تعلیمی سفر اکثر ہماری زندگی کے ابتدائی سالوں میں شروع ہوتا ہے؛لیکن اگر اِرد گِرد کا ماحول تعلیمی ہو تو یہ سلسلہ کب شروع ہوتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا، خوش قسمتی سے میری پرورش بھی ایک ایسے ماحول میں ہوئی، جہاں تعلیم ہماری زندگی کا صرف حصہ ہی نہیں تھا؛ بلکہ زندگی جینے کا طریقہ بھی تھا۔ میں نے ایسے لوگوں کے درمیان آنکھیں کھولیں جو علم دوست لوگ تھے، انھوں نے علم کی سرپرستی کی۔ میرا بچپن ایسی دو نسلوں کی یادوں سے معمور ہے جنھوں نے ملک و بیرون ممالک، حکومتی و غیر حکومتی ہر دو سطح پر علم کی خدمت کی ہے، پھر وہ چاہے دینی علوم ہو یا عصری ہر دو سے انھوں نے وافر حصہ پایا اور اس کی اشاعت و آبیاری میں اہم کردار ادا کیا ، تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ میری تعلیم کا آغاز تو بہت پہلے سے ہی ہو گیا تھا لیکن رسمی تعلیم کی ابتدا "جامعۃ الحبیب مولانگر "سے ہوئی، اسی مدرسہ کی علمی گود میں میں نے شعور کی آنکھ کھولی اور وہیں کی پاکیزہ فضاؤں میں علمی سفر کا پہلا پراؤ طے کیا، اور اس تحریر میں اسی ادارے کا ذکر مقصود ہے، جسے میرے خانوادہ کے ہی ایک عالی مقام، بلند ہمت اور دلِ درد مند رکھنے والے جلیل القدر عالم دین نے اپنے خون جگر سے سینچا ہے ۔
جامعۃ الحبیب شمالی بہار کے ضلع سیتامڑھی میں پوپری سب ڈویژن سے چند کلومیٹر فاصلے پر واقع ایک مردم خیز بستی "مولانگر "میں بطور منارہ علم و عرفان قائم ہے، یہ ادارہ اپنے اعلی معیار تعلیم و تربیت، سرسبز و شاداب جائے وقوع، پاکیزہ ماحول اور خوش سلیقگی و نفاست کا مظہر دیدہ زیب عمارت کی وجہ سے ملحقات و مضافات میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور حفظ قران کے لیے ترجیحی مدارس میں سر فہرست ہے۔
آج سے 25 سال قبل عم مکرم جناب حضرت مولانا مہتاب عالم صاحب قاسمی حفظہ اللہ کو ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا خیال آیا، جہاں قرآن کی تعلیم، صحت مخارج اور تجوید کی رعایت کے ساتھ دی جا سکے ۔ چنانچہ 1999 میں محترمہ زبیدہ خاتون کے دالان میں ایک مکتب کا آغاز کیا گیا۔ الحمدللہ اس مکتب کے اولین فیض یافتگان میں خاندان کے دیگر بچوں کے ساتھ میرا نام بھی آتا ہے ۔
ہردوئی کے طرز پر قائم یہ ادارہ بنیادی دینی و قرآنی تعلیم کا سب سے معیاری، مؤثر، منفرد اور بامقصد پہلا مکتب تھا ،جس نے قرآن کریم کی درست اور کما حقہ تعلیم کا پوری دیانت داری سے اس وقت اہتمام کیا ،جب اس طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی تھی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں میں چل رہے دوسرے مکتب کے طلبہ و طالبات بھی اس مکتب کا رخ کرنے لگے۔
مقامی اور اطراف و اکناف کے طلبہ کی ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے سال ڈیڑھ سال کے اندر ہی دالان سے متصل مشرقی حصے میں ایک جگہ پہ بانس اور پھوس کی مدد سے ایک وسیع ہال بنایا گیا ، پھر غالبا 2001 میں مولانا عبدالمنان صاحب مدظلہ اللہ العالی( مہتمم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی) کے ہاتھوں دو کمرے پر مشتمل ایک پختہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی اور اس مکتب کا نام "مدرسہ دارالقران والسنہ ” رکھا گیا۔ قرآن کریم، نورانی قاعدہ کے ساتھ اردو، دینیات، ریاضی انگریزی اور ہندی کے درجات کا بھی اضافہ کیا گیا۔ اور پہلے استاد کے طور پر حافظ ارشد صاحب پھلوریہ پھر حافظ رضوان صاحب پھلوریہ کا تقرر عمل میں آیا اور علوم عصریہ کی تعلیم کے لیے والد محترم سرفراز عالم اور ماسٹر مشہود اعظم گوہر (سابق مدرس مدرسہ عزیزیہ پوپری) کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ وقتا فوقتا حسب ضرورت اساتذہ کی تقرری کا عمل جاری رہا اور یہ غیر اقامتی ادارہ روز بروز تعلیمی اور تعمیری اعتبار سے ترقی کی راہ پر گامزن رہا جو کہ تاہنوز رواں دواں ہے۔
یہ مکتب اپنے روز قیام سے ہی عام روایت اور فرسودگی و پسماندگی سے ہٹ کر ایک نئی اور مؤثر راہ پر گامزن رہا، طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے تقسیم انعامات کا سالانہ پروگرام منعقد کیا جاتا تھا، یہاں نظم و نسق اور ذہنی و جسمانی نشو نما پر خاص توجہ دی جاتی۔ درسیات میں اعلی نمبرات حاصل کرنے، صاف ستھرا رہنے، سبق کی پابندی کرنے، اور اسی طرح کھیل کود اور تقریری مقابلے میں بہترین کارکردگی پیش کرنے والے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں مختلف تشجیعی انعامات سے نوازا جاتا۔ تعلیم و تربیت اور متنوع و مفید سرگرمیوں کی وجہ اس ادارے کو ایسی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی کہ پورے خطے میں اسی کے تذکرے ہونے لگے۔
بہار آئی،کھلے گل، زیبِ صحنِ بوستاں ہو کر
عنادل نے مچائی دھوم سرگرمِ فغاں ہو کر
بانی مدرسہ حضرت مولانا مہتاب عالم صاحب قاسمی( شیخ الحدیث جامعہ ابوالفضل جوہاپورہ، احمد آباد گجرات) ، وقار العلماء محدث جلیل حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب (المتوفی 2003) کے دست گرفتہ تھے اور ان سے اصلاحی تعلق اور قلبی لگاؤ تھا ۔ 2002 میں حضرت فیروز پوری کی طرف منسوب کر کے اس کا نام "جامعۃ الحبیب ” رکھ دیا گیا۔
2004 میں بانی مدرسہ کے شاگرد خاص مولانا محفوظ عالم قاسمی بطور ناظم مدرسہ متعین ہوئے( آپ باصلاحیت عالم دین، سنجیدہ، با اخلاق اور انتظامی صلاحیتوں سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ ادارہ کے تئیں انتہائی مخلص ہیں)۔
اب تک یہ ایک غیر اقامتی ادارہ تھا ؛ لیکن 2005 میں اقامتی طلبہ کا داخلہ شروع ہوا اور اسی سال شعبان 1426 ہجری مطابق 2005 عیسوی میں تحفیظ القرآن کی درسگاہ کا بھی آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں کے اندر ہی پورے علاقے میں عمدہ لب لہجہ سے قرآن پڑھنے والے حفاظ کی بہار سی آگئی اور انکی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، اور یہ سلسلہ الحمدللہ آج بھی جاری ہے۔
مستقل مسجد نہ ہونے کی وجہ سے نماز پنجگانہ کے لیے مدرسہ میں موجود ایک ہال کو وقتی مصلی کی شکل دے دی گئی تھی؛ لیکن طلبہ کی بڑھتی تعداد کے مد نظر ایک مسجد کی اشد ضرورت تھی اور پھر اللہ نے اس کے اسباب بھی مہیا کر دیے ۔ 2020 میں علاقے کے علماء کے ہاتھوں ایک وسیع مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ، جو بعض اہل ثروت کے تعاون اور اہل علاقہ کے جزوی تعاون سے ڈیڑھ سال کے اندر ہی مسجد مکمل طور پر نمازیوں کے لیے تیار ہو گئی، 15 جون 2022 کو الحاج حافظ محمد ادریس( احمد آباد گجرات)، ڈاکٹر ابوالکلام شمسی قاسمی اور دیگر بزرگوں کی موجودگی میں تقریب افتتاحِ مسجد کا انعقاد ہوا اور اسی دن نماز ظہر کی ادائیگی کے ساتھ مسجد کا باضابطہ افتتاح ہو گیا۔
اس مدرسہ میں روز اول سے ہی مقامی بچیوں کے لیے بھی درجہ بندی کے ساتھ دینیات و علوم عصریہ اور فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم کا نظام تھا؛ لیکن گزشتہ چند برسوں سے عوام الناس میں لڑکیوں کو علوم دینیہ سے آراستہ کرنے کے بڑھتے رجحانات کے پیش نظر 2022 میں درس نظامی کے مطابق فضیلت تک معیاری تعلیم کے مستحکم نظام کا بھی الحمدللہ آغاز ہوگیا ۔
جامعۃ الحبیب نے اپنے اعلی معیار تعلیم و تربیت کی وجہ سے جس طرح قلیل مدت میں مقبولیت حاصل کی تھی، آج بھی اسی طرح حضرت مہتمم صاحب اور دیگر مخلص اساتذہ کی نگرانی میں مصروف عمل ہے اور ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے۔ ان شاء اللہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
زبان برگ گل نے کی دعا رنگین عبارت میں
خدا سرسبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر