Home تجزیہ ہجو می قتل کا بڑھتا گراف: ذمے دار کون؟

ہجو می قتل کا بڑھتا گراف: ذمے دار کون؟

by قندیل


حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی
دور جدید کی حیرت انگیز ایجاد مو بائل ہے، جو کہ موجودہ زمانہ کی ناگزیر چیز بن گئی ہے امیر، غریب ،بچہ، جوان، بوڑھا، کسان سے لے کر پائلٹ تک اس کا گر ویدہ؛ بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ اس کا غلام بن گیا ہے، نو جوان نسل کی بر بادی میں بھی اس کا بہت بڑا حصہ ہے، جدید مواصلاتی نظام نے جہاں انقلاب بر پا کیا ہے، وہیں سیکڑوں مسائل بھی پیدا کر دیئے ہیں، جن کا حل ڈھونڈنا انتہائی ضرو ری ہے، اگر ان مسائل کا حل ڈھونڈھانہ گیا ،تو آگے اور زیادہ تباہی آئے گی اور اس سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔آج واٹس ایپ، انسٹا گرام، یو ٹیوب، ٹیلیگرام وغیرہ وغیرہ کے ذریعہ جہاں اپنی بات دوسروں تک جلد پہچانا بہت آسان اور فائدے مند ہے،وہیں یہ ذرائع انسانی موتوں کے بھی ذمہ دار ہیں، اسی سے حضرت انسان جو اشرف المخلوق ہے، وہ قدم قدم پر لمحہ بہ لمحہ جھوٹی خبریں ،گندی چیزیں پھیلا رہا ہے، اسی میں موب لنچنگ جیسا خطر ناک معا ملہ بھی شامل ہے، اس میں حکو مت کی بھی شہہ ہے ،جب سے سنٹرل اور صوبوں میں بی جے پی کی حکو متیں بنی ہیں، پورے ملک میں اقلیتوں پر طرح طرح کے بہانوں سے حملہ کرکے جا ن سے مار دینا ایک فیشن بن گیا ہے، ڈھٹا ئی ،بے شر می، بے خوفی،ہٹ دھر می کا یہ حال ہے کہ مار نے کے بعد خود مجرمین ویڈیو بناکرسوشل میڈیا پر جاری کرتے ہیں؛تاکہ پورے بھارت کو ڈرا یا جاسکے، ان کو یہ زعم پیدا ہو گیا ہے ’’سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کا ہے کا‘‘قا نون کے رکھ والے ان کے چہیتے ہیں ،ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے، گائے کے نام پر، بچہ چوری کے نام پر ،ٹرینوں میں سیٹ کے جھگڑے میں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے، اب تک موب لنچنگ (بھیڑ کے ذریعہ جان مارنا)میں 100 سے زیادہ موتیں ہو چکی ہیں، جن میں80 فیصد مسلمان ہیں۔اس سلسلے میں سوشل میڈیانے تو ساری حدیں پار کر دی ہیں، کوئی خبر آئی ، غلط خبر ہی کیوں نہ ہو،لوگ فوراً بغیر سوچے سمجھے ایک سکنڈ بھی ضائع کیے بغیر ڈاکیہ کا کام کر نے لگتے ہیں ،واضح رہے کہ ڈاکیے کا کام ہے جو چیز اسے پہنچا نے کے لیے دی جائے ،وہ اس چیز کو اسی کو دے، جسے دینا ہے، نہ کہ وہ ساری دنیا کو بانٹتا پھرے، کو ئی خبر، کوئی اطلاع کسی بھی انسان کے پاس آئی، تو سب سے پہلے اطلاع پانے والے انسان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ یہ پتہ لگا ئے کی یہ اطلا ع (information ) صحیح ہے یا جھوٹ ہے ،اس کی تحقیق کرے، اگر غلط ہے، تو سب سے پہلے اطلاع بھیجنے والے سے بات کرے اور سختی سے منع کرے کہ آئندہ قطعی ہم تک جھوٹی باتیں نہ بھیجیں۔حضرت سلیمان علیہ ا لسلام کے پاس جب ان کا پرندہ ھُدْھُد، جو ان کی خد مت پر مامور تھا، اطلاع لا یا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے،تواس خبر کو سننے کے بعد حضرت سلیمان علیہ ا لسلام نے فر مایا:( القرآن،سورہ نمل27،آیت27)’’ ابھی ہم دیکھے لیتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے‘‘۔ قر آن کریم سے یہ معلوم ہوا کہ خبر کی تحقیق کرنا اور اس کی سچائی یا جھوٹ کا پتہ لگانا یہ انبیائے کرام کا طریقہ رہا ہے؛ اس لیے ہم کو آپ کو بھی چا ہیے کہ کوئی بھی ایسی خبر ادھر ادھر نہ پھیلائیں ،جس کی سچائی کا علم اور یقین آپ کو نہ ہو، دوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ خبر سچ بھی ہے، تو اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اس خبر، پیغام کو دیکھے ،سمجھے کہ اس پیغام(Massage) کو دوسروں کو پہنچا نا فائدہ مند ہے یا نہیں، کہیں اس خبر سے فتنہ فساد نہ پھیل جائے ۔سوشل میڈیا کے ذریعے جو پیغامات آتے ہیں ،اس کے یوزر زیا دہ تر جلد باز ہو تے ہیں، ادھر میسج آیا اور لگے ادھر فاروڈ کرنے، سب سے پہلے بھیج کراپنے کو بڑا تیس مارخاں سمجھتے ہیں اور اس کا کر یڈٹ اپنے نام کر نا چاہتے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ یہ پیغام آن کے آن سکنڈوں میں تمام دنیا میں پہنچ جا تا ہے اور پھر یہی نہیں، جن تک یہ پیغام پہنچتا ہے ،وہ بھی دوسروں تک پہنچانے میں ذر ادیر نہیں لگا تے ۔
رب ذو الجلال کا فر مان ہے(القر آن ، سورہ نمل27،آیت105 ) ’’ جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں، جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی وہی جھو ٹے ہیں‘‘۔(کنز الایمان) ایک جگہ ہے’’ لعنۃ اللہ علی الکذ بین‘‘۔ جھو ٹوں پر اللہ کی لعنت ہے ، جس پر اللہ کی لعنت ہو گی، وہ کیسے فلاح پائے گا۔ حدیث پاک ہے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر مایا: ’’آ دمی کے جھو ٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات بیان کردے‘‘۔(صحیح مسلم،باب ہر سنی ہوئی بات بیان کر نے کی مما نعت ،حدیث 9)دوسری حدیث حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فر مایا:’’آدمی کے جھو ٹے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دے‘‘۔ ( صحیح مسلم، حدیث 11،) جھوٹ اتنا بڑا گناہ ہے کہ ربِ ذوالجلال کی اس پر لعنت ہے۔ جھوٹ ایک ایسا متعدی مرض ہے وائرس کی طرح تیزی سے پھیلتا ہے ،جھوٹ بھی سائبر کرائم کی طرح ایک جرم ہے ،واٹس ایپ کے جھوٹے میسیجوں نے کتنے معصوموں کی جان لے لی ہے، سوشل میڈیاکے ذریعے جھوٹ کو بری طرح سے بڑھا وا مل رہاہے، آپ دیکھیں جھوٹے میسیج بھیج کر بھیڑ اکٹھا کرنا ، جنو نی بھیڑ کے ذریعے ماب لنچنگ ،کہیں بچہ چوری کے نام پر، کہیں گؤ ہتھیا کے بہانے، کہیں گؤکشی کے بہانے زیا دہ تر مسلمانوں کو مارا جارہا ہے حکومتیں ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کے مصداق اندھی بہری بنی ہوئی ہیں ،یہ ظلم و نا انصافی اب ساری حدیں پار کر گئی ہے، یہ ہمارے ملک ہندوستان کی گنگا جمنی تہذ یب کو بر باد کر رہی ہے، جو سب کے لیے نقصان کا باعث ہے ۔حالیہ واقعہ ہا پوڑ ضلع کے پلکھوا علاقے کے بچھیڑا گاؤں میں پیش آیاہے ،ایک مسلمان اپنے کھیت میں گھسی گائے کو کھیت سے با ہر کر رہا تھا اور کسی نے فوٹو لیکر واٹس ایپ کر دیا کہ گائے کی تسکری کر رہا ہے، آن واحد میں بھیڑ جمع ہو گئی اور قا سم اور اس کے ساتھی کو مار مار کر شدید زخمی کر دیاگیا، قاسم کی موت کھیت میں ہی ہوگئی اور دوسرا ساتھی سیریس ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ہندو دہشت گردی کا، ملک کے حالات بہت خراب ہیں۔ جرائم کا بڑھتا گراف ارباب حکو مت کے لیے چیلنج ہے۔ مو بائل چلانے والوں کو بہت احتیاط اور سوچ سمجھ کر پیغام فار وڈ کر نا چاہیے کہ اس غلط خبر سے سماج پر کیا اثر ہو گا؟ افسوس کوئی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے ،جس کے ہاتھ میں دیکھوموبائل چیٹنگ میں لگا ہے، بغیر سوچے سمجھے میسیج بھیجنے میں لگا ہے، ضرورت ہے کہ لوگ ایسے فالتو کا م سے باز آئیں اور دوسروں کو بھی سنجید گی سے، پیار سے سمجھائیں ،گناہ بے لذت کی فہرست بہت لمبی ہے ،جھوٹ پھیلا نا، جھوٹی گواہی دینا، فحش گو ئی، فحش گندی تصویریں دیکھنا ؛یہ سب گناہِ کبیرہ ہیں ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فر مایا: جھوٹ گناہوں کی جڑ ہے اور جھوٹ گناہوں کی کھیتی کو ہرا بھرا کر دیتا ہے، اتنے بڑے گناہ کر نے والے کو کیا ملتا ہے؟ کچھ نہیں، ایسے ہی گناہ کو بے لذت گناہ کہا جاتا ہے۔اللہ ہم سب کو بچنے کی تو فیق عطا فر مائے ۔(آ مین ثم آمین)
Mob.:09386379632
e-mail: [email protected]

You may also like

Leave a Comment