Home مباحثہ اردو دشمن کون؟ – سہیل انجم

اردو دشمن کون؟ – سہیل انجم

by قندیل

کہا جاتا ہے کہ جو لوگ خود کوئی کام نہیں کرتے وہ ایک کام خوب کرتے ہیں۔ یعنی وہ دوسروں کے کاموں پر جی جان سے تنقید کرتے اور ان میں کیڑے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کام کرنے والے ان تنقیدوں اور عیب جوئیوں کی پروا نہیں کرتے۔ وہ اپنے مشن میں مصروف رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال غیر مسلم ملکیت والے اردو کے ایک ادارے ’ریختہ فاؤنڈیشن‘ کے ساتھ ہے۔ اس نے ابھی آٹھ، نو اور دس دسمبر کو دہلی کے میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں جشن اردو کا اہتمام کیا تھا جس میں ٹکٹ کے باوجود لاکھوں افراد نے شرکت کی جن میں اکثریت نوجوانوں اور غیر اردو داں طبقے کی رہی۔ ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کچھ لوگ اس کے جشن میں اردو بینروں کی غیر موجودگی کا معاملہ زور شور سے اٹھاتے اور اس حوالے سے ریختہ پر الزامات کی بارش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ تو اس میں اردو کے خلاف سازش کا پہلو بھی ڈھونڈ لیتے اور ریختہ کے بانی سنجیو صراف کو اردو دشمن تک بتا دیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کچھ لوگ اس کا بالواسطہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ریختہ نے ہزاروں اردو کتابوں کو دیو ناگری میں منتقل کرکے اردو شاعری اور ادب کو غیر اردو داں حلقوں تک پہنچا یا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے خیال میں اس سے اردو کی بجائے ہندی کا فروغ ہو رہا ہے۔ حالانکہ ریختہ کی ویب سائٹ پر اردو سکھانے کا پروگرام ’آموزش‘ بھی متوازی طور پر چل رہا ہے جہاں لاکھوں افراد اردو سیکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی ویب سائٹ پر ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو اردو کے فروغ کا ذریعہ ہیں اور مخالفین سمیت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے اہل اردو ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔

 

مثال کے طور پر اس نے اردو کی ان ہزاروں قدیم اور کلاسیکی کتابوں کو جو کہ یا تو لائبریریوں میں دھول پھانک رہی تھیں یا بوسیدہ ہو کر سڑ گل کر ختم ہو رہی تھیں، وہاں سے نکال کر ان کی اسکیننگ کرکے اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا ہے۔ اگر آپ کو کسی بھی موضوع پر کوئی کتاب پڑھنی ہو تو آپ اس کتاب کا نام ڈال کر سرچ کیجیے سکنڈوں میں وہ کتاب آپ کے سامنے کھل کر آجائے گی۔ آپ اسے وہیں پڑھ بھی سکتے ہیں اور ڈاؤن لوڈ کرنا چاہیں تو وہ بھی کر سکتے ہیں۔ عہد حاضر کے مصنفوں اور قلمکاروں کی کتابیں بھی موضوعات کے اعتبار سے وہاں موجود ہیں۔ ایسے رسائل و جرائد کی فائلیں بھی وہاں دستیاب ہیں جو اب نایاب ہو چکے ہیں۔ اس کی ویب سائٹ پر اردو انگریزی لغت بھی دی ہوئی ہے۔ آپ کسی بھی لفظ کا معنی وہاں تلاش کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کسی موضوع پر اشعار چاہئیں تو آپ اس موضوع کو لکھ کر سرچ کیجیے تو شاعر کے نام سمیت سیکڑوں اشعار سامنے آجائیں گے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو اور کہیں نہیں ملتیں۔ وہ ’روزن‘ نامی ایک معیاری رسالہ بھی نکالتا ہے۔
کچھ لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ ریختہ اردو کو فروغ دینے کی بجائے ہندی کو فروغ دے رہا ہے۔ وہ اس کی جانب سے ہندی میں شعرا کے کلام کی اشاعت کو اس کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اردو میں مجموعے شائع نہیں کرتا۔ لگے ہاتھوں یہ شکایت بھی کی جاتی ہے کہ اس سے اردو رسم الخط کو نقصان پہنچ رہا اور یہ کہ پرائمری سطح پر اردو کی تدریس کا سلسلہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اردو تدریس کے انتظام یا اردو رسم الحظ کو بچانے کا ٹھیکہ ریختہ نے نہیں لیا ہے۔ اس کا جو کام ہے وہ اسے بخوبی کر رہا ہے۔ کیا یہ بات چھوٹی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم سے اردو زبان ان لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہی ہے جو اردو نہیں جانتے۔ وہ اسی بہانے اردو تہذیب کے قریب آرہے ہیں۔ جشن ریختہ میلہ ہی سہی ظاہر ہے لوگ کچھ نہ کچھ تو سنتے اور سیکھتے ہی ہوں گے۔ اردو کی ان اصناف کو بھی زندہ کیا جا رہا ہے جو تقریباً مر چکی تھیں۔

 

یاد رہے کہ لسانی ربط ضبط اور لین دین کا معاملہ ہمیشہ رہا ہے اور زندہ زبانیں دوسری زبانوں کے ادبی سرمائے کو اپنے اندر سمونے کا کام کرتی رہی ہیں۔ ادبی لین دین سے ایک دوسرے کے ادب کو پڑھنے اور دوسری زبانوں کے ادبی رویے کو جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اگر ریختہ اردو ادب کو دیوناگری میں منتقل کر رہا ہے تو کوئی ایسا ادارہ کیوں نہیں قائم ہوتا جو ہندی ادب کو اردو میں منتقل کرے۔ یہ اردو ادب کے مالامال اور مقبول ہونے کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے کہ آج لاکھوں کروڑوں افراد اسے پڑھنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک غیر اردو داں حلقوں میں اردو شاعری کی مقبولیت کی بات ہے تو یہ سلسلہ پہلے بھی چلتا رہا ہے۔ دہلی کے کئی ادارے پاکٹ بکس شائع کرتے رہے ہیں۔ جہاں سے اردو کے کلاسیکی شعرا کے شعری مجموعے ہندی میں شائع کرکے لاکھوں کی تعداد میں فروخت کیے جاتے تھے۔
ابھی چند روز قبل ہی یہ خبر آئی ہے کہ ہارورڈ کی اسکالر پورنما سوامی کو ہندوستان میں اردو سے انگریزی ترجموں کے لیے سالانہ دیے جانے والے ایوارڈ ’جواد میموریل پرائز‘کا پہلا انعام دیا گیا ہے۔ یہ انعام پاکستان کی شاعرہ فہمیدہ ریاض کی نظم ’فلسطین‘ کا انگریزی ترجمہ کرنے پر دیا گیا۔ دوسرے انعام کے لیے احمد ندیم قاسمی کی نظم ’پابندی‘ کا ترجمہ کرنے پر محمد عاقب کو دیا گیا۔ مقابلے کی جیوری میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی کے سابق پروفیسر انیس الرحمن کے علاوہ امریکہ کی ولیم پیٹرسن یونیورسٹی میں پروفیسر اور مصنف رضامیر شامل تھے۔ پورنما سوامی ہندوستان کی ایک صحافی ہیں اور اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں جنوب ایشیائی علوم کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ اس سے قبل پروفیسر خالد جاوید کو ان کے ناول ’نعمت خانہ‘ کے انگریزی ترجمے پر گزشتہ سال کا جے سی بی ایورڈ دیا گیا تھا۔ مترجم باراں فاروقی کو بھی ایوارڈ دیا گیا۔ پورنما کے بقول فہمیدہ ریاض کی نظم ’فلسطین‘ سرحدوں سے ماورا سیاست کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ انقلاب کی نظم ہے لیکن یہ کسی اور کی انقلابی جدوجہد کے ساتھ کھڑے ہونے کی بھی نظم ہے۔ ان کے لیے یہ نظم اس لیے بھی اہم تھی کیوں کہ فہمیدہ ریاض نے اسے اس وقت دلی میں بیٹھ کر لکھا تھا جب وہ ضیاء حکومت کے دور میں پاکستان سے جلاوطن تھیں۔ پہلے بھی ایسے ایوارڈ دیے جاتے رہے ہیں۔ خود اردو میں دوسری زبانوں کے ادب کو منتقل کرنے کی روایت رہی ہے۔ اب بھی اردو رسائل و جرائد میں دوسری زبانوں کے ادبی شہ پاروں کے ترجمے شائع کیے جاتے ہیں۔

 

کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ ہندی والے اردو کے الفاظ کو اختیار کرکے ان کو اپنا کہنے لگتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ ہمارا مال اچھا ہے لہٰذا لوگوں کو اسے اپنا کہنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ ایسی شکایت کرنے والے دوسری زبانوں کے الفاظ کو کیوں نہیں اپناتے اور انھیں اپنا کیوں نہیں کہتے۔ جہاں تک اردو لکھنے پڑھنے کا معاملہ ہے تو کیا اہل اردو اس معاملے میں سنجیدہ ہیں؟ وہ اپنے گھروں میں اردو کا ماحول رائج کیے ہوئے ہیں؟ وہ اپنے بچوں کو اردو پڑھاتے ہیں؟ اردو کے اخبار اور رسائل و جرائد خریدتے ہیں؟ اسکول جانے والے اپنے بچوں کو اشیاء کے نام اردو میں بتاتے ہیں؟ یا پھر انھیں ہینڈ واش، فنش، شوز اور ڈاگی ہی سکھاتے ہیں۔ ہم اردو بینروں کی غیر موجودگی پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن خود ان سے دور بھاگتے ہیں۔ دہلی کے جامعہ نگر کا علاقہ خالص مسلم علاقہ ہے جہاں بڑی بڑی اور شاندار دکانیں ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس نے ان دکانوں پر اردو میں کتنے بورڈ دیکھے ہیں۔ یہاں تک کہ ’قاسمی بریانی‘ نامی دکان کا بورڈ بھی انگریزی میں ہے۔ اتنے بڑے علاقے میں اردو کے چند سو اخبارات بکتے ہیں۔ جبکہ جنوبی ہند کا ناخواندہ شخص بھی اپنی زبان کا اخبار خریدتا ہے۔یہاں کتنے ایسے اسکول ہیں جو اردو میڈیم ہیں؟ ایسے بہت سے سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ دراصل ہم نے اپنی لسانی غیرت کھو دی ہے۔ لسانی غیرت کے حوالے سے ہندوستان میں سنگا پور کے سفیر کے اس قدم کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جس پر اس سے قبل ہم نے ایک کالم لکھا تھا اور بتایا تھا کہ کس طرح انھوں نے دہلی میں اپنے ملک کے سفارت خانے کے بورڈ میں اسپیلنگ کی معمولی غلطی کی سوشل میڈیا پر نشاندہی کی اور کس طرح دہلی کارپوریشن نے اسی روز اس کو درست کر دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ لسانی غیرت کیوں نہیں ہے؟ جہاں تک اردو کلام کو ہندی میں شائع کرنے کی بات ہے تو ہندی میں اردو شعرا کا کلام بڑی تعداد میں فروخت ہوتا ہے۔ جبکہ وہی کلام اردو میں شائع کیا جائے تو کوئی پوچھتا تک نہیں۔ صرف اردو پڑھنے والے طلبہ ہی کورس کی کتابیں خریدتے ہیں وہ بھی بہت کم۔ بیشتر لائبریریوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ جبکہ ہندی والے اردو شعرا کے کلام کو ہندی میں بڑی تعداد میں خریدتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک تجارتی معاملہ بھی ہے۔ یعنی ریختہ اگر ایک جانب ہندی میں اردو کلام فروخت کرکے منافع حاصل کر رہا ہے تو اسی بہانے وہ اردو شعرا کو غیر اردو داں حلقوں تک پہنچا بھی رہا ہے۔ جہاں تک اردو کی تدریس کا معاملہ ہے تو اس کا انتظام ہمیں خود کرنا چاہیے کیونکہ ہماری زبان ہی نہیں تہذیب بھی اردو ہے۔ ہمارا بیشتر مذہبی سرمایہ بھی اردو میں منتقل ہو چکا ہے۔ اگر اس سرمائے کو تباہ ہونے سے بچانا ہے تو ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو اردو پڑھانے کا بند و بست کرنا چاہیے۔ لیکن ہم دوسروں اور بالخصوص حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ اگر ہم ریختہ کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اردو دشمن کون ہے۔ بہرحال کام کرنے کے بجائے شکایت کرنے والوں کا رویہ دیکھ کر احمد فراز کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

You may also like