Home مباحثہ ابوالکلام آزاد، گاندھی، جہاد اور طاغوت -ابو دردا معوذ

ابوالکلام آزاد، گاندھی، جہاد اور طاغوت -ابو دردا معوذ

by قندیل

مولانا ابوالکلام آزاد الہلال اخبار نکالتے تھے، مدیر کی حیثیت سے اخبار کی پیشانی پر مولانا کا نام ہوتا، اس کے سوا اخبار کے ادارتی کالمز و مضامین میں کہیں کسی لکھنے والے کا نام نہ ہوتا تھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے ناشرین نے مولانا آزاد کی طرف منسوب کر کے ایسے مضامین کے مجموعے بھی شائع کر دیے جو مولانا آزاد کے نہیں تھے۔ اسی طرح کا ایک مجموعہ منشی مشتاق احمد نے ”مضامین مولانا ابوالکلام آزاد“ شائع کِیا، اس مجموعے کے ایک مضمون میں مہاتما گاندھی کا تذکرہ ہے کہ وہ (ہندوستان آنے سے پہلے) جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے حقوق کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں اور اس مضمون میں صاحبِ تحریر نے شرعی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے مہاتما گاندھی کو مجاہد فی سبیل اللہ قرار دیا ہے۔

راقم کو تلاش کرنے پر یہ مضمون الہلال کے 26 نومبر 1913 کے شمارے میں ملا، جو دراصل سابق شمارے میں شائع ہوئی قسط سے پیوستہ ہے۔ الہلال 12 تا 19 نومبر کے شمارے میں شذرات کے کالم میں، رفتارِ سیاست کے کالم میں اور افکار و حوادث کے کالم میں جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کی جدوجہد کا تذکرہ ہے، النبأ الأليم کے عنوان سے جنوبی افریقہ اور گاندھی جی کے عنوان سے ایک تحریر ہے اور اسی عنوان سے اس تحریر کا تسلسل 26 نومبر کے شمارے میں شائع ہوا ہے جس میں گاندھی کو مجاہد فی سبیل اللہ لکھا گیا ہے۔ یہ پوری تحریر ادارتی حیثیت سے شائع ہوئی ہے۔

یہ عین وہی زمانہ ہے جب الہلال کا بیشتر حصہ علامہ سید سلیمان ندوی لکھا‌ کرتے تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی مئی 1913 سے دسمبر 1913 تک الہلال سے وابستہ رہے، سید صاحب کے باضابطہ الہلال سے وابستہ ہونے سے پہلے بھی مولانا آزاد اپنی خانگی پریشانیوں کے باعث سید صاحب سے الہلال کے لیے مضمون طلب کر چکے تھے۔ باضابطہ وابستہ ہونے کے بعد سید صاحب کا الہلال کے مشمولات میں حصہ اس حد تک بڑھ گیا کہ اگست 1913 کا ایک پورا شمارہ مولانا آزاد کی غیرموجودگی میں خود سید صاحب نے نکالا۔ جب سید صاحب دسمبر 1913 میں الہلال چھوڑ گئے تو مولانا آزاد نے انہیں جو شکوہ بھرا خط لکھا اس میں یہ بات بھی لکھی کہ میں اپنی زوجہ کی سنگین ترین علالت اور خود اپنی علالت کے باعث اخبار کو وقت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

خود سید صاحب نے لکھا ہے کہ الہلال کے ادارتی کالمز وہ لکھا کرتے تھے، نیز جب ناشرین نے الہلال کی تحریریں جمع کر کے شائع کرنا شروع کیں تو سید صاحب نے یہ بھی لکھا کہ میری کئی تحریریں مولانا آزاد کے نام سے شائع کی جا رہی ہیں۔

سید صاحب کے علاوہ الہلال کی ٹیم میں مولانا عبدالسلام ندوی، حامد علی صدیقی، عبدالماجد کانپوری، مولانا عبداللہ عمادی اور انگریزی معلومات کے لیے مرزا محمد عسکری بھی شامل تھے۔

الہلال کی تحریروں میں کسی کا نام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس اخبار کے باغیانہ تیور حکومت کی نظر میں رہتے تھے، جب اخبار کے کسی مضمون پر حکومتی بازپرس ہوتی تو حکومت کے سامنے اس کی ذمے داری مدیر کی حیثیت سے خود مولانا آزاد لیا کرتے تھے۔ کانپور مسجد سانحے کے تعلق سے ایک مضمون جس کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ سید سلیمان ندوی نے لکھا تھا، اس کے سلسلے میں ایک حکومتی عہدے دار نے مولانا آزاد سے پوچھ گچھ کی تو مولانا آزاد نے اس کی ذمے داری خود لے لی۔

جہاد کے بارے میں صحیح بات وہ ہے جو الہلال ہی کے دیگر شماروں میں لکھی گئی:
”یاد رکھیے کہ ہندؤوں کے لیے ملک کی آزادی کی جدوجہد داخلِ حب الوطنی ہے، مگر آپ کے لیے ایک فرضِ دینی اور داخلِ جہاد فی سبیل اللہ!“

”پس قسم ہے اس خدائے اسلام کی جس نے ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کی قربانی کو برکت بخشی اور اس کو ملت حنیفی کے لیے اسوۂ حسنہ بنایا کہ اسلام اور جہاد ایک ہی حقیقت کے دو نام اور ایک ہی معنی کے لیے دو مرادف الفاظ ہیں اور اسلام کے معنی جہاد ہیں اور جہاد کے معنی اسلام۔ پس کوئی ہستی مسلم ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ مجاہد نہ ہو اور کوئی مجاہد ہو نہیں سکتا جب تک کہ وہ مسلم نہ ہو۔“

لہٰذا یہ بات ثابت نہیں کی جا سکتی کہ مولانا آزاد نے گاندھی کو مجاہد فی سبیل اللہ لکھا یا وہ ایک غیرمسلم کے مجاہد فی سبیل اللہ ہو سکنے کے قائل تھے۔ ہاں مگر جس طبقے کو مسلمان ہونے کے باوجود مجاہد فی سبیل اللہ بننے، وقت کے طاغوت برٹش گورنمنٹ سے لوہا لینے یا شاہ عبدالعزیز دہلوی سے شیخ الہند تک کسی کی انقلابی جدوجہد کی قلمی تائید تک کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی ہو، اس کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے نظریاتی کشکول میں بہتان طرازیوں کے کھوٹے سکے سمیٹا کرے۔

گاندھی سے مولانا آزاد کی پہلی ملاقات 1920 میں ہوئی تھی، اور 1921 میں جب مولانا پر فتویٰ ترکِ موالات کی تشہیر کے جرم میں غداری کا مقدمہ ہوا تھا تو مولانا نے عدالت میں اپنی تاریخی تقریر میں فرمایا تھا:
”مہاتما گاندھی کی طرح میرا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ کسی حال میں بھی ہتھیار‌ کا مقابلہ ہتھیار سے نہیں کرنا چاہیے، اسلام نے جن حالتوں میں اس کی اجازت دی ہے میں اسے فطرتِ الہی اور عدل و اخلاق کے مطابق یقین کرتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ ہندوستان نان وایلنس جدوجہد کے ذریعے فتحمند ہو گا۔“
ایک جانب یہ شفافیت تھی کہ نہ غداری کے مقدموں کا کوئی خوف تھا نہ اپنے سیاسی حلیف کے اساسی فلسفے کو غلط کہنے میں کوئی باک تھا، دوسری جانب وہ روایت تھی جس کے پورے ورثے میں برٹش گورنمنٹ کے خلاف ایک لفظ بھی بغاوت یا مذمت کا نہیں دِکھایا جا‌ سکتا، ہاں مدح اور وفاداری کی باتیں ضرور دِکھائی جا سکتی ہیں۔ جنہیں خلافتِ اسلامیہ اور قبلۂ اول کو پامال کرنے والی برٹش گورنمنٹ میں طاغوت نظر نہ آیا ہو، اگر انہیں اس گورنمنٹ سے لڑنے والے میں طاغوت نظر آ گیا تو اس نظر پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات:

دستاویز الہلال جلد سوم، اترپردیش اردو اکادمی

”الہلال کا ادارۂ تحریر“ ملک زادہ منظور احمد، ماہنامہ شاعر ممبئی اکتوبر 1968 (بحوالہ مکتوباتِ سلیمانی)

”الہلال کے دو مختلف فیہ مضمون“ ابوعلی اعظمی، ہفت روزہ ہماری زبان علیگڑھ، 22 ستمبر 1966

”قولِ فیصل: الہلال کا ایک مضمون“ ابوسلمان شاہجہاں پوری، ہفت روزہ ہماری زبان علیگڑھ، 22 فروری 1967

”الجہاد فی سبیل الحریت“ مضامینِ ابوالکلام آزاد، مرتبہ سید بدرالحسن

”جہاد اور اسلام“ مضامینِ الہلال، ادبستان لاہور

”قولِ فیصل“ (1922 میں گرفتاری سے قبل مولانا آزاد کی عدالت میں تقریر)

You may also like