بہار یونیورسٹی ، مظفرپور، بہار
نوجوان طبقہ کو کسی بھی سماج کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کے سماجی ترقی اور خوش آئند انقلاب کا سہرا ہو یا انحطاط و زوال پذیری کا دھبہ ، دونوں نوجوان طبقے ہی سے جوڑا جاتا ہے۔ جوان ہوتی عمر کے ساتھ انسان کی اندرونی تبدیلیاں قوت، حوصلہ، امنگ ، جوش ، جذبہ ، عزم اور ولولہ انسان کو ایک ایسا تند و توانا شخصیت میں بدل دیتا ہے جسے شکست لفظ سننا کسی طور پسند نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں خواہ جب کی اور جس کی بھی تاریخ اٹھا کر دیکھیں اگر کوئی مثبت انقلاب نظر آئےگا تو وہ نوجوان طبقے کی مرہون منت ہوگا۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار بھی نہیں ہو سکتا ۔ خود پیغمبر اسلام ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کمزور مومن کے مقابلے میں طاقتور مومن اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب اور بہتر ہے۔ (صحیح مسلم) لیکن، یہی نوجوان اگر بے راہ روی کا شکار ہو جائے، بزدل اور کمزور پڑ جائے، پس ہمت اور حوصلہ شکن بن جائے، جوش ، جذبہ اور امنگ سے خالی ہو کر فکری اور عملی انتشار کا شکار ہو جائے تو جس قوم میں ایسے نوجوانوں کی اکثریت ہوگی ، شکست و زوال اس کا مقدر بن جائےگی۔ بدقسمتی سے آج کا مسلم نوجوان انھیں خرابیوں کا شکار ہو گیا ہے۔موجودہ دور میں اگر نوجوانوں کا سرسری مطالعہ کیا جائے تو جو چیزیں آپ ابتدائی مرحلے ہی میں محسوس کریں گے ان میں مذہب بیزاری، اخلاق باختگی اور ذہنی اضطراب کے ساتھ بے روز گاری جیسے مسائل زیادہ پائے جاتے ہیں۔ صحیح غلط کی تمییز، اچھے برے کا فرق، بڑوں چھوٹوں کی قدر اور شرم و حیا جیسی چیزیں ان کے لیے بے معنی ہو گئی ہیں۔ نتیجتاََ پورا انسانی سماج شدید قسم کی بے چینی، بد امنی اور اضطراب کا شکار ہے۔ جس سے باہر نکلے بغیر ایک مہذب اور پر امن ترقی یافتہ سماج کا تصور ہتھیلی پر دوب اگانے کی مانند ہے۔
عددی طور پر ہم آج کے نوجوانوں کے تین بنیادی مسائل پر گفتو کرتے ہیں: 1۔ الحاد و بےدینی، 2۔ فرقہ پرستی اور ، 3۔ بے روزگاری الحاد کی بنیادی فکر یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے ہی نہیں ، یہ سارا نظام از خود چل رہا ہے۔ اس لیے کسی بھی مذہب کا ماننا اور اس کے اصولوں کا پابند بننا ایک کار عبث ہے۔ جس کا نتیجہ انسانی اضطراب کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ الحاد پسند یا الحاد سے متاثر لوگ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہو چکے ہیں۔ جب ان کے ساتھ کچھ برا ہوتا ہے یا انھیں کبھی شدید نقصان پہنچتا ہے تو وہ اپنے اندر اسے برداشت کرنے کی قوت نہیں پاتے اور ڈپریشن کے شکار ہو کر خود کشی تک آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ اندرونی طور پر اتنے بے سکون اور پریشان ہو جاتے ہیں کہ انھیں کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ آخر یہ ہوا کیسے اور اب آگے کیا ہوگا۔ اور جب قدرے راحت و ارام ہوتا ہے تو خود غرضی اور انانیت ان کا رویہ بن جاتا ہے۔ وہ اپنے علاوہ کسی سے کوئی مطلب نہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کسی کے دکھ سکھ اور ضرورتوں میں کام آنا فضول گردانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ترش رویے سے نالاں لوگ بوقت ضرورت انھیں بھی نظر انداز کر جاتے ہیں ۔ اس طرح ان الحاد پرستوں کی زندگی خود ان کے حق میں اجیرن بن جاتی ہے۔ الحاد و بے دینی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خود غرضی انسان کو مجرم اور فسادی بناتی ہے۔ چناں چہ ایسا شخص جو خود غرض ہوتا ہے اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کی تکمیل کے لیے بڑے سے بڑے جرائم اور بڑے سے بڑے فساد تک کر جانے میں دریغ نہیں کرتا۔ اس طرح انسانی معاشرہ جرم و فساد کا گہوارہ بنتا چلا جاتا ہے۔ جس سے سماج کو بچانا سب کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ الحاد سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے لازم ہے کہ خدا کے وجود پر عقلی اور نقلی یعنی سائنسی اور مذہبی ہر دو اعتبار سے بیداری لائی جائے۔ نسل انسانی کو یہ باور کرایا جائے کہ یہ کائنات از خود وجود میں نہیں آئی ہے، بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی ایک خالق ہے جس نے اسے وجود بخشا ہے اور وہی اس کے پورے نظام کو چلا رہا ہے۔ اور تمام تر کائناتی نظام اسی کے حکم کے تابع ہو کر گردش کر رہے ہیں۔ مزید برآں اس دنیا میں اگر کوئی پر امن اور اطمیمان قلبی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اسے اپنے خالق کے بنائے ہوئے اصول و قوانین کا پابند ہونا ہوگا۔ اس کے لیے باضابطہ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی زبانوں میں کتابیں اور لٹریچرس تیار کرائے جائیں ، مفت یا بقیمت عوام الناس تک پہنچائی جائے۔ شارٹ اور لانگ ویڈیوز تیار کرائے جائیں، سمپوزیم اور سیمینار کرائے جائیں۔اسلامی عقائد و فلسفہ کے اکسپرٹ سے ڈیبیٹ کرائے جائیں تاکہ مذہب کی لازمیت و ضرورت نوجوانوں پر واضح ہو سکے۔
مذہب کی لازمیت تسلیم کر لینے کے بعد دوسرا مرحلہ فرقہ پرستی سے باہر نکلنے کا ہے۔ آج کا وہ نوجوان طبقہ جو کسی نہ کسی طرح سے کسی مذہب سے جڑا ہوا بھی ہے تو فرقہ پرستی کا بری طرح شکار ہے۔ یہ فرقہ پرستی خواہ مذہب کے نام پر ہو یا مسلک و مشرب کے نام پر، سیاست و معیشت کے نام پر ہو یا ذات برادری اور علاقائیت کے نام پر ہو۔ مزید ان کا یہ جڑاؤ تصلب کی حد تک تو ٹھیک ہے، مگر یہ تشدد اور شدید ترین تشدد کے شکار ہوئے جا رہے ہیں۔ نتیجۃً آئے دن کبھی مذہب کے نام پر ، کبھی مسلک و مشرب کے نام پر، کبھی سیاست و معیشت تو کبھی ذات پات اور علاقائیت کی بنیاد پر خوں ریزیاں ہو رہی ہیں۔ دنگے فساد اور بم باریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے مرحلے میں نوجوانوں کے لیے ایسے صالح فکر اشخاص کی صحبت لازمی ہو جاتی ہے جو ساری انسانیت کو ایک ہی خالق کا کنبہ بتاتے ہوئے سب کے ساتھ بھلائی، خیر خواہی اور حسن سلوک کا درس دیں ۔ انھیں بتائیں کہ تم سب ایک ہی ماں باپ کی سنتان ہو ، لہذا آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہو اور بھائی بھائی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے نہ کہ اسے کوئی نقصان پہنچاتا ہے۔ اسے مزید یہ بھی بتائیں کہ دنیا کی ہر شیے دوسرے سے مختلف اور الگ ہے، مگر دنیا کی خوبصورتی ان سب کے آپس میں مل جل کر رہنے سے ہی ہے۔ انسانی سماج میں بھی ہر فرد کی شکل دوسرے سے الگ، ہر ایک کی پسند اگلے سے مختلف اور ہر کسی کا مزاج ایک دوسرے سے الگ ہے۔ لیکن سماجی طور پر پرامن زندگی گزارنے کے لیے لازم ہے کہ الگ الگ ہوتے ہوئے بھی مشترک ایشوز پر سب متحد اور متفق ہو کر رہیں تاکہ ہمہ جہت ترقی کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ جزوی اور فرعی اختلافات انتشار کا نہیں، ترقی کا ضامن ہوتے ہیں ، جب کہ اصولی اور بنیادی اختلافات جن کا تعلق مشترک مسائل سے ہوں انحطاط اور زوال کا داعیہ ہوتی ہیں۔ہزار اختلافات کے باوجود باہم متحد اور بقائے باہم کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے یہ دو اصول لازمی طور پر اپنا لیے جائیں تو بہت سے مسائل خود بخود دم توڑ جائیں گے۔ 1-تمام تر اختلافات کے باوجود ایسے ایشوز پر پوری انسانی برادری جمع ہو جائے جو ان کے درمیان مشترک ہیں اور جن کا ماننا اور برتنا سب کے لیے ضروری ہوں۔ 2-میری رائے درست ہے اگرچہ غلط ہونے کا بھی امکان ہے اور دوسرے کی رائے غلط ہے گو کہ صحیح ہونے کا بھی امکان ہے۔ اس کے بعد ہر انسان اپنی رائے پر دوسروں کی رائے کو کسی بھی طرح چھیڑے بغیر عمل کرے بایں طور کہ لوگوں کی مشترکات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے تو فرقہ پرستی سے نجات ممکن ہے۔ اسلام کی سطح پر مسلکی اور مشربی فرقہ پرستی سے اوپر اٹھنے کی ایک مناسب راہ یہ بھی ہے کہ قران و سنت کے محکمات و مسلمات کو فروغ بخشا جائے اور فروعیات کے مرتکبین سے صرف نظر کیا جائے۔ تحریری اور تقریری جس سطح پر فروغ دین کا کام ہو محکمات و مسلمات ہی کو پیش نظر رکھا جائے تو بڑی حد تک مسلمان اندرون میں فرقہ پرستی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ مگر، برا ہو نفس پرستی کا یہ باتیں لکھنے اور کہنے میں جتنی آسان ہیں ، عملی طور پر ان کا برتنا اتنا ہی مشکل دکھتا ہے، کیوں کہ ملک کے طول و عرض میں اتحاد ملت کے نام پر ہونے والے کانفریس اور سیمینار کے بعد بعض اداروں کے فتوے، بعض مقرروں کے خطابات، بعض مترنموں کے نغمے اور بعض قلم کاروں کی تحریری کیے کرائے پر پانی پھیرنے کا کام بند نہیں کرتے۔ مگر، مایوسی کفر اور امیدی ایمان ہے۔ ان شاء اللہ وقت اور حالات بدلیں گے ، لوگ بدلیں گے۔
نوجوانوں کو درپیش مسائل میں تیسری اہم چیز بےروز گاری ہے۔ کہاوت ہے: "بھوکو پیٹ بھجن ناہی ہوت” ۔ ظاہر سی بات ہے انسان اگر اپنی اور اپنی اولاد کی شکم سیری ہی کے لیے پریشان ہوگا تو کوئی کام وہ دل جمعی سے کر ہی نہیں سکتا۔ آج جب کہ مہنگائی اپنے شباب پر ہے اور اسی کے ساتھ کار و بار بمشکل دستیاب ہوتے ہیں ایسے میں کوئی کیسے مفید کار ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماجی بے اعتدالی روز افزوں ہے۔ جھوٹ، فریب، خیانت اور چوری انسانوں کی عادت بنتی جا رہی ہے۔ اور ان پر مستزاد انسان کا بےروزگار ہو کر خالی پڑا رہنا کہ جب انسان کسی اچھے کام میں مشغول نہیں ہوتا تو "خالی دماغ شیطان کا گھر” نامناسب چیزیں سوچتا ہے اور سماجی طور پر لوگوں کو لڑانے، فتنہ و فساد پھیلانے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انسانی سماجی تانا بانا ٹوٹنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ صبر و قناعت اور توکل لوگوں سے رخصت ہو رہا ہے۔ انسان جلد باز اور خواہشات کا پجاری بن کر رہ گیا ہے۔ کسی چیز کی تمنا ہوئی تو فوری تکمیل کی کوشش کرتا ہے خواہ اس کے لیے ناجائز طریقہ ہی اختیار کرنا پڑے۔ کیوں کہ روزگار ہے نہیں، پیسوں کی قلت ہے، چیزیں آئیں گی تو کہاں سے آئیں گی؟ اور اگر اس پر بھی خواہشات کی تکمیل نہ ہوئی تو ذہنی الجھن، قلبی اضطراب اور بے سکونی کا شکار ہو کر بسا اوقات ڈپریشن میں بھی چلا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے انسانی ضروریات ہزار طریقے سے پوری ہو سکتی ہیں، مگر خواہشات بھی پوری ہو جائیں ، ضروری نہیں۔ بے روز گاری کے اس دور میں جہاں بھی جس قدر جو بھی ذریعہ معاش میسر ہو جائے اسے غنیمت سمجھنا چاہیے اور اسی میں محنت کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مگر، خالی بیٹھا نوجوان اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ گھر میں دس ہزار ہی روپیے ہیں جن سے چھوٹے پیمانے پر کوئی کام شروع کیا جا سکتا ہے، لیکن ، نہیں۔ بھوکے رہنا گوارا ہے مگر، کار و بار جب بھی کرےگا چار پانچ لاکھ سے کم کا نہیں کرےگا۔ اسی طرح غربت کی وجہ سے ٹیکنکل تعلیم نہ پا سکا اور جو تعلیم حاصل کی وہ نارمل آرٹ سائڈ سے متوسط درجے تک، جس کے بعد سرکاری نوکری ملنا مشکل، مگر نوکری سرکاری ہی کرےگا ، نہیں تو گھر بیٹھنے کو ترجیح دےگا۔ مسلم نوجوان کو اس اعتبار سے اپنے آپ کو مینیج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی طور سہی وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ اور جو بندہ ایک بار کھڑا ہو جاتا ہے وہ دوڑ بھی لیتا ہے اور ریس میں بھاگ بھی لیتا ہے۔
الحاصل نوجوانوں کو درپیش مسائل سے باہر نکلنے کے لیے بنیادی طور پر جو چیزیں ضروری ہیں ، ان میں خدا کے وجود کا قائل ہونا، اہل علم و تقویٰ کے ساتھ حسن ظن قائم رکھنا، رجوع الی الکتاب کا اہتمام، کسی پاک باطن کے ساتھ گہرا تعلق، اہل خیر سے مشاورت، اکرام انسانیت ، باہمی اختلافات و انتشارات سے پرہیز اور بلا تحقیق انیق کسی بھی قسم کی سنی سنائی یا پڑھی ہوئی باتوں کو نشر کرنے سے اجتناب کے ساتھ خود کو ہمہ دم کسی نہ کسی مفید اور کار آمد کاموں میں مصروف رکھنا ، خواہ کام چھوٹا ہی ہو، شامل ہے۔ اگر نوجوان طبقہ ان امور کی پاسداری کرے تو وہ سماج کے لیے مفید اور کارگر بن سکتا ہے اور اس کے بہت سے مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)