Home نقدوتبصرہ پریم چند : باتصویر سوانح-محمد اکرام

پریم چند : باتصویر سوانح-محمد اکرام

by قندیل

دنیائے ادب میں پریم چند (31 جولائی 1880- 8 اکتوبر 1936) کی شہرت ایک فکشن نگار اور ناول نگار کے طور پر ہوتی ہے۔ ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں انھیں یکساں مقبولیت حاصل ہے۔ انھیں اپنے میدان کا ’ماسٹر‘ سمجھا جاتا ہے۔
’پریم چند : باتصویر سوانح‘ پریم چند کی شخصیت اور ادبی خدمات کے حوالے سے ایک مکمل اور جامع کتاب ہے۔ اس کتاب کے مصنف کمل کشور گوئینکا ہیں۔ پریم چند شناسی کے حوالے سے ان کا نام بہت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ کمل کشور گوئینکا کو ان کی مشہور کتاب ’پریم چند کی کہانیوں کا کال کرمانوسار ادھیین‘ کے لیے 2014 میں ویاس سمان جیسے ایوارڈسے نوازا جاچکا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کو ہندی زبان میں تحریر کیا تھا، جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر اجے مالوی نے کیا ہے۔ پہلی بار یہ کتاب قومی اردو کونسل سے 2002 میں شائع ہوئی تھی۔ 2023 میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔ کمل کشور گوئینکا ’پریم چند : باتصویر سوانح‘ کی اہمیت اور افادیت کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’پریم چند بیسویں صدی کے اہم ہندوستانی مصنفوں میں تھے۔ انھوں نے غلام بھارت کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے مگر معاشرے میں آج بھی وہی مسائل دکھائی دیتے ہیں۔‘‘(پریم چند باتصویر سوانح،ص vii)
’پریم چند : باتصویر سوانح‘ میں پریم چند کی پیدائش، تعلیم، ملازمت، تصانیف، شادی، آل اولاد وغیرہ کا مفصل ذکر ہے۔ یہاں تک کہ ان کے والد اور دادا کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے۔ پریم چند کی اصلی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دھنپت رائے کو پریم چند بننے میں کتنی اذیتوں اور پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ ان کا لاچار اور مجبور بچپن، وسائل کی کمی کے سبب تعلیم میں بار بار رکاوٹ، باپ کی دوسری شادی کا نفسیاتی دباؤ، کم عمری میں شادی اور میاں بیوی میں تال میل کی کمی، دوبارہ ایک بیوہ سے شادی اور بچوں کی تعلیم و پرورش، اوسط زندگی گزارنے کے لیے مختلف طرح کی ملازمتیں وغیرہ ۔اس طرح کی نہ جانے کتنی مشکلات کا مفصل بیانیہ ہے ’پریم چند : باتصویر سوانح‘۔
اس کتاب میں پریم چند کی تعلیم اور ادبی خدمات کے حوالے سے مکمل جانکاری فراہم کرائی گئی ہے۔ تعلیم کے ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ پریم چند جب آٹھ برس کے ہوئے تو انھوں نے ہندی کے ساتھ اردو اور فارسی کی تعلیم بھی شروع کردی۔ 13 برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے پریم چند پنڈت رتن ناتھ سرشار، مرزا محمد ہادی رسوا، مولوی محمد علی وغیرہ کے ناولوں کو پڑھ چکے تھے۔ ’طلسم ہوش ربا‘ جیسی کتاب کو بھی اسی عمر میں انھوں نے اپنے مطالعے کا حصہ بنالیا تھا۔ پریم چند کو مطالعے کا اس قدر شوق تھا کہ وہ بدھی لال نام کے کتاب فروش کی دکان پر موجود ناولوں کو پڑھنے کے لیے اپنے نوٹس وغیرہ بھی بیچ دیتے تھے۔ اردو میں ان کی پہلی تخلیق’اولیور کرام ویل‘ بنارس کے ہفت روزہ اخبار ’آوازِ خلق‘ میں قسط وار شائع ہوئی تھی۔ انہی دنوںان کے کچھ مضامین بھی ماہنامہ ’زمانہ‘ میں شائع ہوئے تھے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’سوزوطن‘ جولائی 1908 میں زمانہ پریس کانپور سے شائع ہوا۔ یہ مجموعہ مکمل طور پر حب الوطنی پرمرکوز تھا۔ اس افسانوی مجموعے پر انگریز حکومت کی جانب سے انھیں سرزنش بھی کی گئی۔ یہاں تک کہ اس کتاب کی ساری کاپیاں جلا دی گئی تھیں۔ایک قانون بھی پاس ہوا کہ اب پریم چند کی کوئی بھی تخلیق بغیر سنسر سے گزرے شائع نہیں ہوگی۔ مجبور اور پریشان پریم چندنے اب ’چھدم‘ نام سے لکھنا شروع کردیا۔ کچھ دنوں بعد ایک کہانی ’پاپ کی اگنی کنڈ‘ افسانہ گو کے نام سے شائع ہوئی۔ ان کا مشہور افسانہ ’رانی سارندھا‘ تو بغیر کسی نام کے چھپا۔ پریم چندکا پہلا ناول ’اسرارِ معابد‘ ہے۔ پریم چند اردو کے ساتھ ہندی کے قارئین تک رسائی کو بھی ضروری سمجھتے تھے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار انھوں نے یکم ستمبر 1915 کو منشی دیا نرائن نگم کو لکھے خط میں کیا:
’’اب ہندی میں لکھنے کی مشق بھی کررہا ہوں، اردو میں اب گزر نہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بال مکند گپت مرحوم کی طرح میں بھی ہندی لکھنے میں زندگی صرف کردوں گا…‘‘ (ایضاً، ص 15)
ناول ’ہم خرما و ہم ثواب‘ کے ذریعے پریم چند کا برسوں کا سجویا خواب پورا ہوگیا۔ دراصل انھوں نے یہ ناول اردو زبان میں تحریر کیا تھا۔ ’پریما‘ اسی ناول کا ہندی روپ ہے جسے 1907 میں انڈین پریس الہ آباد نے شائع کیا ہے۔ ہندی میں ان کا پہلا افسانہ ’سوت‘، پہلا ہندی افسانوی مجموعہ ’سپت سروج‘ اور پہلا ناول ’سیواسدن‘ ہے۔ اردو میں اسے ’بازارِ حسن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ناول ’سیواسدن‘ پریم چند کے بجائے بابو نواب رائے بنارسی کے نام سے چھپا ہے۔ یہ ان کا پہلا کامیاب ناول ہے۔ اس ناول کی اشاعت کا سہرا پریم چند نے مہاویر پرساد پودّار کے سر باندھا۔ پودار نے ہی انھیں ہندی کی جانب رغبت دلائی تھی۔
پریم چند زمین سے جڑے ہوئے سچے اور حقیقی تخلیق کار تھے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں گاؤں دیہات میں رہنے والے دبے کچلے کسان مزدور اور استحصال زدہ طبقے کی زندگی کو پیش کیا۔ زمینداروں اور سرمایہ داروں پر کھل کر تنقید کی، سماج میں رائج غلط رسم و رواج کو بھی موضوع بنایا۔ گویا پریم چندایک قومی پہرے دار، دیہاتی زندگی اور ثقافت کے رپورٹر، تباہ حالوں اور مصیبت زدوں کے مسیحا، قومی یکجہتی، حب الوطنی اور بھائی چارے کے حمایتی سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے ادب کے ذریعے سماج میں رائج غلط رسوم اور ہر طرح کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ڈاکٹر محمد حسن کے بقول ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔‘‘
پریم چند نے اپنی شخصیت کو سنوارنے میں کچھ عظیم شخصیات کے اثرات بھی قبول کیے ہیں۔ ان میں سوامی دیانند، وویکانند، مہاتما گاندھی، ٹالسٹائے،میکسم گورکی وغیرہ کے نام بہت اہم ہیں۔مہاتما گاندھی جیسی پراثر اور باوقار شخصیت کے اثرات ان کی شخصیت پر کچھ زیادہ ہی پڑے۔ پریم چند انھیں نیک دل، عظیم مجاہد، اور بہادر انسان سمجھتے تھے۔ پریم چند کی بیوی شیورانی دیوی نے اپنی کتاب ’پریم چند اپنے گھر میں‘ میں لکھا ہے کہ:
’’خود کو مہاتما گاندھی کا شاگرد بتلاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ میں مہاتما گاندھی کو سب سے عظیم مانتا ہوں۔ ان کا بھی مقصد یہی ہے کہ مزدور اور کاشتکار کو راحت نصیب ہو اور میں بھی اپنی تحریروں سے ان کی حوصلہ افزائی کررہا ہوں۔ وہ ہندو مسلم یکجہتی چاہتے ہیں تو میں بھی ہندی اردو کو ملا کر ہندوستانی بنانا چاہتا ہوں۔‘‘ (پریم چند باتصویر سوانح، ص 25)
پریم چند گنگا جمنی تہذیب کے پروردہ تھے۔ اس زمین پر رہنے والے سبھی انسانوں کو وہ اس ملک کا حقیقی باشندہ سمجھتے تھے۔ شاید اسی لیے پریم چند ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ہندو اور مسلمان کے اتحاد کو ضروری سمجھتے تھے۔ کمل کشور گوئینکا لکھتے ہیں:
’’انھوں نے ایک ادیب، صحافی اور مدیر کی حیثیت سے ہندو مسلم یکجہتی کو سوراج کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ گاندھی جی نے بھی اس یکجہتی کو سوراج کی پہلی سیڑھی کہا تھا۔ پریم چند کا قول تھا کہ دونوں مذاہب اور ان کے ماننے والوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے لیکن مٹھی بھر تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے عہدوں اور ممبرو ںکے لیے ساری لڑائی کھڑی کی ہوئی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ غریبی، بیماری، ناخواندگی اور بیکاری ہندو مسلمان کا فرق نہیں کرتی۔‘‘ (ایضاً، ص 33)
پریم چند کے ناولوں اور افسانے کے موضوعات کو فلمی دنیا نے بھی سراہا۔ ان کے مشہور ناول ’سیوا سدن‘ پر مہا لکشمی سنے ٹون اور ممبئی کے کرتا دھرتا نانو بھائی وکیل نے اسی نام سے فلم بھی بنائی۔ بعد میں پریم چند نے کئی فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریر کیے۔ ’مل کا مزدور‘ میں تو انھوں نے کچھ وقفہ کے لیے اداکاری کی بھی کی۔ مگر یہ مصنوعی دنیا پریم چند کو بہت دنوں تک راس نہیں آئی، اس لیے انھوں نے یہاں سے راہ فرار اختیار کرنے میں ہی بھلائی سمجھی۔
’پریم چند : باتصویر سوانح‘کی اہمیت اور افادیت کو دوبالا کرنے میں کتاب میں شامل تصاویر کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ پریم چند کی پیدائش سے لے کروفات تک کی کئی تصاویر اس کتاب میں شامل ہیں۔ پریم چند کے گاؤں لمہی کا نقشہ، ان کے گھر کی کوٹھری، راوت پاٹھ شالہ گورکھپورجہاں سے انھوں نے مڈل امتحان پاس کیا، اس کی بلڈنگ، ان کی کچھ اسناد (میٹرک، انٹرمیڈیٹ، گریجویشن وغیرہ) کے عکس کو بھی کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پریم چندکی بیوی اوربچوں کو بھی تصاویر کے ذریعہ قارئین سے روشناس کرایا گیا ہے۔ کچھ ایسی شخصیات کی تصاویر بھی اس کتاب میں شامل ہیں جنھوں نے پریم چند کی شخصیت سازی میں اہم کردار نبھایا۔ بعض ایسے رسالوں کے سرورق بھی شامل ہیں جن میں ان کی پہلی تخلیق شائع ہوئی ہے۔ کچھ کتابوں کے سرورق اور کچھ کے دیباچے تصویروں کے ذریعے نمایاں کیے گئے ہیں۔ پریم چند کے دستخط اور ان کی تحریر کے عکس (جب انھوں نے فلم ’سیوا سدن‘ بنانے کے لیے منظوری دی تھی) سے بھی قارئین کو روشناس کرایا گیا ہے، ساتھ ہی اس فلم کی ہیروئن کی تصویر بھی کتاب میں شامل ہے۔بعض ایسے خطوط کے عکس بھی ہیں جو انھوں نے عظیم شخصیات کو لکھے تھے اور بعض وہ خطوط جو دوسرے ممالک میں مقیم ہندوستانیوں نے پریم چند کو لکھے تھے۔ سب سے آخر میں کچھ مخدوش عکسی تحریریں ہیں جو پڑھنے میں بمشکل آرہی تھیں، انھیں بھی اس کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ان مخدوش تحریروں کو کمپوز کرکے دوبارہ شامل کیا گیا تاکہ قارئین ان تحریروں سے بخوبی استفادہ کرسکیں۔
گئودان، بازار حسن (سیواسدن)، گوشۂ عافیت (پریما شرم)، چوگان ہستی (رنگ بھومی)، اسرار معابد (دیوستھان رہسیہ)، ہم خرما و ہم ثواب (پریما)، پردہ مجاز (کایا کلپ)، میدان عمل (کرما بھومی)، بیوہ (پرتگیہ)، سوز وطن، پریم پچیسی، پریم بتیسی، خواب و خیال، فردوس خیال وغیرہ کتابوں کے خالق پریم چند کا تخلیقی کینوس بہت وسیع ہے۔ انھوں نے تقریباً 300 کہانیاں، 15 ناول اور3 ناٹک لکھے ہیں۔ دوسری زبانوں کی ادبیات پر بھی پریم چند کی گہری نظر تھی۔ اس تعلق سے 10کتابوں کو پریم چند نے ہندی زبان میں بھی منتقل کیا ہے۔ خود پریم چند کی بہت سی تخلیقات کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہی ان کی کہانیوں کے انگریزی، جاپانی، جرمن وغیرہ زبانوں میں ترجمے ہوچکے تھے۔
کتاب کے مترجم ڈاکٹر اجے مالوی قابل مبارکباد ہیں جنھوں نے اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کا ترجمہ کیا۔ وہ خود بھی اردو کے مشہور ادیب ہیں۔ اجے مالوی کی اردو زبان میں سناتن دھرم پر لکھی گئی ایک درجن سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ بھگوت گیتا کا ترجمہ اور اس کی تشریح ان میں سرفہرست ہے۔ قومی اردو کونسل کا شکریہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اس اہم کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ کونسل منشی پریم چند کی تقریباً تمام نگارشات کو بھی 20 جلدوں میں شائع کرچکی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پریم چند کی بقیہ کتابوں کی طرح ’پریم چند: باتصویر سوانح‘ کو بھی ادبی حلقوں میں خاطرخواہ پذیرائی حاصل ہوگی۔
92 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت محض 80 روپے ہے۔ کتاب کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر یہ بہت مناسب قیمت ہے۔ مجھے امید ہے کہ پریم چند کی تحریروں سے شغف رکھنے والے قارئین اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں گے۔

You may also like