Home تجزیہ ترک-اسرائیل تعلقات – عبداللہ ممتاز

ترک-اسرائیل تعلقات – عبداللہ ممتاز

by قندیل

پاسپورٹ رینکنگ دیکھ رہا تھا، اسرائیلی پاسپورٹ پر نظر پڑی، جسے خلافت اسلامیہ ترکیہ میں "ویزا فری داخلے” کی اجازت ہے۔ یعنی اسرائیل واسی، سوکر اٹھے، جیب میں پاسپورٹ رکھے اور منہ دھلے بغیر خلافت اسلامیہ ترکیہ میں داخل ہوجائیں، انھیں ای ویزا لینے یا پشگی مطلع کرنے تک کی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں۔

آخر ترکی کا ایسا کون سا معاہدہ اسرائیل کے ساتھ ہے، جسے ختم کرنے کے لیے خود مصطفی کمال کو زندہ ہونا پڑے گا یا پھر امام مہدی آکر ختم کریں گے؟

ترکی انتخابات میں مذہبی بات کرنے پر تاحیات الیکشن لڑنے پر بندش کا قانون تھا، جس کی بنیاد پر اردگان پر بندش لگ چکی تھی؛ لیکن عبداللہ گل کو وزیر اعظم بناکر اس قانون کو ختم کرایا گیا اور وہ الیکشن لڑ کر وزیر بنے اور وزیر سے وزیر اعظم بن گئے۔

ترکی کی جمہوریت پارلیمانی جمہوریت تھی، جہاں وزیر اعظم کو اختیارات ہوتے ہیں؛ لیکن ساتھ ہی یہ بھی قانون تھا کہ دس سال سے زیادہ ایک آدمی وزیر اعظم نہیں رہ سکتا؛ چناں چہ جب اردگان وزیر اعظم تھے، تب کے صدر کون تھے، آپ کو معلوم نہیں ہوگا (جیسے ہم میں سے کئیوں کو اپنے ملک ہندوستان کے صدر جمہوریہ کا نام یاد نہیں ہوگا) لیکن جب اردگان کے بطور وزیر اعظم دس سال مکمل ہوے تو انھوں نے ملک کے پارلیمانی نظام کو ختم کرکے صدارتی نظام لایا اور خود صدر مملکت بن گئے؛ چناں چہ اب ترکی میں وزیر اعظم کون ہے، آپ کو معلوم نہیں ہوگا۔

سو سال سے جمہوریت کی علامت سمجھی جانے والی مسجد ایا صوفیہ کی شناخت کو بدل کر واپس اسے مسجد کی شناخت دلائی۔ (اس کا ذکر بطور تنقید نہیں، بطور استدلال ہے)

مصطفی کمال نے جمہوریت کے تحفظ کی ذمے داری فوج کو سپرد کی تھی کہ جب جمہوریت کو خطرات درپیش ہوں تو فوج اس کا تختہ پلٹ دے –جیسے پاکستان میں جمہوریت کی حفاظت کی ساری ذمے داری فوج کے مضبوط کندھوں پر ہے اور وقتا فوقتا وہ اپنی ذمے داری ادا کرتے بھی رہتے ہے– وہ الگ بات ہے کہ مصطفی کمال خود ڈکٹیٹر تھا اور لبرلز؛ بشمول ہندوستانی جمہوریت کی تحفظ کے علم بردار دھرو راٹھی، انھیں "صالح ڈکٹیٹر” کہتے ہیں؛ چوں کہ انھوں نے مذہبیات پر خوب بندشیں لگائیں تھیں۔ اردگان صاحب نے فوج کی ذمے داریوں پر بھی قدغن لگائی۔

تو بھلا ایسا کون سا قانون ہے، جس کو ختم کرنا، ملک کے پارلیمانی نظام کو ختم کرکے صدارتی نظام لانے سے بھی زیادہ مشکل ہے؟ جس قانون کی رو سے اردگان پر الیکشن لڑنے تک کی پابندی کو ختم کرکے اردگان کو وزیر اعظم اور صدر مملکت بنانے سے بھی زیادہ مشکل ہے؟ جمہوریت کی شناخت ختم کرکے ایا صوفیہ کو واپس مسجد بنانے سے بھی زیادہ مشکل ہے؟

ابولبابہ شاہ منصور کو پڑھنے والے ہمیں بتائیں کہ اب تو 2023 بھی گزر گیا۔ اسرائیل کے ساتھ ایسا کون سا معاہدہ ہے جو معاہدہ لوزان کی مدت ختم ہونے کے باوجود اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ختم نہیں ہو پا رہا ہے؟

اب سنیے گوکہ یہ سننا، طارق ایوبی اور ابولبابہ شاہ منصور جیسے سپلائر مصنفوں کے قارئین کے لیے بہت مشکل ہوگا کہ سچ تو یہ ہے کہ "اردگان ترکی کا نریندر مودی ہے”۔ من کل الوجوہ نہ سہی، من حیث الوجوہ یعنی ڈکٹیٹرشپ میں۔ آپ کہیں گے پھر الیکشن کیوں ہوتا ہے؟ الیکشن تو بنگلہ دیش میں بھی ہوتے ہیں، الیکشن تو ہمارے ملک میں بھی ہو رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف وزیر اعظم کے نفرت انگیز بیان کے باوجود الیکشن کمیشن چادر تان کر سورہی ہے، الیکشن روس اور چائنا میں بھی ہوتے ہیں۔

قاری اردگان صاحب کی "اسلامیت” سے ہندو پاک کے مسلمان اتنے متاثر ہیں کہ ان کے سیاسی حریف فتح اللہ گولن کو اسلام دشمن اور غدار وطن سے کم بالکل نہیں سمجھتے جب کہ وہ ترکی کے امام ربانی بدیع الزماں سعید النورسی کے خاص شاگردوں میں سے ہیں اور دسیوں کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی کتاب ‘نور سرمدی” کا اردو ترجمہ ہوچکا ہے، پڑھیے کیا شاندار تصنیف ہے۔ وہ ترکی میں زبردست رفاہی نظام چلاتے ہیں جو لوگوں میں صرف کمبل اور چاول تقسیم نہیں کرتے؛ بلکہ لوگوں معاشی خود کفیل بنانے کا نظام ہے، ان کی اس تحریک نے ترکی کی معیشت میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ بات دوسری طرف نکل گئی، ان شاء اللہ پھر کبھی اس پر گفتگو ہوگی۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like