Home مباحثہ ملّت کی دوآنکھیں:دیوبند اور علی گڑھ

ملّت کی دوآنکھیں:دیوبند اور علی گڑھ

by قندیل

مولانا ندیم الواجدی

ان دنوں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سیاسی ریشہ دوانیوں کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے، یوں تو اس یونی ورسٹی کا تاریخی کردار فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے لیکن جب سے مرکز اور اترپردیش میں بی جے پی سراقتدار آئی ہے فرقہ پرست طاقتیں اس کے خلاف کچھ زیادہ ہی سر گرم عمل ہوگئی ہیں، تازہ واقعہ ۲/ مئی کو اس وقت پیش آیا جب یونی ورسٹی کی طلبہ یونین؛ سابق نائب صدر جمہوریۂ ہند جناب محمد حامد انصاری کو اپنی تاحیات رکنیت سے نوازنے جارہی تھی، وہ پروگرام میں شرکت کے لئے علی گڑھ پہنچ چکے تھے اور یونی ورسٹی کے مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے تھے کہ اچانک ہندو یووا وا ہنی کے کچھ کارکن اپنے مخصوص زعفرانی رنگ کے لباس میں نعرے لگاتے ہوئے باب سر سید پر پہنچ گئے، ان کے ساتھ پولیس کے جوان بھی تھے، یہ کارکن سخت اشتعال میں تھے، ان کی زبان پر جے شری رام کے نعرے تھے، وہ چیخ چیخ کر یہ بھی کہہ رہے تھے کہ بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہے، ان کا مطالبہ تھا کہ طلبہ یونین کے دفتر میں پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی جو تصویر لگی ہوئی ہے اس کو ہٹایا جائے کیوں کہ وہ ملک کی تقسیم کے ذمہ دار ہیں، ہم ان کو اپنے ملک میں کوئی عزت واحترام نہیں دے سکتے، خبریں یہ بھی ہیں کہ اس اشتعال انگیز واقعے سے چند روز پہلے علی گڑھ پارلیمانی حلقے کے بی جے پی رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم نے وائس چانسلر کو خط لکھ کر یہ تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، ابھی یہ خط یونی ورسٹی کے ذمہ داروں کو ملا بھی نہیں تھا کہ یووا واہنی کے کارکنوں نے باب سر سید پر پہنچ کر ہنگامہ شروع کردیا، اسی اثناء میں یونین کے ذمہ دار اور دوسرے طلبہ بھی وہاں پہنچ گئے، پہلے زبانی توتو میں ہوئی، جو بعد میں دھکا مکی میں تبدیل ہوگئی، پولیس نے حالت کی نزاکت کو نہیں سمجھا، اگر پولیس کے جوان ان کارکنوں کو جن کی تعداد تیس سے زیادہ نہیں تھی وہاں سے بھگا دیتی تو کچھ بھی نہ ہوتا، اشتعال انگیز نعرے سن کر طلبہ کا بھاری ہجوم باب سر سید پر جمع ہوگیا، یہ لوگ بھی نعرے لگانے لگے، پولیس نے اپنا آپا کھو دیا، اور طلبہ پر لاٹھیاں برسانی شروع کردیں جس سے کئی طلبہ شدید طور پر زخمی ہوگئے، اس وقت سے آج کی تاریخ تک طلبہ دھڑنے پر بیٹھے ہوئے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ ہندو یوا واہنی کے کارکنوں کے خلاف کاروائی کی جائے، پولیس کے جن جوانوں نے بے قصور اور نہتے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے ان کو برخاست کیا جائے، ابھی تک طلبہ کے مطالبات پر حکومت کا کوئی ردّ عمل سامنے نہیں آیا ، ایسا لگتا ہے کہ حکومت تشدد پسندوں کے خلاف کوئی کا روائی نہیں کرے گی، اور طلبہ ہی کو ہزیمت اٹھانی پڑے گی، یونی ورسٹی میں اس وقت خوف ودہشت اور غم وغصے کا ماحول ہے، تعلیمی نظام درہم برہم ہوچکا ہے، امتحانات ملتوی کردئے گئے ہیں، پورا ملک تصویر حیرت بنا یہ منظر دیکھ رہا ہے۔
تصویر کا تنازعہ اتنا بڑا نہیں ہے جتنا بڑا بنا کر اسے پیش کیا جارہا ہے، یہ تصویر یونین کے دفتر میں اسّی سال سے لگی ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی دوسری تصویریں بھی ہیں جن میں مہاتما گاندھی کی بھی ہے، جواہر لال نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کی بھی ہے، امبیڈکر کی بھی ہے، جمہوریہ ہند کے کئی سابق صدور کی تصویریں بھی یہاں آویزاں ہیں اور ان میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے، در اصل یونین کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ملک وبیرون ملک کی نام ور شخصیات کو اپنی لائف ممبر شپ سے نوازتی ہے، اور ان کی تصویریں اپنے دفتر میں یادگار کے طور پر لگا دیتی ہے، ۲/ مئی کو محمد حامد انصاری کو یہ اعزاز ملنے والا تھا کہ بھگوا شرپسندوں کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے یہ پورا پروگرام درہم برہم ہوگیا، ۱۹۳۸ء میں محمد علی جناح کو یونین کی لائف ممبر شپ دی گئی تھی، اس وقت سے یہ تصویر یہاں لگی ہوئی ہے، آج تک ملک کے کسی حکمراں کو یا کسی سیاسی اور سماجی شخصیت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوا، یہاں تک کہ اٹل بہاری باجپئی کی حکومت میں بھی یہ موضوع زیر بحث نہیں آیا، خود ستیش گوتم چار سال سے ممبر پارلیمنٹ ہیں، اور اس حیثیت سے وہ یونی ورسٹی کورٹ کے رکن بھی ہیں، انھوں نے چار سال کے دوران کبھی یہ قضیہ نہیں چھیڑا اور نہ کبھی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کیا،اسّی سال کی طویل خاموشی کے بعد اچانک ہی اس پر بحث شروع ہوگئی کہ یہ تصویر وہاں رہنی چاہئے یا نہیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ ملک کا سنجیدہ طبقہ اس کے حق میں نہیں ہے کہ یہ تصویر ہٹائی جائے، وہ اسے تاریخی ورثہ قرار دیتا ہے، اور یہ مانتا ہے کہ اس مطالبے کے پس پشت ہندو مسلم منافرت کو ہوا دے کر کرناٹک وغیرہ کے اسمبلی انتخابات کی فضا اپنے حق میں کرنے کا جذبہ کارفرما ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بی جے پی ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات ہر حال میں جیتنا چاہتی ہے، فی الحال اس کے پاس نہ ایسی کوئی کارکردگی ہے جس کو لے کر وہ عوام کو اپنا منہ دکھلاسکے اور نہ ایسا کوئی لائحہ عمل ہے جسے لے کر وہ اگلے پانچ سال کے لئے پھر عوام کے روبرو ہو، صرف فرقہ واریت کی بنیاد پر ہی دوٹوں کی تقسیم اسے جیت دلا سکتی ہے، اسی لئے یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ محمد علی جناح کی تصویر پارلیمنٹ میں بھی لگی ہوئی ہے، وہاں سے ہٹانے کا مطالبہ کسی نے نہیں کیا، اس سے بھی زیادہ پرلطف بات یہ ہے کہ بمبئی کی سرزمین پر محمد علی جناح کی خاندانی یادگار جناح ہاؤس موجود ہے، آج تک اس کو مسمار کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہوا، مسمار تو خیر کیا کرتے اس کا نام تک تبدیل نہیں کرسکے، اصل بات یہ ہے کہ بھگوا طاقتیں چاہتی ہیں کہ مسلمان اسی طرح کے مسئلوں میں الجھے رہیں، وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کی یہ دانش گاہ جس نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، تنازع کا شکار ہوجائے، آج یہ لوگ یونین ہال سے محمد علی جناح کی تصویر ہٹانے کا مطالبہ کررہی ہیں، کل ان کا مطالبہ ہوگا کہ اس کے نام سے مسلم ہٹا دیا جائے اور اس کا جو تاریخی کردار ہے اسے قصۂ پارینہ بنا دیا جائے، اگریہ لوگ محمد علی جناح کے اتنے ہی بڑے دشمن ہیں اور خود اتنے ہی بڑے محب وطن ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ پہلے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال سے ان کی تصویر ہٹوائیں، طلبہ یونین نے یہ بات صاف کردی ہے کہ وہ بھگوا شرپسندوں کے کہنے سے یہ تصویر نہیں ہٹائیں گے، ہاں اگر مرکزی حکومت تحریری طور پر ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے تو ہم یہ تصویر یونین ہال سے ہٹا دیں گے، اگر واقعی حکومت کی خواہش اور منشاء یہی ہے تو اسے لکھ کر بھیج دینا چاہئے، اور اگر حکومت اسے پسند نہیں کرتی تو سوال یہ ہے کہ اس نے شرپسندوں کو بے لگام کیوں چھوڑ رکھا ہے، وہ اپنے ممبر پارلیمنٹ سے کیوں نہیں پوچھتی کہ اس نے یہ راگ کیوں الاپا ہے۔
محمد علی جناح بانی پاکستان ضرور کہلاتے ہیں مگر تنہا ان کو تقسیم ملک کا ذمہ دار ٹھہرانا تاریخی حقائق سے روگردانی کرنا ہے، ان کے حالات زندگی کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سیاست میں ان کا داخلہ ایک نیشنلسٹ مسلمان کی حیثیت سے ہوا، ۱۸۸۶ء میں لندن سے قانون کی ڈگری لے کر وہ ہندوستان واپس آئے، چند سال وکالت کے شعبے سے وابستہ رہنے کے بعد انھوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا، ۱۹۰۶ء میں انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ ہوگئے، سات سال تک کانگریس سے وابستہ رہنے کے بعد وہ ۱۹۱۳ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوگئے، اس وقت تک جناح کے ذہن میں علیحدہ مسلم ریاست کا تصوربھی نہیں تھا، دونوں جماعتیں ملک کی آزادی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے آگے بڑھ رہی تھیں، ۱۹۱۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان جو چودہ نکاتی معاہدہ ہوا اور جسے میثاق لکھنؤ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کی تیاری میں محمد علی جناح نے سرگرم کردار ادا کیا جس سے متأثر ہوکر سروجنی نائیڈو جیسی ممتاز ہستی نے ان کو ہندو مسلم اتحاد کا نقیب قرار دیا تھا، اس کے بعد کچھ ایسے حالات پیدا کئے گئے جس سے مسلم لیگ کے لوگوں میں علیحدہ ریاست کا تصور پیدا ہوا، یہ حالات کیوں پیدا ہوئے اور کس نے پیدا کئے اب ان سوالوں کے جواب کوئی خفیہ بات نہیں رہی، لندن کے نیشنل میوزیم میں اس وقت کی تحریری دستاویزات اور لیڈروں کی باہمی مکاتبت پر مشتمل ہزاروں صفحات موجود ہیں جن کو پڑھ کر وہ کردار آسانی کے ساتھ متعین کئے جاسکتے ہیں جنھوں نے ملک کو تقسیم کے راستے پر ڈالا، اس لئے تنہا محمد علی جناح کو تقسیم کا ذمہ دار قرار دینا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے، بل کہ تاریخی حالات وواقعات بتلاتے ہیں کہ نہرو اور پٹیل جیسے کانگریس کے بڑے لیڈر بھی ملک کی تقسیم چاہتے تھے، یہ بات الگ ہے کہ مولانا ابو الکلام آزادؒ، مولانا حسین احمد مدنیؒ، مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، اور مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ جیسے نیشنلسٹ مسلمان لیڈر کسی بھی حالت میں یہ نہیں چاہتے تھے کہ ملک تقسیم ہو، مگر ملک تقسیم ہوا، پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس تقسیم کو قبول کیا گیا، پاکستان بننے پر وہاں کی قوم کو مبارک باد بھی پیش کی گئی، پاکستان بننے کے ایک سال بعد ۱۹۴۸ء میں محمد علی جناح وفات پاگئے، اس موقع پر بھی ہندوستان کی پارلیمنٹ نے ان کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا اور ملک کی آزادی کے لئے ان کی جدوجہد کی تعریف کی ، یہ ایک فراخدلانہ رویّہ تھا، اور بڑی قوموں سے ایسے ہی فراخدلانہ رویّوں کی امید کی جاتی ہے، حالیہ واقعات ہمارے موجودہ حکمرانوں کی تنگ نظری اور تعصب کی دین ہیں جن کی مذمت کی جانی چاہئے اور عالمی سطح پر اس کی مذمت ہوبھی رہی ہے، اس موقع پر جو لوگ تصویر ہٹانے کی مشورہ دے رہے ہیں، ہوسکتا ہے وہ اپنے مشورے میں مخلص ہوں لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ اس طرح کے مشورے دئے جانے چاہئیں، کیوںکہ اس مطالبے پر تصویر ہٹانے کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم محمد علی جناح کو تقسیم ہند کا واحد ذمہ دار مانتے ہیں، اس کے ساتھ ہی ہم شرپسندوں کے سامنے ہتھیار بھی ڈالیں گے جن کے مطالبوں کی ایک لمبی فہرست ہے، آخر ہم ان کے کس کس مطالبے پر کہاں کہاں اور کب کب سر تسلیم خم کریں گے۔
ضرورت ہے کہ اس وقت علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے طلبہ لیڈروں کی بھر پور حمایت کی جائے کیوں کہ وہ ایک صحیح موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، ہمیں امید تھی کہ دار العلوم دیوبند سے بھی تائیدی بیان جاری ہوگا، ہم یہ بھی امید کررہے تھے کہ دیوبند سے کوئی وفد علی گڑھ پہنچ کر طلبہ کی اشک سوئی کرے گا اور ان کو اپنی حمایت کا یقین دلائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا، کبھی کسی موقع پر سر سیدؒ نے ہندو مسلمانوں کے ملک کے چہرے پر روشن دو آنکھوں سے تعبیر کیا تھا آج میں ان کی یہ تعبیر مستعار لیتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ دیوبند اور علی گڑھ ملت کی دو نگہبان آنکھیں ہیں یہ دونوں آنکھیں ملت کے چہرے پر سلامت رہیں اس کی توقع ہر وہ شخص کرتا ہے جسے ملت کی آبرو عزیز ہے، دیوبند اور علی گڑھ کے رشتے بہت پرانے ہیں، دار العلوم دیوبند سرسیدؒ کے مدرسۃ العلوم سے دس سال قبل وجود میں آیا، لیکن دار العلوم دیوبند نے کبھی اسے اپنے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھا، اسی لئے ہمارے بزرگوں نے کبھی اس کی مخالفت نہیں کی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سرسیدؒ کے جذبۂ خیر خواہیِ ملتِ اسلامیہ کے دل سے قائل تھے جیسا کہ ’’تصفیۃ العقائد‘‘ سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے، ہمارے علماء کی کوششوں سے ہی وہاں شعبۂ دینیات قائم ہوا اور سر سیدؒ کے مطالبے پر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویـؒ کے داماد مولانا عبد اللہ انصاریؒ کو اس شعبے کو نگراں واستاذ کی حیثیت سے روانہ کیا گیا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے انتقال پر سر سید احمد خاںؒ نے اپنے رسالے تہذیب الاخلاق میں جو طویل تعزیتی مضمون لکھا تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سر سیدؒ کو حضرت نانوتویؒـ سے گہری عقیدت تھی، حضرت شیخ الہندؒ ۱۹۲۰ء میں مالٹا سے رہا ہوکر ہندوستان واپس تشریف لائے، اس وقت پورا ملک خلافت کے مسئلے پر متحد تھا، حضرت شیخ الہندؒ کے فتوی ترکِ موالات نے اس مسئلے کو نیا رنگ اور نیا آہنگ دیا، علی گڑھ کے طلبہ نے اس فتوے پر صدق دلی سے عمل کیا، بہت سے طلبہ علی گڑھ کالج سے نکل کر جامعہ ملیہ کے طالب علم بن گئے جس کی بنیاد حضرت شیخ الہندؒ نے علی گڑھ میں رکھی تھی، اس موقع پر حضرت شیخ الہندؒنے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی جامع مسجد میں منعقد جلسۂ تأسیس میں ایک وقیع خطبہ بھی ارشاد فرمایا جو علی گڑھ اور دیوبند کے تعلقات کی اساس اور بنیاد ہے۔
اس پس منظر میں ہماری تائید کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے، ویسے بھی ملک میں جو تشویشناک حالات ہیں، اور جن کی سمّیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ان کا مقابلہ ہم سب کو مل کر کرنا ہے، الحمد للہ اس ملک میں دو تعلیمی تحریکیں ڈیڑھ صدی سے لگاتار اور مسلسل چل رہی ہیں اور معاشرے پر اپنے گہرے اثرات مرتب کررہی ہیں، یہ دونوں اگرچہ دو متوازی تحریکیں ہیں لیکن دونوں کا مقصد مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کا خاتمہ ہے، ضرورت ہے کہ اس مقصد کو باہمی تعاون میں بھی تبدیل کیا جائے، آج جب کہ ملک کے مسلمان مسلمانوں کی واحد تاریخی دانش گاہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کررہے ہیں دیوبند کی خاموشی بڑی گراں گزر رہی ہے۔
[email protected]

You may also like

Leave a Comment