عالمی یوم آزادی صحافت ( World Press Freedom Day) ہر سال 3.مئی کو یہ یاد دلانے کے لیے منایا جاتا ہے کہ عوام کو بیدار کرنے اور ان کے حقوق یاد دلانے میں میڈیا کاکیا کردار ہونا چاہیے ؟ پریس کی آزادی کی کیا اہمیت ہے اور اس کا تحفظ کیوں ضروری ہے ؟ اس کے ساتھ ہی یہ دن اس بات پر بھی غور کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ صحافی برادری کو پریس کی آزادی کا کس طرح پاس و لحاظ رکھنا چاہیے ۔ہم آج کے دن ان صحافیوں کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں جنہوں نے پیشہ ورانہ فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں گنوائیں ۔ ہندوستان سمیت پوری دنیا میں ایسے صحافیوں جن میں فوٹو گرافر اور کیمرہ مین کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جنہیں پولس نے اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ اپنے کیمرے میں تشدد کے مناظر قید کر رہے تھے۔بتایا جاتاہے کہ 1990 سے لے کر اب تک اچھی خاصی تعداد میں میڈیا اہلکار تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں ۔ اس وقت ہمارے ملک میں میڈیا کتنا آزاد ہے اس کی تازہ مثال رویش کمار ہیں جنہیں دباؤ کی وجہ سے این ڈی ٹی وی چھوڑنا پڑا ۔یہ واقعہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی میڈیا دباؤ والی سیاست سے اتنا آزاد نہیں ہے جتنا اسے ہونا چاہیے ۔اس پس منظر میں آئیے آج ہم اردو میڈیا یعنی اردو صحافت کا جائزہ لینے سے قبل اس بات کو جانیں کہ عالمی یوم آزادی صحافت منانے کا فیصلہ کب کیا گیا ؟ تقریبآ تین دہائیوں سے پوری دنیا میں 3 مئی کو پریس کی آزادی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی ادارہ یونسکو کی سفارش ہر ہر سال 3مئی کو عالمی یوم آزادی صحافت کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے بعد 1997 میں یونسکو نے ہی عالمی سطح پر ایسے صحافیوں کو انعام سے نوازے جانے کا فیصلہ کیا جنہوں نے دنیا میں کہیں بھی پریس کی آزادی کے تحفظ یا اس کی تشہیر میں نمایاں خدمات انجام دی ہوں یا خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اپنے پیشہ وارانہ فرائص انجام دیے ہوں۔ یونسکو نے اس انعام کا نام کولمبیائی صحافی اور کولمبیائی اخبار "ایل اسپکٹا ڈور” کے ایڈیٹر گلیر مو کینو ایسازا (Guillermo Cano Isaza )کے نام پر "گلیرمو کینو ورلڈ پریس فریڈم پرائیز” رکھا ۔انہیں 17 دسمبر 1986کو بگوٹا میں ان کے اخبار "ایل اسپکٹا ڈور” کے دفتر کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا ۔ وہ ملک کے طاقتور دوا مافیاؤں کے شدید مخالف تھے۔ 1997 میں یونسکو کی طرف سے گلیمورو کینو کے نام سے جاری کیا گیا پہلا انعام چین کی خاتون صحافی گئو یو ( Gao Yu) کو اور 2023 میں 3ایرانی خاتون صحافیوں نیلوفر حامدی ، الٰہی محمدی اور نرگس محمدی کو مشترکہ طور پر دیا گیا ۔یہ انعام 25 ہزار امریکی ڈالر پر مشتمل ہے ۔اس سے قبل 2011میں بھی ایران کے صحافی کو یہ ایوارڈ مل چکا ہے ۔1997 سے 2023 تک یہ انعام حاصل کرنے والوں کی جو فہرست ملتی ہے اس میں کسی ہندوستانی کا نام شامل نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو ہمارے ملک میں جوکھم اٹھانے والے صحافی نہیں ہیں اور اگر ہیں تو جوری تک ان کے نام اس طرح سے نہیں پہنچتے جس طرح پہنچنے۔چاہئیں۔ ان حالات میں ہندوستان میں اردو میڈیا یعنی اردو صحافت کہاں کھڑی ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ اس تناظر میں اگر بہار میں اردو صحافت کا جائزہ لیا جائے تو اور بھی مایوسی ہوتی ہے ۔ بہار سمیت پورے ملک میں اردو صحافت زبوں حالی کا شکار ہے ۔ اس کا نہ کوئی مشن ہے اور نہ کوئی نصب العین ۔حالانکہ پورے ملک میں کثیر تعداد میں اردو اخبارات و رسائل نکل رہے ہیں ۔ لیکن اردو میں جوکھم اثھا کر کام کرنے والا کوئی صحافی دور دور تک نہیں ملتا۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ ملک پر جس صحافی نے پہلی مرتبہ جان دی وہ اردو کے صحافی مولانا محمد باقر تھے۔ میں بلا خوف تردید یہ بات کہہ رہا ہوں کہ بہار میں اگر کسی نے اردو صحافت کو مشن کا درجہ دیا اور اسے اپنا نصب العین بنایا تو وہ اردو تحریک کے سپہ سالار غلام سرور تھے جنہوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ اس کے بعد بہار میں اردو صحافت دھڑام سے نیچے گر گئی۔ اب اس کا مقصد سرکاری اشتہارات چھاپ کر عیش کرنا رہ گیا ہے ۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور نصیب العین نہیں ہے۔ایک دو ہی اخبار ہیں جو اپنی زبان اور معاشرے کے سلسلے میں اپنی جواب دہی سمجھتے ہیں۔ورنہ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی ہے۔لیکن اس کی فکر کس کو ہے؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)