( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
وزیراعظم نریندر مودی کی زبان پر ان دنوں لفظ مسلمان جیسے ثبت ہو گیا ہے ۔ کوئی انتخابی جلسہ ایسا نہیں ہوگا جس میں ان کی زبان سے کسی نہ کسی سبب لفظ مسلمان یا مسلمانوں نہ نکلا ہو ۔ راجستھان اور علی گڑھ کے انتخابی جلسوں میں برادرانِ وطن کو انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ کانگریس حکومت میں آئی تو ان کی ملکیت اور ماووں بہنوں کے زیورات و منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دے دے گی ! پھر انہوں نے انکشاف کیا کہ مسلمان گھس پیٹھیے ہیں ۔ ابھی ملک کے مورخین اس انکشاف کی تحقیق کر بھی نہیں پائے تھے کہ انہوں نے یہ بم پھوڑ دیا کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ اگر صرف مسلمان ہی زیادہ بچے پیدا کر رہے ہوتے تو پی ایم مودی کی بات مانی بھی جا سکتی تھی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے دیگر قومیں زیادہ بچے پیدا کر رہی ہیں ، مسلمانوں کی آبادی کا فیصد تو مختلف وجوہ سے گھٹا ہے ۔ ویسے خود پی ایم مودی چھ بھائی بہن تھے ، ظاہر ہے کہ یہ تعداد کم نہیں تھی ۔ اب مودی جی نے حیدرآباد اور سانبر کانٹھا کے انتخابی جلسوں میں پھر مسلمان لفظ کا استعمال کیا ہے ۔ حیدرآباد میں انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی حالت میں مسلمانوں کو مذہب کے نام پر دلتوں ، آدی واسیوں ، ایس سی اور ایس ٹی کا ریزرویشن نہیں لینے دیں گے ۔ کیا کوئی پی ایم مودی سے سوال کر سکتا ہے کہ مسلمان کہاں کسی کا ریزرویشن چھین رہے ہیں ؟ اور کہاں سے ان کا ریزرویشن کا مطالبہ مذہبی ہو گیا ہے؟ سیدھی سی درخواست ہے کہ تعلیمی اور معاشی پسماندگی سے باہر نکالنے کے لیے مسلمانوں میں جو تعلیمی اور معاشی طور پر پچھڑے ہیں انہیں ریزرویشن دیا جائے ۔ حکومت ذات کی بنیاد پر ریزرویشن دیتی ہے ، برہمنوں کے لیے بھی اس کا کچھ انتظام ہے ، لیکن مسلمان اس سے اس لیے محروم ہیں کہ ان کے ساتھ لفظ مسلمان لگا ہوا ہے ! حکومت کا کہنا ہے کہ آئین کی رو سے مذہب کے نام پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا لہٰذا مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں مل سکتا ۔ یعنی مسلمان تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ بنے رہیں ۔ مسلمانوں سے یہ حکومت کی ناانصافی ہے ۔ مسلمان کو ایک ذات مان کر ریزرویشن دے دیا جائے کیا قباحت ہے ! لیکن ایسا نہیں کیا جائے گا ۔ پی ایم مودی تو یہ تاثر دیتے پھر رہے ہیں کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی جو لوگ بھی بات کرتے ہیں وہ دلتوں اور پچھڑوں کے ریزرویشن کی چوری کرکے انہیں نوازنا چاہتے ہیں ۔ کسی کے ریزرویشن کی چوری کی کیا ضرورت ہے ، کوئی قانونی راہ نکالی جا سکتی ہے ، جیسے مراٹھوں اور سُورنَوں کے پچھڑوں کے لیے راہ نکالنے کی کوششیں ہیں ۔ خیر مودی تو مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیں گے لیکن یقین ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی مسلمانوں کے ریزرویشن کو ضروری نہیں سمجھیں گی ۔ پی ایم نے گجرات کے سانبر کانٹھا میں مسلم بہنوں کو خوب یاد کیا ، اس کی وجہ تھی طلاق ثلاثہ ختم کرنے کا سہرا سر باندھنے کے ساتھ راہل گاندھی اور کانگریس پر تنقید کرنا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی مسلم بہنوں کو اذیت اور مصیبت سے نکالنے کے لیے طلاق ثلاثہ ختم کرنا چاہتے تھے جبکہ کانگریس صرف ووٹ کے لیے ان کا استعمال کر رہی تھی ۔ ممکن ہے پی ایم سچ کہتے ہوں ، لیکن ان سے ایک سوال ہے ؛ انہیں اب اپنی مسلم بہنیں کیوں یاد نہیں آتیں جبکہ کبھی کوئی افسانہ اور کبھی کوئی اور مسلم خاتون ، کسی ہندو سے شادی کے بعد موت کے گھاٹ اتاری جا رہی ہے ، یا ان کے ساتھ مار پیٹ کی جا رہی اور انہیں دھارمک نعرے لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ اگر کانگریس مسلم بہنوں کا سیاسی استعمال کرتی رہی ہے تو پی ایم مودی آپ تو پوری مسلم قوم کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں ، ووٹ کے لیے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)