Home تجزیہ جھوٹ کی بھی سیما ہوتی ہے!-شکیل رشید

جھوٹ کی بھی سیما ہوتی ہے!-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

کبھی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا ’ جھوٹ کی بھی سیما ہوتی ہے ‘ آج وہ خود اس سیما کو پھلانگ گئے ہیں ! راجستھان کے جالور میں انہوں نے اتوار کے روز اور علی گڑھ میں پیر کے دن انتخابی جلسۂ عام میں جو تقریر کی اُسے اگر جھوٹ کا پہاڑ کہا جائے تو قطعی مبالغہ نہیں ہوگا ! جھوٹ کا پہاڑ کے علاوہ ان کی تقریر افسوس ناک اور شرم ناک بھی تھی ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جو کہا ملاحظہ کریں:’’ اگر کانگریس پارٹی مرکز میں برسرِاقتدار آتی ہے تو وہ لوگوں کی جائیداد ، زمین اور سونا مسلمانوں میں بانٹ دے گی ۔ کیا آپ دراندازی کرنے والوں کے ساتھ اپنی محنت بانٹنے پر راضی ہوں گے؟‘‘ کیا یہ بیان ملک کے وزیراعظم کی زبان پر جچتا ہے ؟ کیا کسی بھی ملک کا کوئی حکمراں اپنے ملک کے کسی بھی فرقے کے خلاف ایسی زبان استعمال کرسکتا ہے ؟ اور اہم بات تو یہ ہے کہ جو کچھ کہا گیا وہ بے ثبوت تھا ! وزیراعظم نریندر مودی کو کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے چیلنج کیا ہے کہ وہ منشور میں دکھا دیں کہ کانگریس نے لوگوں کی محنت کی کمائی مسلمانوں میں تقسیم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ کھڑگے کے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے مودی تیار نہیں ہیں کیونکہ کانگریس کے منشور میں ایسا کوئی وعدہ شامل نہیں ہے ۔ منشور تو دور کسی بھی کانگریسی کی زبان سے ایسا کوئی وعدہ نہیں نکلا ہے ! گویا یہ کہ ملک کے وزیراعظم نے جھوٹ بولا ، دروغ گوئی کی ۔ کیا ملک کا وزیراعظم جھوٹ بول سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہر کوئی نفی میں ہی دے گا ، لیکن مودی جھوٹ بول رہے ہیں ۔ اپنے بیان میں انہوں نے کانگریس کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا ہے کہ وزیراعظم رہتے ہوئے انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ’ اقلیتوں کو ملکی وسائل میں ترجیحی طور پر حصہ داری ملنی چاہیے ۔‘ سوال یہ ہے کہ اگرمنموہن سنگھ نے مذکورہ بات کہی بھی تھی تو مودی کی طرح کوئی جھوٹ تو نہیں بولا تھا ، بلکہ ملک کے وسائل میں مسلمانوں کے حصے کی ، ساجھیداری کی بات کی تھی ، اور اپنے کسی بھی شہری کو ، چاہے وہ جس ذات اور مذہب کا ہو ، حکومت وسائل سے محروم نہیں کرسکتی ۔ مودی اور منموہن سنگھ کی بات میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، منموہن سنگھ ملک کے وسائل میں حصہ دینےکی بات کرتے تھے ، جس سے اس ملک کی سب سے بڑی اکثریت محروم تھی ، اور مودی ایک الزام لگا رہے ہیں کہ کانگریس دوسروں کی زمین جائیداد اور سونا چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کردے گی ! کیا کوئی اس بات کو مان سکتا ہے ؟ افسوس یہی ہے کہ مودی کا جھوٹ کچھ لوگ مانتے ہیں اور مودی یہ چاہتے ہیں کہ ان کا یہ جھوٹ کچھ لوگ نہیں سب ہی لوگ مان لیں ۔ لیکن اس جھوٹ کو ماننے کی بجائے لوگوں نے ان کے بیان کی مذمت کی ہے ، ان پر جگہ جگہ نکتہ چینیاں کی گئی ہیں ۔ بات صرف مذکورہ کذب بیانی ہی کی نہیں ہے ، انہوں نے مسلمانوں کو ’درانداز ‘ بھی قرار دیا ہے ۔ اس ملک میں جو مسلمان بٹوارے کے بعد رہے وہ ’بائی چوائس‘ رہے ، انہوں نے پاکستان جانا پسند نہیں کیا ، وہ اس ملک کے حقیقی باشندے تھے اور حقیقی باشندے کے طور پر اس ملک میں رہنا پسند کیا ، وہ کبھی نہ درانداز تھے نہ دراندازی کرکے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے ، مسلمانوں پر دراندازی کا الزام انتہائی افسوس ناک ، شرم ناک اور قابلِ مذمت ہے ۔ وزیراعظم نے مسلمانوں پر اپنی آبادی بڑھانے کا بھی الزام عائد کیا ہےجبکہ یہ سچ مختلف سروے کے ذریعے سامنے آچکا ہے کہ مسلمانوں میں آبادی کا تناسب گھٹا ہے ۔ الیکشن کے اس موقع پر ، جبکہ انتخابی ضابطۂ اخلاق لاگو ہے ، ایسی نفرت بھری تقریر پر الیکشن کمیشن نے کارروائی کیوں نہیں کی ؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے ۔ اس سوال کا جواب ملنا چاہیے اور ایسی نفرت بھری باتوں پر قدغن لگنا چاہیے ۔ اگر ابھی کارروائی نہ کی گئی تو لوک سبھا الیکشن کے باقی چھ مرحلوں میں نہ جانےکس قدر زہر اگلا جائے گا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like