Home نقدوتبصرہ منفرد لسانی تکنیک اور تجربے کا شاعر قاضی سلیم-محمد اکرام

منفرد لسانی تکنیک اور تجربے کا شاعر قاضی سلیم-محمد اکرام

by قندیل

9654882771

 

اورنگ آباد پہلے ایک چھوٹی سی بستی تھی جسے  ولی، سراج،داؤد، صفی، وجد، افضل بیگ قاقشال، حمید اورنگ آبادی، لالہ لچھمن نرائن شفیق اورنگ آبادی، بہاء الدین حسین خاں، اسد علی خاں تمنا اورنگ آبادی، عنایت اللہ فِتوت  وغیرہ جیسی دانش و بینش کی جمعیت نے اسے عظیم عروس البلاد میں بدل دیا۔  یہ شہر ہمیشہ سے تاریخ و تمدن، تہذیب و ثقافت اور علوم و فنون کا گہوارہ رہا ہے۔ اس شہر میں مختلف خانقیں اور گپھائیں بھی موجود ہیں۔ مشہور زمانہ غارہائے اجنتا، ایلورہ، دولت آباد کا قلعہ، خلد آباد، بی بی کا مقبرہ، پن چکی کی وجہ سے بڑی تعداد میں ملکی اور غیرملکی سیاح یہاں آتے ہیں۔ اسے دروازوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔  غالباً یہی خوبیاں علامہ غلام علی آزادبلگرامی کو بھا ئی ہوں گی، جو اپنی جائے سکونت کے لیے اس شہر کا انتخاب کیا۔ اورنگ آباد کا نام گرچہدہلی اور لکھنؤ جیسے نام نہاد ادبی مراکز کی طرح مشہور نہیں ہے، پھر بھی  مذکورہ شخصیات کے علاوہ سکندر علی وجد، حمایت علی شاعر، یعقوب عثمانی، عصمت جاوید شیخ، عبدالحکیم خان حکیم اورنگ آبادی، قاضی سلیم، جوگندرپال،فضیل جعفری، بشر نواز، عتیق اللہ وغیرہ کی جدوجہد، کاوش اور خدمات کی وجہ سے اس شہر کو انفراد و اختصاص کا درجہ حاصل ہے۔ آج بھی متعدد شعرا و ادبا موجود ہیں جو اورنگ آباد کی علمی اور ادبی فضاکو تابناک بنائے ہوئے ہیں۔

قاضی سلیم (پیدائش: 27 نومبر 1930، وفات: 8مئی 2005) کا تعلقبھی اسی شہر اورنگ آباد سے ہے۔ ان کی شخصیت اور اخلاق و عادات کے بارے میں مختلف کتب اور مضامین کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے۔ ان کے ساتھ ادبی محفلیں شیئر کرنا اور وقت گزارنا ہی ان کا مشغلہ تھا۔ بہت مخلص اور بھولے بھالے انسان تھے، وہ دنیا داری سے بہت دور ہٹ کر سوچتے تھے اسی لیے کبھی کبھار اپنے احباب کے مشوروں پر بھی وہ عمل کرلیتے جس کی وجہ سے بھاری نقصان اٹھانا پڑتا۔ قاضی سلیم کے پاس کوئی مستقل ملازمت نہیں تھی، کچھ سالوں تک انھوں نے اپنے باپ کے ساتھ وکالت کی،  جب دل اچاٹ ہوگیا تو اس پیشے کو خیرباد کہہ کر اپنے خسر کی کمپنی میں منیجر کے عہدے پر فائز ہوگئے مگر یہاں بھی انھیں کامیابی نہ مل سکی، اس لیے کچھ دنوں بعد یہاں کی بندشوں سے بھی آزادی حاصل کرلی  اور ملازمت سے ہٹ کر تجارت کی سوچنے لگے اور احباب کے مشورے پر انھوں نے ’تاج آفسیٹ پریس‘ کے نام سے ایک پریس قائم کیا جو ان کے لیے نفع کے بجائے گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔  یہ پریس کیسے قائم ہوا، اس کے اسباب و محرکات کیا تھے، پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے مضمون ’قاضی سلیم: جو بہت جلد بھلا دیے گئے‘ میں انھیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس تعلق سے یہ اقتباس پڑھنے لائق ہے:

’’پتہ نہیں کس نے انھیں پریس لگانے کا مشورہ دے دیا۔اس کے فائدے بتائے، اخبار نکالنے کا حوصلہ دیا، ادبی رسالے کا سبزباغ دکھایا۔ بیگم نے سوچا ہوگا کہ چلو شاعری سے چھٹکارا ملا۔ داد سے شکم پروری اور عیش و آرام کی زندگی ملنے سے تو رہی۔ ممکن ہے پریس ہی کچھ انقلاب لے آئے۔انقلاب آیاا ور ضرور آیا۔ پریس ذرا عمر رسیدہ تھا، خوب آواز ہوتی۔ سارے در و دیوار میں زلزلہ سا آجاتا۔ چلتا کم خراب زیادہ ہوتا۔ کماتا کم کھاتا زیادہ۔ جو کچھ کمائی ہوتی اس سے پریس کے ملازمین کی روز ی روٹی اور گزر بسر ضرور ہورہی تھی اور تھوڑا بہت کچھ اندوختہ ہوتا تو سلیم بھائی سے پہلے ان کے چھوٹے بھائی شمیم کے کیسے میں جاکر سیدھے نشے کی گولی میںبدل جاتا۔ تقریبات کے دعوت نامے بھی رات دن چھپتے لیکن اکثر یارلوگ وعدے کے خوش خواب دکھا کر یہ جا وہ جا‘‘

پریس کھولنے کے اپنے فیصلے پر قاضی سلیم کو بعد میں پچھتاوا بھی ہوا، مگر وہ مجبور تھے، کچھ دنوں تک انتظار کرتے رہے کہ شاید یہ تجارت وقت گزرنے کے ساتھ ان کے لیے سود مند ثابت ہو،  مگر نتیجہ ان کی سوچ کے برعکس نکلا۔ قاضی سلیم اپنے دوست جوگندرپال سے اپنی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’کیا بتاؤں پال! اس پریس کا حاصل صرف ’’نئے کلاسیک‘‘ ہے؟‘‘ پریس میرا نہیں میں پریس کا پیٹ بھررہا ہوں۔ بس بہت ہوچکا۔‘‘

’’لیکن کاضی، تمھیں یہ صلاح کس نے دی تھی۔میں تو پہلے دن ہی سمجھ گیا تھا کہ کاضی گیا کام سے۔‘‘

’’پال! سوچا تھا۔‘‘

’’سوچو، شوچو کچھ نہیںا سے فوراً بیچ ڈالو۔ یہ پریس نہیںہاتھی پالنا ہے۔‘‘

(مضمون ’قاضی سلیم: جو بہت جلد بھلا دیے گئے‘: پروفیسر عتیق اللہ)

بالآخر ہوا بھی یہی، وہ جوگندر پال کے کہنے سے پہلے ہی اس پریس کو بند کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔اس کے بعد آپ نے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کافیصلہ کیا اور وہ ممبر آف پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے۔ مگر پانچ برسوں میں انھوں نے اپنی پارٹی کی حکمرانی سے نہ تو کوئی فائدہ اٹھایا نہ اس تعلق سے ان کے ذہن میں کبھی خیال آیا کیونکہ قاضی سلیم نہ دنیا دار تھے اور نہ ہی انھیں دنیا داری آتی تھی، بس عوام کی خدمت کو انھوں نے اپنا نصب العین بنا لیا تھا اسی لیے ہر کام فی سبیل اللہ کیا، اس کام کے بدلے کچھ اچھے لوگوں نے اپنی دعاؤں سے نوازا بھی لیکن بہتوں نے کام پورا ہونے کے بعد مڑ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ کچھ خوشامد پسندوں نے تو آپ کو کام کے بدلے بڑے بڑے خواب دکھائے، اسی قبیل کے کچھ لوگوں نے آپ کے نئے مجموعۂ کلام کی اشاعت کے لیے اس زمانے کے مشہور رسالہ ’شمع ‘کے پبلشرز کو راضی بھی کرلیا اوراس کے  بدلے اپنے کام نکالتے رہے، مگر اس مجموعے کو طباعت کے مرحلے تک پہنچانے میں ایک طویل عرصہ بیت گیا اور یہ کام طباعت کے مرحلے تک نہ پہنچا۔ بالآخر ان کی ممبری پانچ سال پورے ہوگئے اور وہ مشہور سائنسداں اے پی جے عبدالکلام کی طرح اتنے ہی ساز و سامان کے واپس ہوگئے جتنا وہ لے کر آئے تھے۔

قاضی سلیم کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انھوں نے اپنے پڑوسی مظفر الدین کی لڑکی تبسم کو جب وہ محض چھ مہینے کی تھی، گود لے لیا تھا اور پیار سے اس کا نام سلمیٰ رکھا تھا۔ آپ نے اپنی حقیقی بچی کی طرح سلمیٰ کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے قاضی فیض الدین سے اس بچی کا نکاح کردیا جہاں وہ خوش حال زندگی گزار رہی ہے۔

قاضی سلیم کا اصل نام قاضی سلیم الدین ہے، کی پیدائش  ان کی ننھیال حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ جہاں آپ کے نانا محترم قاضی سراج کا شمار وہاں کی معروف شخصیات میں ہوتا تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم نانا کے گھر حیدرآباد دکن میں ہوئی تھی۔ یہیں سے آپ نے نامپلی ہائی اسکول میں درجہ نہم تک کی تعلیم حاصل کی۔ دسویں کا امتحان مدرسہ فوقانیہ جالنہ سے امتیازکے ساتھ پاس کیا۔ اسی دوران آپ نے قرآن شریف کے بارہ پارے بھی حفظ کرلیے۔  انٹرمیڈیٹ اور بی اے کی ڈگری آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بعد میں آپ نے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے ایل ایل بی کیا۔

قاضی سلیم کا خاندان بہت متمول اور تعلیم یافتہ تھا۔ ان کے دادا قاضی شمس الدین ابن حافظ غلام احمد دھانورا ضلع ناندیڑ کے جاگیردار تھے۔  قاضی سلیم کے اسلاف حضرت عمر فاروقؓ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ فاروقی لکھا کرتے تھے۔ آپ کے دادا قاضی شمس الدین کے چار فرزند تھے جن میں قاضی سلیم کے والد قاضی حمید، قاضی ریاض الدین، قاضی نصیرالدین اور قاضی نذیر الدین کا شمار ہوتا ہے۔  قاضی سلیم کے والد قاضی حمید الدین اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ آپ محکمۂ پولس میں سرکل انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔  دورانِ  ملازمت وکالت کے امتحان میں بھی کامیابی حاصل کرلی جہاں وہ فوجداری کے بڑے وکیل کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ قاضی سلیم اپنے والد سے بہت ڈرتے تھے جس کی بنا پر انھیں ’سرکار‘ کہتے تھے اسی لیے انھوں نے اپنے والد کو طویل نظم ’برأت‘ لکھ کر بہترین خراج پیش کیا ہے۔ اس نظم کے کچھ حصے ملاحظہ فرمائیں:

ہمیشہ وہ سرحدوں ہی پہ جیتے رہے/ جہاں موت سے زندگی ایسے ملتی ہے/ جس طرح دن رات ملتے ہیں/ کب دن کٹا کب رات آئی/ کہاں جینے والوں کے وہ ساتھ تھے/ کہاں مرنے والوں کی سنگت میں/ ہر موڑ پر ضوفشاں تھے                                            )رستگاری: قاضی سلیم، نظم ’برأت‘ سیاست پبلی کیشنز، حیدرآباد، 2004، ص 163(

قاضی سلیم کے علاوہ ان کے دو اور بھائی تھے جن میں ڈاکٹر قاضی مجید الدین جو ڈاکٹر ماجد القاضی کے نام سے جانے جاتے تھے، کنگ فیصل اسپتال ریاض سعودی عرب میں کارڈیالوجسٹ تھے۔ دوسرے بھائی کا نام قاضی شمیم الدین ہے جو آپ سے چھوٹے تھے لیکن اپنی بے راہ روی کے سبب قاضی سلیم کے لیے ایک آزمائش سے کم نہ تھے۔  ایک دن وہ بھی آیا کہ گھر سے نکلنے کے بعد وہ پھر واپس نہ آئے، قاضی سلیم کافی عرصے تک انھیں تلاش کرتے رہے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔

قاضی سلیم کی تصانیف درج ذیل ہیں:

(1)        نجات سے پہلے (شاعری)، 1971،مکتبہ شب خون، کتاب گھر الہ آباد

(2)        ریگزاروں کے گیت (شاعری)، (1986)، غازی القصیبی کی انگلش کتاب ‘From the orient and The Desert’ کا ترجمہ ۔

(3)        مثنوی باغبان و گل فروش (شاعری)، 1987،مطبع فائن آرٹ، واقع شہر دکن اورنگ آباد، فرخندہ

(4)        کچوکے ضمیر کے (1991(

(4)        رستگاری (شاعری) 2004، سیاست پبلی کیشنز، حیدرآباد

(5)        آموختہ (شاعری(

قاضی سلیم کا شمار جدید نظم کے بنیادگزاروں میں ہوتا ہے۔وہ منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ مشکل پسندی اور نت نئے تجربات اور تکنیک ان کی نظم کا خاصہ ہیں جن کی بنا پر قارئین کو ان کی نظموں کی تفہیم میں دشواریاں بھی پیش آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرأت کے دوران ان کی نظمیں ہوش مندی کا مطالبہ کرتی ہیں۔  قاضی سلیم کی مشکل پسندی اور معنی کی پیچیدگی کی وجہ سے ان کو ادب میں وہ مقام نہ مل سکا جو ان کے معاصرین مثلاً خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر، بلراج کومل عمیق حنفی وغیرہ کو ملا۔

بیشتر قارئین کا خیال ہے کہ قاضی سلیم کی شاعری پر دھند کی کیفیت طاری رہتی ہے، جو شاعری کے لیے عیب سمجھی جاتی ہے۔ یعنی قاضی سلیم نظموں میں جو فضا قائم کرتے ہیں اس کا مطلع صاف نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح کی نظموں کی قرأت کے دوران ابہام اور پراسرار کیفیت سے قاری کو دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ابہام اور پراسراریت قاضی صاحب کی نظموں میں لسانی اور تکنیکی تجربے پر زیادہ دھیان دینے کی وجہ سے ہے۔ جب کہ دھند کی کیفیت کو بہت سے قارئین قاضی سلیم کی خوبی سمجھتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اردو شاعری میں ابہام صرف قاضی سلیم یا ان کے معاصرین  یا ان سے پہلے کے شاعروں کے یہاں ہی ملتا ہے۔ میرا جی کی شاعری میں تو اس قدر ابہام ہوتا ہے کہ بار بار قرأت کے بعد بھی مطلب تک رسائی نہیں ہوپاتی۔ ن م راشد، اختر الایمان، مجید وغیرہ کی شاعری میں بھی ابہام کی کثرت ہے۔  اردو کے علاوہ انگریزی میں ایذرا پاؤنڈ اور ٹی ایس ایلیٹ کی شاعری میں بھی ابہام کثرت سے پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ فرانس کے شاعردرلین، مباؤ، میلارمے بھی ابہام سے اپنے آپ کو الگ نہ رکھ سکے۔ اسی لیے عہد حاضر کے مشہور ناقد شمس الرحمن فاروقی یہ کہتے ہوئے مطمئن نظر آتے ہیں کہ گرچہ قاضی سلیم کی شاعری میں ابہام پایا جاتا ہے مگر ان کے معاصرین کے مقابلے ان کی شاعری میں ابہام کم ہے۔  اس کا اظہار فاروقی صاحب نے اپنے مضمون ’قاضی سلیم: کہ دل بہ کا ودو درد سخنوری داند‘ میں اس طرح کیا ہے:

’’…قاضی سلیم کی شاعری بہت سے جدید شعرا کے مقابلے میں کم مبہم ہے۔ اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ قاضی سلیم نے جدید انسان کے تجربے اور احساس کے تمام پہلوؤں اور تمام مدارج کو مختلف رنگوں میں بیان کیا ہے اور دوسری وجہ ان کی نظم کا آہنگ ہے کہ اگرچہ ان کی نظم بہ ظاہر بحر کی پابند ہوتی ہے لیکن جہاں تہاں وہ اس پابندی سے چھٹکارا بھی پالیتی ہے اور اس طرح ایسا خوشگوار لیکن تازہ آہنگ وجود میں آتا ہے جس سے لطف اندوزی کے لیے نظم کو کاغذ پر پڑھناکافی نہیں ہوتا…‘‘

)معرفت شعر نو: شمس الرحمن فاروقی، مرتب: سید ارشاد حیدر، الانصاری، پبلی کیشنز، حیدرآباد، ستمبر 2010،ص 164 (

ابہام کے سلسلے میں عام طور پر ادب میں یکساں رائے نہیں ہے، کچھ لوگوں نے اسے شاعری کے لیے عیب مانا ہے تو کچھ لوگوں نے اسے شاعری کے لیے نیک شگون سمجھا ہے۔  ابہام کے سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی  کے خیالات بھی مثبت ہیں، یہ اس فن کو ایک خوبی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابہام اس وقت تک بہتر معلوم ہوتا ہے جب تک وہ ایمائیت کی حد میں رہے۔ اس بات کی توثیق ان کے اس اقتباس سے ہوتی ہے:

’’… صدیوں سے یہ خیال عام ہے کہ ایک حد تک ابہام بھی آرٹ کا حسن ہوتا ہے لیکن جب کبھی یا جہاں کہیں بھی یہ حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو آرٹ میں کوئی دلکشی باقی نہیں رہتی اور اس میں گورکھ دھندے کی سی کیفیت ہوجاتی ہے۔ یہ چیز پڑھنے والے پر خواہ مخواہ ایک بوجھ کا سا احساس پیدا کرکے  طبیعت کو منغض کردیتی ہے۔ ایسے فن کار کو ادبی دنیا میں ایک پھوہڑ فن کار کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ابہام اسی حد تک ٹھیک ہے اور قابل قبول بھی جہاں تک وہ ایمائیت (Suggestiveness) کے حدود میں رہے۔‘‘

)جدید شاعری: ڈاکٹرعبادت بریلوی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 1983  (پہلا ایڈیشن)، ص 224(

قاضی سلیم کی نظموں کی قرأت میں دشواری، ابہام اور معنی کی پیچیدگی کی وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ قاضی سلیم کی شاعری کا آغاز جدیدیت کے زیر اثر پروان چڑھا۔ ابھی قارئین جدیدیت کی پیچیدگیوں سے صحیح طور پر واقف بھی نہ ہوپائے کہ قاضی سلیم اپنی شاعری میں جدیدیت کے پرستار نظر آئے۔  یہی وجہ ہے کہ قاضی سلیم کی تہہ دار، پراسرار اور جدیدیت کی حامل نظمیں اس وقت کے قارئین کے فہم سے بالا تر ہوتیں۔ یہ ایسے مسائل تھے جس کا احساس قاضی سلیم کو بھی تھا مگر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اس طرح کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کے عادی ہوجائیں گے۔  پھر نظم نگار اور قاری کے بیچ کی دوریاں خود بہ خود ختم ہوجائیں گی۔

قاضی سلیم کی نظموں کی بہت ساری خوبیاں اور خصوصیات بھی ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جو انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز بناتی ہیں۔ مثلاً ان کی نظموں کا وسیع کینوس، نامانوس فضا، نیا اسلوب، نیاطرز احساس، جدت پسندی، اظہار کی انفرادیت، معنی کی تہہ داری وغیرہ۔

قاضی سلیم کا پہلا مجموعہ ’نجات سے پہلے‘ شاعری کی شروعات کے کئی برسوں بعد منظر عام پرآیا۔ ا س وقت ان کے پاس نظموں کی تعداد بہت زیادہ تھی مگر کچھ منتخب نظمیں ہی تھیں جو ان کے معیار پر پوری اترتی تھیں، اس لیے کم ہی ان کے مجموعے ’نجات سے پہلے‘ کی زینت بن سکیں۔  اس تعلق سے ڈاکٹر غضنفر اقبال اپنے مونوگراف ’قاضی سلیم‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’… اس مجموعے میں شاعر نے اس قدر کڑا انتخاب کیا تھا کہ پوری کتاب شاہکار نظموں کا درجہ رکھتی ہے… کتاب کا سرورق عالمی شہرت یافتہ مقبول مصور مقبول فدا حسین نے بنایا تھا۔ ’نجات سے پہلے‘ کی نظمیں گہرے تخلیقی شعور کا پتا دیتی ہیں۔ ‘‘

)ہندوستانی ادب کے معمار: قاضی سلیم، مصنف: ڈاکٹر غضنفر اقبال، 2021، ساہتیہ اکادمی، دہلی،ص 26(

قاضی سلیم نے علامتوں کا استعمال اپنی نظموں میں بہت بہتر انداز سے کیا ہے جس سے ان کے تخلیقی شعور کا پتہ چلتا ہے۔  ایک نظم ’وائرس‘  جو ایک سائنسی اصطلاح ہے، میں مسیح وقت کو کس حسین انداز میں مخاطب کیا ہے:

’’مسیح وقت تم بتاؤ کیا ہوا/ زباں پہ یہ کسیلاپن کہاں سے آگیا/ ذرا سی دیر کے لیے پلک جھپک گئی/ تو راکھ کس طرح جھڑی/ سنا ہے دور دیس سے/کچھ ایسے وائرس ہمارے ساحلوں پہ آگئے/ جن کے تابکار سحر کے لیے/ امرت اور زہر ایک ہیں/ اب کسی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں/ کسی دوا کا درد سے کوئی واسطہ نہیں

)نجات سے پہلے (شاعری) ،نظم ’وائرس‘مکتبہ شب خون، کتاب گھر الہ آباد، 1971، ص 68(

پہلے دور میں نظم معریٰ کی تکنیک کیا تھی اور کس طرح قاضی سلیم یا ان کے معاصرین یوسف ظفر، قیوم نظر، ضیا جالندھری، مخمور جالندھری اور اخترالایمان کے یہاں اس نے رواں تجربے کی شکل اختیار کرلی یا پھر قاضی سلیم نظموں کے نئے تجربے اور تکنیک پرکیوں اتنا بھروسہ کرتے ہیں۔اس تعلق سے عتیق اللہ صاحب نے اپنے مضمون’تجربے کی سریت اور قاضی سلیم کی نظم‘ میں بڑی اچھی بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’قاضی سلیم کی پہلے دور کی نظموں پر معریٰ کی تکنیک اسی طرح حاوی ہے جس طرح یوسف ظفر، قیوم نظر، ضیا جالندھری، مخمور جالندھری اور اخترالایمان کے یہاں اس نے ایک رواں تجربے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ قاضی سلیم کا ذہن چونکہ تجربہ پسند ہے اس لیے معری کی ایک تکنیک ہی پر انھوں نے اکتفا نہیں کیا وہ جلد ہی نظم آزاد کی طرف متوجہ ہوگئے۔ چھٹی دہائی کی جن معریٰ نظموں کو انھوں نے منسوخ کردیا تھا۔ انھیں ان کے عصر کی معریٰ نظموں کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو وہ اپنے ڈکشن کے لحاظ سے نہایت منفرد اور مختلف کا تاثر فراہم کرتی ہیں۔ قاضی سلیم نے انھیں اعتبار کا درجہ نہیں دیا اور نہ انھیں اپنے کسی مجموعے میں کوئی جگہ دی۔ ان نظموں میں اس اسطوری ذہن کوپڑھنا زیادہ مشکل نہیں ہے جو بعد ازاں دیوتا سے پیغمبر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس زمانے کی یہ نظمیں ہیں اس وقت معریٰ میں خودمکتفی مصرعوں ہی کا چلن تھا۔ اخترالایمان سے قبل قاضی سلیم نے معریٰ کے اندر آزاد نظم کا تجربہ کرکے نظم میں ایک خاموش منطقی ربط کی راہ روشن کی تھی، جس کی توسیع خود وہ نہیں کرسکے:

ایسا ہو ایک رات سمندر کے دیوتا

ساحل کے کف میں چیختے چنگھاڑتے چلیں

دھرتی کے زخم زخم کو دھوکر نکال دیں

یہ لوگ کیسے لوگ ہیں جیتے ہیں کس لیے

بے ہوش، نیم مرگ، سرِ رہ گزار عام

کچھ ایسے آڑے ترچھے پڑے ہیں کہ جیسے وہ

انساں نہیں کٹے ہوئے جنگل کے پیڑ ہیں

ہر رات سوچتا ہوں ان آنکھوں کو کیا کروں

لیکن ہر ایک صبح اسی رہ گزار پر

لگتا ہے، جیسے آج ہی روزِ حساب ہے

لاشیں اگل رہی ہیں زمیں… اور خدا کا

قہر جاری ہے… لمحہ لمحہ نزولِ عذاب ہے

1980 کے بعد کی نظموں میں قاضی سلیم کا لہجہ بدلا ہوا نظر آتا ہے  جہاں وہ اپنے مہذب لب و لہجے سے ہٹ کر طنز و ہجو سے بھی کام لینے لگتے ہیں۔ مثلاً ان کی نظم ’دوسری کربلا‘ کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیں:

کوکھ صحرا کی کتنی ہری ہے

ہر طرف کیکٹس کے ابھرتے ہوئے ہاتھ

…… ہاتھ میں

کانٹوں بھری انگلیاں

….. کانٹوں بھری انگلیوں سے

پھوٹتے ان گنت ہاتھ

ہاتھوں میں

کانٹوں بھری انگلیاں

نظموں کے علاوہ قاضی سلیم ’مثنوی نگار‘ کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کی دو مثنویاں ’مثنوی باغبان و گل فروش‘  اور ’مثنوی زہر خند‘ بہت مشہور ہیں۔ ان مثنویوں کو آپ نے روایتی ہیئت میں لکھا ہے اور ان کا طرز نگارش طنز و ظرافت سے پُر ہے۔ ان مثنویوں پر جن مشاہیر نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ان میں پروفیسر حمید سہروردی اور شمس الرحمن فاروقی کے نام قابل ذکر ہیں۔

’ہائیکو‘ ایک جاپانی صنف ہے جس کا پہلا اور آخری مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے جب کہ دوسرے مصرعے میں قافیے کا التزام نہیں کیا جاتا۔ اس صنف کو ہندوستان میں بھی کچھ شعرا نے اپنی شاعری میں برتا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر حنیف کیفی کا نام خاص طور لیا جاسکتا ہے۔ قاضی سلیم نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور جدید انداز میں کچھ بہترین ہائیکو اردو ادب کو دیے ہیں۔

’رباعی‘ چار مصرعوں والی شاعری کو کہا جاتا ہے جس میں رباعی نگار اپنے تخیل کی بنا پر کوئی کارآمدبات کہتا ہے اور اس کا حاصل آخری مصرعے میں ہوتا ہے۔ گوکہ یہ ایک مشکل صنف ہے لیکن بیشتر شعرانے اس صنف کو اپنی شاعری میں برتا ہے ۔  قاضی سلیم نے بھی رباعیاں لکھی ہیں اور ان کی رباعیاں بہت مشہور بھی ہیں۔ یہاں کے کچھ رسائل میں ’بیماریوں کے بھنور سے‘ ان کی رباعیاں شائع ہوئی تھیں۔  ان کی رباعیوں کی زبان بہت آسان  ہے جسے قارئین کو سمجھنے میں کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آتی۔

قاضی سلیم شاعری کے علاوہ نثر نگار کی حیثیت سے بھی متعارف ہیں۔ ان کی ادارت میں ایک رسالہ ’نئے کلاسک‘ کے نام نکلتا تھا۔ اس میں ان کا ایک مضمون ’نئی شاعری‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کی اشاعت پر اردو ادب میں ایک بحث چھڑ گئی تھی۔ اس مضمون میں آپ نے جدید شاعری کے بنیادی نظریات سے بحث کی ہے۔ ان کا دوسرا مضمون ’شعری ترجمے کے آداب‘ ہے۔   اس مضمون میں انھوں نے شعری ترجمے کے کیا آداب ہیں اس پر دلائل اور شواہد کے ذریعے گفتگو کی ہے۔  ساتھ ہی ترجمہ نگاری کا سائنٹفک طریقہ بھی بتایا ہے اور واضح کیا ہے کہ ترجمہ نگاری کے فن میں ایک پختہ کار ادیب ہی کامیاب ہوسکتا ہے جسے ترجمہ نگاری کے اصول و ضوابط کا بہ خوبی علم ہو۔ دکن کے منفرد لب و لہجے کے شاعر جاوید ناصر مرحوم کی غزل پر ایک غیر رسمی تاثر، جلیل الہ آبادی کے شعری مجموعہ ’چوراہا‘ پر تاثر، ’رشید اعجاز: ایک ساہسی شاعر‘ کے عنوان سے ایک مضمون، عارف خورشید کے شعری مجموعہ ٹوٹا ہوا آئینہ‘ پر تاثر، ڈاکٹر عظیم کی کتاب ’پھول کے آنسو‘ پر رائے وغیرہ ان کی نثر نگاری کے عمدہ نمونے ہیں۔

اردو ادب میں’مکتوب نگاری‘ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے، غالب کے خطوط کو کون بھول سکتا ہے جنھوں نے اس صنف کو نیا طرز و آہنگ عطا کیا تھا۔ یہ خطوط غالب نے اپنے دوستوں کو ان کے احوال دریافت کرنے اور اپنے حالات بیان کرنے کے لیے لکھے تھے، کیا پتہ تھا کہ یہ آنے والے وقتوں میں اردو نثر کے باب میں ایک اضافہ ہی ثابت نہیں ہوں گے بلکہ اسے ایک نئی سمت عطا کریں گے۔  قاضی سلیم کی مکتوب نگاری/مکاتبت کا سلسلہ اُس دور کے تقریباً تمام ممتاز ادیبوں سے تھا۔ ان کے خطوط بھی سب سے جدا ہوتے تھے۔ اپنی بات اختصار کے ساتھ لکھتے۔ ماہنامہ ’شب خون‘ میں ’نقطے اور روشنیاں‘  کے عنوان شائع ہونے والے ان کے خطوط بہت مشہور ہوئے تھے۔ یہ خطوط قاضی سلیم نے ’شب خون‘ کے مدیر ’شمس الرحمن فاروقی‘ کو لکھے تھے۔  انھوں نے ’شب خون‘ شمارہ 15 کے مطالعے کے بعد مدیر کو جو خط لکھا تھا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

’’اس بار شب خون کے ترجمے قابل قدر ہیں۔ نظموں میں اتفاق دیکھیے کہ اس دفعہ بھی مجھے علوی، ندا اور عادل ہی کی نظمیں پسند آگئیں (عادل کی ایک نظم) زبیر، نورازل، بمل کرشن کے ترجمے بھی ایک حد تک کامیاب ہیں۔  ایک بات کہنے کو جی چاہتا ہے کہ اے لوگو !ہم ایک ہی لہجے میں کیوں بات کرنے لگے؟ ہمارے چہرے الگ ہیں تو اندرونی اعصابی نظام بھی الگ ہوگا۔ جب اعصابی نظام الگ ہوگا تو ہمارے ردعمل، ہماری آواز، لہجہ سب مختلف ہوگا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نیاپن ہم اوپر سے لاد رہے ہیں۔ بہرحال تنقید میرا منصب نہیں۔ اس لیے اپنی شاعری کا اعتراض دوسروں پر نہیں تھوپوں گا۔‘‘    (شب خون،  شمارہ 16، ص 73(

ان کے علاوہ  شاذ تمکنت کی رحلت پر ایک ’تعزیت نامہ‘ بھی لکھا تھا جس کے مخاطب پروفیسر انور معظم، پروفیسر مغنی تبسم اور ڈاکٹر مجتبیٰ حسین ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مصنّفین کو ان کی کتابوں کی موصولگی  پر لکھے ہوئے خطوط کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔

’ترجمہ نگاری‘ کا فن ہر دور میں مشکل سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ ترجمہ نگار ترجمے کے بنیادی اوصاف کو دھیا ن میں رکھ کر ایک زبان سے دوسری زبان میں کسی تخلیق کو منتقل کرتا ہے۔  ’ترجمہ نگاری‘  کے ذیل میں قاضی سلیم کا مشہور مضمون ’شعری ترجمے کے آداب‘ اور ان کی ایک کتاب ’ریگزاروں کے گیت‘ ہے۔ قاضی سلیم نے عربی شاعر اور مشہور سیاست داں غازی القصیبی (پ:3مارچ1940، و:15 اگست 2010)کی نظموں کے مجموعہ ‘From the orient and The Desert’ کا اردو ترجمہ بڑی عمدگی سے کیا تھا اور اس کی ادبی دنیا میں کافی پذیرائی ہوئی تھی۔  غازی القصیبی کی اس کتاب کا نام ’الشرق والصحراء‘ ہے۔ انھوں نے خود ہی اپنے دیوان سے 15 نظموں کا انتخاب کرکے انگلش میں ترجمہ کیا تھا۔ اس ترجمے کا مقصد انگریزی قارئین تک رسائی تھی، جس میں وہ بہت کامیاب ہوئے اور ان نظموں کے انگریزی ترجمے کو بھی خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا پورا نام غازی عبدالرحمن القصیبی ہے، مملکت سعودی عرب کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ وزیر کی حیثیت سے کئی محکموں مثلاً کامگار، پانی و بجلی، صحت، انڈسٹری میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ بہ حیثیت سفیر بحرین، برطانیہ اور آئرلینڈ جیسے ممالک میں اپنی ذمے داریاں نبھائیں۔  سیاست کے علاوہ ادب میں اعلیٰ اور نمایاں مقام رکھتے تھے، خاص کر جدید عربی شاعری کے تو سندباد سمجھے جاتے  تھے۔ ناول نگار کی حیثیت سے بھی ان کی مستحکم شناخت تھی ۔ 40 سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں شاعری اور ناول بھی شامل ہیں۔ غازی القصیبی کی شاعری صحرائی کلچر کی عکاس ہے۔ ترجمہ اگر اصل کتاب ’الشرق والصحراء‘ سے کیا جاتا تو اس کی اہمیت اور معنویت میں زیادہ ہوتی۔ پھر بھی قاضی سلیم اس کتاب کے ترجمے کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔

اردو شعر و ادب میں جب بھی جدید شاعری کا ذکر ہوگا  اس میں قاضی سلیم کا نام سرفہرست ہوگا۔ یہ اور بات کہ قاضی سلیم نے کو خود کوکبھی پروموٹ نہیں کیا۔ یہاں شہرت و مقبولیت صرف اچھی تخلیق کی وجہ سے نہیں ملتی بلکہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے خاص ہنر اور تشہیر کی ضرورت ہوتی ہے جس سے قاضی صاحب ہمیشہ دور رہے۔ بس اپنی دھن میں لکھتے رہے۔ آخری ایام میں وہ مائی گرین (Migrain) یعنی آدھے سر کے درد سے بہت پریشان رہتے تھے۔ بالآخر دنیاوی اذیتیں برداشت کرتے کرتے 8 مئی 2003 کو اپنے خالق حقیقی سیجاملے اور یہ مشہور نظم قارئین کے لیے چھوڑ گئے:

ہزاروں کائناتیں ٹوٹتی بنتی ہیں ہر لحظہ

تناور پیڑ گرتے ہیں

چٹانیں ریزہ ریزہ ہوکے نس نس میں کھٹکتی ہیں

دریچے پے بہ پے برسات کے حملوں سے اندھے ہیں

فضا گونگی ہے، بہری ہے

چلو یہ زندگی اور موت دونوں آج سے میرے نہیں ہیں

چلو میں بھی تماشائی ہوں خود اپنے جہنم کا

مری دنیا تماشہ ہے

میں اپنے سامنے خود کو، تڑپتا سر پٹکتا دیکھ سکتا ہوں

اور ایسا مطمئن ہوں آج جیسے یہ جنم مجھ کو

ابھی کچھ دیر پہلے ہی ملا ہے— اور کسی انجانی دنیا سے

برستے بادلوں کے ساتھ آیا ہوں

 

 

You may also like