Home تجزیہ امریکی طلبہ کا غزہ احتجاج۔ شکیل رشید

امریکی طلبہ کا غزہ احتجاج۔ شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹرممبئی اردو نیوز )
ایک ویڈیو ٹیکساس یونیورسٹی امریکہ سے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس والے طالب علموں کو لاٹھیوں سے پیٹ رہے ہیں اور گرفتار کرکے گاڑیوں میں ٹھونس کر انہیں لے جارہے ہیں ۔ ایک ویڈیو کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ہے ، جو ٹیکساس یونیورسٹی سے کہیں زیادہ ہولناک ہے ، طلبہ کو بُری طرح سے پیٹا اور مارا جا رہا ہے اور گرفتار کیا جا رہا ہے ! احتجاج جو کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہوا تھا اب امریکہ کی کئی بڑی یونیورسٹیوں تک ، اور وہاں سے نکل کر یوروپ کی یونیورسٹیوں تک پھیل گیا ہے ۔ احتجاج غزہ پر اسرائیلی مظالم کے خلاف اور اہلِ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کیے جا رہے ہیں ، مگر اسرائیل جو ظالم ہے ، بجائے اس کے کہ اپنے ظلم پر قدغن لگائے ، شور مچا رہا ہے کہ امریکہ اپنی یونیورسٹیوں میں پھیلتے احتجاج کو روکے ۔ اور امریکہ کی جو بائیڈن حکومت ایک غلام کی طرح ظالم کے حکم کو مان کر اپنے ہی طالب علموں پر جبر کر رہی ہے ۔ یوں تو امریکہ کی کئی بڑی یونیورسٹیوں میں کئی دنوں سے احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں ، طلبہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ، لیکن اب اُن یونیورسٹیوں کے علاوہ مزید یونیورسٹیاں بھی احتجاج میں شامل ہو گئی ہیں ، جیسے کہ ییل یونیورسٹی ، برکلے یونیورسٹی ، نیویارک یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف واشنگٹن ، یونیورسٹی آف مشی گن ، یونیورسٹی آف میری لینڈ ، یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا ، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ، ٹفٹس یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف مینیسوٹا ، اسٹینفورڈ یونیورسٹی ، پولی ٹیکنک یونیورسٹی اور دیگر غیر معروف یونیورسٹیاں ۔ یوروپ میں بھی امریکی طلبہ کا ’ غزہ احتجاج ‘ شروع ہو گیا ہے ۔ فرانس ، آسٹریلیا اور اٹلی وغیرہ کی کئی یونیورسٹیاں احتجاج میں شامل ہو گئی ہیں ۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں قتلِ عام روکا جائے اور فلسطین کو آزاد کیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ نہ اسرائیل کو قبول ہوگا ، اور نہ ہی امریکہ کو ، اسی لیے طلبہ کی آواز دبانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے ۔ حماس کا کہنا ہے کہ طلبہ کی آواز کچل کر امریکہ آزادیٔ اظہار رائے کا گلا گھونٹ رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ اور یوروپ کے طلبہ کو ’ غزہ احتجاج ‘ کی کیا ٖضرورت پڑ گئی ؟ اس سوال کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے ؛ طلبہ جانتے ہیں کہ ان کی حکومت اور ان کا صدر جو بائیڈن اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی کر رہا ہے ، اور ان ہی ہتھیاروں سے فلسطینی مارے جا رہے ہیں ، یا یہ کہہ لیں کہ ان کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے ۔ طلبہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت اور ان کا صدر قتلِ عام بند کرائے ، ہتھیاروں کی سپلائی روکے اور فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کر لے ۔ یہ احتجاج ، غزہ پر دو سو سے زائد دنوں کی بمباری اور کئی ہزار فلسطینیوں کی شہادت کے بعد شروع ہوا ہے ۔ طلبہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جنگ یک طرفہ ہے ، اور اس جنگ میں ان کی امریکی حکومت بجائے مظلوم کی حمایت کرنے کے مظلوم کی تباہی کے لیے ظالم کی پیٹھ بھی تھپتھپا رہی ہے ، اور اسے اسلحہ بھی سپلائی کر رہی ہے ۔ طلبہ اپنے آئینی حقوق کو جانتے ہیں ، انہیں پتا ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے ان کا حق ہے ، وہ اس حق کو قیامِ امن کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن وہ ملک ، یعنی امریکہ ، جو خود کو آزادیٔ اظہارِ رائے کا بنیاد گزار بتاتا ہے ، وہی اب طلبہ کی آواز کچلنے کے لیے پولیس کے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے پکڑا رہا ہے ! یہ ہے آزادیٔ اظہارِ رائے کا حقیقی سچ ! اور سچ یہی ہے کہ کوئی بھی ملک آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق کسی کو نہیں دیتا ، صرف اس کا پروپیگنڈا کرتا ہے ۔ ایک عالمِ دین ابوالاعلیٰ سبحانی کے بقول :’’ ظالم چاہے برصغیر کا ہو ، چاہے وہ عرب دنیا کا ہو ، چاہے وہ امریکہ یوروپ کا ہو ، ظالم ظالم ہوتا ہے ، وہ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے ہمیشہ طاقت کا سہارا لیتا ہے ۔‘‘ تو فی الحال یہی ہو رہا ہے ، لیکن طلبہ کی کمیونٹی ایسی سوچ رکھنے والوں کے خلاف ہی لڑتی ہے ، اور لڑ رہی ہے ۔ لہذا سب کو چاہیے کہ اس معاملے میں طلبہ کے ساتھ کھڑے ہوں ، اور بھلے وہ امریکہ یا یوروپ میں احتجاج کر رہے ہوں ان کی آواز میں آواز ملائیں ، یہ آواز ان تک پہنچے گی اور ظلم کے خلاف لڑنے کے لیے انہیں حوصلہ دے گی ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like