نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے آصف اقبال تنہا، نتاشا ناروال اور دیوانگنا کالیتا کو فوراً رہا کرنے کا حکم سنایا جس کے بعد جمعرات کی شام ان تین طلبہ کارکنان کی تہاڑ جیل سے رہائی عمل میں آئی۔جیل سے باہر آنے پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے ممبران اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا نے آصف اقبال تنہا کا زبردست استقبال کیا۔ آصف اقبال تنہا نے سفید ماسک پہن رکھا تھا جس پر No CAA اور No NRC لکھا ہوا تھا۔اس موقع پر بڑی تعداد میں جمع ہوئے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے آصف اقبال نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور اپنے تمام حمایتی، میرے وکلاء اور وہ تمام لوگ جو دوسروں کی رہائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تنہا نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی وہ تمام سیاسی قیدی بھی رہا ہو جائیں گے جنہیں اپنے نظریات اور شناخت کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تھا۔آصف اقبال نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ جیل میں کووڈ19 کے مسائل کو حل کرے۔ زیادہ بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لیے چھوٹی موٹی سزاؤں والے قیدیوں کو رہا کرے اور تمام قیدیوں کو ویکسین لگانے کا انتظام کرے۔نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے آصف اقبال نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی لڑائی عوام میں امتیاز برتنے والے قانون CAA کے خلاف ہے، ناکہ کسی خاص عقیدے کو ماننے والے لوگوں کے خلاف۔ ہمارا پر امن احتجاج جاری رہے گا۔ آصف نے مزید کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ معزز کورٹ نے پرزور انداز میں کہا کہ ہمارا پرامن اور جمہوری احتجاج کا فسادات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ اہم اور مثالی ثابت ہوگا۔ عدلیہ پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے آصف اقبال تنہا نے امید کی کہ مقدمات کی سماعت تیز رفتاری سے ہوگی اور ہم سب جلد ہی بری ہو جائیں گے۔اس موقع پر کثیر تعداد میں موجود طلباء اور کارکنان نے عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر قید طلباء کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
no caa
صفدرا مام قادری
صدر شعبئہ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
پارلیامنٹ کے ایوانوں میں وزیرِ اعظمِ ہند نے دلی کے انتخاب سے ٹھیک پہلے کے دو دنوں کا خوب خوب سیاسی استعمال کیا اور اشارے کنایے، رمز و ایما اور علامت و تجرید، نہ جانے اور بھی کتنے سیاسی حربے تھے جن کا استعمال کرکے انھوں نے اپنا پیغام قوم کے سامنے دیا۔ اب نریندر مودی کی حکومت کے چھے برس ہونے کو آئے مگر پتا نہیں ان کے مشیران اور ان کی پشت پر کھڑی ماہرین کی فوج نہ جانے کس علمی غفلت میں پڑی رہتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حملے جس انداز سے کرتے ہیں، انھیں آراستہ کرنے کے لیے ہندستان کی تاریخ اور سیاسی ارتقا کے بہت سارے علمی مواد بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر بار بار فاش تاریخی اور تحقیقی غلطیاں کبھی بے علمی سے ہو جاتی ہیں اور کبھی جان بوجھ کر کی جاتی ہیں۔
ایک زمانے میں مشہور جدید شاعر مظہر امام کے ہم نام ایک نو آموز شاعر پیدا ہوگئے اور رسائل و جرائد میں ان کی کچی پکی غزلیں بزرگ شاعر کے نام کی وجہ سے شایع ہونے لگیں۔ اکثر رسائل کے مدیر مظہر امام کا نام دیکھتے اور کلام کی پڑتال کیے بغیر انھیں شایع کردیتے۔ بہت ساری غزلیں اور ان کے اشعار ناموزوں ہوتے اور مظہر امام خجل ہوتے کہ لوگ ان سے ایسی فاش غلطیوں کی توقع نہ کرتے تھے۔ آخر میں مظہر امام نے ایوانِ اردو، نئی دہلی میں اور دوسرے رسائل میں اپنا مکتوب شایع کرایا کہ یہ صاحب اپنی غزل شایع کراتے ہیں اور لوگ باگ مظہر امام سے اس کی تقطیع کراتے ہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہی حال ہے۔ کبھی ۷۵۸۱ء کے انقلاب میں ساورکر کی قربانیوں کو وہ یاد کرتے ہیں اور اب تو یہ حال ہے کہ پارلیامنٹ میں عمر عبداللہ کو جس خبر کی بنیاد پر وہ ملک دشمن قرار دینے کے لیے اتاولے بنے، حقیقت یہ ہے کہ ویسا بیان کہیں تاریخ میں درج ہی نہیں ہوا۔ وزیرِ اعظم کی دلی یونی ورسٹی کی ڈگری کا سوال ہو یا مرکزی کابینہ میں وزیر اور سابق وزیرِ تعلیم اسمرتی ایرانی کی تعلیمی لیاقتوں کا سوال ہو، ہر جگہ ایک بار اعلان ہوتا ہے اور تین بار اصلاح کرنے کے باوجود گناہوں کے پہاڑ سر پر لادتے جانے کی مہم میں نریندر مودی پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ دنیا میں یہ سوال ہندستانی عوام سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تمھارے وزیر اعظم یا اقتدار میں مست بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس چار پڑھے لکھے لوگ ایسے نہیں جنھیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ خبر جس میں صحافی کا نام ۰۲۴/ لکھا ہوا ہو، اسے حقیقی خبر آخر وزیر اعظم نے کیسے سمجھ لیا اور تصدیق و توثیق کے بغیر پارلیامنٹ میں نہ صرف یہ کہ اعلان کیا بلکہ سابق وزیر اعلا کو بغیر کسی ٹرائل کے جیل مین ڈالنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ آر۔ایس۔ایس۔ کے لوگ بڑے پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور سنجیدگی سے علمی کاموں میں منہمک جماعت ان کی صلاح پر مامور ہیں۔ ممکن ہے کسی زمانے میں ایسا ہوتا ہو مگر نریندر مودی اور امت شاہ کی قیادت میں جو سیاسی بساط بچھی ہوئی ہے، اس کے ماہرین اصول و ضوابط اور علم و اخلاق کے دائرہئ کار سے الگ تھلگ جینے کے عادی ہیں۔ انھیں اقتدار تو چاہیے اور جس قیمت پر بھی ملے، انھیں اسے حاصل کرنا ہے مگر ملک اور قوم کے حالات کے وہ نگہبان بنیں، زندگی اور سماج کی جواب دہی قبول کریں، اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ فائدہ انھیں اس بات کا حاصل ہے کہ وہ ایک ایسی اپوزیشن کے سامنے کھڑے ہیں جو ناٹک نوٹنکی کے کردار میں تو کامیاب ہوسکتے ہیں مگر پارلیامنٹ یا عوام کی عدالت میں گھسیٹ کر زیر و زبر کرنے کی صلاحیت ان میں ہرگز نہیں، اس لیے سب کام اسی طرح سے ہورہے ہیں اور نریندر مودی کو بھی کچھ خاص بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ہندستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں فیض اور حبیب جالب رہ رہ کر اپنا انقلابی کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ ”میں نہیں مانتا“ اور ”ہم دیکھیں گے“ نظموں پر ہی سیاست داں اور انتظامیہ کے لوگ پریشان تھے مگر نریندر مودی کی تقریر سنتے ہوئے اچانک وقفے میں یو ٹیوب پر حبیب جالب غزل سرا مل گئے اور انھوں نے اپنی پاٹ دار آواز میں عجیب و غریب مطلع پڑھا:
سرِ ممبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
حبیب جالب نے پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں یہ شعر کہا تھا مگر انھیں کیا معلوم ک تین دہائیوں کے بعد ہندستانی اقتدار پر ایک شخص ایسا مسلط ہوگا جس کے لیے یہ شعر اس سے بھی بڑھ کر موزوں ہوگا۔ خدا ایسے البیلے شاعر کو خوش رکھے اور موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کی جزا بھی عطا کرے۔ منموہن سنگھ کے بارے میں حزبِ اختلاف کے لوگ ان کی خاموش طبیعت کے لیے کبھی کبھی ازراہِ مذاق مونی بابا کہتے تھے۔ وہ کم بولتے تھے، لوگ کہتے تھے کہ کانگریس صدر کی طرف سے انھیں آزادانہ طور پر بولنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی بھی یہ الزام عاید کرتی تھی کہ ملک کے بہت سارے سلگتے ہوئے سوالوں پر وزیر اعظم خاموش رہتے ہیں۔ نریندر مودی کے لیے کون کافر ہے جو یہ بات بول دے کہ وہ کم بولتے ہیں۔ ان کے سامنے سو سوال ہوں تو وہ دو سو جواب دے سکتے ہیں۔ یوں بھی آر۔ایس۔ایس۔ میں ان کا کام پرچارک کا تھا۔ اسے صرف بولنا رہتا ہے۔ نریندر مودیی یا تو دنیا دنیا گھومتے ہیں یا قریہ قریہ بولتے ہیں۔ وہ خود اعلان کرتے ہیں کہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے وہ کام کرتے ہیں۔ مگر اکثر و بیش تر یہ دیکھا گیا کہ پارلیامنٹ سے غیر حاضر رہتے ہیں اور بولنے کی خاص جگہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ الیکشن کی میٹنگ میں بولتے ہیں یا جہاں جہاں سیدھے فائدے اور نقصان کا معاملہ ہوتا ہے،و ہاں وہ تقریر فرماتے ہیں۔ گذشتہ دنوں مہاراشٹر کے انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوئے اور وہ ممبئی میں دونوں ہاتھوں کو بھانجتے ہوئے کیا کیا نہ کہہ گئے۔ اپنی پارٹی اور اپنی قیادت کا ایسا فاتحانہ گن گان کیا کہ ہفتہ عشرہ میں ساری ہیکڑی نکل گئی اور مہاراشٹر کی سیاست سے باہر ہونا ان کے مقدد کا حصہ ہوا۔
نریندر مودی کی تقریروں کا خلاصہ تیار کیجیے اور اسے امتحان کی کاپی سمجھ کر جانچ کیجیے تو ایک استاد کی حیثیت سے یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ وہ اپنے جوابوں میں عدم معقولیت کے شکار ہیں۔ سوال ’الف‘ کا پوچھا گیا، وہ جواب دیں گے مگر نفسِ مضمون میں ’ب‘ کا اندراج ہوگا۔ امتحان کے پرچوں میں بعض شریر اور غیر ذمہ دار طالب علم سوالوں کو بار بار لکھ کر کاغذ بھر دیتے ہیں یا فلمی گانے اور غیر متعلق باتیں جمع کرکے کاغذ سیاہ کرتے ہیں۔ توقع یہ ہوتی ہے کہ ممتحن غیر سنجیدہ ہوا اور عجلت پسندی کے راستے کا مسافر بن گیا تو بچے کا بیڑا پار۔
نریندر مودی کی تقریروں کا انداز اور جواب در جواب، لطفِ بیان، الزامات کی مرحلہ وار ترتیب کو پیش نظر رکھیے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ شخص ہر سوال کا ترتیب وار جواب دے رہا ہے۔ پیشے ور تالی بجانے والے اور میزیں تھپتھپانے والے بھی موجود ہوتے ہیں مگر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس شخص نے ایک بھی کسی بنیادی سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس شخص سے پوچھا گیا کہ ملک میں امن و امان کیسے قائم کروگے۔ سوال یہ تھا کہ بے روزگاری کا علاج کیا ہوگا، دریافت طلب بات یہ تھی کہ منہگائی پر لگام کیسے لگے گی اور پوچھا تو یہ گیا تھا کہ ملک کو صنعت کاروں کے ہاتھوں بیچنے کی مہم پر آپ لگام کب لگائیں گے؟ پوچھا یہ گیا تھا کہ نوٹ بندی سے آپ نے ہندستان کو کیا دیا؟ ملک کی معیشت کو اور کہاں تک آپ گرائیں گے؟ سوالات یہ سب تھے مگر جو جواب آئے وہ کشمیر، پاکستان، شاہین باغ، رام مندر اور اسی انداز کے معاملات تھے۔ فارسی کہاوت پہلے ہی سے مشہور ہے: سوال از آسماں و جواب از ریسماں۔ ایرانیوں نے بھی کہاں جانا تھا کہ یہ کہاوت ایک دن ہندستان کے وزیر اعظم پر ہی زیادہ موزوں بیٹھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کو اپنے کام پر ووٹ نہیں چاہیے۔ دھیرے دھیرے صوبائی حکومتیں سمٹ رہی ہیں۔ مگر ابھی پارلیمنٹ کا اتنخاب تو بہت دور ہے، چار برس میں ہفت اقلیم طے کرلیں گے یا پاتال تک پہنچا دیں گے۔ راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے بعد بہ فضلِ تعالیٰ دلی سے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی بے دخل ہورہی ہے۔ صنعت کاروں اور آگے ای۔وی۔ایم۔ کا سہارا ہے مگر ان سب سے بڑھ کر ہندستانی عوام ہی انھیں سچاسبق دیں گے۔ راہل گاندھی کی بے وقوف زبان استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت میں ڈنڈوں کی محدود حیثیت ہوتی ہے، ووٹ سے ہی نریندر مودی کی تقریروں کی سلسلہ بند ہوگا اور ہمیشہ کے لیے اس ظالم حکمراں سے ملک کو نجات ملے گی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی سے متعلق ملک بھرمیں احتجاج و مظاہروں کی جو انقلابی صورت حال سامنے آرہی ہے، وہ ہم سب کے لیے عیاں را چہ بیاں کی مصداق ہے ۔ یوں تو آئے دن این آرسی اور سی اے اے کے حوالے سے مختلف دانشوروں کے بیانات سننے اور تحریریں پڑھنے کا موقع ملتا رہتاہے ؛ مگر گذشتہ ہفتے صوبۂ کرناٹک کے ضلع ٹمکور سے تعلق رکھنے والے محترم مولانامحمد خالد بیگ ندوی صاحب(جو ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور وسیع پیمانے پراسلامی مزاج کے ساتھ عصری اسکولس قائم کرنے اور چلانے کی تحریک سے وابستہ ہیں)بعض مقامی علماء کی دعوت پر حیدرآباد تشریف لائے اور علماء و دانشوران کے بڑے مجمع سے مختلف مقامات پر پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ تفصیل کے ساتھ مدلل گفتگوفرمائی،الحمدللہ سارے ہی پروگرام توقع کے مطابق کامیابی سے ہم کنار ہوئے ، بالخصوص این آرسی کے سلسلے میں بہت سے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں تھیں ان کا ازالہ ہوا اور آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے ؟اس پر بھی خاطرخواہ روشنی ڈالی گئی ۔زیرنظرتحریر میں مولانا محترم کی گفتگو کو افادۂ عام کے لیے قدرے ترمیم وتفصیل کے ساتھ تحریرکے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب ہماراملک برطانوی تسلط سے آزادہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد تقسیم کا ناگوارسانحہ پیش آیا،اور مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی۔ چوں کہ 1924ء میںآرایس ایس کی بنیاد رکھی جاچکی تھی؛اس لیے تقسیم کے نازک موقع پرتعصب پسند ہندؤوں کی جانب سے پوری شدومد کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی کہ مسلمانوں نے اپنے لیے الگ ملک بنالیا ہے ؛لہذا بھارت اب ہندوراشٹر ہوگا۔ اس وقت گاندھی جی اور دیگر جمہوریت پسندرہنماؤں نے اس کی سختی سے مذمت کی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سربراہی میںمختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا دستور مرتب کیا گیا جو انصاف،مروت اور مساوات پر مبنی تھا۔
گاندھی جی کی حیثیت باشندگان وطن کے درمیان مہاتما کی تھی اور وہ ہندومسلم اتحاد کے نقیب سمجھے جاتے تھے ؛ اس لیے انہیں ایک سازش کے تحت قتل کرنے کا پلان بنایاگیا اور ایسا کھیل کھیلاگیا کہ گاندھی جی کو قتل تو آرایس ایس کرے ؛مگر تہمت مسلمانوں کے سر آئے ، اس طرح مسلم اقلیت تمام باشندگان وطن کے عتاب کا شکارہوجائے اورمسلمانوں کو ملک بدر ہونے پرمجبورکیاجاسکے ۔ چناں چہ اس کام کے لیے گوڈسے کو تیار کیا گیا اور اس کے ایک ہاتھ پر محمد سلیم گودوایا گیا اس نے پوری تیاری کے ساتھ گاندھی جی کو شوٹ کرنے کا پروگرام بنایا اور موقع پاکرکام تمام کردیا۔ اس کے فوراً بعد یہ افواہ عام کردی گئی کہ ایک مسلمان شخص محمد سلیم نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔ اس سانحے کے بعد عوام کی بڑی تعداد بھپرگئی اور ممبئی میں ہندو مسلم فساد شروع ہوا۔ ادھر ہمارے قائدین شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور امام الہندمولاناابوالکلام آزاد نے فوری حرکت کی اور اعلی پیمانے پرتحقیقات کا آغاز کیا پھرمسئلہ کی تہہ تک رسائی کے بعدصرف دو گھنٹوں کے اندراندر سردار پٹیل کے ذریعہ اس بات کااعلان کروایا گیاکہ گاندھی جی کا قاتل مسلمان نہیں تھا؛ بل کہ آرایس ایس کانمائندہ گوڈسے تھا۔ جوں ہی اعلان ہوا غیظ وغضب کا سارا رخ آرایس ایس کی طرف ہوگیا ۔اس طرح ایک بنا بنایا منصوبہ خاک آلود ہوگیااور ہندو راشٹر کا جو خواب دیکھا گیاتھا وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ آرایس ایس کی اس شکست فاش کے بعد19 افراد پرمشتمل ایک خفیہ میٹینگ بلائی گئی؛ جس میں آئندہ کے لیے نظام العمل ترتیب دیاگیا، جملہ شرکاء نے اس بات پر قسم کھائی کہ ہم تعلیم کے لیے اپنی زندگی وقف کردیں گے ؛ کیوں کہ تعلیم ہی ایک ایسی راہ ہے جس کے ذریعہ پیمانے پر ذہن سازی کا کام کیا جاسکتا ہے اور کئی غیر ہندو اقوام کو ہندوباورکرایاجاسکتا ہے ،اس نصب العین کے مطابق کام کا آغاز ہوا اور گورکھپور سمیت ملک بھر میںاسکولس کا قیام عمل میں آیا۔جب بات آرایس ایس کی نکل پڑی تو برسبیل تذکرہ چنداورحقائق بھی ملاحظہ فرمائیں!
آر ایس ایس ایک خفیہ تحریک:
جناب عبدالغفور نورانی صاحب ایک اچھے قانون داں ،معروف دانشور اوربے باک قلم کار ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے آر ایس ایس کی تشدد پسندذہنیت کوعیاں کرنے والوں میں آپ کا نام سرفہرست ہے ۔ حال ہی میں اس’پراسرار‘ سمجھی جانے والی تحریک پر آپ کے اشہب قلم سے انگریزی میں ایک معرکۃ الآرا کتاب شائع ہوکر دادتحسین حاصل کرچکی ہے ۔ یہ کتاب اپنے اندر آر ایس ایس کے تعلق سے مختلف اہم اور بنیادی معلومات کا ذخیرہ لیے ہوئے ہے ۔ درج ذیل اقتباس ان ہی کی ریسرچ کا خلاصہ ہے ۔
آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائدشاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی،حفاظت یا سکیورٹی کے لیے بجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیے بھارتیہ مزدور سنگھ،دانشوروں کے لیے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے ۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اورجماعت علماء نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیاہے ۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموںکے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے ، اور ان کے لئے ا سکولوں اور کالجوںسے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے ۔ آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میںاپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے ۔
قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سا ل میںآر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ہندوستان سے باہران کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ہندوستان سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے ۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے ۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگانڈا‘ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثرانداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیںمشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الکٹرانک شاکھا ہے جہاںویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پرآر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے ۔
ان سب تفصیلات کو ذکر کرنے کا مقصدصرف یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کی پیہم کامیابیوں کے پیچھے آرایس ایس کی مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کارفرماہے ؛یہی وجہ کہ آج ہر اہم اور بڑے عہدے پر ان ہی کے پروردہ افراد براجمان ہے ، جس کے خوف ناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نیز یہ ہمارے لیے جائے عبرت و احتساب ہے کہ مضبوط منصوبہ بندی اور عزم و استقلال کے سبب مٹھی بھربرہمن محض پروپیگنڈوں کی بنیاد پرملک بھر میں تباہی مچا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ سیکولرقوموں کی کثرت کے باوجود مقصد و ہدف کو متعین نہ کرنے اورزمینی سطح پر کام کوفروغ نہ دینے کے سبب آپسی انتشار کا شکار اور ذلت و پستی سے دوچارہیں۔
کچھ باتیں سی اے اے کے حوالے سے :
یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ملک کے دستور کا نفاذ 1950ء میں عمل میں آیا اور دستور میں شہریت کے حوالے سے جودفعہ مرتب کی گئی ابتداً اس میں کافی لچک رکھی گئی، پھر بعد میں موقع اور حالات کے لحاظ سے ترمیمات اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی ترمیم 1986ء میں ہوئی۔دوسری ترمیم 1992ء میں ہوئی۔تیسری ترمیم2003ء اور چوتھی ترمیم 2005ء میں ہوئی۔ اس وقت شہریت کے سلسلہ جو متنازع ترمیم پاس کرائی گئی اور جس کے فوری بعد ملک بھر میں مخالفت و احتجاج کی صدائیںبلند ہوئیں وہ اس حوالے سے ہونے والے پانچویں ترمیم ہے ۔ مذکورہ ترمیم کی رو سے تین پڑوسی اسلامی ممالک ؛ پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پررہائش پذیر افراد اگر ہندو، سکھ، عیسائی، جین، بدھسٹ اور پارسی ہیں تو ان کو ’این آرسی‘ میں ہندوستانی شہری تسلیم کرکے شامل کرلیا جائے گا، اور اگر مسلمان ہیں تونہیں!۔اس طرح یہ قانون جو فی الوقت عدالتِ عالیہ میں زیرِ غور ہے ‘ عام دانشوروں کی رائے میں دستورِ ہند کی اہم اور حساس آئینی شقوں کے خلاف ہے ،اور اس سے ملک کی سیکولرحیثیت ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔ لیکن یہاں ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے احتجاج کا صرف یہی ایک سبب ہے کہ اس ترمیم میں مہاجرین کی فہرست سے مسلمانوں کو علیحدہ رکھاگیا اور ان کے ساتھ سوتیلا رویہ برتا گیایا کچھ اور بھی؟؟
اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھیںکہ آئین کی رو سے کسی بھی شہری کو شہریت دینے کی چار بنیادیں ہیں۔ 1:ولادت ،2:وراثت،3:رجسٹریشن ،4:نیچرلزیشن۔
ان چاروں میں ابتدائی دوبنیادیں تو واضح ہیں ،البتہ اخیرکی دو بنیادوں کو سمجھنے اور فرق کرنے کی ضرورت ہے ۔تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیرملکی شخص اپنے ملک میں ہونے والے ظلم وجبرسے بچنے کے لیے ہمارے ملک میں آگیا ہو یاہمارا ملک اسے پسند ہو اور وہ یہاں رہنے کا خواہاں ہونیزاس کے آباء واجداد میں سے کوئی ہندوستانی بھی رہے ہوں تو اس کو حکومت پہلے سات سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی،اس دوران اس کی نقل وحرکت پرنظر رکھے گی ،سات سال بعد وہ مزید رہنا چاہتا ہے تو اس کے مطالبے پرجوشہریت اسے دی جائے گی اسے رجسٹریشن کی بنیاد پرشہریت کہاجائے گا۔چوتھی صورت بھی اسی کے قریب قریب ہے یعنی یہ شہریت بھی غیرملکی کو ملے گی بس فرق اتنا ہے کہ اگر وہ غیرملکی ہمارے ملک میں غیر قانونی طورپررہ گیا ہو اور اس کے آباء واجداد میںسے کوئی بھی اس ملک کے نہ ہوں توحکومت گیارہ سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکے قیام کی اجازت دے گی پھر اطمینان کے بعداس غیرملکی کے مطالبے پر جو شہریت دی جائے گی اسے نیچرلزیشن کہاجائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے یہ سب قوانین بنے ہوئے ہیں اور اسی بنیاد پر شہریت دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے تو پھرسی اے اے کا کیا مطلب ہے؟اس کو لانے کے کیا مقاصدہیں؟اوراس پر اصرارکی کیا وجوہات ہیں ؟
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کا چہرہ سامنے لاکر دوسری اقوام کو طفل تسلی دینا اور خواب خرگوش میں مست رکھنا چاہتی ہے ؛تاکہ یہ مسئلہ ہندو مسلم بن کررہ جائے اور ملک فسادات کی بھینٹ چڑھ جائے ،پھر آزادی کے وقت جو منصوبہ بھار ت کو ہندوراشٹر بنانے کا ہواتھا اس کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا جاسکے ۔یاد رکھیں !آگے چل کر اگر این آرسی لاگو ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے غیر مسلم اقوام ہی کوغیرملکی ماناجائے گا اورسی اے اے کے ذریعہ دلت، سکھ ،جین اور پارسیوں کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ہم ہندو ہیںاور فلاں ملک سے قانونی یا غیرقانونی طورپر آئے ہوئے ہیں،اس طرح ان دلتوں اور آدی واسیوں کو ہندو دھرم قبول کرنے پرمجبورکیا جائے گا اور برہمنوں کی طرح انہیں حقوق ومراعات حاصل نہیں ہوں گی۔
ہمارے لیے لائحہ عمل :
ہمیں احتجاج کی موجودہ حرارت کو مزیدتیز کرنے اور ملک بھر میں منظم طور پر اس فضا کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی ذہن میںرکھیں کہ ہمارے احتجاج کا عنوان ظلم سے مقابلہ اور فسطائی نظام کاخاتمہ ہے ؛اس لیے اس کو ہرگز ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیں، اور اس کے لیے مسلمان اپنے ساتھ دلتوں، آدی واسیوں اور سیکولر قوموں کولے کر آگے بڑھیں؛ بل کہ قیادت کی کمان ان ہی افراد کے سپرد کردیں۔اب تک سیکولر قوموں کے صرف لیڈران ہمارے پروگراموں میںبہ حیثیت مہمان شریک ہوتے رہے اور ساتھ نبھانے کا تیقن دیتے رہے ؛مگر اب ضرورت ہے ایسی ملک گیر تحریک کی جس میں ساری برہمن مخالف عوام منظر عام پر آئے اور اپنا احتجاج درج کرائے ۔ اگر ایسا ہو(اور خداکرے کہ ایسا ہی ہو)تو امید ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اورایک زبردست انقلاب برپا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیںغیرمسلموں سے ملاقات کے ذریعہ درج بالاتفصیلات وضاحت کے ساتھ بتلانی ہوں گی ؛تاکہ انہیں غور وفکر کا موقع ملے اور وہ بھی ان دسیسہ کاریوں کا جواب دینے کے لیے تیارہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے سرکاری دستاویزات تیار ہیں یا نہیں۔اگر ہیں تواپنا نام اور والد کا نام وغیرہ سب میں یکساں ہے یا حروف کی کمی زیادتی ہے ؟یہ کام اس لیے ضروری نہیں کہ ہمیںاین آرسی کا خوف ہے ،یا ہم این آرسی کے نفاذ کوقبول کررہے ہیں؛ بل کہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں این آر سی کا بائیکاٹ کرنا ہے اور ہمارا بائیکاٹ اسی وقت موثر ومعتبرہوسکتا ہے جب ہمارے پاس مطلوبہ دستاویز موجودہوں اور ہم پھر بھی بتانے سے انکارکردیں؛ لیکن ہمارے پاس سرے سے دستاویز ہی نہ ہوں تو پھر بائیکاٹ کے کیا معنیٰ۔اس لیے خاموش انداز میں بغیر کسی شور و ہنگام کے اپنے اپنے کاغذات بنانے یا ان میں یکسانیت پیداکرنے کا کام مکمل کرلیں۔ دستاویزبنانے کے سلسلہ میں تھوڑی بہت محنت اور صبروضبط کی ضرورت ہے ان دو باتوں کو پیش نظر رکھیں تو بہت سے غیر ضروری مصارف سے بچا جاسکتا ہے ۔یہاں اس بات کاتذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ این آرسی کے سلسلہ میں کس سال سے کس سال تک پیداہونے والوں کے لیے کیا مطلوبہ دستاویز ہوں گے ؟اس حوالے سے درج ذیل تفصیل ملاحظہ فرمائیں!
26؍جنوری 1950 سے یکم جولائی 1987 کے درمیان پیدا ہونے والوں کا صرف اپنی پیدائش ثابت کردینا کافی ہے ،اتنے سے اس کی شہریت ثابت ہوجائے گی۔یکم جولائی 1987 سے 3؍دسمبر 2004کے درمیان پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی پیدائش کے ساتھ ساتھ والدین میںسے کسی ایک کی شہریت ثابت کرنا ضروری ہے ۔پھر3؍ دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی ولادت کے ساتھ ساتھ والد اور والدہ دونوں کاہندوستانی ثابت کرنا ضروری ہے اسی بنیاد پر انہیں شہریت دی جائے گی۔ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کے بعد جب ہم حق تعالی سے مدد کی امید رکھیں گے اور دعائیں کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ ضرورمدددآئے گی اورہم کامیاب و کامران ہوں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
نتیش کماراپناموقف واضح کریں،جمہوریت پسندوں کےساتھ ہیں یافرقہ پرستوں کےساتھ؟
اےایم یوطلبہ یونین کےسکریٹری حذیفہ عامر رشادی اورشاہنوازبدرقاسمی کاکشن گنج کےمختلف احتجاجی دھرنوں سےخطاب
کشن گنج: گزشتہ شب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے سکریٹری حذیفہ عامر رشادی اورسماجی کارکن وصحافی شاہنوازبدرقاسمی نے جمعیۃ علماء کشن گنج کے ترجمان وسکریٹری مفتی محمد مناظر نعمانی کی رہبری میں شہریت ترمیمی بل کے خلاف ہورہے مختلف احتجاجی دھرنوں اور پروگراموں میں شرکت کی،حذیفہ عامر رشادی نےکشن گنج کے پواخالی میں دستور ہند بچاؤ کمیٹی کے زیر انتظام منعقد احتجاجی دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کی جمہوریت اور یہاں کے آئین کے خلاف ہے، انہوں نے حکومت وقت کو نشانہ بناکر کہا کہ ملک میں ڈھیروں مسائل ہیں جن پر بات ہونی چاہئے اور جس طرف حکومت کی نظر ہونی چاہئے، بالخصوص ملک اقتصادی پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہاہے اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے، یہاں کی چھوٹی بڑی صنعتیں تباہی کے دھانے پر ہیں اور دیگر بے شمار مسائل ہیں جن پر حکومکت کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے، مگر حکومت چوں کہ ناکارہ اور نکما لوگوں کی ہے اس لئے وہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے یہاں نفرت کی سیاست کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہندوستان وہ مٹی ہے جہاں انیکتا میں ایکتا ہے، جہاں کی مٹی میں پیار اور محبت ہے مگر نفرت کے ان پجاریوں کو یہاں کی محبت اور بھائی چارگی سے بیر ہے اس لئے وہ لڑاؤ اور سیاست کرو پر یقین رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت کو ہم ان کے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے،انہوں نےآخرمیں بہارکےوزیراعلی نتیش کمارسےپوچھاکہ آپ اپناموقف واضح کیجےکہ آپ جمہوریت پسندوں کےساتھ ہیں یافرقہ پرستوں کےساتھ،بہکاوےکی سیاست اب نہیں چلنےوالی ہے۔ان کے قافلے میں شریک صحافی اورسماجی کارکن شاہنوازبدرقاسمی نے بھی ان احتجاجی دھرنوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شاہین باغ دہلی،جامعہ ملیہ،جے این یو اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی وغیرہ سے اٹھنے والی آواز اب ملک کے گوشہ گوشہ تک پہنچ چکی ہے، وہ سرکار جو ایک انچ پیچھے نہ ہٹنے کی بات کررہی تھی آپ کے ان ہی احتجاجوں کی بدولت ان کے سر اب بدل گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ہمیں ابھی بیٹھنا نہیں ہے جب تک کہ حکومت پورے طور پر اس قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔واضح رہے کہ حذیفہ عامر رشادی اپنے قافلہ کے ساتھ پواخالی، بہادرگنج، سونتھا ہاٹ اور بھٹہ ہاٹ کے احتجاجی دھرنوں اور پروگراموں میں شریک ہوئے، ہر جگہ کے لوگوں نے ان مہمانوں کا زوردار استقبال کیا اور ان کے خطابات سے مستفید ہوئے،اس احتجاجی وفدمیں اےایم یوطلبہ یونین کےسابق صدرابوعفان فاروقی،طلبہ لیڈراحمرفریدی،رخسان عامر،عارف اقبال اورفہداعظمی شامل رہے،حذیفہ عامررشادی نےکشن گنج میں واقع اےایم یوسینٹرکابھیمعائنہ کیااورطلبہ وانتظامیہ سےملاقات کی۔
دیوبند کے شاہین باغ میں بھیم آرمی کے قومی جنرل سکریٹری کی والدہ کانتی والیہ کا خطاب
دیوبند:(ایس۔چودھری)متنازعہ شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) این آرسی اور این پی آر کے خلاف دیوبند کا عیدگاہ میدان دہلی کا شاہین باغ بناہواہے ،یہاں گزشتہ ایک ہفتے سے مسلسل خواتین نہایت عزم و حوصلہ کے ساتھ مظاہرہ کررہی ہے، مظاہرہ میں جہاں بڑی تعداد میں خواتین اپنی حاضری درج کرارہی ہیں وہیں متعدد سماجی اور سیاسی تنظیموں کی جانب بھی سے خواتین کوحمایت مل رہی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ لوگ پورے جذبۂ خلوص کے ساتھ احتجاج کرنےوالی خواتین کی خدمت میں مصروف ہیں، صاحب خیر حضرات بھی ہر طریقہ سے متحدہ خواتین کمیٹی کی اس تحریک کو تعاون کررہے ہیں۔ متحدہ خواتین کمیٹی دیوبند کی جانب سے عیدگاہ میدان میں گزشتہ آٹھ دن سے جاری تحریک پر ضلع انتظامیہ کی گہری نظر ہے اوریہاں بڑی تعداد میں پولیس اور فورس تعینات ہے ،اتنا ہی نہیں بلکہ افسران بھی سلسلہ وارطریقہ عیدگاہ کے میدان کے آس پاس راؤنڈ لیتے ہیں اور اس تحریک کو ختم کرانے کی ہر ممکن کوششوں میں مصروف ہیں لیکن خواتین ڈٹی ہوئی ہیں۔ ان کاکہناہے کہ جب تک سی اے اے واپس نہیں ہوگا،اس وقت تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ گزشتہ دیر شام بھیم آرمی کے قومی جنرل سکریٹری کمل والیہ کی والدہ کانتی والیہ یہاں عیدگاہ میدان میں خواتین کے ساتھ پہنچیں، اس دوران انہوں نے غیر معینہ مدت کے لئے جاری خواتین کے دھرنے کو بھیم آرمی کی حمایت کا اعلان کیا۔ کانتی والیہ نے پولیس انتظامیہ پر الزام لگایا کہ انہیں دھرنے میں پہنچنے سے روکاجارہاتھا، جس کی وجہ سے انہیں یہاں آنے میں کافی تاخیر ہوئی۔ انہوں نے اسٹیج سے اعلان کیا کہ اگر باباصاحب کے آئین میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کریگا اس کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون مذہب کی بنیاد پر لایا گیا ہے،انہوں نے کہاکہ وہ لوگ جو ذات پات کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے تھے اب وہ مذہبی بنیادوں پرملک کے لوگوں میں نفرت کے بیج بورہے ہیں۔ کانتی والیہ نے کہا کہ تنظیم کی خواتین قانون واپس ہونے تک ہڑتال میں شامل رہیں گی۔ کمیٹی کی صدر آمنہ روشی ، ارم عثمانی ، فریحہ عثمانی اور دیگر خواتین نے وفد کا استقبال کیاـ شب نور،صبا اور صاحبہ نے کہاکہ ملک کی آزادی میں ہر طبقے نے قربانیاں دی ہیں۔ لیکن آج آزادی کے 73 سال بعد وطن عزیز کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی سازشیں چل رہی ہیں جسے کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا۔ دیر رات تک خواتین موم بتیاں لیکر احتجاج گاہ تک مارچ کرتی رہیں ، جبکہ نوجوان بھی عید گاہ میدان کے باہر نعرے بازی کرکے دھرنے پر بیٹھی خواتین کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔
٭ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
اس بات کا اندیشہ تو پہلے سے ہی تھا کہ پورے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف جس طرح احتجاجی جلسوں اور مظاہرے میں اضافے ہو رہے ہیں اس سے حکومت پریشان ہے۔ مگر وہ اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے کہ وہ تمام تر جمہوری آوازوں کو بند کرنا چاہتی ہے۔لیکن بابائے قوم مہاتما گاندھی کی یومِ شہادت کے موقع پر جامعہ جیسا واقعہ رونما ہوگا اس کا وہم وگمان بھی نہیں تھا۔البتہ اس کا اشارہ تو پہلے ہی مل گیا تھا کہ دہلی کے انتخابی جلسوں میں شاہین باغ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اور وہاں کی تحریک کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش ہو رہی تھی باوجود اس کے وہاں کی تحریک کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور قابلِ تحسین بات یہ ہے کہ گذشتہ ایک ماہ سے چلنے والی یہ جمہوری تحریک اپنے صحیح وسالم خطوط پہ چل رہی ہے۔ آئین کی حفاظت اور جمہوریت کی آواز کو زندہ رکھنے کے لئے اس تحریک نے پورے ملک میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ 30/ جنوری کو پورا ملک بابائے قوم کی شہادت کو یاد کر رہا تھا اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کر رہا تھا عین اسی وقت جامعہ نگر میں راج گھاٹ کو کوچ کرنے والی تحریک میں شامل ایک معصوم طالب علم کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی جان بچ گئی ہے اور وہ زندگی وموت کے درمیان زیر علاج ہے۔ گولی چلانے والا رام بھکت گوپال دہلی شہر کا نہیں ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق وہ اتر پردیش کے جیور کا ہے اور وہ بارہویں درجہ کا طالب علم ہے۔ ظاہر ہے اس وقت پورے ملک میں جس طرح منافرت کی فضا قائم کی جا رہی ہے اس میں اسی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں کہ گذشتہ تیس برسوں میں شدت پسند تنظیموں نے اپنے ہزاروں تعلیمی اداروں میں اس کی ذہن سازی کی ہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ قاتل دن کے اجالے میں ہواؤں میں اپنی ریوالور لہراتا رہا اور دہلی پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے فوٹیج میں دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہلی پولیس کس طرح گولی چلانے والے کو ہاتھ باندھے دیکھ رہی ہے۔ اب تفتیش کے بعد جو بھی نتیجہ آئے لیکن اتنی بات توطے ہے کہ اب پورے ملک میں چلنے والی جمہوری تحریک کو تشدد آمیز بنانے کی شروعات ہوگئی ہے۔ملک کے نامور وکیل پرشانت بھوشن کو بھی انڈیا گیٹ پر گرفتار کیا گیا کہ وہ گاندھی جی کی شہادت کو یاد کرنے کے لئے انڈیا گیٹ پر ”جن گن من“ گانے کے لئے پہنچے تھے۔ ان کے ساتھ مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء بھی تھے اور وقار شہری بھی۔لیکن دہلی پولیس انہیں گرفتار کر لے گئی۔ اسی طرح ملک کے مختلف حصے میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف چلنے والی تحریک میں شامل ہونے والے کئی لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیاہے۔یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ کسی کو بھی ملک مخالف نعرہ بازی کرنے یا ملک کی سا لمیت کے خلاف تقریر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اس بات کا خیال مظاہرین کو بھی رکھنا ہوگا کہ ہم آئین کی حفاظت کے لئے جمہوری طریقے سے ہی اپنا احتجاج جاری رکھ سکتے ہیں۔ اب جب کہ اس تحریک کو بدنام کرنے کے لئے یا پھر دبانے کے لئے نئی سازش شروع ہوگئی ہے تو ایسی صورت میں مظاہرین کو اور بھی چاق وچوبند اور ہوشیار رہنا ہوگا کہ جامعہ کا واقعہ کہیں بھی دہرایا جا سکتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔کیوں کہ اس طرح کے لوگوں کے سر پر کس کا ہاتھ ہے وہ پوشیدہ نہیں ہے۔جس طرح دہلی کے انتخابی جلسوں میں اشتعال انگیز اور نفرت انگیز نعرہ بازی و بیان بازی ہو رہی ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ اب ملک میں نظم ونسق نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے۔ فکر مندی کی بات تویہ ہے کہ قانون کے محافظ بھی تماشائی بن گئے ہیں بلکہ وہ غیر جمہوری طریقہ کار کے علمبرداروں کے معاون ہوگئے ہیں۔ اتر پردیش کے لکھنؤ میں پولیس کا رویہ کیا ہے وہ سب سامنے ہے اور دہلی میں کیا ہو رہاہے وہ بھی جگ ظاہر ہے۔ مگر ہمیں اس ملک کو بچانا ہے کہ ملک کی سا لمیت ہی ہمیں امن وسکون عطا کر سکتی ہے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ ہم بڑی سے بڑی طاقتوں کو شکست دے سکتے ہیں اور نفرت کی سیاست کو ناکام کر سکتے ہیں۔صرف اور صرف عدمِ تشدد اور جمہوری طریقے سے۔یہ اور بات ہے کہ ملک میں ظاہری طورپر گاندھی کی مالا جپنے والے گوڈسے کی فکر ونظر کے علمبردار بن گئے ہیں اور ملک میں ہزاروں گوڈسے کو پیدا کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ ملک اب بھی گوتم بدھ اور گاندھی کا ہے، رام اور نانک کا ہے۔ یہاں اب بھی چشتی کے نام لیوا موجود ہیں اور یہ سب ستیہ اور اہنسا کی راہ کو بھولے نہیں ہیں۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ایک وہ تیس جنوری تھی جب 1948ء میں اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرونے باپو کے قتل کے بعد کہا تھا کہ ”روشنی گم ہوگئی ہے“۔ لیکن ہزاروں لوگوں نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ روشنی ہمارے دل میں مکیں ہے کہ روشنی کا کبھی قتل نہیں ہوسکتا۔ آج جب 30/ جنوری 2020ء کو گوڈسے ثانی نے ایک بار پھر چراغِ گاندھی کو بجھانے کی کوشش کی ہے تو چہار طرف سے صدا بلند ہو رہی ہے کہ ہم چراغِ امن کو بجھنے نہیں دیں گے۔ خواب باپو کو شرمندہ تعبیر کرکے رہیں گے۔بابائے قوم مہاتما گاندھی کو ان کی 73ویں یومِ شہادت پر اس نظم کے ساتھ خراجِ عقیدت پیش کرتا ہوں کہ گاندھی ایک روشنی کا نام ہے اور روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا۔اس نظم کا عنوان بھی یہی ہے کہ ”روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا
روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!
(گاندھی جی کی 73ویں یوم شہادت پر)
ایک وہ تیس جنوری تھی /ایک یہ تیس جنوری ہے /اس دن کسی نے کہا تھا/”روشنی چلی گئی ہے ”/کہ سچ مچ/تا حد نظر پھیل گئی تھی تاریکی /
مگر نکل پڑا تھا ایک کارواں /شہر شہر،قریہ قریہ/کہ یہ سچ ہے /مسیحائے وقت رہا نہیں /لیکن / ہزاروں دل میں جل رہی ہے/
اس دیوتا ئے امن کی جیوتی /کہ روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!/اور / آج بھی تیس جنوری ہے /چہار طرف ہے آندھیوں کا زور /
اور لاکھوں چل پڑے ہیں / اس قطب نما کی جانب /کہ ضد ہے ان کی بھی /چراغ حیات جلانے کی /تیرگی جمہور مٹانے کی /
مگر پھر وہ اپنی تاریخ دہرا گیا ہے /فرمان شاہی سنا گیا ہے /ارادہئ وقت بتا گیا ہے /مگر آئینہ مسکرا رہا ہے /کہ اسے یہ معلوم نہیں /
اب بھی دیوتائے امن کی جیوتی /ہزاروں دل میں جل رہی ہے /کہ روشنی کا قتل ہو نہیں سکتا!
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)
عبدالعزیز
عام طور پر لوگ تشدد کا جواب تشدد سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ تشدد کا جواب تشدد سے دینے کیلئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہئے‘ لیکن اصلاح اور انقلاب کیلئے یہ طرز عمل نہ کبھی مفید ہوا ہے اور نہ کبھی مفید ہوگا۔ اس وقت ملک میں جو مظاہرے اور احتجاج کالے قانون کے خلاف ہورہے ہیں اس کی قیادت عورتوں، طالب علموں اور نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ گاندھی جی یا جئے پرکاش نرائن کی طرح ملک کو کوئی قائد میسر نہیں ہے۔ موجودہ احتجاج کا سلسلہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں کے ایک مظاہرے سے شروع ہوا۔ مظاہرین پر دہلی پولس نے صرف ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ بہت سے طالب علم زخمی ہوئے تھے اور بہت سے لوگوں کو شدت کی چوٹ آئی تھی ان کو علاج کیلئے اسپتال میں داخل کرنا پڑا تھا۔ ایک طالب علم کو اپنی ایک آنکھ سے محروم ہونا پڑا۔ ظالم پولس ظالم حکمراں کے اشارے پر جامعہ کی لائبریری، کینٹین، مسجد یہاں تک کہ غسل خانہ تک میں گھس کر طالب علموں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ کئی طالبات جن میں عائشہ رینا اور لدینا فرزانہ آگے آگے تھیں۔ اپنے ایک ساتھی عبداللہ کی جان پولس کے حملے سے بچانے میں کامیاب ہوئیں۔ چالیس پچاس سے زائد طالب علموں کو پولس نے گرفتار کرلیا۔ یہی گرفتاری پورے ملک میں مظاہرے کا سبب بنی۔ پولس اسٹیشن میں جہاں طلبہ حراست میں لئے گئے تھے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ بہت سماجی کارکن، حقوق انسانی علمبردار ہرش مندر اور یوگیندر یادو جیسے لوگ پولس اسٹیشن طلبہ کی رہائی کیلئے آناً فانا پہنچ گئے۔ مظلوم طلبہ کو پولس کے خلاف شدید مظاہرے کی وجہ سے رہائی دینی پڑی۔ اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ نے احتجاج و مظاہرہ کیا تھا تو یوگی پولس نے طلبہ پر ظلم کی حد کردی تھی۔ ہزار سے زائد طلبہ کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ یونیورسٹی کو بند کردینا پڑا تھا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مظاہرے کے بعد پورے ملک میں اکثر یونیورسٹی کے طلبہ نے مظلوم طلبہ کی یکجہتی کیلئے سڑکوں پر اتر آئے۔
کچھ ہی دن کے بعد شاہین باغ میں عورتوں کا دھرنا شروع ہوا۔ دیکھتے دیکھتے پورے ملک میں شاہین باغ کے طرز پر دھرنے کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ چھوٹے بڑے شہروں میں اس دھرنے سے ایک بڑی تحریک کا آغاز ہوا۔ مظاہرے ہورہے ہیں۔ احتجاج ہورہا ہے۔ دھرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب ملاکر ایک بڑی تحریک ملک میں شروع ہوگئی ہے۔ اس احتجاج یا تحریک سے جو نتائج اب تک سامنے آئے ہیں اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی بھی بی جے پی کا غلبہ ہے، لیکن بی جے پی رہنمائی اور رہبری سے محروم ہوگئی ہے۔ فلاسفر اور اسکالر غلبے اور رہنمائی کے بارے میں یہ فرق بتاتے ہیں کہ رہنمائی دل و دماغ پر فتحیابی کا نام ہے۔ اور یہ ایسی فتحیابی ہوتی ہے کہ اپوزیشن میں بھی یہ جگہ پیدا کرلیتی ہے۔ غلبے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنے متبادل سے آگے ہے لیکن اس کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور مخالفین آگے ہوجاتے ہیں۔ پروٹیسٹ کی شدت کے باوجود بی جے پی کا غلبہ ابھی بھی مستحکم ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے اس کی رہبری باقی نہیں ہے۔ مئی 2019ء میں بی جے پی کو لوک سبھا الیکشن میں اکثریت حاصل ہوئی اس وقت اس کی رہبری سمجھی جاتی تھی اوراس نے اس رہبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’تین طلاق‘ اور غیر قانونی طور پر کشمیر کے خصوصی درجے کا خاتمہ اور اس کی تقسیم، اجودھیا بھی اسے حاصل ہوا لیکن کورٹ کے ذریعے اور پھر شہریت کے قوانین میں ترمیم۔ بی جے پی کے حکمرانوں نے سوچا کہ یہی وقت ہے کہ دستور کو کنارے لگا دیا جائے اور جو ان کا قدیمی نظریہ ہے ہندوؤں کی برتری اور مسلمانوں کی کمتری کو مستحکم کردیا جائے۔ لیکن جب سے پروٹیسٹ یا احتجاج شروع ہوا ہے بی جے پی کا خواب چکناچور ہونا بھی شروع ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گالی گلوج پر اتر آئے ہیں۔
گزشتہ روز ہماچل پردیش سے تعلق رکھنے والے مسٹر انوراگ ٹھاکر وزیر حکومت ہند نے جو نعرہ بلند کیا ’ملک کے غداروں کو‘ جواب میں کہا گیا ’مارو ان سالوں کو‘۔ اس رویے اور انداز سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ اب وہ پولرائزیشن کے ذریعے دہلی کے الیکشن کو جیتنا چاہتے ہیں۔ اروند کجریوال کی حکومت نے جو پانچ سال میں عوامی خدمات کا کام کیا ہے جس سے ان کی مقبولیت و محبوبیت عوام میں کافی ہے، اس کی طرف سے لوگوں کا ذہن ہٹاکر ہندو مسلمان کرکے الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ شاہین باغ جیسی عظیم تحریک کو بدنام کرنے کی ہر طرح سے بی جے پی کی طرف سے کی گئی۔ اب اس تحریک کو مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کانگریس اور ’آپ‘ پارٹی کے اسپانسر کی بات کہی جارہی ہے۔ کپیل مشرا نے دہلی کے الیکشن کو ہندستان بمقابلہ پاکستان کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ شاہین باغ سے پاکستان کے لوگ داخل ہورہے ہیں۔ ان چیزوں سے بی جے پی کی فطری شکست کا اندازہ ہوتا ہے۔ کجریوال کے مقابلے میں ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ مودی کا چہرہ دکھاکر دہلی میں فرقہ پرستی اور نفرت کو پھیلاکر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔
شرجیل امام نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم ہیں ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا ہے جسے بی جے پی والے ایک ماہ بعد وائرل کر رہے ہیں اور اس پر غداری اور قوم دشمنی کا الزام لگا رہے ہیں۔ شاہین باغ میں شرجیل امام نے نہ تقریر کی اور نہ وہاں وہ گیا۔ شرجیل نے شاہین باغ کے دھرنے کو ختم کرنے کی اپیل جاری کی تھی جس کی شاہین باغ میں بیٹھی خواتین نے سخت مخالفت کی تھی۔ اس کے باوجود شرجیل امام کے بیان یا تقریر کو شاہین باغ سے جوڑا جارہا ہے۔ شاہین میں صرف مسلمان عورتیں ہی نہیں ہیں بلکہ غیر مسلم خواتین بھی ہیں۔ بی جے پی کے سوا شاہین باغ کے دھرنے کو ہر پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ اکثر و بیشتر پارٹیوں کے لیڈران نے وہاں جاکر احتجاج پر بیٹھی خواتین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ پنجاب سے لگ بھگ ڈیڑھ سو مرد اور خواتین شاہین باغ کی خواتین کا حوصلہ بڑھانے کیلئے آئے۔ پنجاب کے سکھوں کی طرف سے وہاں لنگر خانہ بھی جاری ہوا۔ ہریانہ کی چھتیس برادری کی طرف سے لنگر خانہ کھولا گیا ہے۔ دور دراز سے یہاں تک کہ کلکتہ سے وہاں فنکار بڑی تعداد میں جاتے ہیں۔ کلکتہ کے دو آرٹسٹوں نے لوہے کے ذریعے ہندستان کا بڑا نقشہ بنایا ہے۔ نقشے پر ‘No CAA, No NRC, No NPR’ لکھا ہوا ہے۔ اسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے لوگ آتے ہیں۔
ملک بھر میں کالے قانون کے خلاف جو احتجاج ہورہا ہے اس کا سروے تو نہیں ہوا ہے لیکن براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر، اسکالر اور سیاسی سائنسداں آسوتوش ورشنی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ”احتجاجیوں میں سے ہر چوتھا آدمی ہندو یا غیر مسلم ہوتا ہے۔ اور بغیر کسی شک و شبہ کہ احتجاج بین المذہبی ہے یعنی جس میں سارے مذاہب کے لوگ شامل ہیں“۔ (دی انڈین ایکسپریس، 28/1/2020)
تحریک کو آگے بڑھانا، اس کے مقاصد کا تحفظ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پہلی چیز تو یہ ہونی چاہئے کہ یہ تحریک ایسی ہو کہ بین المذہبی معلوم ہو۔ سارے مذاہب کی تحریک معلوم ہو۔ دوسری جو چیز یہ ہونی چاہئے کہ بی جے پی یا اس کے کارندے یا لیڈر کتنا بھی مشتعل کرنے کی کوشش کریں احتجاجی کسی طرح بھی مشتعل نہ ہوں اور نہ متزلزل ہوں۔ اور کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس سے معمولی درجے میں بھی ہنگامہ یا تشدد ہو۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طالبعلموں پر جب حملہ ہوا تھا وہاں کی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر آئشی گھوش کے سر پر چوٹ آئی تھی اور وہ لہولہان بھی ہوئی تھی لیکن اس نے کہا تھا کہ ”بی جے پی کے تشدد اور پولس کے ظلم کا مقابلہ ڈیبیٹ (مباحثہ) اور ڈسکشن (بحث) کے ذریعے جواب دیا جائے گا“۔ آئشی گھوش نے یہ نہیں کہا کہ اینٹ کا جواب وہ پتھر سے دیں گی۔ یہی طرز عمل تحریک کیلئے زیادہ کارگر ثابت ہوگا۔ تشدد کا جواب عدم تشدد سے دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن ان کا جواب سنجیدگی اور متانت سے دینے میں کبھی چوکنا نہیں چاہئے۔ ہمارا نعرہ یہ ہونا چاہئے کہ ”ہم خاموش ہر گز نہیں رہیں گے، تشدد بالکل نہیں کریں گے“۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068
فریدی صدیقی مصباحی،مسقط (عمان)
جس کی تجلیوں سے حرارت لہو میں ہے
جانبازی کا چراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
جن سے ملے ہیں بسمل و اشفاق جیسے لال
اُن ماؤں کا سُراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
میرے گُلوں کو آتا ہے شعلوں سے کھیلنا
ایسا نڈر دماغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
ہرگز جُھکے گا ظلم کے آگے نہ میرا سر
گرچہ میں داغ داغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
زخموں میں مسکرانے کا فن مجھ سے سیکھیے
ہر غم سے بافراغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
ہے میرے میکشوں میں نشہ ، صبر و عزم کا
خودداری کا اَیاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
بُزدل نہیں ، یہاں پہ ٹھہرتے ہیں سرفروش
بَرتَر زِ حَدِّ زاغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
غنچے بھی اے فریدی یہاں کے دلیر ہیں
ہمت سے باغ باغ ہوں ، شاہین باغ ہوں
شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
قصّہ ستر(۷۰)برسوں کا ہےـ ہندوستان کی جمہوریت جہاں سے شروع ہوئی تھی وہاں سے آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے کئی برسوں پیچھے چلی گئی ہے ۔ آج ہندوستان میں جو طاقتیں راج کررہی ہیں اور جس طرح سے راج کررہی ہیں اسے نہ ہی تو جمہوری نظام کہا جاسکتا ہے۔ ویسے کہنے کو تو ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی زبان فخر یاگرو سے بیرون ملک ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہوئے تھکتی نہیں ہے۔ اور نہ ہی حکمرانوں کو جمہوری اصولوں کا پابند ۔ ملک میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے اور مضبوط نہ ہونے کی وجوہات سیاسی بھی ہیں اور سماجی معاشی اور تعلیمی وتہذیبی بھی ۔ لیکن سب سے بڑی وجہ یقیناً سیاسی ہے۔ یہ سیاست ہی ہے ، چاہے کانگریس کی سیاست ہو یا اسی طرح کی دوسری نام کی سیکولر سیاسی پارٹیوں کی یا پھر ہندوتوادی سیاسی جماعتوں کی ، ان سب کی سیاست نے نہ ملک کو آگے بڑھنے دیا ہے ، نہ ہی شہریوں کو ایک بہتر سماج میں ڈھلنے دیا ہے اور نہ ہی تہذیبی ، تعلیمی اور معاشی سطح پر لوگوں کو مضبوط ہی ہونے دیا ہے۔ نہ ہی کل ان سب نے ملک اور ملک کے لوگوں کی خوشحالی ، امن وامان اور ترقی کے لئے فکر کی اور نہ ہی آج کررہے ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے ، اور بڑا ہی خوش آئند ہے کہ ملک بھر میں بڑی تعداد میں ’ شاہین باغ‘ پیدا ہوگئے ہیں اور ایک ’ نئی آزادی‘ کے لئے پھر سے تحریک آزادی ہی جتنی بڑی ایک تحریک کھڑی ہوگئی ہے۔ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے طلباء نے مرکز کی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے دست راست مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ کی حکومت کے، لوگوں کو مذہب کے نام پر شہریت دینے کے ’کالا قانون‘ کے خلاف ایک ایسی زوردار آواز بلند کی جس نے سرکای ایوانوں کو ہلادیا ہے ۔ اور اس آواز میں ’ شاہین باغ‘ کی باہمت خواتین نے اپنی آواز ملاکر قصر شاہی میں ایک زلزلہ پیدا کردیا ۔ آج ان سب کی آواز میں سارا ملک آواز ملا رہا ہے ۔ اور وہ بھی بلاتفریق مذہب ، مسلک ، ملّت ، ذات پات ۔ جے این یو کے سابق طلباء لیڈر کنہیا کمار کے بقول ’’یہ بے ایمانوںسے جنگ ہے ، ایک ایسی جنگ جو ملک میں ایک نئے انقلاب کی علامت ہے ۔‘‘
اب ملک جمہوری اور سیکولر قدروں کے تحفظ کے لئے طلبااور خواتین سے ہی آس لگائے ہوئے ہے ، لیکن کچھ عناصر ایسے ہیں جو پوری طرح سے کوشاں ہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی اور بقا کی یہ جو تحریک چلی ہے ، یہ کمزور پڑ جائے ۔ صرف کمزور ہی نہیں یہ تحریک دم توڑ دے ۔ اس میں علماے کرام بھی ہیں ، دانشوران بھی ، سیاسی پارٹیاں بھی ہیں اور سیاست دان بھی ۔ اور ’یرقانی ٹولہ‘ تو ہے ہی ۔ ۱۸۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک تو علماء کرام نے فرنگیوں کے سامنے جھکنے سے بہتر اپنی جانوں کو قربان کرنا سمجھا تھا، لیکن مجھے حیرت ہے کہ آج علماء کرام کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں ،اپنی خواہشات اور اپنے مفادات کے لئے خود تو ’ دُم دبانے ‘ کو راضی ہے ساتھ ہی مدرسوں کے طلباء کو بھی ’ دُم دبانے‘ یا با الفاظ دیگر ’بزدلی‘کا درس دے رہی ہے !! ایسا نہیں ہے کہ طلباء اور خواتین کی سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر مخالف تحریک میں علماء کرام بالکل نہیں آئے ، آئے لیکن وہ علماء کرام جن سے امیدیں تھیں کہ وہ یقیناً اس تحریک میں نوجوانوں کے ہمسفر بنیں گے ، وہ منظر نامے سے اوّل روز سے غائب رہے ، آج بھی غائب ہیں ۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ بیربل کی طرح سب اپنی اپنی کھچڑیاں پکارہے ہیں ، کل جماعتی تنظیم کے نام پرمیٹنگوں پر میٹنگیںہورہی ہیں ، وہ مولوی حضرات جو ایک میٹنگ میں نظر نہیں آتے دوسری میں نظر آتے ہیں اور جو دوسری میں نظر آتے ہیں وہ تیسری میٹنگ سے غائب رہتے ہیں ۔ اتحاد واتفاق آج بھی مفقود ہے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے مظاہرے کرواتے ہیں ، تجاویز منظور کرواتے ہیں اور فکروتشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں پر ان کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ ان طلباء اور خواتین کی، ان بوڑھوں اور بچوں کی ’ حوصلہ افزائی‘ کریں جو سب کی لڑائی لڑرہے ہیں ، صرف اپنی نہیں۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جب کل اس تحریک کی ’ تاریخ‘ لکھی جائے گی تو مورخ کے پاس علمائے کرام ،مسلم دانشوران ، بڑے بڑے ادیبوں اور شعرا اور ماہرین تعلیم اور پروفیسر صاحبان میں سے ، جن کی بہت بڑی تعداد ہے ، بس گنتی ہی کے نام ہونگے !! ان میں اور نریندر مودی میں ایک بات مشترک ہے ، مودی بھی ملک کا غم لے کر بیرون ملک گھومتے ہیں اور یہ سب بھی قوم کے غم میں بیرون ملک جاکر شاہی مہمان بنتے ہیں۔۔ مجھے حیرت ہے کہ کل کا مورخ جب تحقیق کرے گا کہ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی تحریک میں مدرسوں کے کتنے طلباء شریک تھے تو یہ جان کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی کہ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء تو بلاتفریق مذہب سڑکوں پر تھے ، مودی اور شاہ کی حکومت اور ’ کالے قانون‘ کے خلاف نعرے لگارہے تھے پیٹھ پر لاٹھیاں کھارہے تھے مگر طلباء مدارس اپنے کمروں اور اپنی کلاسوں میں ’ قید ‘ تھے ۔ جی ہاں ، یہ تو تحریک میں شامل ہونے کے لئے بیقرار تھے پر ان کے اساتذہ کرام نے ، ان کے دارالعلوموں کے منتظمین اور ذمے داران نے ان پر دروازے بند کردیئے تھے ۔ مانا کہ انہیں ان بچوں کی حفاظت کی فکر تھی ، انہیں پولس سے بالخصوص یوپی کی یوگی کی پولس سے خطرہ تھا، پر کوئی تو راہ ایسی تھی جسے اپناکر مدرسے کے یہ بچے آج کی نوجوان نسل کی تحریک میں اپنی آواز ملاسکتے تھے۔ میں کسی کا نام نہیں لونگا، ان سب کے چہرے ، ان کے نام سے کوئی ایسا نہیں جو واقف نہ ہو ، بس اتنا کہنا ہے کہ انہیں پہچان لو کہ اس ملک سے اگر لوگوں کو نکلنا پڑا تو اس کے ذمے دار یہی ہونگے ، ان کی خاموشی ہی ان کا سب سے بڑا جرم ہوگی ۔ اور اگر لوگوں کو ملک سے نکلنا نہ پڑا تو اس کا سہرا ان کے نہیں ،یقین مانیں کہ یہ سہرا بندھوانے آئیں گے ، طلباء اور ملک بھر کی شاہین باغوں کی شاہنیوں کے سر بندھے گا ۔
طلباء کو اور شاہین باغ۔ ملک بھر کے شاہین باغ ۔ کی خواتین کو ہمارا ، ہم ہندوستانیوں کا سلام ہے ۔۔۔ لیکن یہ سلام اس ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے لئے نہیں ہے ۔ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر پر کانگریس کی دوسرکاروں ، پنجاب اور راجستھان نے اپنی اپنی اسمبلیوں میں قرار دادیں منظور کی ہیں ، کیرالہ میں بھی قرار داد منظور کی گئی ہے ، لیکن ہنوز کئی ریاستوں کی اسمبلیوں میں شہریت قانون کے خلاف قرار داد منظور نہیں ہوسکی ہے ۔ جب تک تمام غیر بی جے پی ریاستوں میں قرار دادیں منظور نہیں ہوتیں کسی بھی سیاسی پارٹی کو سلام نہیں کیا جاسکتا ۔ اور انہیں تو کبھی بھی نہیں جو سی اے اے منظور کرانے میں مودی اور شاہ کی سرکار کے ساتھ تھے ۔ نتیش کمار قابل معافی نہیں ہیں اور مایاوتی بھی قابل معافی نہیں ہیں ۔ یہ کیسے خود کو اس ملک ، اس ملک کے لوگوں ، اقلیتوں ، پچھڑوں اور دلتوں کا نیتا قرار دے سکتے ہیں کہ سی اے اے تو ان سب کے ہی خلاف ہے !! ملک آزاد تو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ میں ہوا تھا لیکن یہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ء کا دن تھا جب ’آئین ہند‘ کو تنفیذ کیا گیا تھا ۔ یہ دن اس لئے ہندوستانیوں کے لئے اہم ترین ہے کہ اسی روز انگریزوں کے بنائے ہوئے ’ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵‘ کی جگہ ہم سب کا اپنا آئین نافذ ہوا تھا ، وہ آئین جس نے ’ ہندوراشٹر‘ کے نظریے کو مسترد کرکے ایک ’ جمہوری نظام‘ کو ہم سب کی زندگیوں کا حصہ بنایا تھا۔ آئین جو مذہب ، تعلیم ، سماج ، تہذیب وثقافت ہر طرح سے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے بلکہ امن وامان سے اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ یہ آزادی آج خطرے میں ہے اور نتیش کمار ، مایاوتی ، رام ولاس پاسوان جیسوں سے اسے کہیں زیادہ خطرہ ہے ۔ ’یرقانی ٹولہ‘ تو ہے ہی آئین مخالف ، اسے تو اس ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ میں ڈھالنا ہے اور یہ جو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کا ہوا چھوڑا گیا ہے اسی مقصد کے لئے ہے ۔۔۔ لیکن ایک امید کی کرن طلباء اور خواتین نے جلائی ہے ، اس کرن کو جلتے رہنا چاہیئے، ہم سب کو چاہیئے کہ اسے بجھنے نہ دیں۔
کچھ ذکر مہاراشٹر کا کرتے چلیں ۔ مہاراشٹر نے اس بار اسمبلی الیکشن کے بعد جو دیکھا وہ جمہوری ہندوستان کا ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ایک فرقہ پرست پارٹی ، بی جے پی کو سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے کے باوجود حکومت حاصل کرنے نہیں دیا۔ شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے کانگریس اور این سی پی سے ہاتھ ملاکر ’ مہاوکاس اگھاڑی‘ کا قیام کیا اور بی جے پی کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ مانا کہ شیوسینا کی سرشت میں ’ فرقہ پرستی ‘ ہے پر آج اگر یہ بی جے پی کے خلاف کھڑی ہوئی ہے تو اسے مضبوط کرنے کی کوشش ضروری ہے تاکہ یہ اپنی سرشت کو بدل سکے ۔ بی جے پی اس کے لئے تیار نہیں ہے ، اس نے اب ’ مہاراشٹر نونرمان سینا‘ (منسے)کے سربراہ راج ٹھاکرے کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ ابھی یہ تعلق جگ ظاہر نہیں ہے لیکن جس طرح سے راج ٹھاکرے نے اپنی پارٹی کا رخ ’ ہندوتو‘ کی طرف موڑا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ
کوئی معشوق ہے پردۂ زنگاری میں
اور یہ معشوق بی جے پی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ راج ٹھاکرے اب این آرسی کے حامی بن گئے ہیں ، انہوں نے اپنے صاحبزادے امیت ٹھاکرے کو ’ہندوتو‘ کی حفاظت کا عہد دلایا ہے ، وہ ’ بنگلہ دیشیوں‘ کے خلاف تحریک شروع کررہے ہیں ۔ یعنی مہاراشٹر میں سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی حمایت میں ایک ہوا بنانے کی تیاری ہے ، اس کا ایک مقصد لوگوں کو ’ بالخصوص مسلمانوں کو ‘ ڈرانا ور دھمکانا اور بی جے پی کے نظریات کو مضبوط کرنا ہے ۔ لہٰذا یہاں بھی ایک بہت بڑی تحریک کی ضرورت پڑے گی ، ایسی تحریک جو سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کی آواز کو دباسکے۔ تو آئیں ہم سب آج ’ یوم جمہوریہ‘ کے روز یہ عہد کریں کہ ’’ہم اس ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کی بقا اور حفاظت کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ۔‘‘
ڈاکٹرخالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 110025
یہ وہ صنفِ نازک ہے، جس کے بہت ناز و نخرے اٹھائے گئے ہیں
زمانے سے اس کی نزاکت، لطافت کی کتنی عجب داستانیں کہی جارہی ہیں
بھلا کوئی دیوان ایسا کہاں ہے کہ اس کے سراپا کی تمثیل و تشبیہ جس میں نہیں ہو
یہ سب نقش و تصویر، سب رقص و آواز اسی پیکرِ نازک اندام کے ترجماں ہیں
مگر اب وہ لیلیٰ ، وہ شیریں، وہ سلمیٰ، وہ عذریٰ نہیں ہے
وہ شاہین باغی ہے، شاہین باغی
کہ جس کی صدائے بغاوت نے ایوانِ فسطائیت میں قیامت کا لرزہ بپا کردیا ہے
وہ رضیہ ہے، جھانسی کی رانی ہے، شمشیر و خنجر ہی زیور ہے جس کا
وہ درگا کی اوتار ہے، سر کچلتی ہے جو تانا شاہی کے اس راکچھس کا
یہ وہ شیرنی ہے کہ جس کی دہاڑوں سے فسطائیوں کا کلیجہ دہلنے لگا ہے
سنو ہٹلرو، تانا شاہو!
کہ نرگس بھی آئینہ خانے سبھی توڑ کر، حُرّیت کا علم تھامے میدان میں آچکی ہے
کہ اب اس نے طے کرلیا ہے
جنازہ نکالے گی وہ آمریت کا اک دن
منوواد کودفن کرکے ہی دم لے گی اب وہ
سو اے ماہرینِ لغت! آپ سے معذرت، میں اسے آج سے صنفِ نازک نہیں، صنفِ آہن کہوں گا.
نئی دہلی:انگریزی نیوز ویب سائٹ”مکتوب میڈیاڈاٹ کام“کے مطابق صحافی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم شاہین عبداللہ کو آج علی گڑھ میں یوپی پولیس نے ڈٹین کرلیاہے اورانہیں علی گڑھ کے نزدیک اپرکوٹ پولیس اسٹیشن لے جایاگیاہے۔وہ ’’مکتوب میڈیا‘‘ کے لیے علی گڑھ کے شاہ جمال علاقے میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف چل رہے خواتین کے احتجاج کی رپورٹنگ کے لیے گئے تھے۔قابل ذکرہے کہ شاہین عبداللہ کی تصویر 15دسمبر2019کوجامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے ساتھ دہلی پولیس کی زیادتی کے دوران وائرل ہوئی تھی،انہیں ان کی ساتھی طالبات عائشہ رینا،چندایادو اور لدیدہ فرزانہ پولیس سے بچاتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔بعدمیں یہی تصویر ملکی و عالمی سطح پرشہریت ترمیمی قانون و این آرسی کے خلاف احتجاج کی ایک مضبوط علامت کے طورپر ابھرکرسامنے آئی۔ابھی دودن قبل بھی شاہین عبداللہ کاایک ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوا تھا،جس میں وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ دہلی میٹرومیں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی نعرے لگارہے تھے۔
چند دنوں قبل ماحولیاتی تحفظ کے تئیں بیداری پیدا کرنے کی غرض سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ایماء پرریاست بہار میں انسانی زنجیر بنائ گئ تھی لیکن وہ ناکام رہی اس کی بنیادی وجہ نتیش کمار کی دوغلی پالیسی تھی جس کے تحت انہوں شہریت ترمیمی بل کی حمایت کی تھی اور این پی آر کے نفاذ کے لئے مکمل زمین ہموار کی تھی ریاست کے لوگوں کی ناراضگی جائز اور توقع کے مطابق تھی چنانچہ عوام اس انسانی زنجیر میں بڑی تعداد میں شریک نہیں ہوئی اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ شامل ہونے والوں کی بڑی تعداد نے سی اے اے این پی آر اور مجوزہ این آرسی کے خلاف صدائیں بلندکیں دیکھنےوالوں نے دیکھاکہ لوگ سروں پرمذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف پٹیاں باندھ کر اور ہاتھوں میں بینرلیکر انسانی زنجیر میں کھڑے ہیں جس کامطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا کہ ریاست کی عوام ترجیحی بنیاد پرسیاہ قوانین پرقدغن لگانے کامطالبہ کررہی ہیں اب خبر یہ آرہی ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں نے مذکورہ سیاہ قوانین کے خلاف جاری جدجہد میں انسانی زنجیرکوشامل کیاہے جسے امارت شرعیہ کی تائید و حمایت حاصل ہے امارت شرعیہ نے اس کا اعلان مورخہ 22 جنوری 2020کو منعقد ہونے والے کل جماعتی اجلاس میں کیاگیا یہی وجہ ہے کہ اور امارت کے کارکنان بھی انسانی زنجیر کوکامیاب بنانے کےلئے تگ و دو کررہے ہیں
*یہ انسانی زنجیر مورخہ25جنوری 2020روز سنیچر کو بنائ جائے گی اور دوبجے سے تین بجے تک لوگ شامل زنجیر رہیں نماز کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے وقت کا تعین کیا گیاہے*
وقت کی نزاکتوں اور حالات کی سنگینیوں سےلوگ واقف ہیں اسلئے یہ بتانے اور سمجھانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے کہ لوگ کیوں شامل زنجیر ہوں تاہم اتنی سی بات ہر شخص کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ وقت ماضی کی خامیوں کے تلاش کرنے اور خوبیوں پراترانے کا موقع نہیں دیناچاہتاہے بلکہ ہم سے یہ تقاضہ کرتاہے کہ ہم جوکچھ کرسکتےہیں ملک وملت کی بہتری کےلئے کریں جولوگ کچھ بھی اچھاکررہےہیں ان کاساتھ دیں اور متفقہ طور پر خوف کے لباس کواتار پھینکیں ورنہ آنے والے دن بہت تباہ کن ہوسکتےہیں خدا ملک و ملت کی حفاظت فرمائے….!
سیاسی تحفہ کے طور پر تقرری پانے والے کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان کو یہ آئینی عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی پانچ مہینے پورے نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن اس عرصہ میں وہ بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ریاستی حکومت سے دس بار لڑچکے ہیں۔ وہ نہ صرف ریاستی حکومت سے مختلف معاملات میں اختلاف کر رہے ہیں بلکہ میڈیا کو اپنے نرم وگرم بیانات بھی جاری کر رہے ہیں ۔
واقعہ یہ ہے کہ عارف محمد خان گورنر کا نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کر رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف کیرالہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ممبر او راجا گوپال نے قدرے معقولیت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے کہ کیرالہ میں بائیں بازو کی حکومت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنارائی وجین نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف سیاسی اور قانونی محاذ کھول رکھا ہے۔ حکومت کیرالہ نے اسمبلی میں قرارداد پاس کرنے کے بعد اب سپریم کورٹ میں بھی سی اے اے کے خلاف رٹ دائر کردی ہے۔ اس پر گورنر عارف محمد خان آتش زیر پا ہیں ۔
گورنر صاحب کو دکھ ہے کہ ریاستی حکومت نے ان کی اجازت’ مشورہ اور اطلاع کے بغیر کیسے یہ قدم اٹھایا۔ لہذا انہوں نے حکومت سے جواب طلب کیا۔گزشتہ روز جب ریاست کے چیف سیکریٹری ٹام جوز ریاستی حکومت کا موقف سمجھانے کے لئے ان سے ملے تو انہوں نے وہی رٹ لگائے رکھی کہ کوئی بھی دلیل مجھے مطمئن نہیں کرسکتی کیوں کہ ریاست نے غیر قانونی کام کیا ہے۔
گورنر دراصل صدر جمہوریہ کے توسط سے مرکزی حکومت کا نمائندہ ہوتا ہے۔ لیکن آج کل گورنروں نے خود کو نمائندہ کم ایجنٹ زیادہ ثابت کرنے پر زور صرف کر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ریاستی حکومت مرکزی حکومت سے شاکی ہے تو سپریم کورٹ میں کی جانے والی "شکایت” آپ سے پوچھ کر کیوں کی جائے۔ اور کیوں کر آپ اس کی اجازت دیں گے۔
ہاں اس سلسلے میں کیرالہ اسمبلی میں بی جے پی کے واحد ممبر او راجا گوپال کا رویہ بہت مثبت رہا۔ انہوں نے اس پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا کہ گورنر بات بات پر میڈیا کو بیان دیتے ہیں اور ریاستی حکومت سے مسلسل متصادم ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گورنر اور وزیر اعلی کے درمیان کوئی بھی تنازعہ یا اختلاف ہو اسے آپس میں مل بیٹھ کر ہی حل کرنا چاہئے۔ یہ گورنر کا کام نہیں ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنی ناگواری کا اظہار کرے۔
عارف محمد خان صاحب نے اسلام اور مسلم مخالفین کی بڑی دانشورانہ خدمات انجام دی ہیں۔ انہیں گورنر کا باوقار عہدہ بھی انہی خدمات کے صلہ میں بخشاگیا ہے۔ ایسے میں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان سے درخواست کی جائے کہ کم سے کم بی جے پی ممبر اسمبلي کے دکھائے ہوئے آئینہ میں ہی اپنا کردار دیکھ لیں ۔
جامعہ احتجاج کا۳۳؍ واں دن، وارث پٹھان سمیت متعددسیاسی وسماجی رہنماؤں کاخطاب
نئی دہلی۔ ۱۴؍جنوری: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) شہریت ترمیمی قانون، این آر سی، سی اے اے کے خلاف طلبائے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے احتجاج کا آج ۳۳؍واں دن تھا۔ حسب سابق آج بھی بڑی تعداد میں طلبا و اطراف کے عوام نے احتجاج میں شرکت کی اور سیاہ قانون کی مخالفت میں نعرے لگائے۔ آج کےاس احتجاج میں مظاہرین سے رام موہن رائے (جنرل سکریٹری گاندھی گلوبل فیملی ، چیف ایڈیٹر نتیہ نوتن میگزین، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ)وارث پٹھان (ترجمان مجلس اتحادالمسلمین) ، ناصر سرپنج (سرپنج بجنور)، جسٹس کولسے پاٹل، مدثر حیات (سابق جنرل سکریٹری اے ایم یو اولڈ بوائز ) ، صدف جعفر (سماجی کارکن)، پروفیسر بھوپیندر چودھری ، شہزاد احمد، ڈاکٹر دیو کمار (دہلی یونیورسٹی)، انگھش مان چودھری (نئی دہلی) نے خطاب کیا۔ تمام مقررین نے طلبہ کے حوصلوں کی تعریف کی اور تحریک شروع کرنے پر انہیں مبارک باد پیش کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون کو ملک تقسیم کرنے والا قانون قرار دیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس کولسے پاٹل نے کہا کہ موجودہ حالت میں ہندوستان کو بچانا سب سے اہم ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نریندر مودی اور امیت شاہ آر ایس ایس کے دلال ہیں اور آر ایس ایس ملک کا دشمن ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ مسلمان خوفزدہ ہیں کیونکہ حکومت غریبوں اور مظلوموں کی دشمن ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم ہندوستان کے شہری ہیں اور ہمارا خون بھی ایک جیسا ہے، اگر حکومت این آر سی لاناچاہتی ہے تو اسے ڈی این اے سے ہماری شناخت کرنی ہوگی۔ ہم کسی بھی مذہب کے خلاف نہیں ہیں، میں ہندووں سے کہناچاہتا ہوں کہ ہم ان کے نہیں بی جے پی اور آیس ایس کےمخالف ہیں، انہوں نے کہاکہ حکومت اس ملک کو تاجروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بناناچاہتی ہے۔ مجلس اتحادالمسلمین کے ترجمان وبائیکلہ حلقہ اسمبلی کے سابق ممبر اسمبلی ایڈوکیٹ وارث پٹھان نے کہا کہ پولس جب کیمپس میں ہوتی ہے تو کچھ غنڈے یونیورسٹی میں گھس جاتے ہیں، اورمودی زندہ باد، گولی مارو سالوں کو جیسے نعرے لگاتے ہیں، اور پولس خاموش تماشائی رہتی ہے اس سے پولس کا دوہرہ رویہ اجاگر ہوتا ہے۔ سی اے اے کے تعلق سے انہو ں نے کہاکہ میں اپنے کاغذ نہیں دکھاؤں مجھے دیکھنا ہے کہ حکومت کیا کرتی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم سی اے اے کو سمجھ نہیں رہے ہیں، حکومت کو یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کو اس کے حقوق سے محروم رکھے۔ اخیر میں انہوں نے آئین کی تجاویز بھی پڑھیں۔ سماجی کارکن انشومان چودھری نے کہاکہ آسام کے ڈٹینشن سینٹروں کے حالات خوفناک ہیں، جہاں اپنی شہریت ثابت نہ کرسکنے کی وجہ سے سینکڑوں افراد نے خودکشی کرلی ہے، انہو ں نے کہاکہ این آر سی، این پی آر، سی اے اے آسام کے لوگوں پر قہر بن کر ٹوٹا ہے اگر پورے ملک میں یہ نافذ ہوا تو عوام کےلیے انتہائی خطرناک ہوگا۔ دہلی یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن کے رکن بھوپیندر چودھری نے کہاکہ میں ان خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں جو طویل وقفے سے شاہین باغ میں ڈٹی ہوئی ہیں، انہوں نے حکومت پر نشانہ سادھتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت ہندو مسلم اتحاد کو توڑنا چاہتی ہے، انہوں نے کہاکہ حکومت ہٹلر کے نقش قدم پر چل کر ملک میں ہاہا کار مچا رہی ہے، انہوں نے کہاکہ ہم کسی بھی حال میں اپنے اتحاد کو پارہ پارہ نہیں ہونے دیں گے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف لکھنؤ میں جیل جاچکی صدف جعفر نے کہاکہ یہاں موجود ہرلڑکا، ہر لڑکی تاریخ بنانے کے لیے ہے، خود کو پولس حراست میں لیے جانے پر انہو ںنے کہاکہ میرا احتجاج قانون کے خلاف نہیں تھا، بلکہ یہ متاثرین کے حقوق کےلیے تھا۔ انہوں نے حکومت کو للکارتے ہوئے کہاکہ ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے، کیوں کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ ڈٹینشن سینٹر کی دیواریں کتنی مضبوط ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گلوبل فیملی کے جنرل سکریٹری رام موہن رائے نے کہاکہ آزادی کا معنی ہوتا ہے مساوات لیکن یہ حکومت تقسیم کی سیاست کررہی ہے انہوں نے مزید کہاکہ حکومت شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب سے، خواتین سے ان کے حقوق سلب کرناچاہتی ہے۔ واضح رہے کہ ۱۵؍ دسمبر کو جامعہ کے طلبا کو کیمپس میں گھس کر دہلی پولس نے خوب مارا پیٹا تھا اس کے ایک ماہ مکمل ہونے پر کل بڑی تعداد میں طلبانے گیٹ نمبر ۷؍ پر اکٹھا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ طلبا نے چلو جامعہ‘ کے نام سے تحریک شروع کی ہے جس میں بڑی تعداد میں طلبا وعوام شریک ہوں گے۔ طلبا کا کہنا ہے کہ ہماری آوازحکمرانوں کو سننی پڑے گی، جامعہ ملیہ کی آواز ہر یونیورسٹی کی آواز ہے۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ نقاب پوش قاتل کون ہیں ؟ کون ہیں وہ شہدے جنہوں نے ملک کو تباہی کے نزدیک پنہچا دیا،وہ قاتل کون ہیں جو نقاب لگائے آتے ہیں ، ہمارے تعلیم یافتہ بچوں کو قتل کرتے ہیں، کیا ان کے لئے ہی اچھے دن کا نعرہ دیا گیا ؟ کیا حقیقت میں یہ اچھے لوگ تھے ؟ اور ہندوستان بھول گیا تھا کہ ان کے لباس پر خون کے اتنے داغ ہیں ، جو کبھی دھل نہیں سکتے،کیا ہم نے قاتلوں کو حکومت سونپ دی اور بھول گئے کہ ہلاکت سے کھیلنے والے ، گندی ذہنیت رکھنے والے اور دہشت پھیلانے والے اگر اقتدار سنبھال لیں تو یہ اقتدار ملک کی ترقی کے لئے نہیں ، موت کے جشن کے لئے ہوگا،یہ موت کا جشن گجرات لیبارٹری کے بعد اب اس ملک کا نصیب بن چکا ہے، جن کے پاس اسکول کی ڈگریاں تک نہیں تھیں ، جیل کے مجرمانہ سرٹیفکیٹ ضرور تھے ، انہوں نے پورے ملک کو آج کی تاریخ میں موت کے حوالے کر دیا، کیا ہم سفاک قاتلوں کی تاریخ سے واقف نہیں ؟ ہم ایسے قاتلوں سے کیا امید کر رہے تھےاور اب ، جب پورا ہندوستان سلگ رہا ہے ، ہم ان سے کس بات کی امید کر رہے ہیں ؟کیا ان میں ، پولیس ، اور میڈیا والوں میں کویی فرق ہے،پولیس ہاتھ باندھے انہیں سیلوٹ کرتی ہے، معصوم نوجوانوں کے قتل کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے اور یوگندر یادو جیسےلیڈروں کو روکتی ہے کہ وہ بے گناہوں اور معصوموں کو ہلاک ہونے سے بچا نہ لیں،پولیس ، میڈیا ، حکمران ، نقاب پوش دو ہی چہرے ہیں اور اس وقت یہ دو چہرے پورے ہندوستان کو مذہب کے نام پر جلانے اور سلگانے میں لگے ہیں،بزدل نقابوں میں آتے ہیں،موت کا کھیل کھیلتے ہیں اور ٹی وی چینلوں پر ہزاروں کی موت کا جشن مناتے ہیں،علی گڑھ کو جلایا،جامعہ کو جلایا،جے این یو کو مسلسل جلانے کے بعد بھی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تو نقاب لگا کر موت کا وحشی کھیل کھیلنے آ گئے، ایک مخصوص پارٹی اور انکی فسطائی تہذیب ان کو محب وطن کہتی ہے،انہیں پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا میں بھیجتی ہے اور سیاست کی بساط سے نکل کر قاتلوں کی فوج ملک کی جمہوریت کا نام و نشان مٹانے میں لگ جاتی ہے،کس کو داد دی جائے ؟ کس کی تعریف کی جائے ؟ تاریخ کی کتابوں میں ایسے قاتلوں کے لئے معافی نہیں ہے، مگر یہ وقت ہے جب ہم پچھلے بیس برسوں کا جائزہ لیں،گودھرا اور گجرات ماڈل کا تذکرہ کریں اور ملک ہندوستان میں پھیلے انتشار ، قتل و غارت گری کا تجزیہ کریں اور ایک دنیا کو بتائیں کہ جب قاتل اور دہشت گرد سلطنتیں سنبھالتے ہیں تو ہلاکو اور چنگیز ہوتے ہیں اور ایک دن اسی بے رحمی سے وقت انکا کام بھی تمام کر دیتا ہےـحقیقت میں دیکھا جائے تو یہی ہورہا ہےـ
امریکہ—ہندوستان : کل اور آج
ٹرمپ نے کرنل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا،ایران نے سرخ انقلاب کا نعرہ دیا،عالمی سیاست بھی موت کے جشن کا حصّہ ہے، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کا مسمار ہونا امریکہ کی چالبازی تھی اور مودی نے اس موت کے جشن سے بہت کچھ سیکھاـ دنیا کی دوسری بڑی قوم نشانے پرآ گئی اور دہشت گرد ٹھہرائی گیی،تعریف بدل گئی،میزائلیں،راکٹ لانچرس، اے کے 47 وغیرہ ہر وقت ہاتھوں میں لے کر گھومنے والا مسلمان دور سے ہی انہیں دیکھ کر زمین جوتتا ہوا کسان تک چیخ اُٹھ، وہ جارہا ہے مسلمان … دہشت گرد…. ہے نہ؟ نیوز ویک ٹائمس سے لے کر انڈیا ٹوڈے جیسی میگزین نے بھی بتایا ہتھیار اٹھانے والا مسلمان،توپ کے گولوں کے درمیان کھڑا مسلمان، آگ لگاتا ہوا مسلمان۔ افغانی پہاڑیوں پر چوکس ہتھیار بند مسلمان،چلاّتا ہوا مسلمان۔ پاکستان میں آئے دن خطرناک جلوسوں کی قیادت کرتا ہوا مسلمان،کچھ عرصے پہلے ایک میگزین میں معصوم 16سال کی ایک بچی کی تصویر چھپی تھی۔ طالبان کے خلاف مورچہ پر، 14برس کی یاسمین،بندوق اٹھائے ہوئے یاسیمین کی تصویر مسلمانوں کی نئی سمت کو صاف صاف بیان کرتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور گرینیڈ…. طالبان بھی مسلمان…. افغانستان سے لے کر پاکستان اور عرب ملکوں تک مسلمان شک اور سوالوں کے گھیرے میں کھڑا ہے۔ امریکہ میں، انگلینڈ میں،ہندوستان میں، پاکستان میں،وہ اسامہ اور صدام سے پہلے بھی شک کے گھیرے میں تھا اور اسامہ اور صدام کے بعد اس کا (مسلمان کا) چہرا اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ وہ اب دور سے ہی دہشت گرد نظر آنے لگا ہے۔
میڈیا نے ہر بار مسلمان اور اسلام کو غلط رنگوں میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں ’زانی‘ کو سنگسار، کرنے کا مسئلہ ہو، بابری مسجد سے لے کر جنون یا مذہب کی کوئی بھی کارروائی ہو، ممبئی کا فساد ہو یا کشمیری چنار کے پتے، میڈیا کی سرخیوں میں اسلام آجاتا ہے۔ سماج اور مذہب پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کا ذکر ہو تو سیمی سے القاعدہ تک، ان تنظیموں کو میڈیا، اسلام سے کچھ اس انداز سے جوڑتاہے کہ سڑک سے گزرنے والا معمولی مسلمان بھی دہشت گرد لگنے لگتا ہے دوسرے کے پھٹے میں پاﺅں ڈالنے والا امریکہ خود اپنے ملک کا سروے کیوں نہیں کرتا، جہاں بلیک لبریشن آرمی، میچروز، دی آرڈر، جیوشن ڈفنس لیگ، پوج اومیکا 7 جیسی کتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں سر اٹھائے اپنی کارروائیاں کئے جارہی ہیں ـ عراق برباد،لیبیا برباد، افغانستان برباد، پچھلی صدی ختم ہونے تک اور نئی صدی کے بیس برسوں تک تک فضا اسلام اور مسلمانوں کو لے کر خوفناک حد تک خراب ہوچکی ہےـ
امت شاہ اور مودی کے لئے راستہ مشکل نہیں تھا، گھس پیٹھئے ، یہ انکی سیاسی لغت کا سب سے دلچسپ لفظ ہےـ اسلام، اسلام اور مسلمان ـ امریکہ سوچتا ہے کہ وہ تانا شاہ بن چکا ہے۔ یعنی ایسی طاقت جس پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی، ایسی طاقت جسے کسی کے بھی خلاف استعمال کرسکتے ہیں، شعلوں میں گھرے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرف اچانک اپنے چھوٹے سے کیمرے کا رخ کرنے والے کے ہونٹوں سے ایک لفظ نکلا تھا”شٹ "جلتے اور دھوئیں اگلتے ٹاور کی تصویر اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر جس کسی نے بھی دیکھی ہو، اس نے یہ لفظ ضرور سنا ہوگا،یہ لفظ امریکہ کی اب تک کی غیر مفتوح طاقت پر ایک ایسا غیر جانبدارانہ تبصرہ ہے، جس پر امریکہ کو غور ضرور کرنا چاہئے۔ پہلی بار امریکی عوام کو بھی اس بات کا احساس ہواکہ وہ بھی دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح ہی معمولی انسان ہیں۔ جن پر حملے ہوسکتے ہیں۔
سی اے اے ، این آر سی کے بعد کے احتجاج کی گونج میں مودی اور امت شاہ کو بھی یہی لفظ سنائی دیا "شٹ”ـ نفرتوں نے یلغار کیا تو امریکا یاد آیا اور موت کے جشن نے بیس برسوں میں پوری طرح اپنے پاؤں پھیلا دےـ امریکہ جس کی ’فرعونیت‘ جاپان، کیوبا، ویت نام، نکرگوا، سومایہ، کوریا، عراق و فلسطین سے نکل کر افغانستان تک پھیل گئی تھی، ورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملے کے بعد اسی امریکہ کا سروے کیجئے تو اُسامہ اور اینتھریکس کے خوف نے اس کی اصلیت کو ظاہر کردیا تھا ۔اس کی طاقت کے چیتھڑے اڑچکے تھےـ ا مریکہ جو دوسرے کے گھروں میں سیندھ لگاتا پھرتا تھا اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی ہر کارروائی کے بعد اس کی پہلی یہی تنقید ہوتی تھی کہ مجھے پہلے ہی سے سب کچھ پتہ تھا،اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پول بھی کھل چکی تھی، یہی کھیل ہندوستان میں شروع ہوا،تمام ایجنسیاں مودی امت شاہ کی جیب میں،اپنے پالتو انڈسٹریلسٹ،اپنا انتخابی کمیشن،اپنا ریزرو بینک،اپنی عدلیہ،امریکہ میں بہت حد تک ضمیر محفوظ تھا،یہاں ضمیر مردہ، صحافت مردہ!
مردوں نے تعلیم کے دروازے پر پہرہ بیٹھایا، جہالت کو سجدہ کیا،ملک کو نیلام کیا، مسلمانوں سے کھلے عام دشمنی کا اظہار کیا،علیگڑھ ، جامعہ اور جے این یو تک سنگینیں لے کر پہنچ گئےـ
بُکر انعام یافتہ اروندھتی رائے نےکافی قبل اپنی ایک کتاب میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ امریکہ کے فوجی اور معاشی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر حملے کیوں ہوئے۔ آزادی کی نشان اسٹیچو آف لبارٹی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ یعنی یہ غصہ جمہوریت کی مخالفت میں نہیں ہے۔ بلکہ امریکی عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا ان سے نفرت نہیں کرتی،وہ امریکی حکومت کے طرز عمل سے نفرت کرتی ہے۔ یہاں معاملہ مختلف تھا،یہاں گوڈسے ہیرو تھا، یہاں منو اسمرتی کا قانون نافذ، یھاں میڈیا بکاؤ،اور سارا کھیل آسان ہوتا گیاـ
۳۱مئی ۲۰۰۳ءنیویارک کے ریور سائڈ چرچ میں ارن دھتی رائے نے جو بیان دیا وہ خاصا اہمیت کا حامل ہے۔
”ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں جب ہمیں یہ جاننے کے لئے بھی ایک دوڑ میں شامل ہونا پڑرہا ہے کہ کتنی تیزی سے ہماری آزادی چھینی جارہی ہے۔ ایسے دور میں کچھ وقت کے لئے ہی سہی، اس دوڑ سے الگ ہونے اور اس طرح کے تمام واقعات، حادثات سے مکمل ’پولیٹیکل‘ تھیسس لے کر لوٹنے کا جوکھم چند لوگ ہی اٹھاسکتے ہیں۔ ہم ایک مشکل دور سے دوسرے مشکل دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جنہیں سیٹلائٹ اور ٹی وی میڈیا لگاتار ہمارے دماغوں میں بھرنے کا کام کررہی ہے۔ لیکن ہمیں اپنی زمین کے بارے میں غور کرنا ہے ، سوچنا ہےـ ہم جنگ کے ملبے سے ہوتے ہوئے تاریخ کے دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ کتنے شہر ختم ہوگئے،کھیت سوکھ گئے، جنگل کٹتے جارہے ہیں،کتنی ہی ندیاں تاریخ کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ کتنی ہی عظیم الشان لائبریریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے گئے، میں امریکی سامراج کے، ایک غلام کی حیثیت سے بول رہی ہوں، ایک ایسا غلام جو اپنے بادشاہ کا قصیدہ نہیں پڑھنا چاہتا بلکہ اس کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے۔“
ارن دھتی کل بھی احتجاج کا حصّہ تھیں ، آج بھی ہیں ـ ا رن دھتی نیویارک کے ریورس سائیڈ چرچ میں غلام بن گئی تھیں،مسلمان اور ہمارا اربن نکسل جے این یو کی وادیوں میں آزادی کے لئے لڑتا ہوا اپنی قربانی دے رہا ہے،گودھرا ،گجرات کی خوفناک تاریخ لکھنے والے ملک کی بربادی پر دستخط کر چکے ہیں ـ عالمی سیاست سے ہندوستان تک ، مسلمان سے دانشور طبقہ تک نشانے پر ہےـ
نئی تاریخ میں مسلمان گھس پیٹھئے ہیں اور مسلمانوں کی حمایت میں ، سیکولرزم اور جمہوریت کی حمایت میں ، آئین کے تحفظ کے لئے اس وقت پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا ہےـ وہ بزدلانہ کاروائی کریں گے، وہ ہلاکت کی نئی کہانیاں لکھیں گے،مگراحتجاج جاری رہے، احتجاج کا جاری رہنا ضروری ہے،جے این یو کا بہتا خون رنگ لائے گاـ
شاعروں ادیبوں اور فن کاروں سے ہر غلط آدمی اس لیے گھبراتا ہے کیوں کہ سچ کا سامنا مشکل ہے۔
صفدر امام قادری
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ سرفروشی کی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے۔ ہم ہوں گے کامیاب ایک دن۔ظلم کا چکّر اور تباہی کتنے دن، کتنے دن۔ ایسے دستور کو مَیں نہیں مانتا ۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے ہم بھی دیکھیں گے۔ وقت اور تاریخ کی نبض پر اُنگلی رکھ کر پوچھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ اور لکیریں نہیں، جمیعتِ انسانی کی آہوں میں شعرا اور ادبا نے بارودبھر کر ظالم اور جابر پر وار کیا ہے۔ ’گیتا‘ میں ہی جب کہہ دیا گیا کہ ’شبد برھم ہے‘۔ اس لیے لفظ نہیں مرتے ۔ شاعر ادیب گزر جاتے ہیں مگر فضائوں میں ان کے لفظ کبھی شعلہ اور کبھی شبنم بن کر تقاضاے وقت کے تحت ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔
حبیب جالب کب کے گزر گئے مگر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوجوانوں نے جب ہندستانی حکومت کے جبریہ قانون کے خلاف تحریک شروع کی تو انھیں حبیب جالب کی کئی نظمیں یا د آنے لگیں اور ’ایسے دستور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا۔‘ جیسے مصرعے کچھ ایسے موزوں ثابت ہوئے جیسے اُسی دن کے لیے اور اسی تحریک کے لیے یہ الفاظ صفحۂ قرطاس پر اُتار دیے گئے ہوں۔ حبیب جالب کی آواز سے لے کر درجنوں پیشہ ور اور غیر پیشہ ور فن کاروں نے اِسے گانا شروع کر دیا۔ اب ہندستان بھر کے احتجاجی مظاہروں میں بنگال سے لے کر کیرل تک یہ نظم گائی جا رہی ہے۔
اسی طرح کے ایک احتجاجی ظاہرے میں کان پور کے آئی ۔ آئی ۔ ٹی کے طلبا کو فیض کی نظم ’ہم بھی دیکھیں گے‘ یاد آ گئی۔ حبیب جالب نے فیض کے نقشِ قدم پر چل کر انقلابی شاعری شروع کی تھی۔ یہاںتو خود بہ نفسِ نفیس فیض نظر آتے ہیں۔ وہ فیض جو انگریزوں سے آزاد ی کو ’داغ داغ اُجالا‘ اور’شب گزیدہ سحر‘ کہہ چکا تھا، اب جمہوری قدروں کی پامالی کے خلاف ایک خواب دیکھتا ہے۔ اب سے چالیس برس پہلے جلا وطنی کے دور میں امریکا میں رہتے ہوئے جنوری کی ایک ٹھٹھری صبح میں فیض نے یہ نظم کہی تھی۔ پانچ برس بعد وہ امید اور خوشی کے خواب دیکھتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ فیض، حبیب جالب اور احمد فراز سب کو برِّ صغیر کی آزادی ، خوش حالی، امن و امان اور جمہوری اقدار کی بحالی کے خواب دیکھنے کے جرم میں حکومتِ وقت نے جیل اور جلا وطنی کا مجرم قرار دیا۔
عجب اتّفاق ہے کہ مذکورہ تینوں شعرا دنیا کے اس خطّے سے تعلق رکھتے ہیں جسے پاکستان کہا جاتا ہے مگر تینوں شعرا جب پیدا ہوئے تو ان کے وطن کا نام ہندستان تھا۔ اڑچن اس بات پر بھی ہے کہ انقلاب کی بات کرنے والے اور اپنی حکومت کا تختہ اکھاڑ پھینکنے کے بول بولنے والے یہ لوگ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سعادت حسن منٹو بھی اُسی پاکستان میں دفن ہوئے ۔ اب ہندستان میں ایک ایسی نسل پل بڑھ کر حکومت کر رہی ہے جسے یہ تمام لکھنے والے پاکستانی معلوم ہوتے ہیں۔ انقلاب کی بات کرنا اور سچ بولنا اس حکومت کو بغاوت کی بات لگتی ہے۔ جب یہ بات پاکستانی شاعر اور نثر نگار کی زبان سے ہو تو حکومتوں کا یا ان کی ہم خیال جماعتوں کا تلملا جانا فطری ہے۔ اسی لیے جانچ کمیٹیاں بنیں گی اور ان کے نتائج میں آخر آخر یہ بات سامنے آئے گی کہ چوں کہ ان مظاہرین نے ہندستان کے دشمن ملک پاکستان کے شعرا کا کلام پڑھا، ا س لیے ان پر بغاوت کا مقدّمہ چلناچاہیے۔ میرٹھ کے ایس۔ پی۔ نے ہندستانی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کی گالی دیتے ہوئے جو ہدایت پیش کی ، اس کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ آخر یہ غیر ذمہ دارانہ بیان آپ نے کیوں دیا تو انھوںنے ان مظاہرین کے نعروں میں پاکستان کے الفاظ تلاش کیے۔ اس لیے جہاں جہاں ایسی نظمیں پڑھی جائیں گی، موجودہ عہد کے حکمراں اور ان کے انتظام کار ہمیں پاکستانی قرار دے کر ہم پر مقدّمہ چلانے کے لیے آزاد ہیں۔
وہ دن گئے جب ہندستان کا وزیرِ اعظم برِّ صغیر ہی نہیں تیسری دنیا کی قیادت کی بات کرتا تھا۔ جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی تک کی شناخت عالمی سطح کی سیاست اور ہندستان کی ناوابستگی سے جانی جاتی تھی۔ بڑی طاقتیں اور بالخصوص ساری کمیونسٹ حکومتوں کے لیے ہندستان ایک محبوب جگہ تھی۔ عالمی سیاست اور حکومت سازی کا یہ سبق، جنگِ آزادی کی یہ تحریک اور خاص طور سے ہندستان کی ترقی پسند ادبی تحریک سے ترغیب حاصل کرکے قائم ہوئی تھی۔ اسی لیے ہندستان کے عوام اور خواص کے لیے ماٹن لوٗ تھر کنگ بھی اپنے تھے اور نیلس منڈیلا تو صد فی صد ہندستانی ہی معلوم ہوتے تھے۔ انقلاب کے مغنّیوں کے طور پر ہمیں ناظم حکمت اور پابلو رنرودا اور مایا کونسکی ، سب کے سب اپنے معلوم ہوتے تھے۔ پِکاسو اور مونے ویسے ہی لگتے تھے جیسے رضا اور حسین۔ ششدر شرما اور پاش، زلفیہ بِن جا مِن مولایس___سب ایک ہی مزاج کے فرد تھے اور ایک ہی کارواں کے مسافر۔ سب ہمیں ظلم سے بچا نے اورانصاف کے راستے پر چلنے کی تلقین کرتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہواہوتا تو ہندستانی ادبیات اور فنونِ لطیفہ کے چاہنے والے اندھی سرنگ میں بند ہوتے اور سب ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجدوں میں دم گھٹنے سے مر چکے ہوتے مگرایسا نہیں ہوا۔تیلگووالا اردوکو پسندکرتا ہے اورہندی کا شاعر فارسی کا دیوانہ ہے۔ رشید جہاں اور عصمت چغتائی سے لے کر فہمیدہ ریاض ، کشور ناہید اور پروین شاکر تک آزادیِ اظہار پر مرمٹنے والی خواتین کے راگ اور بول پر کئی نسلوں نے اپنی زندگی بدلی۔
آج کے وزیرِ اعظم تو سیاست دانوں میںسب سے بڑے سیلانی ہیں اور ہر دوسرے تیسرے دن ایک نئے ملک کی سیر کرکے لوٹتے ہیں مگر بین الاقوامی پالسی کا یہ حال ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش اورافغانستان و نیپال سے بھی ہم وار رشتے قایم نہیں رکھ سکتے ۔ عالمی سیاست اور مریکا روٗس پر اُن کے کہے کا کیا اثر ہوگا، وہ سری لنکا اور برما سے بھی توازن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مربوط نہیں کر سکتے۔ وہ ایسے نقطۂ نظر کے پروردہ ہیں جسے اپنے ملک کو بھی ایک ترقی یافتہ دنیا کا حصہ بنانے میں دل چسپی نہیں ۔ عافیت اور شانتی، امن و امان اور محبت و خیر سگالی کے الفاظ اور جذبات ان کی سیاست کے موافق نہیں، اس لیے وہ کوئی بڑا خواب کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔
آج کی حکومت کو بڑے بول بولنے اور اپنی بات سنانے میں زیادہ دل چسپی ہے۔ پارلیمنٹ اور اسمبلی کو جمہوریت میں اس لیے وقار حاصل ہوا کیوں کہ یہاں مختلف نقطۂ ہاے نظر کے افراد تبادلۂ خیال کرکے کوئی روشن اور زیادہ معقول راستہ تلاش کرتے ہیں مگر موجودہ حکومت کو اپنے نقطۂ نظر پر اتنا بھروسا ہے کہ وہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ ہندستان کے سارے سیاست دان بھی یک رائے ہو جائیں تب بھی وہ ایک اِنچ اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتے۔ یہ ہندستان کی سرحد کا معاملہ نہیں ہے، قانون بنانے اور ملک کے باشندوں پر قانون کے نفاذ کا سوال ہے۔ جس کے سیاسی ، سماجی ، معاشی اور آئینی نہ جانے کتنے پہلو ہیں مگر بادشاہِ وقت کا حکم ہے کہ اس میں کوئی تبدیلی اور کسی ترمیم کی گنجایش نہیں رہے گی۔ پارلیمنٹ میں بغیر کسی گفتگو کے قانون شب خونی انداز میں منظور کر لیے جاتے ہیں۔
حبیب جالب اور فیض سے خوف آخر کیوں کر آیا؟ بھگت سنگھ سے انگریز حکومت کیوں ڈرتی تھی۔ اشفاق اللہ اور کھدی رام بوس کی عمر ہی کیا تھی مگر اُن کے سچ بولنے سے سب کو خوف آتا تھا۔ آج کی حکومت ہر سچے آدمی سے ڈرتی ہے۔ ہر حقیقت پسند سے بھاگتی ہے۔ ہر سچے مسئلے کو دوٗر سے ہی سلام کرتی ہے۔ کاہے کو غریبی اور بے کاری سے رشتہ رہے۔ بے روزگاروں کو ہی ختم کر دینے کا منصوبہ ہے۔ دلِت اور اقلیت آبادی کو وہاں پہنچا دینا چاہتی ہے جہاں عزّتِ نفس کے ساتھ جینے سے بہتر مر جانا معلوم ہوتاہے۔
اب نوجوانوں کی باری ہے۔ پہلے یونی ورسٹیاں دنیا میں نئے خواب دیکھنے کے لیے گھر آنگن ہوتی تھیں۔ ہماری تعلیم گاہوں میں ہمارے بچے چہکتے ہوئے نغمہ ریز پرندے تھے۔ زندگی اُڑتی گاتی اور مسکراتی ہوئی ایک نئی دنیا پیدا کرتی تھی مگر یہاں پانچ ٹرلین معیشت پانے میں ہمارے نوجوان جیلوں کی سلاخوں میںبند ہو جائیں یا بحرِ ہند میں غرقاب ہو جائیں، کسی کو کیا پڑی ہے۔ سڑکوں پر گلیوں میں اور یہاں تک نوبت آ گئی کہ کتب خانوں میںطلبا کو لاٹھیاں اور گولیاں لگ رہی ہیں۔ ٹھٹھری ہوئی راتوں میں سڑکوں پر معصوم عورتیں اپنی بے زبان اولادوں کے ساتھ نئی زندگی کا خواب لے کر اُتر رہی ہیں۔ فیض اور جالب ہی نہیں ان کے ہزاروں مردہ اور زندہ ساتھی ہم رکاب ہیں۔ چار دہائیوں کے بعد مردہ فیض ظالموں کو خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں تو جو زندگیاں سڑکوں پر ہیں ان کی طاقت کا ابھی ظالموں کو اندازہ نہیں ہے۔ علی سردار جعفری کی نظم کے مصرعے یا دآتے ہیں:
اور سارا زمانہ دیکھے گا
ہر قصہ میرا افسانہ ہے
ہر عاشق ہے سردار یہاں
ہر معشوقہ سلطانہ ہے
مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس ، پٹنہ میں شعبۂ اردوکے صدر ہیں
Email: [email protected]
ہرش مندر کہتے ہیں کہ یوپی میں حالات بہت خطرناک رُخ اختیار کرگئے ہیں اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مسلمانوں کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ان کا خیال ہے کہ یوپی میں آج وہی ہورہا ہے جو کشمیر میں ایک طویل عرصہ سے ہوتا رہا ہے کہ گھروں میں گھس کر فورس توڑ پھوڑ مچاتی ہے اور بے گناہوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔
2 اور 3 جنوری کے انڈین ایکسپریس کے شماروں میں بھی اس کے کچھ شواہد پیش کئے گئے ہیں۔۔ہرش مندر ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس ہیں۔۔ وہ یوپی کے نو مختلف اضلاع کے کلکٹر بھی رہے ہیں ۔ لہذا وہ یوپی کے حالات پر برابر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے مظفر نگر اور دوسرے متاثرہ مقامات کا دورہ بھی کیا ہے۔۔۔ وہ مسلمانوں کے خلاف یوپی پولیس کے تعصب کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں ۔
ٹی وی چینلوں میں این ڈی ٹی وی کچھ حد تک یوپی کی اصل تصویر دکھا رہا ہے۔اس کے علاوہ ’دی وائر‘ اور انفرادی طورپر ونود دوا‘ابھسار شرمااور رویش کمار بھی حوصلہ مندی کے ساتھ سرکاری مظالم کی قلعی کھول رہے ہیں۔
جب سے وزیر اعلی نے پر امن مظاہرین سے ’بدلہ‘لینے اور نقصان کا ہرجانہ انہی سے وصول کرنے کی دھمکی دی ہے اسی وقت سے یوپی پولس بے خوف ہوکر نہتے اور بے قصور لوگوں پر ظلم کر رہی ہے۔۔۔ میں نے اس وقت بھی اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ اب یوپی کے بے قصور لوگوں پر قیامت گزرنے والی ہے اور بہت سے قائدین کا نام لے کر ان سے درخواست کی تھی کہ یوپی کے ان بے کس وبے بس لوگوں کی مدد کے لئے باہر نکلیں۔
انڈین ایکسپریس کی 2 جنوری کی اشاعت میں سنبھل (مغربی یوپی) کے تعلق سے ‘کونین ایم شریف’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پولس نے ’فسادیوں‘کے خلاف جو ایف آئی آر درج کی ہیں ان میں بڑی وضاحت کے ساتھ واقعات کو بیان کیا گیاہے۔باقاعدہ ٹائم لائن کے ساتھ یعنی لمحہ بہ لمحہ اور Minute to minute حملوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ یہی نہیں ایف آئی آر کے مرحلہ پر ہی پولس کو کلین چٹ بھی دیدی گئی ہے۔اس کے برخلاف جو لوگ جاں بحق ہوئے ہیں ان کے تعلق سے بہت کمزور اور بے دم سی ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس میں بھی صرف ایک پیرا گراف لکھا گیا ہے۔
سنبھل کے 23سالہ محمد شہروز خان کو 20 دسمبر کے مظاہرہ کے دوران گولی لگی تھی‘اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے دوسرے بڑے ہسپتال کو ریفر کردیا گیا۔اس بڑے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شہروز کا دم نکل گیا۔۔۔ پولس نے اس تعلق سے جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں نہ تو ملزم کا نام ہے اور نہ کسی گواہ کا کوئی ذکر ہے۔۔۔یہی نہیں آج 14روز گزرجانے کے بعد بھی اس کے اہل خانہ کو اس کی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں دی گئی ہے۔ایف آئی آر میں دفعہ 302کے تحت معاملہ درج نہیں کیا گیا ہے۔یہ دفعہ قتل سے بحث کرتی ہے۔ایسی کمزور‘بے جان اور لا یعنی ایف آئی آر کا جو نتیجہ نکلنا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔۔۔عدالت میں اہل خانہ کو یہ ثابت کرنا ہی مشکل ہوجائے گا کہ شہروز کا قتل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
پولس نے اپنے اوپر ہونے والے مبینہ حملوں میں جن17 افراد کو نامزد کیا ہے ان کے خلاف (سچی یا جھوٹی) تمام دستاویزات جمع کی گئی ہیں اور ایک ایک واقعہ کی تفصیلات کو باریکی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔پولس نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی۔یہ حال جب ہے کہ جب دونوں ایف آئی آر 24 گھنٹے کے اندر رونما ہونے والے واقعات کے تعلق سے ایک ہی تھانہ میں لکھی گئیں۔انڈین ایکسپریس کو ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فساد مچانے کے تعلق سے جو ایف آئی آر تیار کی گئی ہے وہ اس مضبوطی کے ساتھ کی گئی ہے کہ پولس کو معقول شک کا فائدہ مل جائے گا جبکہ گولی لگنے سے نوجوانوں کی موت کی ایف آئی آر اتنی بودی لکھی گئی ہے کہ کسی کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ گولی چلانے کا ملزم کون ہے۔
انڈین ایکسپریس کی صحافی ارنیا شنکر نے آج اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مظفر نگرپولس نے چار لوگوں کو 10دنوں تک اپنی گرفت میں رکھنے کے بعد رہا کردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ان پر پتھر بازی اور پولس پر حملہ کے الزامات عاید کئے گئے تھے۔یہ مظاہرے 20 دسمبر کو ہوئے تھے۔ان رہا شدگان میں ایک 50 سالہ سرکاری کلرک بھی ہے لیکن ابھی اس کے 20 سالہ بیٹے کو رہا نہیں کیا گیا ہے۔سرکاری کلرک کا دعوی ہے کہ 20 دسمبر کی شب 10.30 پر ان کے گھر پر 50 پولس والوں اور قرب وجوار کے رہنے والے کوئی 60 لوگوں نے دھاوا بول دیا اور انہیں بہت زدوکوب کیا گیا۔اس کے بعد پولس انہیں گرفتار کرکے لے گئی۔ انہوں نے ارنیا شنکر کو بتایا کہ پولس نے ان کے ساتھ بہت وحشیانہ سلوک کیا اور جب انہوں نے پانی مانگا تو کہا گیا کہ اپنا پیشاب پی لو۔انہوں نے بتایا کہ اس رات تھانہ پر کوئی 100لوگ پکڑ کر لائے گئے تھے۔انہیں جب اگلے روز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا تو عدالت نے انہیں جیل بھیج دیا۔
ارنیا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ میرٹھ میں رہنے والا ایک خاندان بھی اسی روز یعنی 20 دسمبر کو شام سات بجے اپنی گاڑی میں سوار ہوکر نکلا۔لیکن مظفر نگر کے میناکشی چوک پر انہیں پولس نے روک لیا۔شہر میں اس خاندان کی بہت سی اسٹیل کی فیکٹریاں ہیں۔اس گاڑی میں ایک 53سالہ مریض بھی تھا۔اس کے پاس تمام میڈیکل کاغذات تھے لیکن پولس والوں نے ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی اور انہیں گالیاں دیتے ہوئے تھانہ لے گئی۔
یہ رپورٹ مزید بہت سی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ یہ تفصیلات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ایسے ایک دو نہیں درجنوں بلکہ سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہوں گے۔ پولیس نے جب نامی گرامی ہندو شہریوں کے ساتھ انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کیا ہے تو عام مسلمانوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔۔۔ لکھنؤ میں بزرگ ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری کو مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں پولیس نے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن عدالت سے بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔اسی طرح ایک اور ہندو جوڑے کو بھی گرفتار کرکے بہت سخت دفعات لگادی گئی ہیں ان کی ایک سال کی بچی ایک ہفتہ تک تڑپتی رہی، اب جاکر محض ماں کو ضمانت مل سکی ہے۔
حیرت ہے کہ عدالتوں نے محض پولیس کی داستان پر یقین کیا اور لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ اب جن لوگوں کو ثبوت نہ ہونے کے سبب پولیس نے رہا کردیا ہے کیا وہ ان پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ بالکل کرسکتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ایسے متاثرہ لوگوں کو ضرور کارروائی کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ہر قصبہ’ شہر اور ہر ضلع کے درد مند وکلاء کو گروپ تشکیل دے کر ان متاثرین کی مدد کرنی چاہئے۔ مسلم وکلا کو چاہئے کہ وہ گروپ بناکر مشہور ہندو وکیلوں کے گھروں پر جائیں اور ان سے درخواست کریں کہ وہ اس ‘لیگل گروپ’ کی قیادت کریں ۔
دہلی میں محمود پراچہ نے ایک گروپ تشکیل دیا ہے۔ وہ بڑے پیمانے پر پولیس کے خلاف شواہد جمع کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ چن چن کر ایک ایک خاطی پولیس افسر کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کریں گے اور انہیں سزا دلوائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کو منظم پیمانہ پر کرنا ضروری ہے۔ یوپی کے متاثرین بھی انہیں اپنی روداد بمع شواہد ارسال کرسکتے ہیں۔ اس کام میں صاحبِ ثروت افراد متاثرین کا خاموشی سے تعاون کرسکتے ہیں۔محمود پراچہ کے دفتر کا نمبر یہ ہے
: 011-24358560
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس پورے احتجاجی تحریک میں شریک رہنے اور قریب سے بہت ساری چیزوں کو دیکھنے کے بعد جہاں بہت کچھ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے وہیں کچھ چیزوں کا احساس بھی بہت شدید ہے ۔اسی سلسلے کی چند باتیں پیش کی جارہی ہیں۔
اول ۔ اپنا ایک میڈیا ہائوس ہوتا جس کے ذریعے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتے، کچھ نہیں تو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب ہی دے س پاتے ۔
دوم ۔ ہمارے پاس مین پاور کی کمی نہیں ہے لیکن اس کو منظم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام ملی تنظیمیں بہتر انداز میں کر سکتی ہیں ، انھیں اس پر ضرورتوجہ دینی چاہئے ۔
سوم ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ برادران وطن سے تعلقات مزید بہتر بنائے جائیں، اس کو ترجیحی بنیادوں پر اپنے ایجنڈہ میں شامل کیا جائے ، ان کو سمجھانے کی سخت ضرورت ہے اگر آپ ان کو بتاتے ہیں ، موقع دیتے ہیں تو وہ سمجھتے بھی ہیں اور آپ سے ہمدردی کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور بوقت ضرورت آپ کا ہاتھ پائوں بنتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں مگر بہت زیادہ بھی نہیں ہے ۔ پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے اور اس ایشو پر دہلی کے مختلف مسلم اور غیر مسلم علاقوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ پہنچنے، لوگوں سے ملاقات کرنے اور پورے معاملے کو انھیں سمجھاتے ہوئے اس چیز کو میں نے بہت شدت سے محسوس کیا ۔
چہارم ۔ میں یہ بات بار بار کہتا ہوں اور ایک مرتبہ پھر دہرا رہا ہوں ملی تنظیمیں نوجوانوں کو تربیت دیں ، انھیں مواقع دیں ، ان کی عزت کریں وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں ، ہفتے ہفتے ان کی مشق و ممارست کے لئے پروگرام ترتیب دیں ، جہاں وہ ملی مسائل کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل کو بھی سمجھیں اور اپنی بات سمجھا سکیں ۔
پنجم ۔ملی تنظیمیں تعلیم کے لیے جو اسکالر شپ دیتی ہیں، وہ ایسی کوئی سبیل بھی پیدا کریں کہ ان میں برادران وطن کے لئے بھی ایک حصہ مختص کیا جاسکے ، یہ تالیف قلب کا ایک ذریعہ بھی ہوگا اور وہ آپ کے لئے کام کریں گے خصوصا میڈیا اور ماس کام کے طلباء کے لئے اس طرح کے اسکالر شپ کی سخت ضرورت ہے ، ہم نے اس احتجاج میں دیکھا کہ ہمارے ہندو دوستوں نے اس ایشو کو زندہ کرنے میں بہت مدد کی ، جامعہ میں پولس نے جو کچھ کیا اس کو دنیا کے سامنے پہنچانے میں ان دوستوں کا بڑا تعاون ہے ، ہم نے ایسے دو سو دوستوں کا ایک گروپ تشکیل دیا تھا جس میں زیادہ تر دوست غیر مسلم تھے اور جو دنیا بھر کے میڈیا ہاوس سے جڑے ہوئے ہیں انھوں نے خوب لکھا اور جامعہ کی حمایت میں لکھا ، جب کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس سے بھیانک حادثہ پیش آیا لیکن اسے میڈیا میں اس طرح جگہ نہیں مل سکی ۔
ششم. جامعہ اور اے ایم یو کے طرز پر خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ہندووں کی مخلوط تعلیم کا بھی انتظام خود مسلم تنظیموں کو کرنا چاہئے، اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ نہ صرف کمپٹیشن کا ماحول بنے گا بلکہ ایک دوسرے کو سمجھیں گے بھی.
ہفتم۔ ہر تنظیم اپنا آئی ٹی سیل بنائے اور اس میں قابل افراد کو جگہ دیں تاکہ وہ اچھی طرح مسائل کو سمجھ کر ان کے تدارک کو پروڈیوس کر سکیں اور غلط چیزوں کا جواب دے سکیں ، اس سلسلے میں جامعہ کو آر ڈینیشن کمیٹی اور جے این یو کے کچھ طلباء نے این آر سی اور سی اے اے ایشو پر اپنے محددود وسائل کے باوجود جو کچھ بھی کیا وہ قابل تعریف ہے ، لیکن بغیر وسائل اور پلان کے یہ کام نہیں ہو سکتا۔
ہشتم. الگ الگ میدانوں میں کام کرنے کے لیے مخلص ٹیم تیار کرنے پر زور دیا جائے، جگہ جگہ رائٹرز کلب بنائے جائیں اور نوجوان اذہان کو پروان چڑھانے اور ان کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے ان کی ہمت افزائی کی جائے، اس موقع پر ہم اپنی ایک چھوٹی سی کوشش کا ذکر کرنا چاہیں گے،اس واقعے کے بعد رائٹرز کلب کے نام سے ہم چند دوستوں نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا تھا ،مقصد اس احتجاج سے متعلق نعروں ، ترانوں اور پوسٹر وغیرہ کی تخلیق تھا، ہم آپ کو بتا نہیں سکتے کہ یہ کس قدر مثبت تجربہ تھا اور اس گروپ میں شامل نوجوانوں نے کتنے ہزار نعرے، نظم اور چھوٹی چھوٹی چبھتی اور دل میں اتر جانے والی تخلیقات پیش کیں، کبھی اس پر الگ سے ایک مضمون رقم کروں گا، مگر اس سے واقعی اندازہ ہوا کہ اس طرز پر اگر کام کیا جائے تو مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
نہم: سیاسی اور قانونی میدان کیلئے طلبہ وطالبات اور دیگر افراد کا انتخاب اور ان کی تیاری نیز ایک ایسی ریسرچ اکیڈمی کا قیام ہو جو خاص طور سے صرف فسطائی تاریخ اور صحیح ہندستانی تاریخ کے شعبے میں تحقیقی کام کرے اور بڑے پیمانے پر اس کی نشر و اشاعت کا اہتمام ہو.
دہم. موجودہ حالات سے سبق حاصل کرنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ملکی اور عالمی پیمانے پر انڈین اسٹوڈنٹس یونین کا قیام عمل میں لایاجائے، ان کی تنظیم ہو اور باضابطہ ان کے پروگرامس ہوں ـ
گزشتہ چند سالوں کے دوران ملی تنظیموں نے بلا استثنایہ ثابت کردیا ہے کہ سیاست میں ان کا شامل ہونا ملت کیلئے زہر ہے اور اگر وہ اس روش سے باز نہ آئیں تو محض اس احتجاج میں ہی نہیں وہ ہر اعتبار سے مسترد کردی جائیں گی۔ لہٰذا اب انہیں چاہئے کہ نان ایشوز میں ملت کی توانائی اور وسائل برباد کرنے اور نفاق پھیلانے کے بجائے ملت کی دنیا اور اپنی آخرت سنوارنے پر توجہ دیں کیونکہ ان نام نہاد قائدین کی عمریں ۶۰ سے اوپر ہوچکی ہیں اور نہیں پتہ ان میں سے کس کی اگلی منزل قبر ہو۔ان باتوں کو اس لیے سامنے رکھا گیا ہے کہ ان پر درد مندان ملت کو ہی توجہ دینی ہوگی ۔وہ توجہ دیں اور بہتر عملی قدم اٹھائیں۔
ڈکٹیٹروں کے پاس طاقت اس لئے ہوتی ہے کہ عوام کو خوفزدہ کیا جا سکے ، لیکن جب عوام خوف کا مقابلہ کرنا سیکھ جاتے ہیں تو یہی حکمران حبیب جالب اور فیض کی نظموں سے بھی ڈرنے لگتے ہیں ، یہی آج اس ملک میں ہو رہا ہے، ملک کے ہر خطّے میں ، ہر چوراہے سے فیض و جالب کی نظمیں نئے سویرے کو آواز دے رہی ہیں اور حزب اختلاف کو پاکستان کا لالی پاپ تھمانے والی حکومت پریشان ہے کہ ان نعروں کی موجودگی ، تیور اور گونجتی آواز انکے ہدف کو ناکام کر رہی ہے ۔ یہ آوازیں جمہوریت اور آئین اور ملک کی سلامتی کا درس دے رہی ہیں ،ان آوازوں میں اتنی طاقت ہے کہ فسطائیت کے قلعے ڈھا جائیں، آج اردو نغمے ، اردوکی انقلابی شاعری نے وہی کام کیا ہے، جو اردو زبان نے ملک کی غلامی کے دوران کیا تھا اور فرنگی زنجیریں اس حد تک کمزور ہو گئیں کہ انگریزوں کو اس ملک سے جانا پڑا ، فرنگیوں کے بعد اب ان شر پسندوں کی باری ہے ، کہ ظلم و ستم نے صبر کے پیمانے چھلکا دیے اور جب پیمانہ چھلک گیا اور چھلکے ہوئے پیمانے سے اردو کی انقلابی شاعری کے ساتھ فیض و جالب کا جن سامنے آ گیا اور کمال حقیقت کہ کیا ہندوکیا مسلم ،اس انقلاب کو گھر گھر پہنچانے میں پورا ملک ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے۔
منظر ۔ پس منظر:
سیاسی پس منظر یہ کہ جنگ کا ماحول تیار کرو اور مسلمانوں کو بے دخل کرو۔ امیت شاہ ہزاروں بار ان چھ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بیان دیتے آئے ہیں بلکہ مہم بھی چلاتے آئے ہیں ۔ہم اس سیاست سے واقف ہیں کہ جنگوں کو بہانا کیوں بنایا جاتا ہے ؟دوستی اور محبت بھری باتوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔یہ کام ہم مل کر بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ملک ایک نئی صورتحال سے گزررہا ہے، فسطائیت کا غلبہ ہے، مسلم مخالف رنگ شدید ہوچکا ہے، ان کے منصوبے خطرناک ہیں، ملک ہندوستان کو شام بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے ، اب یہ ملک زعفرانی ہے، مگر ان کی نظر میں۔ہم اس ملک کو زعفرانی نہیں ہونے دیں گے۔ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے، لیکن پہلے وہ بھی خوف زدہ تھا، اب سڑکوں پر آ کر فیض کی نظمیں گا رہا ہے ۔’’ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ پھر یہ آواز جالب کی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہے’’ایسے دستور کو ، صبحِ بے نور کو میں نہیں جانتا ، میں نہیں مانتا‘‘ انقلابی نظموں نے ثابت کیا کہ انقلاب کو سرحدوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ، جو نغمہ جالب نے پاکستان کی ضیا الحق حکومت کے لئے لکھا ، آج وہی نغمہ مودی اور امیت شاہ کی مخالفت میں گونج رہا ہے۔مسلمان ، مسلمان اور پورا ملک ایک زبان ،میری سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ مسلمانوں کا کیا ہوگا؟ نوٹ بندی ہو یا جی ایس ٹی ، جس کی کمر سب سے زیادہ ٹوٹے گی ، وہ مسلمان ہوں گے۔ معاشی اعتبار سے جو سب سے زیادہ ذبح کیاجائے گا، وہ بھی مسلمان ہوں گے۔ اس ملک میں آر ایس ایس کی سوچ کی پہلی منزل مسلمان ہیں۔ اور اسی لئے آر ایس ایس بار بار یہ بیان دیتی آئی ہے کہ اس ملک کے تمام مسلمان کنور ٹیڈ ہیں۔ اور یہ بیان بھی برسوں سے دیتی آئی ہے کہ اس کی دشمنی مسلمانوں سے نہیں ، اسلامی فکر رکھنے والوں سے ہے۔ کیونکہ ایک دن مسلمانوں کی گھر واپسی ہوکر رہے گی۔ 2014کے بعد کے سیاسی منظر نامہ پر غور کریں تو مسلمانوں کے لئے ہر دوسرا دن ، پہلے دن سے زیادہ بھیانک ثابت ہوا ۔ ان چھ برسوں میں مسلمانوں کو ہلاک کرنے والے ، فرضی انکاؤنٹر کرنے والے ، مسجدیں شہید کرنے والے ، کریمنل ریکارڈ والے تمام مجرم جیل سے بری کردیے گئے۔ اور معصوم مسلمانوں پر جیل کی سلاخیں سخت ہوگئیں۔ آسمان میں ناچتے گدھ شکاری بن گئے کہ کیسے مسلمانوں کا شکار کیاجائے۔ نئے نئے طریقے ایجاد کئے جانے لگے۔مسلمان سبز اسلامی پرچم لہرائے تو وہ پاکستان کا ترنگا ہوجاتا ہے۔ہر دوسرے دن ایک بیان آر ایس ایس کے کسی نہ کسی لیڈر کی طرف سے آجاتا ہے ، جس میں صاف صاف اور کھل کر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمان ملک دشمن ہیں۔بار بار مسلمانوں سے یہ صفائی مانگی جاتی ہے کہ وہ محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کریں اور ثبوت کے طورپر دادری میں رہنے والے محمد اخلاق کی فریج کا مٹن ، بیف بن جاتا ہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ اپنی حد میں رہنے والے ، قانون کا پاس رکھنے والے محمد اخلاق کی فریج میں رکھے مٹن کو عدلیہ بھی بیف ثابت کرنے پر تل جاتی ہےاور اخلاق اپنے گھر میں بے دردی اور بے رحمی سے ذبح کردئے جاتے ہیں اور اب شہریت کے نام پر ڈیٹینشن کیمپ کا کھلا دروازہ ہے، ووٹنگ کے حق سے محروم کرنے کی سازش ہے، مگر درمیان میں فیض و جالب آ گئے ۔یوگی ، امیت شاہ اور مودی کا کھیل بہت حد تک بگڑ گیا، اب انھیں ملک کا اعتماد حاصل کرنے میں صدیاں لگیں گی، فسطائیت کا ہمنوا کویئی نہیں ہوتا۔میڈیا ، میڈیا اور میڈیا ،اس برس ایسا بہت کچھ ہوا ، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔لیکن یہ سب کس نے کیا ؟ ان ہلاکتوں کے پیچھے کون ہے ؟ کیا مرکزی حکومت کو ذمے دار ٹھہرانا صحیح ہوگا ؟ کیا کانگریس اور کمزور اپوزیشن کو ان الزامات سے بری کیا جا سکتا ہے ؟ اصل مجرم کون ہے ؟2019 کا اصل مجرم ہے ہندوستانی میڈیا ،پہلے ہماری نہ ختم ہونے والی خاموشی میڈیا کے خلاف مورچہ لینے سے گھبراتی تھی ،اب عوام سڑکوں پر ہیں،شاہین باغ سے لے کر پورے ہندوستان میں،ہندوستان کی ہربربادی ، ہر قتل و غارت کے پیچھے میڈیا ہے۔ہندوستانی جمہوریت اور آزادی کا خون اسی میڈیا نے کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں دلت ،عیسائیوں سے زیادہ بڑا خطرہ مسلمانوں کو ہے ۔آزادی کے بعد سکھ ،جین ،عیسای مذہب کے پیروکار بہت حد تک ہندو مذہب میں ضم ہو چکے ہیں۔آر ایس ایس لابی بار بار مسلمانوں کی گھر واپسی کا اعلان کر رہی ہے۔میڈیا ایسے نعروں کو فروغ دے رہی ہے۔ آج ہندی اور انگریزی کے نناوے فیصد اخبارات حکومت کی اشتعال انگیزی کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔انڈیا ٹوڈے جیسی نیشنل میگزین نے اپنا وقار کھو دیا،تمام چینلس حکومت کی زبان بولنے لگے۔نیوز اینکر سڑکوں چوراہوں پر انٹرویو لیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اشتہار بازی کی مہم میں جٹ گئے،پرائم ٹائم کے تمام نیوز پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف عام اکثریت کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی ،یہ پہلے نہیں ہوا،دنیا کے کسی بھی میڈیا نے کسی بھی ملک میں غدارانہ اور دہشت گردانہ تیور نہیں اپنایا ۔امر یکہ اور برٹین میں بھی میڈیا کی آزادی فروخت نہیں ہوئی۔ میڈیا کا کام حکومت پر تنقیدکرنا ہے ،ملک میں توازن پیدا کرنا ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی جو بھی بربادی ہوئی ، جو بھی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں ،انکے پیچھے یہی میڈیا ہے،یہ میڈیا اب بھی اپنی دہشت گردیوں میں مصروف ہے۔یہ حقیقت ہے کہ نفسیاتی سطح پر بھی اب میڈیا خوف کے انجکشن لگا رہا ہے۔ میڈیا آہستہ آہستہ ایسے خوفناک راکشس میں تبدیل ہو چکا ہے کہ ٹی وی چینلس کی خبریں سنتے ہوئے دل کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں۔اس ملک میں اب اصل بغاوت میڈیا کے خلاف ہونی چاہیے اور یہ شروعات بھی ہو چکی ہے،جھارکھنڈ شکست کے بعد میڈیا کی خاموشی بہت کچھ کہتی نظر آتی ہے، حقیقت کہ ابھی 2024 تک میڈیا میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، لیکن یہ بھی عام تبدیلی نہیں کہ اس وقت ہندوستان جاگ چکا ہے ،فیض و جالب کے نغموں کا طوفان اُبل رہا ہے اور حکومت حیران کہ پانسہ تو صحیح چلا تھا ،نشانہ کیوں نہیں لگا ،عوام بیدار ہوں، تو شر پسندوں کا ہر نشانہ ناکام ثابت ہوتا ہے۔
نئی دہلی:شہریت ترمیمی ایکٹ کے حوالے سے ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔ لیکن دہلی کے شاہین باغ علاقے میں اس قانون کے خلاف جاری احتجاج انوکھا ہے۔جب عزم مستحکم اورجواں ہوتونہ سردی کی پرواہوتی ہے اورنہ عمرکی،متنازعہ ایکٹ کے خلاف ایساہی معاملہ دیکھنے کوآرہاہے ـ جہاں عزم وہمت کے پہاڑنوجوان ڈٹے ہوئے ہیں وہیں سردراتوں میں بزرگ خواتین بھی جمی ہوئی ہیں جواس عزم کااظہار کررہی ہیں کہ ہم کاغذنہیں دکھائیں گے،این آرسی ملک کے غریبوں کے خلاف ہے،سی اے اےدستورکے خلاف اورملک کوتقسیم کرنے والاہے۔سترسال سے زائدکی عمرکی خواتین کاکہناہے کہ ایکٹ کی واپسی تک احتجاج جاری رہے گا۔ شاہین باغ کے مظاہروں کی قیادت شاہین باغ اور جامعہ نگر میں رہنے والی خواتین کر رہی ہیں اور سخت سردی کے باوجود پچھلے 15 بیس دنوں سے ڈٹی ہوئی ہیں۔ ان میں تین ایسی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں، جواپنی طرف سب کی توجہ مبذول کروا رہی ہیں اورسوشل میڈیاسے لے کرنیشنل میڈیاتک میں ان جے چرچے ہورہےہیں ۔اسماء خاتون 90 سال کی ہیں۔ بلقیس کی عمر 82 سال ہے اور سروری کی عمر 75 سال ہے۔ جب تین بزرگ خواتین سے ان کے مکمل نام پوچھے گئے تو انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہاکہ ہم نہیں بتائیں گے کیونکہ ہمارے پاس دستاویزات موجودنہیں ہیں۔ یہ ہمارے خلاف ہوسکتا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ احتجاج میں حصہ لینے والی یہ تینوں بزرگ خواتین ا ب شاہین باغ کی دادی کے نام سے مشہور ہیں۔ این ڈی ٹی وی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں،تینوں دادیوں نے بتایا کہ وہ احتجاج میں کیوں حصہ لے رہی ہیں۔تین بزرگوں میں سب سے بڑی اسماء خاتون کاکہناہے کہ مودی سے پوچھیں کہ ہم کیوں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمیں ایسا دن کیوں دیکھنا پڑا۔مجھے مظاہرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ہوں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں یہ قانون واپس کراناچاہتی ہیں تو اسماء خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ہم سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات دکھانے کوکہتے ہیں۔اس ملک میں بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی کاغذ نہیں ہے۔ سیلاب اور بارش سے بہت سارے لوگوں کےدستاویزات بہہ گئے۔ وہ کاغذ کہاں سے لائیں گے؟ میں مودی کو چیلنج کرتی ہوں کہ وہ اپنی 7 پشتوں کا نام لیں۔ میں آپ کواپنی نوپشتوں کانام بتاؤں گی۔تاہم، سی اے اے کی حمایت میں مظاہروں کے سوال پر، انہوں نے کہاہے کہ جولوگ اس قانون کو بخوبی نہیں جانتے، وہ اس کی حمایت میں کھڑے ہیں۔صرف مسلمان ہی مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ 75 سالہ سرووری کا کہنا ہے کہ ہم یہاں پیدا ہوئے اور یہیں مرنا چاہتے ہیں۔میں کوئی کاغذ نہیں دکھاؤں گی۔ یہ قانون ان لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے جو دستاویزات ظاہر نہیں کرسکتے ہیں۔میں ان کے ساتھ کھڑی ہوں۔جب ان تینوں دادیوں سے پوچھا گیا کہ وہ کب تک یہ کام انجام دیتی رہیں گی تو وہ کہتی ہیں کہ ہمیں سردی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ ہمیں سب کا تعاون حاصل ہو رہا ہے اورقانون واپس ہونے تک احتجاج جاری رہےگاـ
https://youtu.be/8_hAAJp-zD0