۲۰۲۴ کے یونین پبلک سروس کمیشن کے رزلٹ عام ہو چکے ہیں اور اس میں اس دفعہ مسلمان لڑکے اور لڑکیوں نے پہلے کے مقابلے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے جو کہ تقریباً ۵ فیصد سے زیادہ کا ہی تناسب رکھتی ہے۔ اس میں بھی یہ بات ہم سب کے لیے قابل فخر ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تربیت یافتگان نے تقریباً ۳۱ جگہوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ جامعہ اور جامعہ والوں دونوں کے لیے انتہائی فخر کی بات ہے۔ میں اس کے لیے جامعہ کے قائم مقام وائس چانسلر اقبال حسین اور ان کی سرپرستی میں چل رہی ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمی کے ذمہ داروں کو مبارک باد دیتا ہوں۔اس کے علاوہ جن جن اداروں اور تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے کامیابی حاصل کی ہے، میں ان کو اور ان کے ذمہ داروں کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔
ہم سب کو پچھلے سالوں میں یہ جائز طور پر شکایت رہی ہے کہ مسلمان بچے اس تعداد میں قومی سروسیز کے امتحانات میں وہ کامیابی حاصل نہیں کر رہے ہیں جوکہ انھیں کرنی چاہیے۔ لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ کتنے لوگوں نے ان امتحانات کے لیے درخواستیں دی تھیں اور ان میں سے کتنے لوگ ابتدائی مرحلے (پریلمس)کو پاس کر کے فائنل کے مرحلے میں پہنچےاور پھر انٹرویو میں کامیابی حاصل کر کے بالآخر انھوں نے کامیابی حاصل کی۔ ہمیں اس بات کی خوشی بھی ہے اور اس پر اطمینان بھی کہ اگر ایک طرف یوجی سی نے مختلف یونیورسٹیوں میں ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمیوں کا اس مقصد کے لیے قیام کیا کہ کمزور طبقات کے بچے قومی ملازمتوں میں آنے کے لیے ضروری تیاری کریں تو نجی زمرے میں بھی بعض اداروں نے جن میں سب سے پہلےہمدردسوسائٹی اور بعد میں زکوٰۃ فاؤنڈیشن کا نام سر فہرست ہے، ایسی کامیاب کوششیں کیں کہ قومی ملازمتوں کے امتحانات کی تیاری کے لیے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان کے پروگراموں سے استفادہ کریں، تربیت حاصل کریں اور اپنی جگہ بنائیں۔
یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ جہاں حکومتوں نے یونیورسٹیوں میں اس سلسلے میں ریزیڈنشیل کوچنگ اکیڈمیوں کا قیام کیا تو وہیں کچھ فرقہ پرست او ر فسطائی قوتوں نے اس کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دے کر ملازمتوں کے جہاد کا نام دے دیا۔ وہ تو کہیے خیر سے اس ملک کا جمہوری اور قانونی نظام ایسا ہے کہ وہ اپنی بات کو آگے نہ بڑھا سکے۔ لیکن یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے اپنی بے پایاں محنت سے آہستہ آہستہ کامیابی حاصل کرنا شروع کی اور اس دفعہ ماضی کے سارے ریکارڈس توڑ دیے۔
راقم الحروف کو یاد ہے کہ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالب علم تھا تو سب سے پہلے وہاں پر قانون کے طالب علموں نے یوپی کی جوڈیشیل سروسیز کے امتحانات میں حصہ لینا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ الہ آباد میں انٹرویو کے وقت ان کے مقابل آنے والوں میں یہ بات پہلے سے مان لی جاتی تھی کہ علی گڑھ والے جتنے امید وار انٹرویو میں شریک ہوں گے وہ سب تو سلیکٹ ہو ہی جائیں گے اور ان کو چھوڑ کر باقی سیٹوں پر مقابلہ ہونا ہے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے علی گڑھ میں سول سروسیز کی کوچنگ کا یونیورسٹی میں جب وہ ڈین اسٹوڈنٹ ویلفیئر تھے تو انھوں نے اہتمام کیا تھا جس کو جلا پروفیسر علی محمد خسرو کے وائس چانسلر ہونے کے بعد ملی،وہ غالباً ۱۹۷۷ کا بیچ تھا جس میں سب سے زیادہ علی گڑھ والے مختلف میدانوں میں کامیاب ہوئے تھے۔ پھر پتہ نہیں علی گڑھ کو کس کی نظر لگ گئی اور اس کی کامیابی کی وہ شرح کبھی سامنے نہ آ سکی۔ لیکن بہر حال خوشی کی بات ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جو علی گڑھ کے کوکھ سے ہی جنمی ہے نے وہ جگہ حاصل کر لی ہے۔
قومی سروسیز میں مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی حصے داری کے ساتھ ہی ہمیں یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ مسلمان بچے اور بچیوں کو محض سول سروسیز کے بڑے مناصب کے لیے ہی کوشش نہیں کرنی چاہیے ، ہمارے وہ بچے جو مشکل سے گریجوئٹ یابارہویں کلاس ہی پاس کر پاتے ہیں انھیں سب آرڈینیٹ اور پولیس کی ماتحت سروسیز کے لیے بھی تیاریاں کرنی چاہئیں کیوں کہ آپ چاہیں نہ چاہیں یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص آئی اے ایس ، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور دوسری مرکزی ملازمتوں میں بھاگیدار بن سکے۔ اسی طرح سب کا منصف اور مجسٹریٹ بننا بھی آسان نہیں ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ آپ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ان سروسیز کے امتحانات نہ دیں لیکن اگر خدا نخواستہ اس میں کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو ریاستی زمرے کی ملازمتوں کے لیے جی جان لگا کر کوشش کریں اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی علمی لیاقت اور جنرل نالج کے ہوتے ہوئے آپ ان میں کامیاب نہ ہوں۔ ہم یہ بات بخوبی جانتے بھی ہیں اور مانتے بھی کہ سرکاری ملازمتوں میں اوپر سے نیچے تک اپنی جگہ بنانا ہمارا قومی فریضہ بھی ہے اس لیے کہ ہم اپنے مادر وطن اور اس کے بسنے والوں کی خدمت کرسکیں ، ان کے کام آ سکیں اور ساتھ میں مذہبی فریضہ بھی کہ ہم انتہائی دیانت ، صیانت اور امانت کے تصورات کے تحت ان مناصب پر اپنی پہچان بنائیں اور اپنے ملک والوں کے بیچ اپنی اور اپنے ہم مذہبوں کی بہتر تصویر پیش کر سکیں۔ اس لیے ہماری ان تمام اداروں اور تنظیموں سے جو ابھی صرف اعلیٰ زمرے کی سروسیز کے لیے تیاریاں کرا رہے ہیں ان سے بصد ادب یہ گذارش ہے کہ وہ نچلے زمرے کی ملازمتوں کے لیے بھی لڑکے اور لڑکیوں کو تیار کرائیں۔
بات جب نکلی ہے اور جامعہ کی حسن کار کردگی اور سول سروسیز امتحانات میں اس کے تقریباً ۳۱ تربیت یافتگان کی کامیابی کی بات ہو رہی ہےتو ایک ایسے شخص کی صورت میں جس نے تقریباً ۳۷ سال سے زیادہ عرصے تک جامعہ کا نمک کھایا ہے اور جس کا اردو سے کوئی پیشہ ورانہ رشتہ تونہیں بلکہ اردو سے اس کا رشتہ وہی ہے جو اس کا اس کی ماں کے دودھ کے ساتھ ہے اسے ذمہ داران جامعہ کی توجہ ا س امر کی طرف ضرور دلانی چاہیے کہ کس طرح سے مکتبہ جامعہ جس کی عمر کے تقریباً سو سال پورے ہوا چاہتے ہیں اور جس میں ایک پبلک لمیٹیڈ کمپنی کے طور پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نوے فیصد شیئر ہیں ، اسے اس کی بدحالی پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ مکتبہ جامعہ کا ایک شاندار ماضی رہا ہے ، اردو زبان و ادب اور علم کی کوئی ایسی شاخ شاید ہی رہی ہو جس پر مکتبہ جامعہ نے معیاری اور سستی کتابیں نہ چھاپی، اس سے جو لوگ جڑے رہے ان میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر عابد حسین، خواجہ غلام السیدین ، کرنل بشیر حسین زیدی، مالک رام اور مہتمم یا مینیجر کے طور پر حامد علی خاں، غلام ربانی تاباں اور شاہد علی خاں کے نام شامل ہیں۔ ’پیام تعلیم‘ اور ’کتاب نما‘ کے ذریعے کتنے ہی ذہنوں کی فکری اور علمی آبیاری ہوئی ہے۔ مکتبہ جامعہ کا ہیڈ کواٹر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں رہا تو بمبئی، دہلی کے اردو بازار اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شمشاد مارکیٹ میں اس کی شاخیں علم و ادب کے شائقین کو سیر یاب کرتی رہیں۔ بمبئی میں جو اب ممبئی ہے جب تک شاہد علی خاں رہے مکتبہ جامعہ بمبئی کی علمی و فلمی کہکشاں کا مرکز رہا اور وہ جب دلی آ گئے تو انھوں نے جامعہ میں مکتبہ جامعہ کو اپنی تمام سادگی ، سادہ لوحی کے ساتھ دنیا بھر کے اردو والوں کا ایک مرکز بنا دیا۔ انھوں نے پرانے جامعہ والوں کی طرح سے اپنے آپ کو افسر نہ جان کر ہمیشہ ایک خدمت گار ہی بنائے رکھا۔ یہی حال ان کا لبرٹی آرٹ پریس کے ساتھ تھا۔خیر مکتبہ جامعہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرس نے جو سلوک شاہد علی خاں کے ساتھ کیا اس کا کسی پاس کوئی جواز نہیں، بھلا ہو نجیب جنگ صاحب کا جنھوںنے جامعہ کے وائس چانسلر اورمکتبہ جامعہ کے چیرمین کے طور پر پروفیسر خالد محمود کو مینجنگ ڈائریکٹر بنایا اوراپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے شری کپل سبل کی تائید سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے مکتبہ جامعہ کی کتابوں کی بڑی تعداد کو مفت میں چھپوا کر ایک دفعہ پھر مکتبہ کو زندگی بخشی۔ لیکن اب جس طرح مکتبہ کے بند ہونے کی نوبت آ گئی ہے، اس کے اسٹاف کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، اس کے ملازمین فاقہ کشی سے بدتر مرحلوں میں داخل ہو چکے ہیں ایسا کسی نے کبھی بھی نہ سوچاتھا۔اردو بازار جو کبھی کتابوں کے لیے جاناجاتا تھا اب اس کی پہچان کبابوں کی دکانوں سے ہوتی ہے۔ اردو کے ساتھ یہ برا سلوک تو سرکاروں نے بھی نہیں کیا تھااور اس کا کوئی تصور ایسا بھی نہ تھا کہ مکتبہ جامعہ کے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ ایسا کرے گی۔ ہماری موجودہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر اقبال حسین جو خود اردو والے ہیں،سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ مکتبہ جامعہ کو ایک نئی زندگی دینے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ مکتبہ جامعہ کے پاس اپنی ضرورتوں کی کفالت کے لیے اسباب نہ ہوں ، ضرورت صرف اس کی ہے کہ کوئی پختہ ارادے کے ساتھ اس کی داد رسی کے لیے آگے آئے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)