Home نقدوتبصرہ میں سلسلہ ہوں صداؤں کے حرف بننے کا – زیبا خان

میں سلسلہ ہوں صداؤں کے حرف بننے کا – زیبا خان

by قندیل

ریسرچ اسکالر ، دہلی یونیورسٹی ، دہلی

فیضان الحق جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر ہیں جن کی تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتوں سے بیشتر لوگ واقف ہیں۔ اب تک ان کی تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ،انور عظیم کی ادبی کائنات (تنقید) ،کلکتے کا جو ذکر کیا (سفر نامہ) اور میرے پیش نظر تنقیدی کتاب "میں سلسلہ ہوں صداؤں کے حرف بننے کا ” ہے ۔ فیضان الحق نے من موہن تلخ کی سوانح ، شخصیت ، عہد ، ان کے معاصرین کے ساتھ تعلقات ، تلخ کی شاعری کے امتیازی پہلو ، نظم نگاری ، رباعیات اور ان کے ناقدین پر نہ صرف تنقیدی گفتگو کی ہے بلکہ اپنے تنقیدی شعور کی روشنی میں من موہن تلخ جیسے ایک بہترین شاعر کو جسے اردو دنیا نے یکسر بھلا دیا تھا ، تلاش کر ریسرچ کو اس کے اصل معنی سے روشناس کروانے کا کام کیا ہے ۔ من موہن تلخ یاس یگانہ چنگیزی کے شاگرد تھے بلکہ ان سے ان کے تعلقات ذاتی نوعیت کے تھے، اس جانب لوگوں نے بہت کم توجہ دی جس کا ذکر کرتے ہوئے فیضان الحق لکھتے ہیں :
"تلخ پر تبصرہ و تنقید کرنے والے کچھ بزرگ ناقدین نے اس بات کا ذکر ضرور کیا ہے کہ تلخ یگانہ کے شاگرد تھے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یگانہ پر کام کرنے والے بیشتر مؤلفین و مصنفین کو یہ خیال ہی نہیں آیا کہ یگانہ کے شاگردوں میں ‘من موہن تلخ’ نام کا بھی کوئی شاعر ہے۔ اگر کسی نے یگانہ کے خطوط کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو شاید اتنی بڑی بھول نہ ہوتی۔”(ص 40)
من موہن تلخ کے سرمائے میں غزل ، نظم ، رباعی موجود ہے لیکن تلخ کی غزل گوئی ان کی دوسری اصناف کے بمقابلہ زیادہ توجہ طلب ہے ، کیونکہ انہوں نے غزلیں زیادہ کہی ہیں۔فیضان الحق نے ان کے تصور غزل کو تین اہم نکات میں تقسیم کر دیکھنے کی کوشش کی ہے پہلا غزل کے بارے میں سوچنا یعنی فکر غزل، دوسرا سوز و گداز کا ہونا جو کہ ہماری روایتی شاعری کا اہم حصہ رہا ہے، تیسرا سخن کرنا یعنی گفتگو اس طرح ہو کہ آسانی سے حقیقت کو بیان کیا جا سکے ۔ ان تینوں نکات کو ذہن میں رکھ کر تلخ کی شاعری کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے خیالات کی گہرائی و گیرائی کہاں تک ہے، ان کی شاعری میں کون سے عناصر کا استعمال کس معانی میں ہوا ہے، ان کے مطالعے اور مشاہدے کی وسعت کیا ہے ، انہوں نے اپنی شاعری میں زمانے کے مسائل ، انسانی قدریں ، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا بیان کس حد تک کیا ہے وغیرہ ۔ مثال کے طور پر ان کے کچھ اشعار دیکھیے :

زیست سرگوشیوں کا نام ہے تلخ
اور ہم صرف شور وحشت ہیں

یہ اس کو کیا ہو رہا ہے لوگو! عجیب تیزی میں ہے یہ دنیا
کہ جس طرح مٹنا چاہتی ہو یہ اپنے روز فنا سے پہلے

یہ لوگ کیا ہیں کسی کا کوئی وجود بھی ہے
یہ آر پار نظر آ رہا ہے کیا مجھ کو

سنتا ہوں مجھ سے مانگتی ہے موت بھی پناہ
وہ پرخچے اڑائے ہیں میں نے حیات کے

فیضان الحق نے من موہن تلخ کی شاعری میں کچھ خاص زاویوں کو نکال کر ان کے شعری پیکر کو تراشنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تلاش ذات، صدا/آواز، چپ/خاموشی/سکوت ، سماعت ، گاؤں/ بستی/ شہر ، گھر ، یاس/ اداسی ، کھنڈر ، تلخ کی تلخی جیسے ذیلی عنوانات قائم کرکے من موہن تلخ کے کلام کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ، جس سے من موہن تلخ کے شاعرانہ وصف کے ساتھ ساتھ فیضان کی غیر معمولی تنقیدی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے سوالات قائم کرتے ہوئے ان کے مدلل جوابات کی روشنی میں حاصل کلام پیش کیا ہے ،ایک جگہ من موہن تلخ کے یہاں لفظ صدا اور آواز کے بار بار استعمال پر بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

” قابل غور بات یہ ہے کہ کسی شاعر کے کلام میں تکرار لفظی کی نوعیت کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ کیا مستعمل الفاظ اپنے جامد معانی میں ہی مستعمل ہیں یا ان میں اضافہ کی صورتیں بھی پیدا ہوئی ہیں؟ کسی لفظ کا شعر میں تخلیقی استعمال گہرے معانی کا سبب بن سکتا ہے ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس لفظ کو بار بار اسی تخلیقی معنویت کے ساتھ برتا جا سکے ۔ اس لیے مخصوص لفظوں کی تکرار بعض اوقات لفظیاتی سطح پر شاعر کی تنگ دامانی کا مظہر بھی ہوتی ہے۔ البتہ بعض تخلیق کار کسی مخصوص لفظ سے اپنا تخلیقی رشتہ استوار کر لیتے ہیں اور جب بھی اس کا استعمال کرتے ہیں ، نئی معنویت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں لفظ اپنی جامد سطح سے بلند ہوکر مختلف معانی اور اشارات و کنایات کا حامل ہو جاتا ہے ۔ من موہن تلخ ایک ایسے ہی شاعر ہیں ۔ ان کے کلام میں صدا ، سکوت ، چپ ، سماعت اور فاصلہ جیسے الفاظ تخلیقی اظہار کا مظہر بن گئے ہیں "۔( ص 93)

من موہن تلخ کی نظم نگاری کے باب میں فیضان نے ان کی نظموں پر گفتگو کی ہے جو کہ تعداد میں کم ہیں لیکن ان نظموں میں تلخ کی ذہنی الجھنوں ، احساس تنہائی ، ہجر اور ناقدری ، شدت احساس کا پہلو نمایاں ہے ۔ ان کے تینوں مجموعوں میں شامل تمام نظموں کا جائزہ ایک باب میں پیش کیا ہے اور ایک طویل نظم ‘ بیگانہ و تنہا’کا ایک الگ باب قائم کیا ہے ۔ اس نظم میں تلخ کے تمام شعری اسرار و رموز کھل کر سامنے آ گئے ہیں ، یہ نظم تخلیق کار کی تنہائی پسندی ،خلوت گزینی ، ذہنی صورتحال کو سمجھنے کا بہترین اشاریہ ہے ، مثلاً نظم کے کچھ اشعار دیکھیے :

آنکھ کے سامنے تہذیب کا ریگستاں ہے
ذرے ذرے میں ہے وہ پیاس کہ ساگر پی جائے
اور یہ فلسفی ، فنکار ، مفکر ، شاعر
چاہتے ہیں اسے اشکوں سے بجھا کر رکھ دیں
آہ یہ چشمئہ ہستی سر موج آفاق
اف یہ احساس کی موجوں کی صدا انگیزی
آہ یہ بزم تصور کی سکوت افزائی
اے سکوت نگہ واقف اسرار نہاں
سنتے آئے ہیں یہی ہے وہ جگہ آکے جہاں
اپنی آواز پہ اوروں کی صدا کا ہو گماں

اور اسی نظم میں آگے چل کر کہتے ہیں :

یہ راز نہیں کھلنے کا کبھی، ہم لوگ جو اتنا سہتے ہیں
ہم لوگ جو اتنا کہتے ہیں کس بات کی دھن میں رہتے ہیں
جب سوچ سمجھ لیتے ہیں اسے پھر کیوں ہم چپ چپ رہتے ہیں
اور اہل جہاں ہم لوگوں کو "بیگانہ و تنہا” کہتے ہیں

کتاب کے آخر کے دو باب ‘تلخ کی رباعیات’ اور ‘تلخ کے ناقدین’ ہیں ان کی رباعیاں بھی ان کی نظموں اور غزلوں کی طرح ہی ہیں ، وہی موضوعات ان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ تلخ کے متعلق یوں تو بہت کم لکھا گیا لیکن پھر بھی جن ناقدین نے تلخ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ان میں شمس الرحمن فاروقی، نثار احمد فاروقی ، محمد حسن ، شمیم حنفی، خلیق انجم ، عتیق اللہ ، شارب رودولوی ، مغنی تبسم ، گوپال متل ، آغا سہیل ، شاہد مہدی ، فرحت احساس وغیرہ ہیں ، جن کے خیالات کا ناقدانہ جائزہ فیضان نے آخری باب میں پیش کیا ہے ۔ مجموعی طور پر یہ کتاب ایک شاعر کو جسے بھلا دیا گیا تھا، پھر سے اردو دنیا میں واپس لانے کی کوشش اور ایک اہم کارنامہ ہے اور اسی کے ساتھ تنقیدی شعور سے آگاہی اور نئی نسل کو تنقید کے مختلف پیچ و خم سے روبرو کروانے کا بھی ایک اہم وسیلہ ہے ۔ جس کے لیے فیضان الحق یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں ۔

You may also like