Home نقدوتبصرہ فراق گورکھپوری کی شاعری میں ہندو دیو مالائی عناصر-راحت علی صدیقی قاسمی

فراق گورکھپوری کی شاعری میں ہندو دیو مالائی عناصر-راحت علی صدیقی قاسمی

by قندیل

رابطہ :9557942062
اردو شاعری میں موضوعات کی کثرت ہے، اس میں زندگی کے تمام پہلوؤں کو بحسن خوبی پیش گیا ہے، زندگی کی خوشیاں، سرمستیاں، حسن و عشق کی کرم فرمائیاں، وصل و ہجر کی اذیتیں اور سختیاں ، زندگی کے ان تمام پہلوؤں سے وابستہ کرداروں کو اردو شاعری مرکزی مقام عطا کرتی ہے، محبوب کے ناز ونخرے، گھر آنگن کا حسن و جمال، بیوی اور اس کا پیار، ماں کی شفقت ومحبت، باپ کی عظمت، جب اردو شاعری ان مضامین کو ذکر کرتی ہے ، تو بھی وہ بے مثل نظرآتی ہے اور زندگی کے ان اہم ترین کرداروں کو ان کے حقیقی مقام سے آشنا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، زندگی کی تلخیاں کڑوہاٹیں، سماج و معاشرے کے چہرے پر ابھرے بدنما نقوش، بدکرداری بداخلاقی، سماجی اقدار کی پامالی معاشرتی مسائل ، ان تمام موضوعات کو بھی اردو شاعری بحسن و خوبی بیان کرتی ہے، ان کے بیان میں اردو شاعری کی خوبی یہ ہے کہ اس کا تخلیقی جمال و خوبصورتی متاثر نہیں ہوتا، وہ صحافت کا روپ نہیں دھارتی، محض حالات حاضرہ کی رپورٹنگ بن کر نہیں رہ جاتی، بلکہ زندگی کے ہر رخ اور ہر پہلو کو بیان کرنے میں فنی جمالیات پر بھی فائز رہتی ہے، جو اس کا حسن و جمال اور اس کی قابل قدر صفت ہے، البتہ اگر وہ کبھی فنی جمالیات کی سیڑھیاں اترنے لگتی ہے اور حالات کی کسم پرسی کو ہی مقصد اصلی بناتی ہے، تو ناقدین اس کی رہنمائی کرتے ہیں اور اس کی عظمت کو بحال کرتے ہیں، اردو شاعری کا بیشتر حصہ زندگی سماج و معاشرے سے وابستہ ہے، حالانکہ وہ یاسیت پیدا نہیں کرتا ہے، بلکہ قاری کو زندگی و توانائی عطا کرتا ہے، اس کو جوش و جذبہ سے سرشار کرتا ہے ، البتہ بعض شعراء کے یہاں یاسیت بھی نظر آتی ہے لیکن وہ اردو شاعری پر حاوی نہیں ہیں ، اردوشاعری کا یہ مثبت پہلو ہے،جو زندگی و زندہ دلی کو پیدا کرنے والا ہے۔

اردو شاعری نے تہذیب و ثقافت تاریخ و مذہب فلسفہ و کلام تصوف وسلوک جیسے اہم ترین فنون کو بھی خوبصورت و دلکش لباس عطا کیا ہے ، جس سے وہ خوبصورت دلنشیں اور جاذب نظر بن گئے ہیں ،ان کی خشکی کو تازگی اور لذت و چاشنی میں تبدیل کردیا ہے، تاریخی حقائق اور واقعات کو لفظوں کا ایسا دلکش پیکر عطا کیا ہے، جس سے وہ زبان زد خاص و عام ہوگئے، اس کی مثال دیکھنی ہو تو شاہ نامہ اسلام پر ایک نگاہ ڈال لیجیے، اردو شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے تعصب اور شدت کا شکار نہیں ہے،وہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت تمدن و معاشرت تاریخ و فلسفہ مذہب و رسوم کو بلا تفریق مذہب اپنی روح کا حصہ بناتی ہے اگر وہ ایک زمانے تک قلعوں میں بند رہی تو ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ وہ عوام کے درد و غم کا ساتھی بن گئی، اس نے اسلامی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کو اپنے پہلو میں جگہ دی، تو ہندو تاریخ اور تہذیب سے بھی بے اعتنائی نہیں برتی، اگر اسلامی فکر و فلسفہ کو اپنے خوبرو قالب میں جگہ دی، اور اقبال جیسا شاعر پیدا کیا، تو ہندو مت کی تاریخ اور اس کے ویدوں اور گیتوں کو بھی شاعری ہونے کا شرف بخشا،اور نظیر اکبر آبادی و چکبست جیسے نظم نگار پیدا کئے، جس کے باعث وہ پیغامات اردو داں طبقے کو پہنچ سکے،جو برادران وطن کا مذہبی اور ادبی سرمایہ ہیں، نذیر اکبرآبادی کی شکل میں اردو شاعری عوامی زندگی کے ہر پہلو کو عیاں و بیاں کرتی ہے ، اردو شاعری تنگ دامنی کا شکار نہیں ہے، اس کے پاس اتنی طاقت و قوت ہے کہ وہ ہندوستان میں بسنے والی تمام اقوام کی ترجمانی کرنے پر قدرت رکھتی ہے، ان کی اساطیر دیو مالا کو جمالیات فن کی معراج کے ساتھ اپنے دامن میں لے سکتی ہے، وہ کسی مذہب خاص ہی کی ترجمان نہیں ہے، وہ ہندو مت اور اس وابستہ افراد ان کے بزرگوں اور مقدس ہستیوں کو بھی عزت و احترام دیتی ہے، اور ہندو دیو مالاء عناصر کو بھی اپنے دامن میں جگہ دیتی ہے۔
دیو مالا کے لغوی معنی علم الاصنام کے ہیں ، ہندو دیوی دیوتاؤں کا تذکرہ ان کے محیرالعقول واقعات ہندو دیومالا عناصر کے تحت آتے ہیں، اردو شاعری میں ہندو دیو مالاء عناصر موجود ہیں، اور ان کی تلاش بھوس میں سوئیں کی تلاش نہیں ہے، اردو شاعری کا سرسری مطالعہ بھی ہندو دیو مالاء عناصر کی مثالیں پیش کرتا ہے، اور بعض شعراء ایسے ہیں، جنہوں نے اس جانب بھرپور توجہ دی ہے، جن میں نظیر اکبر آبادی، چکبست، میراجی، اور ن م راشد نمایاں مقام کے حامل ہیں، فراق کی شاعری میں بھی ہندو دیو مالاء عناصر موجود ہیں۔

فراق گورکھپوری کی غزلیہ شاعری میں ہندو دیو مالاء عناصر کی تلاش یقینی طور پر ایک مشکل ترین امر ہے، چونکہ فراق کی غزلیں غم جاناں سے غم دوران کے درمیان دائر ہیں، ان میں ہندو دیو مالاء عناصر کے نمونے کم ملتے ہیں، البتہ فراق کی نظمیہ شاعری رباعیات اور دوہوں میں ہندو دیو مالاء عناصر کی کمی نہیں ہے، اگر ان کی نظموں اور رباعیات پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو بھی اس طرح کے نمونے نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں، فراق کی شاعری میں ہندو دیوی دیوتاؤں کا ذکر عام طور پر مقصود بالذات نہیں ہے بلکہ کہیں مشبہ بہ کہیں تلمیح اور کہیں استعارے کے طور پر نظر آتا ہے، لیکن فراق جس خوبی و خوبصورتی سے اس کو بیان کرتے ہیں قاری کی نگاہ میں وہ پورا منظر پورا واقعہ ابھرآتا ہے، یا جس دیوی دیوتا کی خوبیاں اور خصوصیات بیان کرتے ہیں، اس سے پورے طور ان کی عظمت اور خوبی کا علم قاری کو ہوجاتاہے، اور ہم سب بخوبی اس بات کو جانتے ہیں کہ مشبہ بہ مقصود بالذات نہیں ہوتا لیکن مشبہ سے اقوی ہوتا ہے، تلمیح میں واقعہ مقصود بالذات نہیں ہوتا لیکن حسن و خوبصورتی کا باعث ہوتا ہے، اہمیت و وقعت کا حامل ہوتا ہے، مستعار منہ بھی مقصود بالذات نہیں ہوتا لیکن حسن کا باعث ہوتا ہے، ان باتوں کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ فراق کی نگاہوں میں وہ دیوی دیوتا قابل تعظیم ہیں، وہ ان کو مقام و مرتبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
چند مثالیں ملاحظہ کیجیے آپ کو بھی اس کا اندازہ ہوجائے گا۔
ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو
زندگی ہے کہ رام کا بن باس
اور اسی طرح یہ بھی ملاحظہ کیجئے
سجل بدن کی بیاں ہو کس طرح کیفیت
سرسوتی کے بجاتے ہوئے ستار کی گت
یہ کیف و رنگ نظارہ یہ بجلیوں کی لپک
کہ جیسے کرشن سے رادھا کی آنکھ اشارہ کردے
یہ روپ مدن کے بھی خطا ہوں اوسان
یہ سج جو توڑے رتی کا ابھیمان
پھیکی پڑتی ہے دھوپ یہ جوبن جوت
یہ رنگ آنکھ کھول دے جیون گان
رادھا کی جھپک کرشن کی بر زوری ہے
گوکل نگری کی راس لیلا ہے وہ روپ
زہراب وفا کو حسن کرتا ہے قبول
یا بس کا پیالہ شیو نے ہاتھوں میں لیا
نہلاتی فضا کو آئی رس پتلی
جیسے شیو کی جٹا سے گنگا اترے
ہے شیو کا رقص حسن عالم کا نزاع
رگ رگ میں موج کرب چہرہ پے سکوں
ان اشعار میں شیو، رام، سیتا، رادھا، کرشنا، ارجن، سرسوتی، مدن، اور رتی کا تذکرہ موجود جو ہندو دیوی دیوتاؤں میں اہمیت کے حامل ہیں، ان تمام کو ہند و مت میں انتہائی بلند مقام حاصل ہے، شاعر نے ان تمام کا ذکر ضمناً کیا ہے، مقصود محبوب ہے،محبوب کا حسن و جمال اس کی رعناء و زیباء ہے،محبوب کو درد و تکلیف کی حالت میں دیکھنا اس کا تاثر بیان کرنا غم زندگی کی تصویر کشی کرنا ہے، لیکن ان تمام مقدس ہستیوں کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ شاعر سے ان کا قلبی لگاؤ اور شاعر کے قلب میں پوشیدہ ان کی عزت و عظمت عیاں ہوتی ہے، ہندو دیوی دیوتاؤں سے وابستہ بہت سے مشہور ترین قصوں کی جانب اشارہ ہوتا ہے، ان واقعات کی عظمت و اہمیت کا ادراک ہوتا ہے، اور ہندو دیوی دیوتاؤں سے متعلق بہت ست عقیدوں کی طرف رہنمائی ہوتی ہے۔

فراق کی شاعری میں ایسے بھی اشعار موجود ہیں، جہاں ہندو دیوی دیوتا مقصود بالذات ہوگئے ہیں، اور ان کا مقصد ان دیوتاؤں کی عزت و عظمت اور ان کا مقام ثابت کرنا ہے ، اور ان کے دائرہ کار پر گفتگو کرنا ہے، اگر چہ شاعر وہاں پر بھی بذات خود انسانی اقدار سے چمٹا ہوا ہے، لیکن مقصد ہندومت کی مقدس ہستیوں کی عظمت ہے۔مثال کے طور پر ایک دوحہ ملاحظہ فرمائیں:
نردھن نربل کے لئے دھن بل کا کیا کام
نردھن کے دھن رام ہیں، نربل کے بل رام ہیں
اس شعر میں رام کی عظمت و رفعت کو ثابت کرنا اور ہندو مت کے ایک خاص عقیدہ کو پیش کرنا ہی شاعر کا مقصد ہے،جو شعر کو دیکھتے ہی بلاتردد ذہن میں مرتسم ہوجاتا ہے۔
فراق گورکھپوری کی شاعری ہندوستانی تہذیب و ثقافت ہندوستانی رسم و رواج کی آئینہ دار ہے، ان کی شاعری ہندوستانیت پوری طرح جلوہ گر ہے، انہوں نے اردو شاعری ہندو رسموں و رواج اور ہندو عقائد واقعات کا گراں قدر سرمایہ عطا کیا ہے، اور اردو شاعری پر پڑنے متعصبین کی نگاہوں کو اپنے فنی جمالیات کی روشنی سے آنکھیں مودنے پر مجبور کردیا ہے، فراق گورکھپوری اس معنی کر اردو کے عظیم ترین شاعر ہیں کہ ان کی شاعری ہندوستان کو پورے طور شعری پیکر میں ڈھالتی ہے، اور اسی کے ضمن میں دیو مالاء عناصر کو بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہے، اس حقیقت کی جانب اشارہ فارق ارگلی شاعر ہند کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
’’وید اپنشد گیتا رامائن مہابھارت گنگا جمنا پہاڑ جنگل گاؤں کھیت کھلیان دھرم کرم ریتی رواج سانس لے رہے ہیں، اردو کا قاری فراق کی شاعری میں بھارت کے دل کی دھڑکنیں سنتا ہے‘‘۔

فراق کی نظم ہَنڈولا کا مطالعہ بھی ہندوستانی تہذیب و روایت کو مکمل طور پر بیان کرتی ہے، جن شخصیات نے اس ملک کے وقار کو دوبالا کیا، ان کا تذکرہ کرتی ہے، اسی کے ضمن میں ہندو دیوی دیوتاؤں کا بھی تذکرہ اس نظم میں موجود ہے، اس میں فراق نے اپنی زندگی پر بھی روشنی ڈالی ہے، اور ملک کے موجودہ احوال کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے، نظم طویل ہے لیکن قاری کو اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے، اور فراق قاری کو باندھے رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
فراق گورکھپوری کی شاعر میں ہندو دیو مالاء عناصر کی تلاش سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے، کہ انہوں نے چکبست اور میرا جی کی طرح اس موضوع کی طرف توجہ نہیں دی ہے، ان کی شاعری اور بھی بہت سے موضوعات ہیں، اس کے باوجود اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہے، اس موضوع ان کی توجہ بارہا کھینچی ہے اور یہ موضوع ان کی شاعری بارہا در آیا ہے، کبھی مقصود بالذات ہو کر اور کبھی ضمناً لیکن جس صورت میں بھی اس موضوع کو انہوں نے برتا ہے، وہ خوبرو اور دلنشیں ہیں، اور اس موضوع پر ان کے گہرے علم اور اس کو کامیابی کے ساتھ بیان کرنے کی شہادت دیتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment