Home نقدوتبصرہ مدھوبنی کے شعری خد و خال-حقانی القاسمی

مدھوبنی کے شعری خد و خال-حقانی القاسمی

by قندیل

حسیب الرحمن قاسمی شائق یکہتوی کی کتاب ’تذکرہ شعرائے مدھوبنی‘ ریاستی اور ضلعی سطح پر لکھے گئے تذکروں اور ادبی تاریخوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت اودے پور، بہرائچ، بجنور، بریلی، بیکانیر، ٹونک، رامپور، کانپور، سیتاپور، سمستی پور، شاہجہاں پور،سارن، سہسوان، کاکوری، فرخ آباد وغیرہ کے تذکرے لکھے گئے ہیں۔
علاقائی ادبی تاریخوں کی تشکیل ایک طرح سے چند دبستانوں پر مرکوز ادبی تاریخوں کے خلاف ایک احتجاجی ردعمل ہے۔ اردو ادب میں جو تاریخیں لکھی گئی ہیں اُن کا معاملہ یہ ہے کہ بہت سے مضافات اور قریات کے اہم شاعروں کو عمداً نظر انداز کیا گیا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب ’آب حیات‘ کے تعلق سے عمومی تصور یہ ہے کہ اس میں دکن اور گجرات کا نہ صرف تذکرہ چھوڑا گیا ہے بلکہ انہوں نے اردو کے بہت سے ایسے نام بھی حذف کر دیے ہیں جن سے ان کی شاید معاندت یا مخاصمت رہی ہے۔ اردو ادب میں لکھے گئے کچھ تذکروں میں بہت سے شہروں، مضافات اور قصبات کے شاعروں کا ضمناً بھی ذکر نہیں ملتا۔ اسی لیے اردو میں علاقائی ادبی تاریخوں اور تذکروں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ کیوں کہ اِن کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں کہی جا سکتی۔
اردو میں اضلاع پر مرکوز جو تذکرے اور تاریخیں مرتب کی گئیں ان میں تذکرہ شعرائے اورنگ آباد (محمد سردار علی حیدرآبادی) تذکرہ شعرائے اودے پور(شاہد عزیز) تذکرہ شعرائے بریلی (سید لطیف حسین ادیب)تذکرہ شعرائے بیکانیر (عبدالعزیز آزاد) تذکرہ معاصر شعرائے جودھپور (شین۔کاف۔ نظام) تذکرہ شعرائے جے پور (احترام الدین شاغل)تذکرہ شعرائے سہسوان (حکیم سید اعجاز احمد معجز)تذکرہ شعرائے سارن (سمیع بہواروی) شعرائے سمستی پور (بسمل عارفی؍ اشفاق قلق) تذکرہ شعرائے سیتاپور(اسماء رفعت حسین) تذکرہ شعرائے بہرائچ (نعمت بہرائچی) تذکرہ شعرائے کانپور (سلیم عنایتی؍فاروق جائسی) تذکرہ شعرائے رامپور (جارج فانتوم) سخنورانِ کاکوری (حکیم نثار احمد علوی) تذکرہ شعرائے فرخ آباد (شکنتلا موج) سخنورانِ شاہجہاں پور (مبارک شمیم) پتھروں کے شہر میں گوالیار کا صد سالہ شعری ادب (شکیل گوالیاری) چہرہ چہرہ (محبوب انور) دبستان بجنور (شیخ نگینوی) بہرائچ اردو ادب میں (جنید احمد نور) دبستان خیر آباد(فرید بلگرامی) تذکرہ معاصر شعرائے ٹونک (عزیز اللہ شیرانی) تذکرہ بہار سخن (یکتا جودھپوری) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان علاقائی اور ضلعی تذکروں میں جن شعراء کا ذکر ہے انہیں تاریخ ادب اردو کی کتابوں میں تلاش کیا جائے تو شاید ہی ان میں سے چند نام مل پائیں۔ جب کہ ان تذکروں میں بہت سے ایسے نام بھی ہیں جو اردو ادب کی ادبی تاریخوں میں مذکور ناموں سے زیادہ اہمیت اور امتیاز کے حامل ہیں۔ اسی وجہ سے شاید دبستانوں اور مراکز سے ہٹ کر علاقائی تذکرے اور تاریخیں مرتب کی گئیں تاکہ علاقائی ادب کا تحفظ ہو سکے اور نامور باکمال مگر گمنام اور غیرمعروف ادباء و شعراء کو تاریخ کے صفحات میں زندہ رکھا جا سکے اور آنے والی نسل کو اِن علاقوں کے اسلاف اور اخلاف کے ادبی کارناموں سے روشناس کرایا جا سکے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ علاقائی تاریخ کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی کے ذریعے کسی بھی علاقہ کی ایک مربوط اور مکمل تصویر سامنے آتی ہے۔ علاقائی مطالعات کے بغیر مکمل تہذیب و ثقافت سے آشنائی ناممکن ہے۔ کیوں کہ ہر علاقہ کی اپنی ایک مخصوص تاریخ اور تہذیب ہوتی ہے اور ان علاقوں سے منسوب بہت سی روایات اور رسومات بھی ہیں، اسی لیے الگ الگ علاقوں کے تہذیبی اور ثقافتی مطالعات کسی بھی ملک کی مکمل تہذبی روایت کی تفہیم کے لئے ناگزیر ہیں۔ علاقائی تشخص سے ہی مرکزی تشخصات کی تعمیر و تشکیل جا سکتی ہے۔ اس لئے جو علاقائی تذکرے اور تاریخیں ترتیب دی جارہی ہیں اُن کی بڑی معنویت ہے۔
ہر علاقے کی شناخت کے الگ الگ حوالے ہوتے ہیں۔ ان حوالوں کے بغیر قومی اور ملکی شناخت کے خدو خال مکمل نہیں کہے جا سکتے۔ مدھوبنی بھی ایک ایسا علاقہ ہے جس کی عوامی شناخت کا ایک حوالہ مدھوبنی پینٹنگ ہے، تو ثقافتی شناخت ودیاپتی جیسے عظیم فنکار ہیں۔ اس کی تخلیقی عظمت کے لیے یہی ایک نام کافی ہے۔ باقی اور بھی درخشاں حوالے ہیں جن سے اس علاقے کی تہذیبی ثقافتی اور ادبی شناخت مستحکم اور مضبوط ہوتی ہے۔ یہ کتاب بھی اسی شناخت کی جستجو کا ایک تسلسل ہے۔ شائق یکہتوی نے یہاں کی تخلیقی زرخیزی کے شناس نامے کے طور پر یہ کتاب ترتیب دی ہے جس میں انہوں نے چالیس شاعروں کے احوال و آثار پر روشنی ڈالی ہے ۔ ان میں بعض شعراء ایسے ہیں جو قومی سطح پر متعارف ہیں اور کچھ شعراء کی پہچان اپنی ریاست یا ضلع تک محدود ہے۔ ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ وہ تمام شعراء ہیں جنہوں نے اردو شعر و ادب کے گیسو کو سنوارنے میں یقینا ریاضت اور عرق ریزی کا ثبوت دیا ہے اور شعر ادب سے ان کی والہانہ وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں اپنی زبان سے بے پناہ محبت ہے اور انہوں نے ادب کے علاوہ دیگر سرگرمیوں سے تعلق رکھتے ہوئے اردو زبان و ادب پر اپنی توانائی صرف کی ہے۔ شائق یکہتوی نے جن شاعروں کو اپنی اس کتاب میں شامل کیاہے وہ الگ الگ شعبہ حیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر اردو شعر و ادب سے ان کی دلچسپی یکساں ہے۔
مدھوبنی کے شعر و ادب کی تاریخ تقریباً ڈیڑھ سو سال پرانی ہے۔ مگر ڈیڑھ سو سالہ قدیم تاریخ ہوتے ہوئے بھی یہاں کی شاعری کو تنقید اور ادبی تاریخ کا حصہ نہیں بنایا جا سکا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزادی سے پہلے کسی شاعر کا شعری مجموعہ بھی منظر عام پر نہیں آسکا۔ مگر بعد میں بہت سے ایسے شعراء پیدا ہوائے جن کے کئی مجموعے شائع ہوئے اور ادبی حلقوں میں اُن کی خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوئی۔ شائق نے بہت تلاش و تحقیق کے بعد چالیس شاعروں کا تخلیقی اعمال نامہ قارئین کے روبرو پیش کیا ہے۔ یقینا یہ کام بہت دقت طلب اور پِتّہ ماری کا ہے۔ جستجو کی اس راہ میں نہ جانے کتنی مشکلات اور موانع آتے ہیں۔ یہ واقعی ایک خاردار راہ ہے جس میں پاؤں لہولہان ہو جاتے ہیں مگر منزل نہیں ملتی۔ شائق کو بھی اِن شعراء کے کلام اور دیگر مواد کی تلاش میں بہت سی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ ان کے حوصلہ کی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے ہار نہیں مانی اور آخر تلاش و جستجو میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے اور بہت سے ایسے ناموں تک رسائی ممکن ہوسکی جن تک پہنچنا عام قاری کے لیے شاید آسان نہیں تھا۔
مدھوبنی کے 120شعراء کے اسمائے گرامی اس کتاب میں درج ہیں۔ شائق نے ان میں سے چالیس شعراء سے مبسوط ملاقات کی ایک صورت نکالی ہے۔ جن میں آزاد بھلنوی، آسی یکہتوی، احقر ململی، اختر برداہوی، افضل بلہوی، انجم عمروی، انیس یکہتوی، پریشاں ململی، جوش شکروی، حافظ ململی، حیدر وارثی، رضوان بھلنوی، رفعت پنڈولوی، زماں برداہوی، سروربرداہوی، سرور پنڈولوی، ساقی غوث نگری، سالک کسماروی، شائق یکہتوی، شفیع بسہاوی، شگفتہ ہرپوری، شمسی برداہوی، شمسی یکہتوی، ظفر فاروقی، عاقل راگھونگری، عنبر ناصری، فہمی اقبال نگری، قاصر مکرم پوری، کلیم دوست پوری، گلشاد قاسمی، گوہر پرسولیاوی، ماہر رضوی، ماہر بھارتی، مضمحل یکہتوی، مہر شکروی، نعمت بڑہاروی، نیاز یکہتوی، نیرنگ ململی، ہوش شکروی شامل ہیں۔ ان میں مہر شکروی، مطیع الرحمن احقر، علاء الدین حیدر، صدر عالم گوہر، کلیم دوست پوری ایسے نام ہیں جو قومی سطح پر شہرت اور شناخت کے حامل ہیں۔ان کے علاوہ بہت سے شعراء ایسے ہیں جن کے کلام میں فنی اور فکری پختگی ہے اور اُن کے بہت سے اشعار تو چونکانے والے ہیں۔ اُن میں سے بہت سے اشعار کی خوبی یہ ہے کہ یہ کسی کی فکر یا فلسفے سے مستعار نہیں ہیں بلکہ اُن کے مقامی مشاہدات اور محسوسات پر مبنی ہیں، بلکہ بعض شاعروں کے یہاں تو مقامی لفظیات کا بھی بہت خوبصورت اور فنکارانہ استعمال ملتا ہے۔ مشت نمونہ از خروارے کے طور پر چند شعراء کے شعر ملاحظہ فرمائیں۔ جس سے اندازہ ہوگا کہ مدھوبنی کے شعری خد و خال کیا ہیں اور اُن کے فنی اور فکری رویے اور رجحانات کیا ہیں۔
آخر آہی گیا دور جنگ صلیب
دور مہدی کے دن کتنے کم رہ گئے
(اسلم آسی قاسمی)
شب فرقت عجب دیوانگی محسوس ہوتی ہے
کہ ٹھنڈک چاندنی کی دھوپ سی محسوس ہوتی ہے
(مطیع الرحمن احقر)
وطن کی مانگ صندل کی جگہ خون سے بھری اپنے
وطن پر جان ہم دیتے ہیں غداری نہیں کرتے
(نسیم اختر)
مفلسی لاکھ سہی پھر بھی تو افسردہ نہ ہو
رزق کیڑوں کو بھی پتھر میں خدا دیتا ہے
(محمد سکندر اعظم)
انہیں کو سینے سے منزل بھی ہے لگائے ہوئے
پہنچ گئے ہیں جو شمع وفا جلائے ہوئے
(محمد علاء الدین افضل)
موسم حسیں وہ گاؤں کے خوابوں سے ہوگئے
محدود ہوکے رہ گئی شہروں میں زندگی
(پرویز انجم)
مسجد بھی ہماری ہے مندر بھی ہمارے ہیں
جو بھی یہاں رہتے ہیں بھارت کے دلارے ہیں
(ماسٹر انیس الرحمن)
رہنے بھی دیجئے یہ لبڑ دھوں جناب من!
کرتا دھواں ہے کون بھلا کس کے سار میں
(پریشاں ململی)
کیا چارہ گری میرے مسیحا نہ کریں گے
دردِ غم فرقت کا مداوا نہ کریں گے
(حافظ ململی)
کس نے تجھے توڑا ہے کومل ہے بہت ہی تو
تو ٹوٹ گیا لیکن بکھرا ہے کہاں کوئی
(حیدر وارثی)
گوپیاں بے چین ہو جایا کریں گی
کرشن سی بنسی جہاں بجتی رہے گی
(رضوان صدیقی)
صنم آغوش الفت میں بکھر جانے کو جی چاہے
تمہاری زلف کے سائے میں مر جانے کو جی چاہے
(رفعت پنڈولوی)
وقت سفر کی یادوں کو بھولا نہیں ہوں میں
اب تک مری نگاہ میں وہ چشم تر بھی ہے
(زماں برداھوی)
جھونپڑے سارے فٹ پاتھ کے جل گئے
شہر میں نوحہ خواں کوٹھیاں رہ گئیں
(سرور برداھوی)
پتہ ہم کو معلوم ہے پھر بھی یارو
ہر اک شام کو اپنا گھر ڈھونڈتے ہیں
(سرور پنڈولوی)
ہوئی ہے پرورش اپنی سمندر کے تھپیڑوں میں
ہر ایک سنگ گراں کو درپے آزاد رہنے دو
(ساقی غوث نگری)
اس دورِ بے ضمیر کے انساں کو دیکھئے
ایمان بیچ دیتے ہیں دینار دیکھ کر
(شائق یکہتوی)
خوں مرا سر شام چراغوں میں جلے ہے
تاریک پسندوں کو یہی بات کھلے ہے
(شفیع بسہاوی)
یارب شب الم کی کوئی تو صبح ہوگی
اشکوں سے میں شگفتہ شمعیں جلا رہی ہوں
(حلیمہ سعدیہ شگفتہ)
ہر پھول پہ، ہر شاخ پہ ہے یاس کا عالم
خاک ایسے گلستاں کو ہم آباد کریں گے
(سلطان احمد شمسی)
کون روزی حلال کرتا ہے
گفتگو میں کمال کرتا ہے
(منظور احمد شمسی قاسمی)
ہے قدم میرا زمیں پر مگر ہمت دیکھو
چرخ کے چاند ستاروں پہ گزر رکھتے ہیں
(اسامہ عاقل)
نہیں صبا سے کوئی کم تری نوائے جنوں
خزاں میں رہ کے بھی تازہ گلاب پیدا کر
(فضیل احمد ناصری)
اک عمر میں نے تیری جدائی میں کاٹ دی
مجھ جیسا ترا چاہنے والا کہیں نہ ہو
(غلام قدوس سہمی)
اب زمیں پر کون چلتا ہے اڑا کرتے ہیں لوگ
کس کا استقبال اب رستے کے پیچ و خم کریں
(قاصر مکرم پوری)
عمر دراز مانگنا اچھا نہیں لگا
سورج ڈھلا تو شام کو گھر لوٹنا پڑا
(کلیم اللہ کلیم دوست پوری)
یہ بندشیں،یہ کرونا،یہ تیرتی لاشیں
ہمارے ملک کی جنتا بہت تناؤ میں ہے
(گلشاد قاسمی)
سکوں اک پل بھی میسر نہیں ہے
یہاں کوئی محفوظ اب گھر نہیں ہے
(صدر عالم گوہر)
پاتا ہوں سامنے اُسی بیداد گر کو میں
دل کو چراؤں اب کہ بچاؤں جگر کو میں
(ماہر رضوی)
پھول کے بچھونے پر جن کی شب گزرتی تھی
خار کی چٹائی پر رات اب بتاتے ہیں
(ماہر بھارتی)
بھارت ہے نام اس کا اس گلشن جہاں میں
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ آشیاں ہمارا
(عبدالعزیز مضمحل)
جنون عشق میں گزرا کہاں کہاں سے مگر
خرد کے ساتھ کبھی دو قدم بھی چل نہ سکا
(مہر شکروی)
اس قدر حسرت بھری نظروں سے یوں مت دیکھئے
بس تمہارے شہر میں ایک شب ٹھہرنا ہے ہمیں
(نعمت بڑہاروی)
دمشق کو شام آنسوؤں کا مقتل
بنام امن ہی جور و ستم دیکھ
(نیاز احمد نیاز)
ہاتھ دھونا ہی پڑے گا جان سے
عشق کرنے کا یہی انجام ہے
(نیرنگ ململی)
وہ مڑکے دیکھے نہ دیکھے ہماری قسمت ہے
پڑے ہوئے سر رہگزار ہم بھی ہیں
(ہوش شکروی)
ان اشعار میں کلاسیکیت اور جدیدیت کے رنگ ہیں اور بہت سے اشعار میں عصری حسیت بھی ہے۔ اس عہد کے مسائل اور موضوعات کو ان شعراء نے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے اور اپنے تجربات و حوادث کو شعری پیکر عطا کیا ہے۔ اس طرح کے تذکرے سے بہت سے اہم ناموں سے آشنائی کی صورت نکلتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ ہمارا ادبی رقبہ تنگ نہیں بہت وسیع ہے۔ یہاں جذبہ و احساسات کے بہت سے جزیرے ہیں، جن تک رسائی کی راہیں آسان نہیں۔ اس نوع کے تذکرے رسائی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اگر یہ تذکرہ ترتیب نہ دیا جاتا تو مدھوبنی کے تعلق سے ہمارے ذہن میں یہی تصور ہوتا کہ تخلیقی اعتبار سے وہ سرزمین بنجر اور ویران ہے۔ مگر اس تذکرے نے یہ احساس دلایا کہ کوئی بھی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں باکمال افراد نہ ہوں۔ بس اُن کی جستجو شرط ہے۔ اس طرح کے علاقائی تذکرے اب بہت ضروری ہیں کہ گمنام اور فراموش کردہ شخصیات کو ذہنوں میں زندہ رکھا جا سکے۔ سید لطیف حسین ادیب کے نام مولوی عبدالحق نے ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے اس نوع کی کاوش کو سراہتے ہوئے اسے تسلسل عطا کرنے کی بات کہی تھی:
’’آپ نے اپنے وطن کے جن گمنام شاعروں کا ذکر فرمایا ہے۔ اُن سے متعلق اپنی تحقیق جاری رکھیے اور وقتاً فوقتاً ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہئے۔کیا عجب آپ کی توجہ سے دوسرے اہل قلم کی نظریں ان کی جانب اٹھیں۔ علاوہ بریں یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔ نہ جانے کتنے جوہر قابل اسی طرح بے مہری ایام کی نذر ہوگئے اور کوئی اُن کا نام لینے والا کبھی باقی نہ رہا۔ ‘‘
دلاور فگار نے بھی بڑی اچھی بات کہی تھی:
کتنے غالب یہاں پیدا ہوئے مر بھی گئے
قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک
اور حقیقت یہی ہے کہ اقطاعِ بہار میں بہت سے ایسے شعراء اور ادباء ہیں جن سے علاقے کے لوگ بھی کم ہی آگاہ ہیں۔ دراصل ان لوگوں کی طبیعت میں بے نیازی اور استغناء ہے اور پروفیسر عبدالخلاق کی زبان میں کہا جائے تو’ تو یہاں کی فطرت میں گوتمی خاکساری اور مہاویری انکساری کچھ ایسی رچ بس گئی ہے کہ لوگ قناعت پر تکیہ کناں اور شہرت سے گریزاں زندگی گزارنے کے عادی سے ہوگئے ہیں۔‘
بہار کے کچھ شہروں میں شہرت پسندی، عیاری مکاری جیسی صفت ضرور پیدا ہوگئی ہے مگر جن شہروں اور علاقوں کے طرز معاشرت میں دیہی پن غالب ہے ، وہاں اب بھی سادگی اور سادہ لوحی برقرار ہے۔مدھوبنی بھی ایسا ہی علاقہ ہے جو شہری طرزِ احساس سے پاک ہے اور اس پر شہریت کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔
’تذکرہ شعرائے مدھوبنی‘ ، ’جوہر قابل کی جستجو‘ اور اردو شعر و سخن کے بہت سے اسماء اور اشخاص کو زندہ اور محفوظ رکھنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ اس کے لیے مولانا حسیب الرحمن قاسمی شائق یکہتوی قابل مبارکباد ہیں۔امید ہے کہ وہ آئندہ مدھوبنی کی مجموعی ادبی تاریخ مرتب کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیوں کہ شاعری کے علاوہ دیگر ادبی اصناف میں بھی کچھ اہم نام ہیں جن میں مولانا ابوالکلام آزاد کے البلاغ سے وابستہ مولانا نورالہدیٰ نورفاضل دیوبند، چار جلدوں پر محیط لغات ابجد شماری والے سید احمد جامعی، کئی اہم تحقیقی و تنقیدی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر ا برار احمد اجراوی، اخترالحسن پنڈولوی، اظہار احمد، سلطان احمد، عادل حیات، سعود عالم قاسمی، نذرالحفیظ ندوی وغیرہ شامل ہیں۔

You may also like