Home خاص کالم اے میرے پیارے ادیب!

اے میرے پیارے ادیب!

by قندیل

اقبال خورشید
ادیب کی بنیادی ذمے داری کیا ہے؟ ادب تخلیق کرنا۔بلاشبہ! یہی وہ بنیادی تقاضا ہے، جو ہم ایک ادیب سے کرتے ہیں یاکرسکتے ہیں۔ وہ اکلوتا تقاضا ، جو ہمیں کسی ادیب سے کرنا چاہیے،معیاری ادب تخلیق کرناہی وہ کام ہے، جس کے لیے اسے اپنی بہترین صلاحیتیں اور بیش قیمت وقت وقف کرنا چاہیے ۔
البتہ اردو ادیب کا معاملہ دیگر، اُسے کئی مسائل درپیش،کئی تقاضے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں۔پہلے مرحلے میں وہ اپنی کل صلاحیتیں صرف کرکے ادب تخلیق کرتا ہے۔پھراُسے کتابی صورت میں قارئین تک پہنچانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے، یہ فکر اسے ناشر کی استحصالی دنیا تک لے جاتی ہے۔ اب اردو کا ادیب اپنے ہی پیسوں سے اپنی صلاحیتوں کی اشاعت کا اہتمام کرتا ہے۔ جب کسی نہ کسی طرح اپنی سرمایہ کاری سے، اپنی کتاب چھاپ لیتا ہے، تو اسے بانٹنے نکلتا ہے کہ نئے ادیب کے لیے اپنی کتاب کی فروخت، تاآں کہ وہ کائیاں نہ ہو، سمجھ لیجیے ناممکن ہے،تو اب ہمارا ادیب، جو اپنا بنیادی وظیفہ بڑی حد تک ایمان داری سے نبھا چکا ہے، اپنی کتاب مشاہیرتبصرہ نگاروں، کالم نویسوں کو ارسال کرنے کے مشن پر نکلاہے۔اور جب یہ طویل اور صبر آزما مرحلہ طے ہوگیا، تب وہ بیٹھ کر انتظار کررہا ہے کہ کتاب کی کہیں کوئی خبر چھپ جائے، کہیں کوئی تبصرہ لگے، کوئی کالم لکھ دے۔ جلد یہ انتظار زندگی کا حصہ بن جاتا ہےاور اس وقت تک قائم رہتا ہے، جب تک وہ کتاب کی آخری کاپی بانٹ نہیں دیتا۔ 99 فی صد نئے ادیب اِس تلخ، مگر معمول کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ناشر عنقا ہوئے۔ کتب فروش کو کاروبار سے غرض۔ میڈیا ادب کی ترویج کو وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر اذیت بھوگنے والے شخص سے ہم کیوں کر توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر اپنی تمام تر ذہنی، فکری، علمی صلاحیتیں صرف کرکے ایک اورکتاب لکھے۔ اور پھر وحشت کے دائرے میں پھنس جائے۔
مگر انتظار کیجیے، وہ ایسا کرے گا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ادب سراسر گھاٹے کا سودا ہے، وہ ایسا ہی کرے گا، اس امید پر کہ شاید اس بار وہ اس عمل کو ذرا بہتر انداز میں انجام دے سکے ، اس امید پر کہ شاید اس بارنتائج کچھ حوصلہ افزاہوں، اس امید پر کہ شاید اس باربات بن جائے گی۔ ہمارا ادیب اپنے بنیادی وظیفے، یعنی ادب تخلیق کرنے کے بعد اُس کی تشہیر و ترویج کے لیے جو عذاب اٹھاتا ہے، اس کے لیے اگروہ کسی نشانِ سپاس کا نہیں، خراج تحسین کا نہیں،احترام کا نہیں،تورعایت کا ضرور حق دار ہے۔ اگرچہ ہم اسے وہ بھی دینے کو تیار نہیں!

You may also like

Leave a Comment