Home تجزیہ مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم اقلیت کی حصے داری !-پروفیسر مشتاق احمد

مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم اقلیت کی حصے داری !-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ ملک میں جس برق رفتاری سے آبادی بڑھ رہی ہے اس کے تناسب میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں ،نتیجہ ہے کہ دن بہ دن ملک میں بیروزگاری کا گراف بلند ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان طبقہ بیروزگاری کی وجہ سے مختلف طرح کے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتا جا رہاہے ۔ظاہر ہے کہ جب تک روزگار کے مواقع میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک یہ بیروزگاری کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں میں دن بہ دن روزگار کم ہوتے جا رہے ہیں ۔ بالخصوص سرکاری محکموں میں گذشتہ ایک دہائی کا ہی سرسری جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ دوبڑے محکموں مثلاً ریلوے اور مختلف سرکاری دفاتر کے لیے اسٹاف سلیکشن کمیشن کے ذریعہ جو اسامیاں آتی تھیں ان میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ ریلوے جیسے بڑے محکمے جس میں لاکھوں کی تعداد میں اسامیاں آتی تھیں وہ اب ہزاروں میں محدود ہو کر رہ گئی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ بیشتر سرکاری محکمے نجی ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور نجی کمپنیوں کی ترجیحات کچھ اور ہی ہوتی ہیں اس لیے اب اعلیٰ عہدوں کے لیے مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہو کر کامیاب ہونا ہی ایک واحد راستہ ہے جس سے نوجوان طبقہ اپنے روشن مستقبل کو یقینی بنا سکتا ہے۔واضح ہو کہ ملک میں یوپی ایس سی کے ذریعہ مختلف شعبوں کے لیے قومی مقابلہ جاتی امتحانات کی بنیاد پر امیدواروں کو منتخب کیا جاتا ہے ۔لیکن سب سے اہم امتحان آئی اے ایس ، آئی پی ایس ، آئی ایف ایس اور الائٹ سروسز کا ہے۔اس لیے ملک کے لاکھوں نوجوان اس امتحان میں شامل ہوتے ہیں اور اپنی علمی صلاحیت وذہانت کی بنیاد پر کامیاب بھی ہوتے ہیں۔چوں کہ ہر سال یو پی ایس سی کے ذریعہ مذکورہ امتحانات تین سطحی مقابلہ جاتی امتحانات کی بنیاد پر اختتام پذیر ہوتے ہیں اور اس قومی امتحان میں سیٹیں بھی اتنی کم ہوتی ہیں کہ مقابلہ مزید سخت ہو جاتا ہے ۔پھر ایک بڑی مشکل یہ بھی ہوتی ہے کہ اس قومی امتحان میں بھی ریزرویشن پالیسی کا نفاذ صد فیصد لازمی ہے اس لیے دیگر امیدواروں کے مقابلے مسلم اقلیت طبقے کے امیدواروں کے لیے یہ امتحان مزید سخت ہو جاتاہے کیوں کہ مسلم اقلیت طبقے کے لیے ایس سی اور ایس ٹی زمرے کی سیٹیں نہیں ہوتی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس قومی مقابلہ جاتی امتحان میں ملک کے مختلف حصوں کے طلبا شامل ہوتے ہیں اوریہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ آزادی کے 77برسوں کے بعد بھی ملک میں یکساں تعلیمی نظام قائم نہیں ہوا ہے ۔نتیجہ ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے کئی ریاستیں ایسی ہیں جہاں کے امیدواروں کی حصہ داری بہت کم ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو نتائج میں ان کی حصہ داری مایوس کن رہتی ہے اور اس کی واحد وجہ معیارِ تعلیم ہے ۔ جن ریاستوں میں معیاری تعلیم کا ماحول ہے وہاں کے طلبا اسکولی تعلیم سے ہی ذہنی طورپر خود کو اس مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے تیار کرتے ہیں اور انہیں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی اس طرح کا ماحول ملتا ہے جس کی بنیاد پر وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں جب کہ جن ریاستوں میں تعلیمی معیار پست ہے اور اسکول وکالج میں اس طرح کی ذہن سازی کا ماحول نہیں ہے وہاں کے امیدواروں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ۔جہاں تک مسلم اقلیت طبقے کے امیدواروں کی حصہ داری کا سوال ہے تو وہ بھی آبادی کے تناسب میں حوصلہ بخش نہیں ہے۔ہر سال یو پی ایس سی کے نتائج آنے کے بعد اس موضوع پر بحث ومباحثہ تو شروع ہوتا ہے کہ اس سال اتنے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ۔ کوئی اپنی دلیل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ نتائج فخریہ ہے اور کوئی مایوس کن قرار دیتا ہے۔ دراصل یہ دونوں رویہ زمینی حقیقت سے کوسوں دور ہوتا ہے کیوں کہ یہ امتحان دیگر امتحانات کے مقابلے سخت ترین امتحان ہے اور یہ ذکر پہلے ہی آچکا کہ چوں کہ سیٹیں کم ہوتی ہیں اور ریزرویشن پالیسی کا صد فیصد نفاذ لازمی ہوتا ہے اس لیے مسلم امیدواروں کے لیے یہ مقابلہ مزید سخت ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں مسلم طبقے میں اس مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں قدرے بیداری آئی ہے اور کئی یونیورسٹیوں اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ اقلیتی طلبا کے لیے کوچنگ کی سہولیت فراہم کی گئی ہے جس کی بنیاد پر سال بہ سال اقلیت امیدواروں کی کامیابی کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ مگر آبادی کے تناسب میں دیکھا جائے تو جتنی تعداد میں امیدواروں کی شمولیت اس امتحان میں ہونی چاہیے اتنی نہیں ہو پا رہی ہے۔اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ یو پی ایس سی کے اس تین سطحی مقابلہ جاتی امتحانات میں مرحلہ وار نتائج کی بنیاد پر امیدواروں کو جگہیں ملتی ہیں ۔ مثلاً پہلے مرحلہ میں پی ٹی امتحان ہوتا ہے جس میں لاکھوں طلبا شامل ہوتے ہیں اور جب پی ٹی امتحان پاس کرتے ہیں تو پھر مین امتحان میں داخل ہوتے ہیں اور آخری مرحلہ انٹرویو کا ہوتا ہے جس میں کامیابی کے بعد ہی مختلف درجات کے کیڈر کے لیے امیدوار منتخب کیے جاتے ہیں۔ چوں کہ پہلے مرحلہ پی ٹی امتحان میں ہی مسلم اقلیت طبقے کی حصہ داری کم ہوتی ہے اس لیے وہ آخری مرحلے تک پہنچتے پہنچتے سو دو سو تک محدو د ہو جاتے ہیں۔اگر نتائج کو دیکھیں گے تو اندازہ ہو جائے گا کہ دوسرے طبقے کے امیدوار کی بہ نسبت مسلم اقلیت طبقہ کے امیدوارانٹرویو کے مرحلے تک بہت کم پہنچے ہیں ۔اس لیے اگر اس قومی مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم طبقہ اپنے کامیاب امیدواروں کی شرح میں اضافہ چاہتا ہے تو سب سے پہلے یہ بیداری مہم لازمی ہے کہ یو پی ایس سی کے پہلے مرحلے کے پی ٹی امتحان میں کثیر تعداد میں امیدوار شامل ہوں ۔یہ خوش آئند بات ہے کہ حالیہ برسوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی،اے ایم یو علی گڑھ، زکوٰۃ فائونڈیشن دہلی، جامعہ ہمدرد دہلی ، حج بھون پٹنہ ، حج بھون ممبئی اور کرناٹک ، مانو حیدر آباد کے علاوہ کئی رضا کار تنظیموں نے مقامی سطح پر اس امتحان کے لیے کوچنگ کا اہتمام کیا ہے۔ بالخصوص جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی کوچنگ کی وجہ سے اقلیت طبقے کے امیدواروں کی شرح میں مزید اضافہ ہواہے ۔بہار میں سابق چیف سکریٹری جناب عامر سبحانی صاحب کی دور اندیشی اور اقلیت نوازی کے جذبے کی وجہ سے حج بھون پٹنہ میں قائم کوچنگ برائے مسابقاتی امتحانات کا قیام بھی ایک قابلِ تحسین کوشش ہے اور یہاں کے نتائج بھی قابلِ ستائش ہیں کہ حج بھون کی کوچنگ کی وجہ سے بہار میں مقابلہ جاتی امتحان کی ماحول سازی کو استحکام ملاہے۔اس سال کے نتائج میں بھی ذو فشاں حق کے علاوہ کئی دیگر امیدواروں کو بھی کامیابی ملی ہے۔ریاستی سطح کے بہار پبلک سروس کمیشن میں تو حج بھون کوچنگ سے استفادہ کرنے والے کامیاب امیدواروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔البتہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مقابلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے کوچنگ مرکز کا نتیجہ مایوس کن ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب تک یونیورسیٹی سطح پر اس مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے ماحول تیار نہیں کیا جائے گا اس وقت تک وہاں کے کوچنگ میں امیدواروں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔ حال ہی میں میں نے علی گڑھ کے اس کوچنگ مرکز کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے ڈائرکٹر سے اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تھی ۔ ڈائرکٹر موصوف نے بھی افسوس ظاہر کیا کہ ہمارے یہاں جتنے طلبا زیر تعلیم ہیں اس تناسب میں اس کوچنگ کی طرف مخاطب نہیں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب اس امتحان میں شامل ہونے والو ں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک نتائج اسی طرح آتے رہیں گے۔لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ آہستہ آہستہ ہمارے کامیاب امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے ۔ اس سال کے نتائج میں بھی 50امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے وہ ہمارے لیے حوصلہ بخش ضرور ہے لیکن اگر واقعی مسلم طبقہ اپنے معاشرے کی تصویر بدلنا چاہتے ہیں اور اپنے نونہالوں کی تقدید بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے سنجیدگی سے اپنے معاشرے میں بیداری پیدا کرنی ہوگی اور اسکولی تعلیم سے ہی معیاری تعلیم کا نظم مستحکم کرنا ہوگا کہ یہ قومی مقابلہ جاتی امتحانات میں وہی طلبا کامیاب ہو سکتے ہیں جن کی تعلیمی بنیادیں مستحکم ہیں ۔اس لیے حالیہ برسوں میں ان ریاستوں کے طلبا کی تعداد مسابقاتی امتحانات میں سبقت رکھتی ہیں جہاں معیارِ تعلیم پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ریاست جموں وکشمیر میں بنیادی تعلیم کے معیاری اور مستحکم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال وہاں کے مسلم اقلیت امیدوار کامیابی کا پرچم لہرا رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ ملک کے اقلیت مسلم طبقے میں یہ بیداری ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں معیاری تعلیم پر زیادہ توجہ دیں اور دیگر غیر ضروری اور نمائشی اخراجات کو کم کرکے تعلیمی مہم پر خرچ کریں کہ ملک میں اقلیت طبقے کی شناخت اب صرف اور صرف معیاری تعلیم اور مسابقاتی امتحانات میں خاطر خواہ کامیابی کی بنیاد پر ہی مستحکم ہو سکتی ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like