قمر عباس قمر
ہمارے ساتھ چلو
اے پڑھے لکھے لوگو
چلو کہ وقت دھارے تمہیں بلاتے ہیں
اٹھو کہ صبح نظارے تمہیں جگاتے ہیں
ہر اک ستارہ صفت روشنی کا پروردہ
بڑھے کہ آج جہالت سے جنگ لازم ہے
وہ شخص خودکو جو حاکم سمجھ رہا ہے ابھی
کہ حق تو یہ ہے کہ جنتا کا وہ ملازم ہے
ہوائے ظلم سے شاخوں میں اک جھکاؤ سا ہے
فضا میں زہر ہے سانسوں پہ کچھ دباؤ سا ہے
کسی بھی ظلم کی میعاد چند روزہ ہے
کہ حکمِ حاکمِ بیداد چند روزہ ہے
یہ وقت وہ ہے کہ اب بولنا ضروری ہے
ہوا کے پاؤں میں زنجیر ہے غلامی کی
بڑھو کہ بڑھ کے اسے توڑنا ضروری ہے
ذرا سا جوہرِ علم و ہنر سے کام تو لو
کھلا ہے مکیدۂ عشق آؤ جام تو لو
ہر اک زبان پہ الفت کی چاشنی دھر دو
ہر ایک دل میں محبت کی روشنی بھر دو
ہمارے ساتھ اٹھو
اے پڑھے لکھے لوگو
قلم سے لکھّو نئی صبح کے نئے نغمے
ہر ایک گیت کو مظلوم کی صدا کردو
اٹھو اور اٹھ کے کتابوں کا حق ادا کردو