سنیچر کے روز میں بی کے سی گیا تھا ’ اردو کتاب میلہ ‘ میں ۔ کوئی ۱۸۰ کے قریب اسٹال ہیں ! اردو زبان کی کتابوں کے اتنے سارے اسٹال دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی ، اطمینان ہوا کہ اردو زبان زندہ ہے اور زندہ رہے گی ۔ اطمینان کا ایک سبب اور تھا ، پبلشروں کا کتابوں کی پرنٹنگ کے لیے جدید ٹکنیک کا اپنانا ۔ کئی اسٹالوں پر ، جیسے ’ پاریکھ بک ڈپو ‘ اور ’ حرا ‘ پر ( یہ دونوں اُس لکھنئو کے ادارے ہیں اردو زبان جہاں کبھی راج کرتی تھی ) ایسی کتابیں نظر آئیں جو خاص اُن افراد کے لیے جو اچھی ، معیاری اور کمیاب و نایاب کتابوں کے شوقین ہیں ، جدید ٹکنیک کا استعمال کر کے ، خوب صورت انداز میں شائع کی گئی ہیں ، ان کے سرورق جاذب نظر ہیں اور ان کتابوں میں استعمال کیا جانے والا کاغذ مضبوظ اور سفید ہے ، اور وزنی بھی نہیں ہے ۔ یہ کتابیں بہت زیادہ تعداد میں شائع نہیں کی گئی ہیں ، کم تعداد میں ہی شائع کی گئی ہیں ، لیکن اس کے پیش نظر یہ حکمت ہے کہ کتابیں جلد ختم ہوں تو مزید چھاپ لی جائیں ۔ اب پرنٹنگ کا عمل آسان سے آسان ہو گیا ہے ، لہذا اس ٹکنیک کو ، جسے ’ پرنٹ آن ڈیمانڈ ‘ کہا جاتا ہے اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ زیادہ تعداد میں کتابیں چھاپ لی جائیں ، اور کتابوں کا ڈھیر پڑا رہے اس سے بہتر ہے کہ کم تعداد میں کتابیں شائع کی جائیں اور ڈیمانڈ ہونے پر مزید ایڈیشن شائع کیے جائیں ۔ انگریزی زبان کے کئی پبلشر اب اس ٹکنیک کا استعمال کر رہے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطئی نہیں ہے کہ ہر کتاب اسی ٹکنیک سے شائع کی جائے ، نہیں اس ٹکنیک کا استعمال کم یاب اور نایاب کتابوں کی یا ایسی کتابوں کی اشاعت کے لیے ہی مناسب ہے ، جن کے کم فروخت ہونے کا امکان ہو ۔ میلے میں بمشکل ایک گھنٹہ رکنا ہوا ، بہت سے کتابیں دیکھیں ، مَن للچایا ، اسے سمجھایا کہ ابھی میلہ کئی دن چلے گا ، آئندہ یہ کتابیں لے لیں گے ۔ لیکن ایک ڈر ہے کہ کہیں مَن پسند کتابیں بِک نہ جائیں ! تورات ، زبور اور انجیل کے اردو ترجمے دیکھے ، تلمود ( پارسیوں کی مذہبی کتاب ) کا اردو ترجمہ نظر آیا ، ٹالسٹائی کے مشہور زمانہ ناول ’ جنگ اور امن ‘ کا مرحوم حمید شاہد صاحب کا کیا ہوا ترجمہ بھی میلے میں دیکھا ، اجمل کمال کے مشہور ادبی پرچے ’ آج ‘ کے تین نئے شمارے ایک ساتھ اس میلے کی مناسبت سے آ گیے ہیں ۔ ناولوں ، شعری مجموعوں ، طرح طرح کے کلیات ، مذہبی کتابوں ، تفاسیر اور احادیث کی مشہور کتابوں ، بچوں کا ادب ، تراجم ، نصاب سے متعلق کتابوں اور نہ جانے کتنے ہی موضوعات پر کتابوں سے اس میلے کے اسٹال پَٹے پڑے ہیں ، اور اپنے خریداروں کے منتظر ہیں ۔ میلے میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ بھی نظر آیا جو ابھی ابھی شائع ہو کر آیا ہے ، اور لوگ اسے پسند کر رہے ہیں ۔ اس میلے میں عبدالسلام خان قاسمی بھی اپنی کم یاب اور نایاب کتابوں کے ساتھ موجود ہیں ۔ بس درخواست یہی ہے کہ لوگ موقعے کا فائدہ اٹھا لیں ۔ میں جب پہنچا تب افتتاحی تقریب ختم ہو چکی تھی ، اکثر لوگ جا چکے تھے ، اسکولی بچے موجود تھے ، لیکن کتابیں خریدنے والے کم تعداد میں تھے ، شاید اتوار کو تعداد میں اضافہ ہو ۔ میلے میں حضرت مولانا عمرین محفوظ رحمانی سے ملاقات ہوئی ، حضرت مالیگاؤں سے صبح ہی صبح آ گیے تھے ، اور کتابیں خرید رہے تھے ۔ مولانا کتابوں کے شوقین ہیں ، اور میں نے کم ہی ایسے شوقین دیکھے ہیں ، ان کے لیے کوئی موضوع ممنوع نہیں ہے ، علم جہاں سے ملے بٹور لیتے ہیں ۔ حضرت نے کتنے روپیے کی کتابیں لیں یہ تو نہیں پتہ لیکن کتابوں کی تعداد دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ کئی ہزار ( یہ ہزار پانچ فیگر والا ہے ) روپیے کی کتابیں لی ہیں ۔ اللہ کرے میلے میں ایسے ہی کتابوں کے شوقین علماء کرام ، دانشوران ، پروفیسر صاحبان ، اساتذہ ، صحافی حضرات آئیں اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے کتابیں خریدیں اور مہمان پبلشروں کی میزبانی کا پورا حق ادا کردیں ۔ اور عام افراد بھی آئیں جنہیں کتابوں کا شوق ہے ۔