Home تجزیہ ’’ریڈ‘‘ ایک چشم کشا مووی!

’’ریڈ‘‘ ایک چشم کشا مووی!

by قندیل

عمران عاکف خان
ریسرچ سکالرجواہرلال نہرویونیورسٹی،دہلی
میں فلموں پر بہت کم لکھتا ہوں ،مگر جب بھی لکھتا ہوں،توڈوب کر لکھتا ہوں، سب کی طرح میری بھی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے مثبت و منفی پہلوؤں پر نگاہ رکھوں اور اس کے عواقب ونتائج سے آگاہ کروں،پیش ہے ایک ایسی ہی مووی پرریویو۔گذشتہ دنوں میں نے ایک مووی دیکھی ’’رَیڈ‘‘جس کی کہانی، ہدایت کاری،ایکشنز، منظر کشی،مکالمہ اور شوٹنگ و کاسٹ نے مجھے درج ذیل سطورلکھنے پر مجبورکردیا۔
’’رَیڈ‘‘راج کمار گپتا کے ڈائریکشن میں شہرلکھنؤ کے تناظر میں بننے والی ایک ایسی مووی ہے ،جسے ’’رسکی ریڈ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے،یہ ’’رسکی ریڈ‘‘1980 میں اس وقت کے شہرکے باثراورمرکزی وریاستی حکومت میں کلیدی رول ادا کر نے والے ممبر پارلیمنٹ رامیشور سنگھ کے محل میں پڑی، اس کے رد عمل نے ریاستی حکومت سمیت دہلی کی مرکزی سرکار کو بھی ہلا کر رکھ دیاتھا، بالآخر 10 ؍صفدرجنگ مارگ سے میڈیم پرائم منسٹر کو آئی ٹی کمشنر’’ابھے پٹنائک‘‘کو فون کرکے ریڈ کی کارروائی روکنے کے لیے کہنا پڑا، مگر فرض شناس اورہمت ور کمشنرنے میڈیم پرائم منسٹرکوایک معقول جواب دے کر اپنے ارادوں اورعزائم سے آگاہ کردیا۔
میڈم پرائم منسٹر کے بھی ہاتھ پیر ڈالنے کے بعد رامیشور سنگھ کسی زخمی افعی کی طرح زمین پر پھن مارتا رہ گیا،اس کا غرور دہلی کی سڑکوں اور گلیوں میں چور چور ہوگیا، دوسری طرف لکھنؤ میں اس کا پورا محل،چھت،پوجا گھر کی دیواریں، صحن کا گارڈن ؛سب کچھ توڑپھوڑ اورکھودکھود کران میں چھپے،دبے مال،روپیوں، زیوراوردیگرمنقولہ ’’کالا دھن‘‘ نکال کرگھرکو سیل کردیاگیا، اس کارروائی میں ایسا لگتا تھا، جیسے عظمت و ہیبت کے کنگورے زمین میں ملا دیے گئے ہوں۔
’’راجہ جی فوج‘‘کا ایکشن دیکھنے کی چیز ہے اوراس پراعصاب شکستہ ایم پی رامیشورسنگھ کا یہ جملہ تو آج کے تناظر میں اور معنی خیز ہوجاتا ہے کہ’’آج تک ہندوستان میں بھیڑ کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔‘‘ واقعی یہ سچ ہی تو ہے۔آج آئے دن ماب لنچنگ کے واقعات میں کتنوں کو سزا ملی؟کتنے کیفر کردار کو پہنچے؟ایک بھی تو نہیں ؛بلکہ بھیڑ کے حوصلے بڑھتے ہی جارہے ہیں اور کوئی نہ کوئی غریب اس کی چپیٹ میں آرہا ہے۔
آئی ٹی کمشنر ابھے پٹنائک کو اس دوران کئی قسم کے لالچ بھی دیے جاتے ہیں، سوئز بنک میں اس کے نام چپ چاپ ایک خطیر رقم جمع کرنے کی پیش کش کی جاتی ہے، جب اس سے بھی کام نہیں چلتا توگھر کی نوجوان بہوؤں کے ذریعے ’’چریا تر‘‘ کی کوشش کرکے کرداراس کوہراس کرنے کی کوشش ہوتی ہے، اس کے کردارکو بگاڑنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں،اسی طرح ابھے پٹنائک کی بیوی پربھی غنڈوں کے ذریعے جان لیوا حملے کرائے جاتے ہیں،یہ سب گھناؤنی اور چھچھوری حرکتیں جہاں کمشنر کے حوصلے پست کرنے کے لیے کی جاتی ہیں، وہیں ان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ بڑے لوگ دراصل بہت چھوٹے اور کمینے قسم کے لوگ ہوتے ہیں،یہ جس قدرسفید پوش ہوتے ہیں، اندرسے اتنے ہی کالے ہوتے ہیں۔1:55 گھنٹے کی مووی سبق آموزاورچشم کشا ہے۔

You may also like

Leave a Comment