Home تجزیہ بلبلاتے نیوز اینکر !۔ شکیل رشید

بلبلاتے نیوز اینکر !۔ شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
جن ٹی وی نیوز اینکروں کو کل تک آزادیٔ اظہار رائے ، صحافت کی آزادی اور جمہوری قدریں جیسے الفاظ ایک مذاق نظر آتے تھے ، وہی آج جمہوریت اور آزادیٔ صحافت کی دہائیاں دے رہے ہیں ۔ جی ہاں ! وہ ۱۴ نیوز اینکر ، جن کے یک طرفہ ڈیبیٹ میں حصہ لینے سے ’ انڈیا ‘ اتحاد نے انکار کردیا ہے ، اور جنہیں اپنے ایونٹ میں نہ بلانے کا فیصلہ کیا ہے ، اب رونا رو رہے ہیں کہ ’ انڈیا ‘ اتحاد کا ’ بین ‘ ، جسے ‘ انڈیا ‘ اتحاد نے ’ عدمِ تعاون ‘ کہا ہے ، جمہوری قدروں پر ضرب ہے ، یہ آزاد صحافت کا گلا گھونٹنا ، اور بولنے کی آزادی پر حملہ ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی وی نیوز چینلوں کے ایڈیٹروں کی انجمن ’ براڈکاسٹ ایڈیٹرس اسوسی ایشن ‘ ( بی ای اے ) نے بھی رونا دھونا شروع کر دیا ہے ۔ یہ وہ اسوسی ایشن ہے جس کی زبان پر گذشتہ پانچ سالوں سے قفل پڑا تھا ، اُسے نظر نہیں آ رہا تھا کہ کیسے نیوز چینلوں پر زہر اگلا جا رہا ہے ، اور ڈیبیٹ کے نام پر بی جے پی کا یا یوں کہہ لیں مودی حکومت کا ایجنڈا چلایا جا رہا ہے ۔ اور اب بھی یہ سب اُسے نظر نہیں آ رہا ہے کیونکہ منگل ۱۹ ، ستمبر کے روز نوئیڈا میں ’ انڈیا ٹوڈے گروپ ‘ کے عالیشان دفتر میں اس اسوسی ایشن کی جو میٹنگ ہوئی اُس میں ’ انڈیا ‘ اتحاد کے فیصلے کی ’ مذمت ‘ کی گئی ، اور ’ انڈیا ‘ اتحاد سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ اپنے غیر جمہوری فیصلے کو واپس لیا جائے ! اس اسوسی ایشن کی گذشتہ پانچ برسوں سے کوئی میٹنگ نہیں ہوئی تھی ، لیکن یہ اپنے اُن نیوز اینکروں کو ، جنہیں ’ نفرتی ‘ کا لقب دیا گیا ہے ، بچانے کے لیے متحرک ہو گئی ہے ، اور اس اسوسی ایشن کی پیٹھ پر نیوز چینل کے مالکان کا ہاتھ ہے ۔ یہ مالکان کون ہیں ؟ ارون پوری ، گوتم اڈانی اور مکیش امبانی وغیرہ ۔ جب اس ملک میں واقعی صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا تھا ، تب ان میں سے کسی کی زبان پر مذمتی الفاظ نہیں تھے ۔ شاید یہ سب یہ فراموش کر بیٹھے ہیں کہ ’ انڈیا ‘ اتحاد نے کسی نیوز چینل کا بائیکاٹ نہیں کیا ہے ، بس یہ اعلان کیا ہے کہ ۱۴نیوز اینکر ایسے ہیں جن کے پروگراموں میں ’ انڈیا ‘ اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کا کوئی ترجمان یا کوئی نمائندہ شرکت نہیں کرے گا ، کیونکہ یہ نیوز اینکر ’ نفرت ‘ کی زبان بولتے ہیں ، اور سماج کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کر رہے ہیں ۔ اس ملک میں ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ ، وہ اگر کسی پروگرام ، تقریب یا کسی مذاکرے اور سمینار میں نہ جانا چاہے یا کسی تنظیم ، نیوز پیپر اور ٹی وی اینکر سے بات نہ کرنا چاہے ، نہ کرے ۔ کیا لوگوں کو یاد نہیں ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کرن تھاپر کے سوالوں کے جواب دیے بغیر ان کے پروگرام سے اٹھ آئے تھے ؟ انہوں نے گجرات فسادات پر سوالوں کے جواب نہیں دیے تھے ! یہ ان کا حق تھا ۔ اسی طرح کیا لوگوں کو یاد نہیں کہ ’ این ڈی ٹی وی ‘ پر صحافی رویش کمار کے پروگرام میں سات سال تک بی جے پی کی طرف سے کسی نے شریک ہونا گوارا تک نہیں کیا ! یہ بی جے پی کی مرضی تھی ، لیکن یہ ایک طرح سے رویش کمار کا ، جو اسٹبلشمنٹ سے تیکھے سوال پوچھنے کے لیے جانے جاتے ہیں ، ایک طرح سے ’ بین ‘ بھی تھا ۔ لیکن تب ، بلکہ سات سالوں تک ، کسی کی طرف سے یہ آواز نہیں اٹھی کہ یہ جمہوریت پر ، آزاد صحافت پر اور بولنے کی آزادی پر حملہ ہے ! وہ جو آج جمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں چپ تھے ۔ صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے ؛ پونیہ پرسون جوشی ، ابھیسار شرما ، اجیت انجم ، ساکشی جوشی ، صدیق کپّن ، رانا ایوب ، برکھا دت ، رویش کمار، محمد زبیر وغیرہ ۔ یہ وہ صحافی ہیں جنہیں مودی اور یوگی کی حکومتوں نے نشانہ بنایا ہے ، ان میں سے کئی ہیں جن کے خلاف مقدمے بنائے گئے ہیں ، اور زیادہ تر کو جان سے مارنے کی ، ریپ کرنے اور دیکھ لینے کی دھمکیاں ملی ہیں ، اور اب بھی ملتی رہتی ہیں ، انہیں سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جاتا ہے ، گالیاں دی جاتی اور ننگی تصویریں پوسٹ کی جاتی ہیں ۔ وہ ٹی وی نیوز اینکر جو ’ انڈیا ‘ اتحاد کی طرف سے ’ عدم تعاون ‘ کی فہرست میں شامل ہیں ، نہ ان کی طرف سے ، اور نہ ہی ان کے ایڈیٹروں کی طرف سے ، اور نہ ہی مالکان کی طرف سے کبھی اسے صحافت پر حملہ قرار دیا گیا ، اور نہ ہی اسے جمہوریت پر ، اور بولنے کی آزادی پر حملہ کہا گیا ۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان کا ’ آقا ‘ ایسا نہیں چاہتا تھا ، اور اب بھی نہیں چاہتا کہ ان صحافیوں کے حق میں ، جو اقتدار سے سوال کرنے کی جرأت کرتے ہیں ، کوئی آواز اٹھائے ۔ یہ سارا میڈیا ، جسے رویش کمار نے گودی میڈیا کا نام دیا ہے ، اپنے آقا کے سامنے سربسجود تھا ، اور آج بھی سربسجود ہے ۔ اب گودی میڈیا کو بھی اور بی جے پی کو بھی جمہوریت یاد آ گئی ہے ، صحافت کی آزادی اور بولنے کی آزادی یاد آ گئی ہے ! بی جے پی کے صدر جے پی نڈا ’ انڈیا ‘ اتحاد کے اس فیصلے کو ’ نازی ازم ‘ سے جوڑ رہے ہیں ۔ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدی رمیّا نے اُن سے سوال کر لیا کہ یہ جو ساڑھے نو سال سے کوئی پریس کانفرنس نہ لے کر پی ایم مودی صحافیوں کا بائیکاٹ کیے ہوئے ہیں وہ کیا ہے ، تو کوئی جواب نہیں بن پڑا ۔ یہ ۱۴ نیوز اینکر ، جن میں امیش دیوگن اور امن چوپڑا جیسے نسل پرست شامل ہیں ، چاہے جس قدر بلبلائیں اِن کے پروگراموں سے دوری بنانا لازمی ہو گیا ہے ۔ یہ ’ لو جہاد ‘ ، ’ تھوک جہاد ‘ ، ’ تبلیغی جماعت ‘ ، ’ مسلمانوں کی آبادی میں خطرناک اضافہ ‘ اور ’ سناتن پر حملہ ہندو پر حملہ ‘ جیسے انتہائی شرم ناک اور نفرت بھرے پروپگنڈے کرتے پھرتے تھے ، انہوں نے اپوزیشن کو بالخصوص کانگریس کو ’ پنچنگ بیگ ‘ بنا لیا تھا ، اور رات دن پنڈت نہرو ، اندارا گاندھی کو ، اُن ساری ناکامیوں کا ، جس کی قصوروار مودی سرکار ہے ، ذمہ دار قرار دیتے پھرتے تھے ۔ اب ان کے سامنے سے ’ پنچنگ بیگ ‘ ہٹ گیا ہے ، یہ کریں تو کیا کریں ، انہیں صحافت تو آتی نہیں ہے ۔ ہاں ! جس دن انہوں نے اقتدار پر بیٹھے لوگوں سے یہ پوچھ لیا کہ جب کشمیر میں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کیے گئے فوجی اور پولیس افسران کا ماتم منایا جا رہا تھا ، تب دہلی میں بی جے پی کے ہیڈکورٹر میں پی ایم مودی جشن کیوں منا رہے تھے ؟ تب ان سے ’ عدم تعاون ‘ ختم کیا جا سکتا ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like