Home مباحثہ دارالعلوم دیوبند کا ترجمان ’’ماہنامہ دارالعلوم‘‘: کچھ تلخ حقائق – عبید انور شاہ

دارالعلوم دیوبند کا ترجمان ’’ماہنامہ دارالعلوم‘‘: کچھ تلخ حقائق – عبید انور شاہ

by قندیل

ممکن ہے کہ دارالعلوم دیوبند لوگوں کے لیے محض ایک مدرسہ، ایک تعلیم گاہ اور ایک مشہور دینی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہو، ہمارے لیے یہ عقیدت و احترام کا محور اور عشق و محبت کا مرکز ہے۔ ہماری نظر میں یہ علم و عمل اور عظمت و عزیمت کے میناروں کا تاج محل ہے. اس معدنِ فضل و کمال سے لا تعداد درِ نایاب و گوہرِ تابدار نکلے اور صفحۂ گیتی پر مسلسل چمکے۔ بقول حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ "دارالعلوم دیوبند نے علم و عمل، تقوی و للہیت کے وہ آفتاب و مہتاب پیدا کیے کہ یہ کائنات اگر ایک بار اور گردش کا ارادہ کرے تو بھی ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے”۔ بندہ کو دارالعلوم سے جو تعلقِ خاطر ہے، الفاظ اس کے بیان سے قاصر ہیں۔ اسی شدتِ محبت کی بنا پر جب کبھی دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے کوئی ایسی چیز علم میں آتی ہے، جسے ہماری ناقص رائے اور ادھوری فکر دارالعلوم کے مقام و مرتبہ کے خلاف جانتی ہے تو اس کا احساس، تکلیف، افسوس، اور اس پر ردِ عمل دوسروں کے مقابلے زیادہ اور مختلف ہوتا ہے۔ یہ بھی قسمت کا انوکھا کھیل ہے کہ ایسی چیزیں علم میں مسلسل آتی رہتی ہیں۔ دل یہ چاہتا ہے کہ ایسی ہر چیز اور ہر مسئلے کو منظر عام پر لایا جائے اور اربابِ حل و عقد کو متوجہ کیا جائے لیکن ہمیشہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ بہرحال اس تمہید کا مقصد صرف یہ سمجھانا تھا کہ آئندہ سطور میں بندہ جو لکھنے جا رہا ہے اس کی وجہ صرف اور صرف دارالعلوم دیوبند سے عشق و عقیدت ہے اور کچھ نہیں!

 

ابتدائی سطور کے ذریعے ضیاعِ وقت کے جرم کا مرتکب ہونے کے لیے معذرت و معافی چاہتے ہوئے اصل بات کی طرف لوٹتا ہوں. آج گفتگو کرنی ہے دارالعلوم دیوبند کے ترجمان "ماہنامہ دارالعلوم” کی خستہ شکستہ حالت کے بارے میں (مجھے زیرِ کلام صورتحال کا علم کئی سالوں سے ہے لیکن کئی اہم باتوں کی طرح اس پر بھی جلد کچھ نہ لکھ سکا۔ کئی دیگر امور بھی متقاضی ہیں کہ انہیں تحریراً منظر عام پر لایا جائے۔ ان شاء اللہ اُن پر بھی روشنی ڈالی جائے گی)

دارالعلوم دیوبند ایک عالمی شہرت یافتہ، عوام و خواص میں مقبول آفاقی ادارہ ہے. دنیا کا کوئی خطہ، کوئی علاقہ، کوئی سرزمین، کوئی بستی دارالعلوم کے فیض سے خالی نہیں ہے. یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ خدا کی بنائی اس دنیا میں جہاں کہیں سورج اپنی روشنی بکھیرتا ہے وہاں دارالعلوم کا نور بھی باذن الہی پھیلتا ہے. شہرت، مقبولیت، محبوبیت میں عدیمِ النظیر اس ادارہ کے علمی، فکری ترجمان کی رسائی کہاں تک اور کتنے لوگوں تک ہونی چاہیے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے! لیکن آپ جو بھی اندازہ لگا لیں، آپ کا ہر اندازہ غلط ثابت ہوگا، کتنا ہی ظن و تخمین سے کام لے لیں، حقیقت کے قریب بھی آپ نہ پہنچ سکیں گے! کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ دارالعلوم جیسے ادارے سے شائع ہونے والے ماہنامہ کی تعداد فقط 700 ہے! جی ہاں، صرف اور صرف 700! یہ اس ادارے کے ترجمان رسالہ کی بات ہو رہی ہے جہاں سے تعلیم (فراغت) حاصل کرنے والے اور جس کے محبین، معتقدین، منتسبین، مستفیدین دنیا کے کونے کونے میں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں. میرا ماننا ہے کہ اگر ذرا سی توجہ اس رسالہ کے حلقۂ قارئین کو وسیع کرنے کی جانب ہوتی تو بآسانی 15-20 ہزار لوگوں تک تو یہ ضرور پہنچتا، لیکن یہ ایک ہزار کا عدد بھی پار نہیں کر پاتا! ممکنہ اور موجودہ اعداد و شمار کا یہ تضاد کس بات کی علامت ہے؟ اور اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟؟

 

سب سے بڑا مسئلہ ترجیحات میں بے اصولی و عدمِ توازن کا ہے! رسالہ کی ترقی کے بارے میں غور و فکر کا مرحلہ تو بعد کا ہے، اس کی اہمیت، ضرورت، افادیت کا احساس و ادراک ہی سرے سے نہیں ہے۔ رسالے کے مشمولات میں تنوع، جدت، عصری معنویت، عوام و خواص سب کی رعایت کرتے ہوئے مضامین کے انتخاب و ترتیب وغیرہ کا پہلو بھی بعد کا ہے، بنیادی مسئلہ اور مرکزی پہلو یہ ہے کہ رسالہ ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے! میں اپنی معلومات کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ رسالہ کی کم تعداد میں طباعت، کم ترین مقبولیت پر شوری میں کبھی کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوتی۔ نہ یہ چیز ایجنڈے میں شامل ہوتی ہے، نہ اس بارے میں کوئی سوال کرتا یا دلچسپی لیتا ہے۔ شوری کے پیش نظر تعلیمی، تصنیفی، طباعتی امور سے زیادہ عمارتوں کی تعمیر، طلبہ کی تکثیر، عہدوں کی تقسیم جیسے امور رہتے ہیں۔ بجٹ کا اکثر حصہ عمارتوں کی نذر ہوتا ہے اور پھر اس میں عجائب کا ظہور ہوتا ہے(اس کی تفصیل پھر کسی موقع پر)
ماہنامہ کو کون پوچھتا اور کون اس میں دلچسپی لیتا ہے؟ ادارہ کے ترجمان رسالے کی حالت زار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود دارالعلوم کے طلبہ کی اکثریت اس رسالے کے وجود تک سے بے خبر ہے!

ایک سادہ سا حساب سمجھیے… دارالعلوم دیوبند کے دورۂ حدیث سے اس وقت 1500 سے زائد طلبہ ہر سال فارغ ہو رہے ہیں۔ ماہنامہ دارالعلوم کی سالانہ قیمت 300/- روپے ہے۔ رجسٹرڈ ڈاک سے صرف 540/- روپے میں یہ رسالہ گھروں تک پہنچ سکتا ہے. اگر صرف دورہ حدیث کے طلبہ کی نصف تعداد اس رسالہ کی مستقل خریدار بن جائے تو ہر سال 700-800 خریداروں کا اضافہ ہوتا رہے گا. 540/- روپے کوئی ایسی رقم نہیں جسے سال میں ایک بار خرچ کرنے پر کسی کو بھی کوئی بار اور اشکال ہو! لیکن مسئلہ وہی ہے کہ توجہ ہی نہیں ہے! یہ چیز ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے!طلبہ کو اس کے لیے آمادہ کیوں کیا جائے؟ کیوں ان کی ذہن سازی کی جائے؟ مادرِ علمی کے ترجمان رسالہ سے وابستگی کی اہمیت اور ضرورت انہیں کیوں سمجھائی جائے؟ پھر طلبہ رسالہ سے جڑیں تو کن بنیادوں پر؟ رسالہ سے ان کو دلچسپی ہو تو آخر کیوں؟ اس کے علمی، فکری، اصلاحی پہلو کی بنا پر یا اپنے جذبات، عقیدت اور ادارتی ضرورت کے ادراک کی بنا پر؟ ان کے فائدہ کی کیا چیز رسالہ میں شامل ہے؟ اور اس کی قراءت سے کیا فوائد انہیں حاصل ہو سکتے ہیں؟ سامنے سوالوں کا ایسا دلدل ہے جسے پار کرنا ناممکن ہے. یہ ایک بہت آسان، موٹی سی مثال ہے. رسالہ کی ترویج کے ہزار طریقے اور بہت سے ذریعے ہوتے ہیں، یہ پہلو ہماری گفتگو کے دائرے میں نہیں آتا، اس لیے بس ایک مثال پر اکتفا کیا ہے۔

 

اگر شوریٰ اور اربابِ اقتدار کو رسالہ سے کسی درجہ دلچسپی ہوتی تو ما تحت حضرات بھی دلچسپی لینے پر مجبور ہوتے لیکن جب اوپر ہی سے عدمِ توجہ کا سلسلہ قائم ہو تو نیچے کے افراد چار و ناچار اس سلسلہ (زنجیر) میں جکڑ جاتے اور عملاً بے دست و پا ہو کر رہ جاتے ہیں!! اس لیے ہمارا شکوہ بھی اوپر والوں ہی سے ہے اور انہیں کو اصل متوجہ کرنا مقصود ہے۔ بعض "مخلصین” اس قلیل تعداد کا ٹھیکرا شاید رسائل و جرائد کے بارے میں عام ہو رہی بے رغبتی اور ڈجیٹل شمارے کے سر پھوڑیں۔ اس جیسے "اعذار” کے مدِ نظر ہی ہم نے ممکنہ تعداد 15-20 ہزار کے درمیان لکھی ہے، ورنہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے!

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like