Home نقدوتبصرہ جدید ہندوستان چند تصویریں- نہال صغیر 

جدید ہندوستان چند تصویریں- نہال صغیر 

by قندیل

’’جدید ہندوستان چند تصویریں‘‘میں شبیع الزماں نے بھارت کی وہ تصویریں دکھانے کی کوشش کی ہے، جنہیں ہم دیکھنا نہیں چاہتے اور شتر مرغ کی طرح ریت میں منھ چھپا کر یہ کہا کرتے ہیں کہ یہاں سب خیریت سے ہے ۔ چند سال قبل تک دانشوروں کی ٹیم کے سبھی افراد کہا کرتے تھے کہ بھارت دنیا کے نقشہ پر مسلمانوں کے کےلیے سب سے محفوظ جگہ ہے ۔ لیکن اب شاید لوگوں کو اس کا ادراک ہونے لگا ہے کہ بھارت مسلمانوں کے لیے جائے امن نہیں ہے ۔ حالانکہ یہ حالت آزادی کے بعد سے ہی ہے لیکن کچھ لوگوں کو شاید جمہوریت ، سیکولرزم اور بھارت کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کا خمار اتنا تھا کہ وہ سمجھنے کو ہی راضی نہیں تھے لیکن حالات کے تھپیڑوں نے ان کے خمار کو دور کردیا اور یہ سمجھا دیا کہ وہ محفوظ نہیں ہیں ۔ اسی غیر محفوظ بھارت کی چند تصویریں لے کر شبیع الزماں اردو قارئین کےلیے حاضر ہوئے ہیں ۔ مصنف کے ذریعہ فراہم کی گئی خبر کے مطابق یہ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف وقتوں میں تحریر کیے تھے ، بعض مضامین ایسے بھی ہیں جو خاص اسی کتاب کے لیے تحریر کیے گئے ہیں ۔

کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب ہندتوا منظر اور پس منظر ، دوسرا باب ہندوستانی مسلمان نئی زمین نیا آسمان ، تیسرا باب سی اے اے اور این آر سی قوانین اور ان کے خلاف احتجاج کے تناظر میں ، چوتھا باب ہندوستانی سماج جدید منظر نامہ اور پانچواں باب ہندوستانی سیاست نیا افق ہے ۔ ان ابواب کے عنوانات اور پھر اس کے تحت ذیلی عنوان کے تحت مختلف امور ، حادثات و واقعات پر ان کی گفتگو سے یقینی طور پر اردو قارئین کو ہندوستان کے گنجلک سماجی اور سیاسی نظام کو سمجھ کر اس سے مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کےلیے راہیں متعین کرنے میں آسانی ہوگی ۔ اس کے مطالعہ سے اس خواب سے بھی باہر آنے میں مدد ملے گی کہ یہاں سب خیریت ہے یا یہ جگہ مسلمانوں کےلیے سب سے زیادہ محفوظ ہے ۔

مسلمانوں کو بھارتی تہذیب میں گم کرنے کی ہندو شدت پسندوں خصوصی طور سے آر ایس ایس کی جانب سے جو کوششیں ہورہی ہیں جس کے جو ش میں موہن بھاگوت کا مسلمانوں کو یہ یاد دلانے کی کوشش کہ ’’مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے آباؤ اجداد ہندو تھے جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا‘‘۔ انہیں یہ تکلیف ہے کہ بھارت میں اتنی بڑی تعداد میں مسلمان کیسے موجود ہیں ۔ یہ ان کی تفریق اور عدم مساوات والی پالیسی کا کارنامہ ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں ہیں حالانکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے اپنا فرض ڈھنگ سے ادا کیا ہوتا تو یہاں کی حالت بھی انڈونیشیا کی طرح ہوتی ۔بہرحال ہندو توا وادیوں کی کوششوں پر مصنف نے مسلمانوں کا موقف بہت سیدھے اور راست طور پرپیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔کتاب کے شروع میں مسلمانوں کا بھارتی کرن کے عنوان پر مصنف نے دو ٹوک انداز میں لکھا ہے ’’مسلمانوں کا ہندو تہذیب کو اپنانا تو بہت دور کی بات ہے وہ اپنی تہذیب سے دوری تک گوارا نہیں کریں گے اور یہ موقف مسلمانوں کی اکثریت کا ہے‘‘ ۔اس طرح کا دو ٹوک انداز اپنانے کیلئے مصنف کو داد دینی چاہیے اور کتاب کو عام اردو قاری تک پہنچانے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔

مصنف کی مختلف رایوں میں سے کسی سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی کی صد فیصد باتوں سے اتفاق کیا جائے ۔ مذکورہ کتاب میں مصنف ’کووڈ اور مسلمانوں کا رویہ‘ عنوان کے تحت کووڈ پر مسلمانوں کی جانب سے شکوک شبہات کے تعلق سے لکھتے ہیں ’’مسلمان خود برادران وطن سے زیادہ ان تمام اندیشوں اور سازشی تھیوریز کے شکار ہوگئے ۔اب نوبت یہ ہے کہ خود مسلمانوں کو یہ بات سمجھانی پڑ رہی ہے کہ کووڈ ایک وبائی مرض ہے اسے سنجیدگی سے لیں‘‘۔یہاں ہم یہ لکھنا چاہیں گے کہ مسلمانوں کو اصل شکایت ان فضول گائیڈ لائنوں اور لاک ڈاؤن سے تھی جس کی وجہ سے بے وجہ کافی انسانوں کی جان گئی ۔یہاں تفصیل سے گفتگو کرنے کے لیے موقع نہیں ہے ورنہ ہم بیان کرتے کہ کئی تھیوریاں منھ کے بل گریں اور خواہ مخواہ کی احتیاطی تدابیر کے سبب اکثر موتیں ہوئیں۔

بھارت میں اشاعت اسلام کے تعلق سے کئی مفروضے عام ہیں انہی میں صوفیا کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی بات ہے ۔ہم اس کے یکسر منکر نہیں کہ صوفیا نے بھی اشاعت اسلام میں کردار ادا کیا لیکن ان سے زیادہ اور کئی عوامل تھے جس کی وجہ سے یہاں اسلام کو جگہ ملی ۔ ہندوستان میں اشاعت اسلام کے ذیل میں صوفیا کے تبلیغ اسلام کے مفروضہ پر لکھتے ہیں ’’ان کے نزدیک ایک مسلمان کا ترک گناہ کسی غیر مسلم کے قبول اسلام سے افضل تھا ۔البتہ ان کے دروازے بلا کسی تفریق کے ہر ایک کے لیے کھلے تھے ۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ صوفیا کا مقصد اشاعت اسلام نہیں بلکہ حقیقی اسلام کی توسیع تھی‘‘۔حالانکہ صوفیا کا مقصد اصل اسلام تھا ہی نہیں استثنا کی بات الگ ہے ۔ آج یہاں کے مسلمانوں میں جو دینی بگاڑ ہے اس کی وجہ صوفیا ہی ہیں ۔آج بھی اس کی مثالیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں ۔

ہندوستان کے داخلی حالات اور عالمی دباؤ کے تحت بھارت کی بھیانک شکل دکھانے کی کوشش کی گئی ہے انہوں نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہر سولہ منٹ میں دلتوں پر ظلم ہوتا ہے ، روزانہ چار سے زیادہ دلت خواتین زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں ،ہر ہفتہ ۱۳ سے زیادہ دلتوں کا قتل کیا جاتا ہے ۔مصنف لکھتے ہیں ’’یہ تمام واقعات ہندوستان میں کئی سالوں سے ہورہے ہیں لیکن دنیا کی کوئی عالمی تنظیم یا کوئی سپر پاور کبھی بھی ان میں مداخلت کرتی ہے کیوں کہ اس سے ان کے معاشی سیاسی مفادات مجروح ہوتے ہیں‘‘۔ مطلب بھارت میں حقوق انسانی کی بدترین پامالی پر عالمی خاموشی صرف یہاں کے بازار کی وجہ سے ہے ۔ کوئی بھی عالمی لیڈر ان پر گفتگو کرکے بھارتی حکومت سے اپنے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتا کیوں کہ یہاں صارفین کی بڑی تعداد بستی ہے ۔

اسلامو فوبیا جو اب دنیا کے کسی بھی خطے سے کہیں زیادہ ہے اس تعلق سے بھی مصنف نے اپنی رائے پیش کی ہے ’ہندوستان میں اسلاموفوبیا‘ عنوان کے تحت انہوں نے کھل کر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے ہندو سماج کی سفاکیت کو عیاں کرنے کی بھی سعی کی ہے اور امن کے دعوے کو ان چند جملوں کے ساتھ مسترد کردیا ہے ’’نفرت کو عمومی مقبولیت عطا کردی گئی ہے یعنی مسلمانوں پر تشدد یا تشدد کی زبان استعمال کرنے پر ہندوؤں کے کسی گروپ کو کوئی خاص اعتراض نہیں ہے‘‘۔

کتاب معلوماتی اور حقیقت حال سے آگاہ کرنے والی ہے ۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں بھارت کی اصل تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ ٹھیک ٹھاک طباعت اور کاغذ کے ساتھ ایک سو چھیاسٹھ صفحات پر مشتمل یہ کتاب صرف ایک سو پچاس روپے میں دستیاب ہے۔ ابن خلدون اسٹڈی اینڈ ریسرچ سینٹر جلگاؤں نے شائع کی ہے ۔ جس کے حصول کے لیے موبائل نمبر 9891051676  پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

You may also like