سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس پورے احتجاجی تحریک میں شریک رہنے اور قریب سے بہت ساری چیزوں کو دیکھنے کے بعد جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے وہیں کچھ چیزوں کا احساس بھی بہت شدید ہے ۔اسی سلسلے کی چند باتیں پیش کی جارہی ہیں۔
اول ۔ اپنا ایک میڈیا ہائوس ہوتا جس کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتے، کچھ نہیں تو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب ہی دے س پاتے ۔
دوم ۔ ہمارے پاس مین پاور کی کمی نہیں ہے لیکن اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام ملی تنظیمیں بہتر انداز میں کر سکتی ہیں ، انھیں اس پر ضرورتوجہ دینی چاہئے ۔
سوم ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ برادران وطن سے تعلقات مزید بہتر بنائے جائیں، اس کو ترجیحی بنیادوں پر اپنے ایجنڈہ میں شامل کیا جائے ، ان کو سمجھانے کی سخت ضرورت ہے اگر آپ ان کو بتاتے ہیں ، موقع دیتے ہیں تو وہ سمجھتے بھی ہیں اور آپ سے ہمدردی کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور بوقت ضرورت آپ کا ہاتھ پائوں بنتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں مگر بہت زیادہ بھی نہیں ہے ۔ پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے اور اس ایشو پر دہلی کے مختلف مسلم اور غیر مسلم علاقوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ پہنچنے، لوگوں سے ملاقات کرنے اور پورے معاملے کو انھیں سمجھاتے ہوئے اس چیز کو میں نے بہت شدت سے محسوس کیا ۔
چہارم ۔ میں یہ بات بار بار کہتا ہوں اور ایک مرتبہ پھر دہرا رہا ہوں ملی تنظیمیں نوجوانوں کو تربیت دیں ، انھیں مواقع دیں ، ان کی عزت کریں وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں ، ہفتے ہفتے ان کی مشق و ممارست کے لئے پروگرام ترتیب دیں ، جہاں وہ ملی مسائل کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل کو بھی سمجھیں اور اپنی بات سمجھا سکیں ۔
پنجم ۔ملی تنظیمیں تعلیم کے لیے جو اسکالر شپ دیتی ہیں، وہ ایسی کوئی سبیل بھی پیدا کریں کہ ان میں برادران وطن کے لئے بھی ایک حصہ مختص کیا جاسکے ، یہ تالیف قلب کا ایک ذریعہ بھی ہوگا اور وہ آپ کے لئے کام کریں گے خصوصا میڈیا اور ماس کام کے طلباء کے لئے اس طرح کے اسکالر شپ کی سخت ضرورت ہے ، ہم نے اس احتجاج میں دیکھا کہ ہمارے ہندو دوستوں نے اس ایشو کو زندہ کرنے میں بہت مدد کی ، جامعہ میں پولس نے جو کچھ کیا اس کو دنیا کے سامنے پہنچانے میں ان دوستوں کا بڑا تعاون ہے ، ہم نے ایسے دو سو دوستوں کا ایک گروپ تشکیل دیا تھا جس میں زیادہ تر دوست غیر مسلم تھے اور جو دنیا بھر کے میڈیا ہاوس سے جڑے ہوئے ہیں انھوں نے خوب لکھا اور جامعہ کی حمایت میں لکھا ، جب کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس سے بھیانک حادثہ پیش آیا لیکن اسے میڈیا میں اس طرح جگہ نہیں مل سکی ۔
ششم. جامعہ اور اے ایم یو کے طرز پر خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ہندووں کی مخلوط تعلیم کا بھی انتظام خود مسلم تنظیموں کو کرنا چاہئے، اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ نہ صرف کمپٹیشن کا ماحول بنے گا بلکہ ایک دوسرے کو سمجھیں گے بھی.
ہفتم۔ ہر تنظیم اپنا آئی ٹی سیل بنائے اور اس میں قابل افراد کو جگہ دیں تاکہ وہ اچھی طرح مسائل کو سمجھ کر ان کے تدارک کو پروڈیوس کر سکیں اور غلط چیزوں کا جواب دے سکیں ، اس سلسلے میں جامعہ کو آر ڈینیشن کمیٹی اور جے این یو کے کچھ طلباء نے این آر سی اور سی اے اے ایشو پر اپنے محددود وسائل کے باوجود جو کچھ بھی کیا وہ قابل تعریف ہے ، لیکن بغیر وسائل اور پلان کے یہ کام نہیں ہو سکتا۔
ہشتم. الگ الگ میدانوں میں کام کرنے کے لیے مخلص ٹیم تیار کرنے پر زور دیا جائے، جگہ جگہ رائٹرز کلب بنائے جائیں اور نوجوان اذہان کو پروان چڑھانے اور ان کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے ان کی ہمت افزائی کی جائے، اس موقع پر ہم اپنی ایک چھوٹی سی کوشش کا ذکر کرنا چاہیں گے،اس واقعے کے بعد رائٹرز کلب کے نام سے ہم چند دوستوں نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا تھا ،مقصد اس احتجاج سے متعلق نعروں ، ترانوں اور پوسٹر وغیرہ کی تخلیق تھا، ہم آپ کو بتا نہیں سکتے کہ یہ کس قدر مثبت تجربہ تھا اور اس گروپ میں شامل نوجوانوں نے کتنے ہزار نعرے، نظم اور چھوٹی چھوٹی چبھتی اور دل میں اتر جانے والی تخلیقات پیش کیں، کبھی اس پر الگ سے ایک مضمون رقم کروں گا، مگر اس سے واقعی اندازہ ہوا کہ اس طرز پر اگر کام کیا جائے تو مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
نہم: سیاسی اور قانونی میدان کیلئے طلبہ وطالبات اور دیگر افراد کا انتخاب اور ان کی تیاری نیز ایک ایسی ریسرچ اکیڈمی کا قیام ہو جو خاص طور سے صرف فسطائی تاریخ اور صحیح ہندستانی تاریخ کے شعبے میں تحقیقی کام کرے اور بڑے پیمانے پر اس کی نشر و اشاعت کا اہتمام ہو.
دہم. موجودہ حالات سے سبق حاصل کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی اور عالمی پیمانے پر انڈین اسٹوڈنٹس یونین کا قیام عمل میں لایاجائے، ان کی تنظیم ہو اور باضابطہ ان کے پروگرامس ہوں ـ
گزشتہ چند سالوں کے دوران ملی تنظیموں نے بلا استثنایہ ثابت کردیا ہے کہ سیاست میں ان کا شامل ہونا ملت کیلئے زہر ہے اور اگر وہ اس روش سے باز نہ آئیں تو محض اس احتجاج میں ہی نہیں وہ ہر اعتبار سے مسترد کردی جائیں گی۔ لہٰذا اب انہیں چاہئے کہ نان ایشوز میں ملت کی توانائی اور وسائل برباد کرنے اور نفاق پھیلانے کے بجائے ملت کی دنیا اور اپنی آخرت سنوارنے پر توجہ دیں کیونکہ ان نام نہاد قائدین کی عمریں ۶۰ سے اوپر ہوچکی ہیں اور نہیں پتہ ان میں سے کس کی اگلی منزل قبر ہو۔ان باتوں کو اس لیے سامنے رکھا گیا ہے کہ ان پر درد مندان ملت کو ہی توجہ دینی ہوگی ۔وہ توجہ دیں اور بہتر عملی قدم اٹھائیں۔
مسلمانوں سے کچھ باتیں ! محمد علم اللہ
previous post