تحقیق ایک خشک اور مشکل ترین صنف ہے۔ یہ عرق ریزی اور جانفشانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے اسکالر تحقیق سے دوری بنائے رکھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ البتہ پرانے زمانے میں کئی ایسی شخصیات تھیں جنھیں تحقیق سے جنون کی حد تک دلچسپی تھی۔ ان شخصیات میں حالی ، شبلی، محمد حسین آزاد سے لے کر،حافظ محمود شیرانی،قاضی عبدالودود، امتیاز علی خاں عرشی، مالک رام، رشید حسن خاں، حنیف نقوی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ حالیہ منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو سوائے شمس بدایونی کے کوئی نام نظر نہیں آتا۔ ایسے میں ڈاکٹر سعید احمد (اسسٹنٹ پروفیسر عالیہ یونیورسٹی، کولکاتا) کی ستائش ضروری ہے کہ انھوں نے اس دقت طلب صنف میں دلچسپی دکھائی ہے۔ ویسے تو سعید احمد کا اصل میدان سفرنامہ اور ناول ہے۔ اسی لیے انھوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی میں انہی دونوں موضوعات کو برتا ہے۔ سعید احمد کے ایم فل کے مقالے کا موضوع تھا ’1975 کے بعد اردو کے اہم سفرناموں کا تجزیاتی مطالعہ‘ اور پی ایچ ڈی کا موضوع ’اردو ناول کی بدلتی جہات (ابتدا تا 1947) تھا۔
مگر حالیہ دنوں میں انھوں نے تحقیق سے بھی دلچسپی دکھائی ہے۔ اور اس حوالے سے لکھے گئے اپنے مضامین کو انھوں نے تحقیق و تفہیم‘ کے نام سے جمع کردیا ہے۔
اسی کتاب میں حرف آغاز اور عتیق اللہ صاحب کے گراں قدر مضمون ’سعید احمد اور تنقید و تحقیق کے تقاضے‘ کے علاوہ ‘15مضامین : اردو ناول کے فکر و فن کی بدلتی نوعیت (ابتدا تا 1947)، پریم چند کے ناول ’چوگانِ ہستی‘ کی نئی قرأت، ’ٹیڑھی لکیر‘ نئی قرأت،کشن پرشاد کول کا ناول ’شاما‘ کا تنقیدی مطالعہ، اردو ناول کا بدلتا منظرنامہ، اردو سفرنامہ: پس منظرپیش منظر، آزادی کے بعد اردو سفرناموں میں طنز و مزاح، آزادی کے بعد اردو سفرناموں میں ناسٹلجیا، علی گڑھ تحریک: ایک مطالعہ، ترقی پسند تحریک کی ادبی و فکری اساس، اردو کے نمائندہ طنز و مزاح نگار: فکر و فن کے آئینے میں، اردو زبان کی تدریس کے طریقۂ کار،اردو ادب اور سماج کا رشتہ، اردو صحافت کی تاریخ: ایک اجمالی جائزہ شامل ہیں۔
ان مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سعید احمد نے انھیں بہت محنت سے لکھا ہے۔ بیشتر مضامین میں تحقیق کی جھلک موجود ہے۔اگر کہیں انھوں نے کچھ نکتے پیش کیے ہیں تو ان کی وضاحت میں دوسرے مصنّفین کی آرا اور ان کے حوالوں کے ذریعے انھیں درست ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذاتی رائے کا استعمال نا کے برابر ہے۔ حالانکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ تحقیق صرف کسی امر کی دریافت اور اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے کتابوں کے حوالے پیش کرنے کا نام نہیں ہے۔ تحقیق کے بنیادی شرائط میں دلائل و شواہد کے علاوہ رد و قبولیت بھی لازمی امر ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’… مختلف متعلقہ کتابوں کے حوالے اخذ کرنے اور اپنے موضوع سے متعلق دوسری اہم کتابوں کے مطالعات کا نچوڑ پیش کرنے کا مطلب تحقیق نہیں ہے۔ تحقیق اپنی ہر سطح پر دریافت کا عمل ہے، محض قبولیت کا عمل نہیں ہے۔ سعید کا مطالعہ وسیع ہے، انھوں نے رد کرنے کی کوشش کم کی ہے۔ رد کرنا اور کسی نئے ایسے نکتے کو اجاگر کرنا جس ادب و تنقید کا قاری کسی حد تک لاعلم ہے، بڑی مشقت، جرأت، جواب دہی کا عمل ہے۔‘‘ (تحقیق و تفہیم، ص 9)
حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ ڈاکٹر سعید احمد نے دریافت یا رد کی بالکل کوشش نہیں کی ہے۔ کچھ مضامین ایسے ہیں جن میں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے مصنفین کے حوالوں کے ساتھ رد کے بھی نقوش ملتے ہیں۔جیسا کہ عتیق اللہ لکھتے ہیں:
’’ … وہ رد کرنے کی توفیق بھی رکھتے ہیں جیسا کہ پریم چند، سفرناموں پر لکھے ہوئے مضامین، اردو ناول یا ٹیڑھی لکیر کو جس طور پر انھو ںنے سمجھا اور سمجھایا ہے۔ اس اعتبار سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جیسے جیسے ان کے مطالعے کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اسی نسبت سے ان کی فہم و فکر میں صلابت پیدا ہوتی جائے گی۔ ‘‘ (ایضاً، ص 9-10)
تحقیق کیا ہے، اس کے کیا مقتضیات ہیں، کیا تحقیق کسی عہد سے ہم آہنگ ہوتی ہے یا تحقیق کا کوئی عہد نہیں ہوتا ہے، کیا کچھ اصول کو برتنے کا نام ہی تحقیق ہے یا ان میں تبدیلیوں کی بھی گنجائش ہے، کیا تحقیق میں افہام و تفہیم کی گنجائش ہے، اگر ہے تو کس حد تک؟ اس حوالے سے صاحب کتاب کی رائے بھی جان لینا ضروری ہے۔ ڈاکٹر سعید احمد لکھتے ہیں:
تحقیق میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور افہام و تفہیم کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور تمام اصناف ادب میں فکر و فن و موضوع و مسائل کے لحاظ سے عہد بہ عہد تبدیلی اور ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ پہلے رجحانات و تحریکات میں یہ عمل رونما ہوتا ہے پھر تبدیلی کا یہ عمل انہی قدروں کا انعکاس اور فنی ارتقا داخلی و خارجی دونوں سطحوں پر سامنے آتا ہے، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کی طرح ادب بھی ایک نامیاتی قوت ہے جو بدلتے حالات کے ساتھ تبدیلیاں قبول کرتا ہے، اس کے مزاج و آہنگ میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے اور اس میں افہام و تفہیم کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔(ایضاً، ص 7)
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زندگی کی طرح ادب بھی ایک نامیاتی قوت ہے جس میں عہد کے حساب سے تبدیلیاں ضروری ہیں، چاہے فکر و فن کے اعتبار سے ہوں یا مزاج و آہنگ کے اعتبار سے۔ رہی بات افہام و تفہیم کی تویہ مسئلہ کسی بھی صنف سے وابستہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ بند ہوگیا تو پھر ادب پر جمود طاری ہوجائے گا۔ اس لیے افہام و تفہیم کی گنجائش سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔ البتہ تحقیق کے ضمن میں عتیق اللہ کے مشورے پر عمل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر تحقیق کو وہ وقار اور اعتبار حاصل نہ ہوگا جس کے لیے تحقیق جانی جاتی ہے۔
بہرحال متنوع مضامین پر مشتمل ڈاکٹر سعید احمد کی یہ ایک عمدہ کتاب ہے جس کے لیے صاحب کتاب کی ستائش کی جانی چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ قارئین اس کتاب سے مستفید ہوں گے۔
مرکزی پبلی کیشنز، نئی دہلی کے زیراہتمام اس کتاب کی اشاعت و طباعت بہت عمدہ ہے۔ 200 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 250 روپے ہے۔ امید ہے کہ تحقیق و تنقید سے دلچسپی رکھنے والے طلبا اس کتاب کو اپنے مطالعے کا حصہ ضرور بنائیں گے۔
(یہ تبصرہ ماہنامہ ’ایوانِ اردو‘مارچ 2024کے شمارے میں شائع ہوچکا ہے)