اشعر نجمی خواب دیکھتے رہتے ہیں ، اچھے اور بُرے ، یاد رہ جانے والے اور یاد نہ رہ جانے والے ، ہر طرح کے خواب ۔ بُرے خوابوں سے وہ ڈرتے نہیں ہیں ، اچھے خوابوں کو وہ گلے لگاتے ہیں اور جو خواب یاد نہیں رہتے ، وہ اُن کا پیچھا کرتے ہیں ۔ اپنے پہلے افسانوی مجموعے ’ گمشدہ خوابوں کی ایک رپورٹ ‘ کا پہلا افسانہ ، جو اِسی عنوان سے ہے ، پڑھ کر قاری بھی افسانہ نگار کی ہی طرح خواب دیکھنے پر مائل ہو جاتا ہے ۔ ’ گمشدہ افسانوں کی ایک رپورٹ ‘ ایک ایسا افسانہ ہے جو لکھا گیا تو ، کشمیر ، آرٹیکل 370 ، مسلسل کرفیو ، پتھر بازی اور انتہا پسندی کی ہر ایک شکل کے پس منظر میں ہے ، لیکن یہ کہانی اپنے موضوع ، اپنے بیانیہ اور اپنے مکالموں کی بنیاد پر ایک ’ پین انڈیا ‘ کہانی بن جاتی ہے ۔ ہم سب کی کہانی ۔ ہم سب سے مراد صرف مسلمان ہی نہیں ہیں ۔ میرے لیے کسی ناول یا افسانے کا آغاز بڑا معنیٰ رکھتا ہے ، جاندار ابتدائیہ مجھ سے ایک بوجھل کہانی بھی پڑھوا لیتا ہے ۔ یہ افسانہ ایک ایسے جملے سے شروع ہوتا ہے جو اس افسانے کے مطالعے پر مائل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، اور خوش گوار حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب افسانے کا متن اپنے تمام تر فلسفے کے باوجود ، بوجھل پن کی بجائے روانی سے قاری کو اپنے ساتھ لیے لیے چلتا ہے ۔ ملاحظہ کریں وہ جملہ : ’’ کشمیریوں کو اب خواب نہیں آتے ۔‘‘
کیا مطلب ہے اس جملے کا ؟ اس سوال کا جواب وہی جانتے ہیں جن کی آنکھیں خواب دیکھتے دیکھتے بے خواب ہو جاتی ہیں ۔ اِس کہانی کے چار بنیادی کردار ہیں اشرف اور اس کا چھوٹا بھائی ہاشم ، ایک پولیس اہلکار ابھیرام اور رام چندر جسے لوگ جادوگر بھی کہتے ہیں ، جو سارے جموں و کشمیر میں ، اپنے پیچھے ایک بڑی بھیڑ لیے ، لوگوں کو تلقین کرتا پھر رہا ہے کہ ’ سپنے دیکھیں !‘ اِن میں سے پہلے تین کردار سپنے کھو بیٹھے ہیں ۔ اشرف ایک پتھر باز ہے ، اُس نے اپنا پہلا پتھر سی آر پی ایف کی ایک بکتر بند گاڑی پر پھینکا تھا ، اور ہیرو بن گیا تھا ، لیکن اُس دن کے بعد سے اُس نے اپنے سپنے کھو دیے تھے ، اُس کی نیندیں خوابوں سے خالی ہو گئی تھیں ۔ چھوٹے بھائی ہاشم کی آنکھیں بھی سپنے سے خالی ہو چکی تھیں ، وہ بس اشرف سے یہی کہتا تھا کہ : ’’ اشرف بھائی ! ہمیں پڑھ کر کیا کرنا ہے ، جنگ ہو گی لڑیں گے ، مر جائیں گے یا ماریں گے ۔ جس علاقے میں بات کرنے پر پابندی ہو وہاں پتھروں سے ہی کام چلانا پڑے گا ۔ آپ ہی نے کہا تھا نہ بھائی؟ ‘‘
اشرف اور ہاشم دو ایسے کردار ہیں جو کشمیری نوجوانوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ نوجوان جنہوں نے امن کے ، خوش حالی کے اور تعلیم حاصل کر کے ترقی کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں ، اُن کی زندگی اب پتھر سے وابستہ ہو گئی ہے ، یا پتھر پھینکنا ہی اُن کی زندگی کا مقصد بن گیا ہے ۔ اشعر نجمی نے ان دو کرداروں کے حوالے سے کشمیر کے اُس پہلو کو ، جِس سے ہم میں سے بہت سارے بے خبر ہیں اُجاگر کیا ہے ؛ گھروں میں لکڑی کے ڈنڈے رکھنا ، یہ فوجیوں کو گھروں کے اندر گھسنے سے روکنے کی ناکام کوشش ہے ، بچے جو اسکولوں سے بھاگ کر مجاہد بننے کا کھیل کھیلتے ہوئے زومبی میں تبدیل ہو رہے ہیں ، مختلف موقعوں کے لیے آوازوں کے مختلف فریکوئنسی لیول بن گئے ہیں تاکہ آوازوں کے عدم توازن کے سبب فوجیوں کی بندوقیں گولیاں نہ اگلیں ۔ ابھیرام کی شکل میں ایک ایسا کردار ہمارے سامنے آتا ہے جو سارے کشمیریوں کو ’ حرامی ‘ کہتا ہے ، جس کی زندگی کا مقصد پورے کشمیر کو ’ حرامیوں کے لیے ایک کھُلی جیل بنانا ہے ۔‘ یہ ایک سفّاک کردار ہے ، نفرت سے بھرا ہوا ، وحشی اور انتہائی بے رحم ۔ ایک چودہ سالہ بچے کو گولی مارنے کے بعد ابھیرام سپنے دیکھنے سے بھاگتا ہے کیونکہ اُس کے سپنے میں اُس کا بیٹا انکت ، ماتھے پر بندوق کی گولی سے بہتے خون کے ساتھ آ کھڑا ہوتا ہے ، اور سوال کرتا ہے کہ ’’ پاپا آپ نے مجھے کیوں مار دیا ؟ ‘‘ یہ سارے کردار ، کشمیر اور جو کچھ وہاں ہو رہا ہے یا آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد جو وہاں ہوا ہے ، سب ہماری آنکھوں کے سامنے لا دیتے ہیں ۔ اشعر نجمی کسی کو دوش نہیں دیتے ، وہ بس یہ بتاتے ہیں کہ کشمیریوں نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں اور اگر کوئی اُنہیں پھر سے خواب دیکھنے پر آمادہ کرے تو امن ، بھائی چارہ اور گنگا جمنی تہذیب کا احیّا ناممکن نہیں ہے ۔ یہ کام جادوگر کرتا ہے ، رام چندر ۔ وہ سپنے بانٹتا ہے ۔ اُس کا کہنا ہے کہ : ’’ اگر شانتی اور امن چاہیے تو اُنہیں پھر سے کھلا آسمان دے دیں ، اُنہیں اڑنے دیں ۔ اُن کے اندر آزاد ہونے کا احساس بحال کریں ۔ ‘‘ جو کہتا ہے کہ : ’’ اُن کے سپنوں کو راستہ دیجیے ۔ یہ دنیا پھر سے شروع ہونے والی ہے ۔ سپنے امید ہیں جو موت سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ یاد رکھیے امید کو کوئی چیز نہیں مار سکتی ، فوج بھی نہیں ۔ اِس لیے موت سے بھی شکتی شالی ہوتی ہے امید ، جو سپنے کی صورت میں اس کی چوکیداری کرتی ہے ۔ جانتے ہیں اُن کی بے بسی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اُن کی کمزوری کا سبب کیا ہے؟ اُنہوں نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں ، اُنہیں نیند تو آتی ہے پر خواب نہیں آتے ، مَیں اُنہیں اُن کے گمشدہ خواب لوٹانے آیا ہوں جو آپ کے ہتھیاروں سے زیادہ اثردار ہیں ، جو گاندھی اور نیلسن منڈیلا کے پاس بھی تھے ۔‘‘
یہ کہانی سیاسی نہیں ہے ، یہ کشمیر کے ابتر حالات پر ہے ، لیکن یہ کہانی ابتر حالات کی بنیاد میں سیاست کی کار فرمائی کو بھی اجاگر کرتی ہے ، ہاشم کی زبان سے نکلنے والا یہ جملہ کہ : ’’ جہاں بات کرنے پر بھی پابندی ہو ‘‘ ، ابتر حالات کی جڑ کو سامنے لاتا ہے ۔ یہ کہانی سیکیورٹی فورسز کی ذہنی کیفیات کو بھی سامنے لاتی ہے اور نوجوانوں کی نفسیات کو بھی ۔ یہ کہانی کشمیر کے مسائل کوبھی پیش کرتی ہے اور ممکنہ حل کو بھی ؛ کہ امن کا خواب سب ہی دیکھیں ۔ رام چندر کا کردار کس شخصیت کی بنیاد پر گڑھا گیا ہے ، مجھے نہیں پتا ۔ ممکن ہے یہ اشعر نجمی خود ہوں ، کہ وہ امن کے ، شانتی اور بھائی چارے کے خواب دیکھتے ہیں ۔ خیر یہ اہم نہیں ہے کہ کس شخصیت کی بنیاد پر یہ کردار گڑھا گیا ہے ، اہم ایسے کردار کا آج کی دنیا میں ہونا ہے ، پَر شاید کوئی ایسا کردار ہمارے سامنے ہے نہیں ، شاید یہ کردار افسانہ نگار کا خواب ہو ، اگر ایسا بھی ہے تو سب خواب دیکھیں کہ کوئی امن کی تلقین اور تبلیغ کے لیے آئے ، شاید کسی کا خواب سچ ہو جائے ۔ آج تو سارے ملک کو ایسے کردار کی کہیں زیادہ ضرورت ہے ۔
پہلی کہانی پر گفتگو قدرے طویل ہوگئی ہے ، لیکن میرے لیے طویل بات ضروری تھی تاکہ اشعر نجمی کے افسانوں کی ندرت کا قاری کچھ اندازہ کر لیں ۔ مجموعے کا دوسرا افسانہ ’ تھوڑا سا مضبوط ‘ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو دوسروں سے ’ الگ ‘ ہے ۔ افسانے میں کہیں اس کے ’ گے ‘ ہونے کی بات نہیں کی گئی ہے ، لیکن کردار کچھ اس انداز میں سامنے آتا ہے کہ اس کے ’ گے ‘ ہونے پر یا ’ گے ہمدرد ‘ ہونے پر یقین ہوجاتا ہے ۔ یہ کردار اچانک خاموشی کو تج کر اپنی آواز کو دریافت کرتا ہے ، گویا ’ مزاحمت ‘ اس افسانے کا بنیادی تھیم ہے ۔ اسے اس انداز سے تحریر کیا گیا ہے کہ ایک خواب سی کیفیت سامنے آ جاتی ہے ۔ تیسرا افسانہ ’ جہنم میں مٹر گشتی ‘ مجموعے کا سب سے طویل افسانہ ہے ، اس افسانے کے کردار ایک خواب کی کیفیت سے گزرتے ہیں ، اور سچ کبھی جھوٹ اور جھوٹ کبھی سچ لگنے لگتا ہے ۔ ’ تقریباً آخر ‘ اور ’ مصور نسخہ ‘ اس مجموعے کی شاید سب سے مشکل کہانیاں ہیں ، لیکن قاری ان کہانیوں کی تہہ تک اگر نہ بھی پہنچے تب بھی انہیں پڑھنے سے بیزار نہیں ہوتا ۔ مشکل کہانیاں پڑھنے کا ایک الگ مزہ ہوتا ہے ، جو ان دونوں کہانیوں کے مطالعے سے لیا جا سکتا ہے ۔ ’ ایک چوہے کی یادداشت ‘ کو اگر ہم سائنس فکشن کہیں تو غلط نہیں ہوگا ، لیکن اسے ایک سماجی کہانی کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے ۔ اس کہانی میں ’ بھروسے کو زہر سے زیادہ مہلک قرار دیا گیا ہے ‘، لیکن افسانہ نگار کسی پر دباؤ نہیں ڈالتا کہ سب اس کی اس بات کو مانیں ۔ ’ آخری سیشن ‘ کو کس زمرے میں رکھا جائے ، یہ میں طے نہیں کر پا رہا ہوں ۔ یہ کہانی موت کو زندگی اور زندگی کو موت ماننے کی کہانی ہے ۔ اس افسانے میں بھی ’ جہنم میں مٹر گشتی ‘ کی طرح ایک ’ بھرم ‘ اور ’ خواب ‘ کی سی کیفیات نظر آتی ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اشعر نجمی کے ان ساتوں افسانوں میں مذکورہ کیفیات کسی نہ کسی شکل میں مل جاتی ہیں ۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ شاہکار کہانیاں ہیں ، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ تھیم ، بُنت ، ہیّت اور اپنے بیانیے و مکالموں کی تازگی کے سبب اِن افسانوں میں ایک ندرت آگئی ہے ، ایسی ندرت جو ان افسانوں کو ملک کے افسانہ نگاروں کی بھیڑ میں ایک منفرد مقام دینے کے لیے کافی ہے ۔ اس مجموعے کا انتساب لاجواب افسانوں کے خالق سیّد محمد اشرف کے نام ہے ۔ کتاب ’ نایاب بکس ، نئی دہلی ‘ نے خوبصورت انداز میں شائع کی ہے ۔ کتاب 208 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 375 روپے ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 9372247833 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔