور نے مئی 2022ء میں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر کے اپنے جانشین کا پینل بنانے کے بجائے ایک سال کی توسیع مرکزی حکومت سے حاصل کی۔ لیکن توسیع لینے کے با وجود بھی انہوں نے یہ کام انجام نہیں دیا ۔اپنے اہم فرضِ منصبی سے دور بھاگنے کے اس جرم کے لئے ایسے بے دریغ ناکام وی سی کو سزا دینے کے لیے لازمی طور پر ایک قانون بھی بنایا جانا چاہیے ۔ اعلیٰ عہدے داروں میں ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ بر صغیر کی اس عظیم یونیورسٹی کو بے دست و پاچھوڑ دینا اس ادارے کی تاریخ میں ایک سنگین جرم کے طور پر لکھا جائے گا۔ جہاں اس شخص کی گذشتہ چار نسلوں کو تعلیم کے علاوہ روزگار بھی ملا، وہیںیہ شخص بر سرِاقتدار پارٹی سے ہمہ وقت ذاتی مفادات حاصل کرتا رہااور یونیورسٹی کی سربلندی کے لیے قطعاً کوئی کوشش نہیں کی۔ہاں!پتھروں پر اپنے نام کی خوب کھدائی کروائی۔
ان کے پاس حکومت تک رسائی رکھنے والے اور دلال قسم کے لوگوں کے ساتھ بار بار ملنے کا وقت رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات حاصل کیے اور اب رکن صوبائی کونسل کے طور پر نامزدگی توحاصل کر لی، لیکن ان کے پاس زیادہ سے زیادہ سلیکشن کمیٹیوں کو بلانے کا وقت نہیں تھا تاکہ خالی رہنے والی سینکڑوں اسامیوں کو پر کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر، ڈین کی طرف سے متعدد درخواستوں کے باوجود بھی سائنس فیکلٹی میںچالیس سے زیادہ تدریسی عہدے اور اتنی ہی تعداد میں غیر تدریسی عہدے خالی ہیں۔
تقرریوں، ترقیوں(پروموشن) اور یہاں تک کہ اساتذہ کوانتظامی عہدوں پر تعینات کرنے میں بھی انہوں نے بے حیائی سے محض’ لابی ‘ اور گروہوں کی خوشنودی حاصل کرتے رہنے کا کام کیا اور ادارے کو بحیثیتِ مجموعی سبھی شعبوں میں برباد کیا۔ اس طرح جانبداری اور جی حضوری کا یہ کلچر پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک طریقے سے ادارے میں پیوست ہو چکا ہے، اور نتیجتاًیونیورسٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مثال کے طور پر پراکٹوریل ایڈمنسٹریٹرز کی ایک بڑی تعداد لا فیکلٹی سے وابستہ اساتذہ کرام کی ہی رہی ہے۔ اس ادارے میں اب درس و تدریس انتہائی نقصان کی زد میں آگیا ہے۔ یہی حال شعبہ الیکٹریکل انجنئیر نگ کا ہے ۔
کیا سرجن کے طور پر طارق منصور کو بہت معتبر مانا جاتا تھا ؟کیا جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کے پرنسپل کے طور پر طارق منصور کی انتظامی کارکردگی ایک اچھی مثال تھی؟ یقینی طور پر نہیں۔
پھر بھی موصوف ہی کیوں 2017 ء میں ایگزیکٹو کونسل اور اے ایم یو کورٹ کی پہلی ترجیح بنے؟ کیوں کبھی بھی اے ایم یو کے مختلف اداروں میں اساتذہ کی نمائندگی کے لیے ایک بھی الیکشن موصوف نہیں ہارے؟ کیوں ہمیشہ وہ اساتذہ کے انتخابی حلقوں کی پہلی پسند بنتے رہے؟اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ مسئلہ، اس فرد کے ساتھ اتنا زیادہ نہیں ہے جو ’’اتنا بلند‘‘ ہونے میں کامیاب رہا؛ بلکہ مسئلہ درحقیقت اے ایم یو اساتذہ کے اجتماعی طرز عمل اور اے ایم یو کے نظم و نسق والے اداروں(خاص طور پر ای سی اور اے ایم یو کورٹ) کے ارکان، ڈھانچے او ر اس ڈھانچے کی تشکیل کے اصولوں کا ہے ۔
گذشتہ برسوں میںٹیچرز ایسوسی ایشن نہایت ہی بے شرمی سے وائس چانسلر کے پریس سیکرٹری کے طور پر کام کرتی رہی، اور اپنی دو سال کی مدت پوری کرنے کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک قائم رہنے کا غیر اخلاقی اور غیر قانونی دعویٰ کرتی رہی۔ ایگزیکٹو کونسل کے اجلاسوں کے منٹس(قراردادوں) کو دیکھیں؛کیاکسی قسم کی اہم شکایات کو درج کیا گیا ہے ؟ نہیں۔شاذ و نادر ہی ہمیںاختلاف رائے (dissent) رکھنے والے نوٹس ملتے ہیں۔ اندرونی لوگ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ ایگزیکٹیو کونسل میں اساتذہ کے نمائندوں میں سے کس نے اپنے کنبے ، رشتہ داروں اور اپنے گینگ کے لیے کیا کیا حاصل کیا ہے۔ممکن ہے ایسے گھوٹالے تقریباً ہر وقت مختلف صورتوں میںسامنے آتے رہے ہوں؛ لیکن تمام سابقہ وائس چانسلروںکو مزاحمت، احتجاج، ایجی ٹیشنز اور دھرنوں کا سامنا کرنا پڑا؛ ان کے خلاف وائٹ پیپرز جاری کئے گئے جہاں ان کی متعدد غلطیاں درج کی گئیں۔کیا گذشتہ چھ برسوں میں طارق منصور نے ایسی مزاحمت کا سامنا کیا؟ جو چند اساتذہ ایسی کوتاہیوں کو میڈیا میںبے نقاب کر سکتے تھے، انہیں میڈیا کمیٹی کا حصّہ بنا کر یا دھمکیاں دے کر ان کا منہ بند کر دیا گیا۔جبکہ تمام لوگوں، بشمول المنائی، کو معلوم ہو چکا تھا کہ کووڈ بحران کے دوران اپریل 2021ء میں جے این ایم سی ایچ میں اے ایم یو کے ملازمین کی بڑی تعداد میں موتیں شیخ الجامعہ کی لاپرواہی سے ہورہی تھیں۔آ کسیجن سپلائی کا بحران رہا، جنہیں بلیک مارکیٹ میں بیچا جاتا رہا۔
اندرونی لوگ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ پرووسٹوں پر غنڈوں کا غلبہ ہے۔ ڈائننگ ہالوں میں کھانے پینے کی اشیاکی خرید میں غنڈوں کی بڑی کمائی ہو رہی ہے۔ پرووسٹوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ غنڈوں کو وائس چانسلر کی سر پرستی حاصل تھی۔ اسی لئے عام طلبا احتجاج بھی نہیں کر سکتے تھے۔ امتحانوں میں نقل روکنے والے کئی اساتذہ( بشمول ڈین) کی ان غنڈوں نے پٹائی کر دی اور وائس چانسلر اور پراکٹر نے ایسے معاملوں کو پولیس تک جانے ہی نہیں دیا۔ انہیں غنڈوں اور پولیس کا استعمال ان اساتذہ کے خلاف کیا گیا، جنہوں نے این آر سی قانون کے خلاف احتجاج کی جسارت کی تھی۔احتجاج میں شامل کئی اساتذہ کو کسی عہدے (بشمول ایک شعبہ کی صدارت)اور پروموشن کی رشوت دے کر خرید لیا گیا۔ ان غنڈوں نے ہاسٹلوں کے کمرے کرایے پر دے رکھے ہیں، جبکہ بونا فائڈ طلبا کیمپس کے ارد گرد نجی طور پر کرائے کی مہنگی رہائش گاہوں میں تکلیف اٹھانے کے لئے انتظار کی فہرست میں ہیں۔ اور اتنا ہی نہیں، نہایت ہی غلیظ سیاسی پاپولزم کو تعلیم میں استعمال کیا گیا؛ تعلیم و تحقیق دونوں بری طرح سے متاثر ہوئیں، کلاسز میں طلباکی حاضری اب کوئی شرط نہیں رہی۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے، اس سنگین، تباہ کن صورتحال کا قصور صرف وائس چانسلر ہی پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ یونیورسٹی کا اکادمک کلچرگراوٹ کا شکارہو گیا ہے جہاںتدریسی و تحقیقی کاموں کو ایمانداری سے انجام دینے کے بجائے انتظامی عہدوں کے حصول میں زیادہ دلچسپی رکھنے والے اساتذہ کی تعداد میں شدید اضافہ ہو گیا ہے۔ اے ایم یو جیسی بڑی رہائشی یونیورسٹی میں، وی سی کو یونیورسٹی کے انتظامی امور کو چلانے کے لیے تقریباً 200 اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے ؛ جیسے کہ کالجوں کے پرنسپل، رہائشی ہالوں کے پرووسٹ اور وارڈن، بہت بڑی پروکٹوریل ٹیم، وغیرہ۔ یہاں تعلیمی اعتبار سے پسماندہ اساتذہ ہی بڑے عہدوں پر فائز کر دئے جاتے ہیں۔تدریس و تحقیق کوبڑھاوا دینے کے بجائے ان اساتذہ کی ساری توانائیاں خود کو وی سی کا غلامانہ فرماں بردار درباری ثابت کرنے میںخرچ ہو جاتی ہیں۔ یہ درباری انتہائی معمولی صلاحیتوں کے استاد ہیں۔ تحقیق میں ماہر ہونا تو چھوڑئیے، ان میں سے بہت سے لوگ تواپنے مضامین میں چند سطور تک درست نہیں لکھ پائیںگے۔ پھر یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ر ہ جاتی ہے کہ انہیں اپنے تدریسی شعبے میں تازہ ترین تحقیقی اپ ڈیٹس کا کوئی اندازہ نہیں رہتا۔ ان کی تمام توانائیاں ان کے کنبہ، گروہ اور علاقائی و ضلعی مافیا کے مفادات کو بروئے کار لانے میں لگ جاتی ہیں۔
اب اگر آپ ان گروہوں کے سب سے زیادہ سر گرم فرد سے پوچھیںگے کہ کیا اس کا پچھلے پانچ سات سالوں میں کسی آئی۔ای۔ای۔ای جرنل میں یا کسی مئوقر جریدے میں کوئی مضمون شائع ہواہے، تو لازماً ایسا استاد آپ کے سامنے گونگے اور بہرے کی طرح کھڑا رہے گا۔ نہ تو کسی سرکردہ ادارے ، جیسے آئی آئی ٹی،آئی آئی ایم، آئی آئی ایس سی وغیرہ نے انہیںلکچر کے لئے مدعو کیا اور نہ ہی انہیں اے ایم یو کے اندر کے اپنے انتظامی دفتر سے باہر ایک ماہر تعلیم کے طور پر کوئی پہچان ملی ہے۔ یہاں تک کہ استاد کی حیثیت سے کلاس رومز میں ان کی قابلِ رحم کار کردگی کی وجہ سے بھی انہیںایک استاد کے طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ملک گیر پیمانے پر کی جانے والی یونیورسٹی رینکنگ کے ایک مخصوص درجہ ، عوامی تصور، میں اے ایم یو کا رتبہ بہت نیچے ہے۔اب آپ ہی بتائیے کہ اس طرح کے مذاکرات کے لیے مدعو کیے بغیر اور اشاعات کے بغیر، کون آپ کو اعلیٰ درجہ بخشنے والا ہے؟ زیادہ تر اساتذہ میں نئی تحقیق کو سیکھنے کا جذبہ ختم ہو گیا ہے۔ اس یونیورسٹی کی تقرریوں میں مختلف گروہوں کے بیٹے اور بیٹیاں اگر نالائق پائے جاتے ہیں تو دامادوں اور بہوؤں کو نوکریاں دے دی جاتی ہیں۔
بدقسمتی سے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یونیورسٹی کے کچھ ابنائے قد یم یعنی المنائی ’ گروپس‘ یا ’ایسو سی ایشنز‘ بھی آں وقتی اور مستقبل کے وائس چانسلروںکا خیر مقدم کر کے اس تشویش ناک اور قابل رحم صورتحال کو بد سے بدتر بنانے کے عذاب میں بے حیائی سے شامل ہو جاتے ہیں ۔ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنے مہمانوں سے اس بابت سوال پوچھ سکیں ۔ تحقیقی میدان میں نا اہل، اے ایم یو کے جن پروفیسروں کو وائس چانسلری چاہئے، ایسے امیدوار اور ان کے گروہ بھی طارق منصور کی چھہ سالہ کار کردگی کے خلاف منہ میں دہی جما رکھے ہیں۔ یعنی ان کی نیت بھی بہتری اور اصلاح کی ہے ہی نہیں۔ان امید واروں میں جو صاحب کالم نگاری اور ویڈیو گیری کرتے ہیں وہ پچھلے دو برسوں سے کیا کچھ بول اور لکھ رہے ہیں ، اس سے سبھی واقف ہیں۔ ( اس میں کوئی شک نہیں کہ اے ایم یو کے کچھ المنائی ، نوجوان ذہنوں کو حوصلہ افزائی اوروظیفے فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بڑے خواب دیکھنے کی ترغیب دینے کا ایک قابل ستائش کام کر رہے ہیں !)
یونیورسٹی کے ان خطرناک گروہوں نے سنجیدگی اور دل جمعی سے تحقیقی اور تدریسی خدمات دینے والے اساتذہ کو بے بس اور لا چار بنا کر رکھ دیا ہے۔
مجموعی طور پر، ا ے ایم یو کی تازہ ترین صورتحال اکادمک قحط میں مبتلا ہے ، یعنی قحط الرجال بھی ہے ۔محض چند گنے چنے افراد کی ہی توجہ تدریس اور تحقیق پر ہے۔ ایسے بے بس حالات میں، ایک نظر ایگزیکٹو کونسل اور اے ایم یو کورٹ کے ممبران پر پڑتی ہے، جن کا فوری کام اگلے وی سی کے لیے ایک پینل تیار کرنا ہے۔ اس عہدے کے لئے وہ موجودہ دعوے دار، جو اے ایم یو ہی کے پروفیسر ہیں، ان میں سے کسی کے پاس کوئی مضبوط علمی اسناد (تحقیقی و اشاعتی تعلق سے) موجود نہیں ہیں۔ ان کا واحدلایحہ عمل تو بعض دلالوںکے درباروں میں حاضری دینی ہے۔ خدا نہ کرے، اگر ان میں سے کوئی بھی اپنے ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو اے ایم یو محض ایک اکادمک قبرستان اور غنڈوں اور دلالوںکے اڈے میں تبدیل ہو جائے گی۔
دراصل اندر ہی کے پروفیسر کو وی سی بنانے کے پیچھے لوٹ کھسوٹ کے کاروبار کو بر قرار رکھنے کی گندی نیت کا ر فرما ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ اے ایم یو سے باہر کے مراٹھی، کشمیری، تمل، تلگو، کنّڑ، بنگالی،آسامی پروفیسر ہی کو اگلا وائس چانسلر بنایا جائے۔واضح رہے کہ پچھلے 103برسوں میں متذکرہ کسی لسانی گروپس سے کوئی وائس چانسلر اب تک نہیں بنایا گیاہے۔
علیگ برادری نے اب تک ان لوگوں سے سوالات نہیں پوچھے جن کے پینل نے 2017 میں ہمیں ایک وی سی دیا جس نے بے شرمی سے ادارے کو برباد کر کے منجدھار میں چھوڑ کر ایم ایل سی بن گیا۔ وہی علیگ برادری اب اگلا پینل تیار کرنے جا رہی ہے ۔انہیں متنبہ کیا جانا چاہئے کہ ماضی کی غلطی کے لئے وہ معافی مانگیں اور ملک و قوم سے وعدہ کریں کہ ایسے جرم کا ارتکاب وہ دوبارہ نہیں کریں گے۔
اندرونی لوگ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگلے وی سی کا پینل بنانے میںجن گروہوں کا اہم ترین رول ہو گا، ان گروہوں کے خدّو خال کچھ اس طرح ہیں:
(۱) موجودہ کار گزا ر وی سی ، جن کو بظاہر دوگروہوں کی حمایت حاصل ہے، ایک، او ایس ڈی و ڈائریکٹر (اسکولز) اور سابق رجسٹرار ۔یہ شخص پچھلے گیارہ برسوں سے مسلسل یونیورسٹی کے اسکولوں کو برباد کر رہا ہے۔اس کے ساتھ شامل ہے اتر پردیش کا ایک مخصوص ضلع جہاں سے ای سی کے موجودہ کل16 ممبران میں سے کم از کم چار، یعنی پچّیس فیصد کا تعلق ہے۔ اس کے علاوہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر بھی اسی گروہ میں شامل ہو گیا ہے۔یہ اے ایم یو کورٹ کے ذریعے ای سی میں جانے کے لیے بے قرارہے۔ اسی گروہ کا ایک اور ریٹائرڈ استاد پینشن کے علاوہ تیس ہزار روپئے ماہانہ بھی لے رہا ہے۔ یہ شخص پولی ٹیکنیک میں پڑھاتا تھا۔ اب اچانک مطالعاتِ سر سیدکا ماہر ہونے کا دعویٰ کرنے لگا ہے۔
اس گروہ کا ایک بڑا حصّہ سنہ2012ء میںآں وقتی کار گزار وی سی کے ساتھ مل کر ایسے ہی بے یقینی صورت حال کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تقرریوں اور ٹھیکوں میں کئی مہینوں تک لوٹ کھسوٹ مچاتا رہا تھا۔
(۲) اے ایم یو کے با خبر لوگوں کی مانیں تو موجودہ کنٹرولر( پہلے وہ ڈی فیکٹو کنٹرولر تھا) کی قیادت میں ایک بہت بڑا گینگ قائم ہو چکا ہے؛اس لابی میں ایک اور خطرناک مجرم گروہ بھی شامل ہو گیا ہے۔ مقامی غنڈوںکے درمیان یہ گروہ اپنے غلبہ کو بہت زیادہ گہرا کر چکا ہے۔نا جائز طریقوںسے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال وہ قانونی چارہ جوئی اور آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کردہ دستاویزات سے بلیک میلنگ کے لیے کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ اس شخص کو وائس چانسلر بنانا چاہتا ہے جو ایک موقع پرست اور مکّار قسم کا کالم نگار اور یوٹیوبر ہے۔ پہلے وہ امیدوار مسلم فرقہ پرست تنظیم سے منسلک تھا اور ویسی ہی تنظیموں سے اپنی کتاب شائع کروایا۔ اب وہ بھگوائیت پر آمادہ ہے۔
(۳) دوسرے تمام نام جو مقامی ہندی اخباروں میں اور سوشل میڈیا میں گردش کر رہے ہیں، وہ بھی مایوس کن اور خوفناک ہیں۔ ان ناموں کا تعلق اے ایم یو کے میڈیسن، عربی، انگریزی، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، ریاضی وغیرہ کے شعبوں سے ہے۔
یہ اے ایم یو کیمپس کے کھلے گھناؤنے راز ہیں۔ پروفیسر طارق منصور نے وی سی کے دفتر کو اپنے ذاتی مفاد کے لئےاسپرنگ بورڈ کے طور پر استعمال کر نے کے بعد اپنے جانشینوں کو’’ مثالی ترقی‘‘ حاصل کرنے کا خطرناک راستہ دکھادیا ہے۔
ایسے پسِ منظر میں غور طلب سوال یہ ہے کہ:جو اے ایم یو کی موجودہ ایگزیکٹیو کونسل پر غلبہ رکھ رہے ہیں، ان کی اے ایم یو سے باہر کی یونیورسٹیوں میں ملازم اچھی تحقیقی اسناد رکھنے والے پروفیسروں پر (وائس چانسلر ی کے لئے ) نظر کیوں نہیں پڑتی ؟ اگلے مہینے میں یا اس کے بعدای سی میں منتخب ہو کر شامل ہونے والوں سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کچھ بہتر کریں گے۔ جو لوگ الیکشن کی معرفت ای سی میںداخل ہونے کے لیے اس وقت شور مچا رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر پہلے ہی ای سی میں نمائندگی کر چکے ہیں اور ہمیں طارق منصور جیسا وی سی دے چکے ہیں، جس نے بہت غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرکے یونیورسٹی کو بے یقینی اور قابلِ رحم حال میں چھوڑ دیا۔ وہ لوگ پارٹنرز اِن کرائم ہیں، سنہ ۲۰۱۷ء میں پینل ساز کے طور پر بھی اور تب سے اب تک ان کے حامی بنے رہنے کے طور پر بھی (چہ جائیکہ، ان میں سے چند بہروپئے طارق منصور کا مخالف ہونے کا ڈھونگ کر رہے ہیں)۔
مسلم یونیورسٹی ہی کا پروفیسر اس کا وائس چانسلر کیوں بنے؟
ہندوستان کے لسانی صوبوں سے، یعنی مراٹھی، کشمیری، تمل، تلگو، کنّڑ، بنگالی، آسامی، گجراتی، پنجابی کے درمیان سے اچھے تحقیقی و تدریسی و انتظامی صلاحیت و رتبہ والا پروفیسر اس ادارے کا وائس چانسلر کیوں نہیں بننا چاہئے، جو مقامی گروہوں کو کمزور یا ان کا خاتمہ کر سکے؟ واضح رہے کہ پچھلے 103برسوں میں متذکرہ کسی لسانی گروپس سے کوئی وائس چانسلر اب تک نہیں بنایا گیاہے۔
[نوٹ: یہ مضمون چند اضافوں کے ساتھ انگریزی کے اس مضمون کا ترجمہ ہے جو ’’اے ایم یو اپ ہیول‘‘ کے عنوان سے علیگوں کے درمیان نہایت دلچسپی سے پڑھا جا رہا ہے)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، ادارۂ قندیل کا ان سے اتفاق ضروری نہیں ہے)