Home مباحثہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے آئندہ وائس چانسلر کا پینل: ایک تنازعہ- حاجی محمد صابر

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے آئندہ وائس چانسلر کا پینل: ایک تنازعہ- حاجی محمد صابر

by قندیل

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور 16مئی 2022 کو اپنی متعینہ مدّت (پانچ سال) پوری کر چکے تھے۔ پھر ایک سال کی توسیع حاصل کر کے یہ مدّت بھی آئندہ 16 مئی 2023 کو پورا کر لیں گے۔ اس سے قبل انہیں اگلے وائس چانسلر کا پینل بنا کر مرکزی حکومت کو بھیجنا ہے۔

ایسے موقعے سے کسی ابن خلدون بھارتی کا انگریزی پورٹل’دی پرنٹ ڈاٹ ان (6 مارچ، 2023) پر ایک مضمون شائع ہوا۔ اس میں ایک مرکزی سوال یہ پیش کیا گیا کہ پچھلے 103 برسوں سے سبھی وائس چانسلر اتر پردیش(اور حیدر آباد) کے مخصوص مسلم طبقہ کے اشرافیہ مرد حضرات ہی تعینات کئے گئے ہیں۔صرف ایک واحد مستثنیٰ پروفیسر پی۔کے۔ عبدالعزیز (2007-2012)تھے جو کیرل کے تھے، اور شائد پسماندہ برادری موپلا، سے تعلق رکھتے تھے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی، بالخصوص اتر پردیش کے مسلمانوں کے خواص، نے در پردہ ایک مہا گھوٹالا جاری رکھا ہے، جس کو ابن خلدون بھارتی نے بڑی دلیری اوربے رحمی سے بے نقاب کر دیا ہے۔ اگلے ہی دن، یعنی (7 مارچ 2023) کو اے ایم یو کے کسی سابق طالبِ علم (المنس) نے دوسرے انگریزی پورٹل، ریڈف ڈاٹ کام پر، کم و بیش اسی طرح کے سوالات اٹھائے۔ اے ایم یو کے شعبہ قانون کے پروفیسراور نیشنل لاء یونیورسٹی حیدر آباد کے سابق وائس چانسلر، فیضان مصطفی نے دی پرنٹ ڈاٹ ان پر 10مارچ2023کو، اور ریڈف ڈاٹ کام پر 18مارچ، 2023کو اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کیا۔
اس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے پینل کی تشکیل کے ضمن میں پچھلے کئی ہفتوں سے، کئی کالموں کے ذریعے، ایک بحث چھڑ گئی ہے؛ یہاں تک کہ اس بحث نے اب تنازعہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔چند اساتذہ اور طلباء نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے ردِ عمل کا اظہار شروع کر دیا ہے۔ اے ایم یو المنس کے شائع کردہ مضمون (ریڈف ڈاٹ کام، 7مارچ 2023) پر ردِ عمل کرتے ہوئے پروفیسر فیضان مصطفی نے ریڈف ڈاٹ کام (18مارچ2023) میں شائع اپنے اس جوابی کالم میں نہایت ہی غیر ضروری طوالت اور لا پرواہی سے کام لیا ہے۔ (لا پرواہی کا یہ عالم ہے کہ ریڈف کے اس گمنام المنس کو انہوں نے یونیورسٹی ٹیچرکہہ دیا)۔ تقریباّ نصف مواد نہایت ہی غیر ضروری ہے۔ اس طوالت سے موضوعِ بحث کی مرکزیت اور سمت کو بھٹکانے اور گمراہ کرنے کی قصداً کوشش کی گئی ہے۔ فرضی، من گڑھت اور اختراعی باتوں کو ’اے ایم یو المنس‘ کے کالم ”ریڈف ڈاٹ کام، بتاریخ7مارچ 2023“ سے منسوب کرکے، ان کی تردید کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مودی حکومت کی تعریف کرنے کا ایک موقع، خواہ مخواہ پیدا کر کے، واضح طور پر یہ غیر اخلاقی کام محض موقع پرستانہ طور پر انجام دیا گیا، تاکہ وہ خودموجودہ حکومت کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔بد قسمتی سے اے ایم یو کا سابق رجسٹرار او ر نیشنل لا یونیورسٹیوں کا دو بار وی سی رہنے والا ماہرِ قانون اگر ایسی غلطی کرتا ہے تو یہ عمل نہایت ہی افسوس ناک ہونے کے ساتھ  قابل رحم بھی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک پروفیسر غیر معمولی طور پر طویل جواب لکھنے کے لئے وقت نکالے اور بنیادی سوال، (یو۔پی،حیدرآباد کا ایک خاص طبقہ ہی اے ایم یو کا وی سی کیوں بنتا آ رہا ہے؟) کا جواب دینے سے مکمل طور پر قاصر ہو!

اپنے جوابی مضمون( دی پرنٹ ڈاٹ ان، بتاریخ، 10 مارچ 2023) میں فیضان مصطفٰی کا ماننا ہے کہ”دیگر تمام یونیورسٹیوں میں، ایگزیکٹیو کونسل(ای سی)، دو اراکین کو نامزد کرتا ہے“۔ لیکن اصلیت تو یہ ہے کہ یہ دو اراکین سرچ کمیٹی کے رکن ہوتے ہیں۔ وہ خود کو وی سی امیدواران میں شامل نہیں کرتے ہیں، اور اس سرچ کمیٹی میں ایک اور رکن کا اضافہ مرکزی حکومت کرتی ہے۔اس سہ رکنی سرچ کمیٹی کے ممبران کا تعلق اس یونیورسٹی سے قطعی نہیں ہوتا ہے جس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے پینل کی ذمہ داری یہ تینوں لوگ نبھا رہے ہوتے ہیں۔یہ سرچ کمیٹی، عام اشتہار کی معرفت، امید واران سے وی سی کی اسامی کو پر کرنے کے لئے درخواستیں طلب کرتی ہے؛ ان امید واروں سے ملاقات یا اِن کا انٹرویو کرتی ہے، اور تب جا کر کسی تین امیدوار کے نام کی سفارش مرکزی حکومت کو بھیج دیتی ہے۔
اس کے بر عکس، اے ایم یو کی ای سی میں ایسی کوئی شفا فیت نہیں برتی جاتی ہے۔اے ایم یو کا تو معاملہ ایسا ہے کہ ای سی میٹنگ کی صدارت کرنے والے وائس چانسلر خود بھی اپنا نام اگلے وائس چانسلر کے پینل میں کبھی کبھی شامل کر لیتے ہیں۔مزید یہ کہ ای سی ممبران عام اشتہار کے ذریعے امیدواروں سے درخواست طلب نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ خفیہ طور پر اپنی اپنی جیبوں سے کوئی بھی نام میٹنگ میں پیش کر دیتے ہیں۔اسی وجہ سے، وہ اتر پردیش اور حیدرآباد کے اپنے طبقہ اور کنبہ کے لوگوں کو وائس چانسلر کے پینل میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یعنی فیضان مصطفی کی گمراہ کن بات کے بر عکس، دیگر سینٹرل یونیورسٹیوں میں ای سی اور کورٹ کا کوئی رول اپنے وائس چانسلر کے پینل بنانے میں نہیں ہوتاہے۔ یعنی اے ایم یو کی ای سی و کورٹ اور دیگر سینٹرل یونیورسٹیوں کی ای سی اور کورٹ کے اختیارات میں نمایاں فرق ہے، جس پر فیضان مصطفی نہایت ہی شاطرانہ طریقہ سے پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، تاکہ صرف اتر پردیش اور حیدرآباد سے ہی وائس چانسلر بناتے رہنے کے مہا گھوٹالا پر پردہ ڈال سکیں۔
پروفیسرفیضان مصطفی (دی پرنٹ) ر قم طراز ہیں کہ ”ماضی قریب کے دو اے ایم یو وائس چانسلر او۔بی۔سی زمرے سے آ چکے ہیں؛ اس لئے اے ایم یو کو اشراف یونیورسٹی کہنا حقیقتاّ غلط ہے“۔ ہم یہاں فیضان مصطفی کی غلط بیانی پہ اعتراض کرتے ہیں جس کی مدد سے وہ اپنے قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا پی۔کے عبدالعزیز کے علاوہ بھی کوئی او۔بی۔ سی وائس چانسلر رہا ہے؟
مزید ان کا دعویٰ کہ ”اے ایم یو کی طرح، دہلی یونیورسٹی کے تمام سابق وائس چانسلر وہاں کے کورٹ کے ممبر ہوتے ہیں“،اس بحث کے ضمن میں نہایت ہی غیر اہم اور غیر ضروری ہے، کیوں کہ دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے ان تمام سابق وائس چانسلروں نے اپنے جانشینوں کی تقّرری میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
اپنے قارئین کو مزید گمراہ کرتے ہوئے فیضان مصطفی لکھتے ہیں کہ ”وی سی کی دوبارہ تقّرری کے لئے اہل ہونے کی شرط کو بھی حذف کر دیاگیاہے“ (دی پرنٹ ڈاٹ ان)۔ یہاں ہم ان سے سوال پوچھتے ہیں کہ، کیا واقعی اس شرط کو حذف کر دیا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر سنہ 2000ء میں محمود الرحمان کو ایگزیکٹیو کونسل اور کورٹ دونوں نے کیسے نامزد کیا؟کیا اے ایم یو ایکٹ 1981واقعی اس مسئلے پر بات کرتا ہے؟ یا یہ اسٹیچیوٹ کا معاملہ ہے، نہ کہ ایکٹ کا؟ قانون کے پروفیسر کو ایکٹ اور اسٹیچیوٹ کے درمیان جو نمایاں فرق ہے، وہ واضح ہونا چاہئے، نہ کہ وہ خود بھی کنفیوزڈ رہیں اورقارئین کو بھی گمراہ کریں۔
فیضان مصطفی کا یہ اعتراض کہ ”اے ایم یو کورٹ کو کیوں ختم کیا جائے جبکہ دہلی یونیورسٹی، جواہرلال نہرو یونیورسٹی، مدراس اور کلکتہ یونیورسٹی میں اسے ختم نہیں کیا گیا؟“اس کے جواب میں ہم پھر عرض کرتے ہیں کہ مذکورہ یونیورسٹیوں کے کورٹ وہاں کے وائس چانسلر کی تقّرری میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔
کیا اے ایم یو المنس نے اپنے ریڈف کالم (7مارچ 2023) میں واقعی وی سی کے عہدے کے لیے ریزرویشن مانگی تھی؟ حقارت آمیز لہجہ میں فیضان مصطفی نے اس المنس کو”خود ساختہ خیر خواہ“ کہا ہے! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخریہ کون طے کرے گاکہ کون خودساختہ اور کون قوم سے سند حاصل کر کے مخلص خیر خواہ کا درجہ پا لیا ہے؟گمراہ کن بات کرنے والا اور وائس چانسلری حاصل کرنے کی لالچ رکھنے والا بھی مخلص خیر خواہ ہو سکتا ہے یا نہیں، یہ ایک دلچسپ اور بحث طلب موضوع ہے۔طبقاتی، علاقائی، جنسی انصاف کی بات سے انکار کرنے والے شخص کو مخلص اور انصاف پسند کیسے کہا جا سکتا ہے؟
فیضان مصطفی صاحب فرماتے ہیں کہ علی گڑھ واحد ایسی یونیورسٹی ہے جہاں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے 10فیصد سے زائد سرقہ کی سخت ممانعت ہے! جناب! یہ شرط تو ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے ہے۔مزید یہ کہ اے ایم یو واحد یونیورسٹی ہے، جسے 2014 میں سرقہ کی وجہ سے اس کی طرف سے تفویض کی گئی پی ایچ ڈی کی ڈگری واپس لینا پڑی۔ یہاں تک کہ نگراں کا کردار بھی مجرم پایا گیا، لیکن انہیں محض وارننگ جاری کی گئی۔ نگراں پر کوئی تادیبی کاروائی نہیں کی گئی۔ وہی استاد اب کئی سلیکشن کمیٹیوں کے لئے ایکسپرٹ کے طور پر تعینات کئے جاتے ہیں۔ مرحوم عمر خالدی نے اپنے مئی 2010کے مضمون(ٹو سرکلس) میں پوری تفصیل پیش کی ہے کہ اے ایم یو میں سماجی علوم میں ہندوستانی مسلمانوں کے معاملات پر تحقیق کے تعلق سے کس قدر کوتاہیاں برتی گئی ہیں۔عمر خالدی نے اسے تحقیقی کاموں پر تالا لگنے سے تعبیر کیا۔
دوسری یونیورسٹیوں کی طرح اے ایم یو وی سی کے عہدے کا عوامی اشتہارکیوں نہیں ہونا چاہئے؟ کیا اس تقرری کا عوامی اشتہار ملک کے آئین کے آرٹیکل 16 (1) کا تقاضا نہیں ہے؟ اے ایم یو کی ای سی کو سرچ کمیٹی کیسے سمجھا جا سکتا ہے، جبکہ وہ اندرونی ممبران سے بھری ہوئی ہے؟ کیا یو جی سی کے ضوابط یہ حکم نہیں دیتے کہ سرچ کمیٹی میں صرف بیرونی ممبران ہی ہوں؟ کیا فیضان مصطفیٰ یہ تجویز کرتے ہیں کہ سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کا مطالبہ طلبا کی بے ضابطگی کے مترادف ہو گا؟ کیا یہ کسی ایسے شخص کا انتہائی غیر جمہوری رویہ نہیں ہے جس نے بہت سارے تعلیمی اداروں کے کئی عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں؟ کیا کسی اور مرکزی یونیورسٹی کومحض یوپی اور حیدرآباد کے اشراف مسلمانوں سے ہی ہمیشہ وی سی ملے ہیں؟ کیا فیضان مصطفی کو نہیں معلوم کہ المنس کے اس کالم کا مرکزی سوال اور عنوان کیا ہے؟ فیضان مصطفی یہ ثابت کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ یہ تنگ نظری، رجعت پسندی اور تعصب پچھلے 103 سالوں سے کیوں چل رہی ہے؟ اور یہ کہ انہیں اس مرکزی سوال سے گریز کرنے کے با وجود اس کالم کا جواب لکھنے پر اور کس دوسرے مقصدنے اکسایا؟ انہیں اس کا جواب دینا چاہئے۔
عرض یہ ہے کہ راقم یہ باتیں از راہِ تفّنن نہیں لکھ رہا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ در حقیقت جیسا کہ وضاحت کی گئی ہے، یہ اے ایم یو کے ا ی سی کا علاقائی اور طبقاتی تعصب ہے جو اتر پردیش کے باہر کے با صلاحیت امیدواروں کو وائس چانسلری کی کرسی پر دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ اس وقت، پہلے سے طے شدہ طور پر، 15 افراد (دیگر 13جگہیں خالی ہیں) میں سے تقریباً 4 افراداتر پردیش کے ایک چھوٹے سے ضلع سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہمیں کسی دوسری مرکزی یونیورسٹی کی ای سی کی ساخت دکھائیں، جہاں کسی بھی وقت ای سی کے کل اراکین میں سے تقریباً 25 فیصد ارکان صرف ایک مخصوص چھوٹے سے ضلع سے تعلق رکھنے والے ہوں۔
حالاں کہ اے ایم یو المنس‘ کے کالم (ریڈف ڈاٹ کام، بتاریخ7مارچ 2023) میں مصنف نے یونیورسٹی کی خود مختاری کی مخالفت نہیں کی، جبکہ فیضان مصطفی صاحب نے اس کے خلاف ایک خود ساختہ بیانیے کو پروان چڑھا کر اس کی تردید کی ہے۔ ان کا اپنی من گھڑت بات کو ’اے ایم یو المنس‘ سے منسوب کرنا نہایت ہی مذموم عمل ہے۔ اس عمل کو انگریزی میں Strawman Fallacyکہتے ہیں۔ایسی طفلانہ شرارتیں اسکولی بچے اپنے ڈیبیٹنگ کمپٹیشن میں کیا کرتے ہیں۔ کسی سابق وائس چانسلر اور قانون کے پروفیسر کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں۔
ٖفیضان مصطفی نے ریڈِف پر لکھے گئے اپنے جوابی کالم میں یہ بھی لِکھ دیا کہ وائس چا نسلر کے امیدوار کی اکادمک تحقیقی صلاحیتوں کو نظر انداز کیا جانا چاہئے، ان کی صرف انتظامی صلاحیت ہی دیکھی جانی چاہئے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یو جی سی کے نئے ضابطے کے مطابق امیدوار کی پروفیسری کو دس برس پورا ہونا چاہئے۔ یعنی وہ امیدوار اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور دس برس کی پروفیسری کے دوران جو تحقیقی اشاعتیں ہیں، انہیں بھی بنیاد بنایا جانا ہے، امیدوار کی اکادمک صلاحیتوں کو پرکھنے کے لئے۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ فیضان مصطفی صاحب نے ایسا کیوں کہا؟ کیا اس لئے کہ پچھلی تقریباً دو دہائیوں سے وہ صرف انتظامی کاموں میں مصروف ہیں۔تدریسی و تحقیقی کاموں میں ان کی جانب سے سخت کوتاہی ہے۔البتّہ اخباروں میں سطحی قسم کی زود نویسی اور بسیار نویسی ضرور کرتے رہتے ہیں۔پچھلے تین سال سے اپنے ان کالموں میں بھگوائی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے والے جملے بھی لکھتے رہے ہیں اور ویڈیو بھی بناتے رہے ہیں۔کمال کی بات تو یہ ہے کہ دہائیوں قبل جو کتابیں ان کی شائع ہوئی ہیں وہ بھی فرقہ پرست تنظیموں نے ہی شائع کی ہیں اور نہایت ہی غیر معیاری اور نچلے درجے کی پبلیکیشن ہاؤسز ہیں۔اس سے کیا یہ اندازہ لگایا جائے کہ وہ اپنی تحقیقی کوتاہیوں پر پردہ ڈال کر وائس چانسلری پانے کے آرزو مند ہیں؟

You may also like