Home نقدوتبصرہ راجدیو کی امرائی : ٹکڑوں میں لکھا گیا ناول-شکیل رشید

راجدیو کی امرائی : ٹکڑوں میں لکھا گیا ناول-شکیل رشید

by قندیل

صادقہ نواب سحر کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ ناول ’ راجدیو کی امرائی ‘ ٹکڑوں میں لکھا گیا ناول ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے دوسرے ناولوں میں اس تکنیک کا استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ ’ کہانی کوئی سناؤ متاشا ‘ سے لے کر ’ جس دن سے…‘ اور اس ناول تک ، تینوں ناولوں میں اسی تکنیک کو برتا گیا ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ صادقہ نواب سحر کی پسندیدہ تکنیک ہے ، شاید اس لیے کہ اس تکنیک کو برت کر وہ جو کچھ کہنا چاہتی ہیں ، بغیر کسی پس و پیش کے کہہ دیتی ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ صادقہ نواب سحر اردو زبان میں ٹکڑوں میں ناول لکھنے کی تکنیک کی موجد ہیں ۔ ٹکڑوں سے کیا مراد ہے؟ ٹکڑوں کے ناول سے مراد کسی باب کے ساتھ یا باب کے بغیر ، ناول کو ایک عنوان کے ساتھ – عنوان ایک پورا یا ادھورا جملہ بھی ہو سکتا ہے یا ایک لفظ بھی – چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تحریر کرنا ہے ۔ یہ ٹکڑے ایک دو صفحات پر بھی مشتمل ہو سکتے ہیں ، آدھے صفحے پر بھی اور چند سطروں میں بھی ۔ اس تکنیک کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ پلاٹ ناول لکھنے والے کی گرفت میں رہتا ہے ، اکثر بات مکالموں میں ہو جاتی ہے ۔ لیکن اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ لکھنے والا اگر تحریر پر توجہ نہ دے تو نہ اپنے کرداروں کو ڈیولپ کرپاتا ہے اور نہ جزیات کی بھرپور عکاسی کر پاتا ہے ۔ صادقہ نواب سحر کے اس ناول میں یہ خوبی تو ہے کہ قاری آسانی کے ساتھ اسے پڑھتا چلا جاتا ہے ، لیکن ناول کے کردار اور کہانی آخر تک ڈیولپ نہیں ہو پاتے ، کئی کردار تو ایسے ہیں جن کے صرف نام سامنے آتے ہیں ، وہ کبھی کھل کر سامنے نہیں آتے اور ناول کے کلیدی کرداروں سے وابستہ ہونے کے باوجود ناول کی کہانی کا مؤثر حصہ نہیں بن پاتے ، جیسے کہ کلیدی کردار راجدیو جوشی کے بیٹے موہت اور کشل ۔
یہ کہانی راجدیو اور اس کی بیوی اونتکا کی ہے ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ یہ ناول ایک پریوار کی کہانی ہے ۔ راجدیو کے والد کی غربت کی ، بڑے ابا کے ہاتھوں کفالت اور چچی کی نرم گرم باتوں اور ماں کے صبر کی ، راجدیو کے جد و جہد اور اس کے امیر بننے کی ، اس کی محبت کی شادی کی ، بیٹوں کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ، اور پریوار کی لڑائی کی ۔ راجدیو جو ساری خوشیوں کے حصول کا سبب تھا ، اس سے اس کی بیوی اونتکا کی لڑائی اور اس کے الگ رہنے کی ، بیٹوں کے راجدیو سے ناراض ہونے کی ۔ یہ ناول ایک پریوار کی زندگی پر اور اس کے اتار چڑھاؤ پر مشتمل ہے ، اور ٹکڑوں میں لکھنے کی تکنیک کا استعمال کرکے اسے حال اور ماضی میں اس طرح سے تقسیم کر دیا گیا ہے کہ کہانی جہاں ختم ہوتی لگتی ہے ، وہیں سے اسے پھر سے شروع کر دیا جاتا ہے ، کسی یاد کے سہارے ۔ میں نے اس ناول کو ایک گھریلو SAGA کی طرح پڑھنے کی کوشش کی ہے ، لیکن یہ ناول SAGA نہیں بن سکا ہے ۔ جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے کردار ڈیولپ نہیں ہو سکے ہیں ، ان کی نفسیاتی گرہیں واضح نہیں ہو سکی ہیں ، راجدیو اور اونتکا کی لڑائی کا کوئی ٹھوس سبب سامنے نہیں آ سکا ہے ۔ بیٹے کیوں باپ سے ناراض ہیں ، جبکہ باپ ہی نے انہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی ہے ؟ اس سوال کا بھی کوئی تشفی بخش جواب نہیں مل سکا ہے ۔ پریوار کی لڑائی میں کیا صرف ’ دولت ‘ ہی کا کردار ہے ، یا اس لڑائی میں کنٹین والی تُلسا کا بھی کوئی کردار ہے ؟ یہ سوال بھی جواب طلب رہ جاتا ہے کیونکہ راجدیو اور تُلسا کا ’ تعلق ‘ کیا ، کیوں اور کیسا ہے ، ان سوالوں کے جواب کے بنا رہ جاتا ہے ۔ پریوار کے مسائل و مصائب یا اس کے لڑائی جھگڑے تو ہیں ، لیکن ایک SAGA میں جو سازشیں ، عیاریاں اور مکاریاں ہونی چاہیے ، ٹکراؤ کی جو ایک فضا ہونی چاہیے ، محبت کا جو ڈرامہ ہونا چاہیے – اور ان سب کی کی اس ناول میں بہت زیادہ گنجائش تھی – اس سے یہ ناول عاری ہے ۔
ناول کا موضوع ایسا ہے جس میں جذبات و احساسات کے اظہار کو بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے کے کافی مواقع تھے ، لیکن صادقہ نواب سحر ان مواقع کا فائدہ اٹھا نہیں سکی ہیں ۔ مجھے صادقہ نواب سحر ایک فکشن نگار کے طور پر پسند ہیں ، ان کا ناول ’ کہانی کوئی سناؤ متاشا ‘ مجھے پسند آیا تھا ، اور اب بھی مجھے ان کا وہی ناول زیادہ پسند ہے ، اُس میں ٹکڑوں میں لکھنے کی تکنیک کا خوب صورت استعمال کیا گیا تھا ، جو اِس ناول میں نظر نہیں آتا ۔ ناول کی زبان اور بیان اور مکالموں کے انداز کو سمجھنے کے لیے اس ناول کے دو اقتباسات بطور مثال پیش ہیں : ’’ وہ بہت ساری باتیں کرتی تھی ۔ بلکہ ساری باتیں وہی کرتی تھی ۔ ایک دھیمی سی لے تھی ۔ میں اس کی ساری باتیں نہیں سنتا تھا ۔ بس اسے باتیں کرتے ہوے دیکھتا تھا ۔ اس کے ساتھ کا لطف لیتا تھا ۔ کالج میں لوگ باتیں کرنے لگے تھے ۔ تب مجھے برا لگتا تھا ۔ پہلے سال کے پریکٹکلس میں اسے بہت اچھے نمبر ملے تھے ۔ دوسرے سال کے امتحان قریب آ رہے تھے ‘‘ ۔
دوسرا اقتباس : ’’ اونتکا دروازے میں یوں کیوں کھڑی ہو؟ میرے ہاتھ سے دودھ کی تھیلی بھی نہیں لیتیں ‘‘۔ میں نے نرمی سے کہا ، ’’ اور یہ دو سوٹ کیس ‘‘!!
’’ آپ کے کپڑے اور ضرورت کا سامان …‘‘
’’ یہ کیا ناٹک لگا رکھا ہے! ٹھیک ہے کہ داخلہ اپارٹ مینٹس کے پچھواڑے ہے ۔ پھر بھی کوئی دیکھے سنے گا تو کیا کہے گا؟“
’’ کشل کو پیسے دے دو ۔“ وہ بولی ۔
’’ تو تم کیوں نہیں دیتیں ۔ تمھارے پاس بیس لاکھ ہیں نا! تو دے دو ۔‘‘ ’’ میرا پیسہ نہیں دوں گی۔“
’’ کیوں؟“
’’آپ دے دیجیے۔ آپ کے پاس بہت ہیں۔“
’’ اب جو پیسہ بچا ہے، مرنے کے بعد ہی بٹے گا۔ دس پانچ دے دوں گا۔ اس سے زیادہ تو ایک پیسہ نہیں ۔ سن لو!“
ناول کا تھیم ، کہ ایک ضعیف العمر شخص پریوار کے ذریعے ٹھکرائے جانے کے بعد آزاد زندگی گزار سکتا ہے ، اور ایک بیوی اپنی زندگی میں تشنگی محسوس کرکے یا شوہر پر شک کی بنیاد پر ، اسے سبق سکھانے کے لیے علیحدہ رہ سکتی اور مزے کی زندگی جی سکتی ہے ، بہترین ہے ، لیکن یہ تھیم ناول کے بیانیہ میں تشنہ رہ گیا ہے ۔ صادقہ نواب سحر کا یہ ناول بھلے میری پسند پر پورا نہ اترا ہو لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ایک دن اسی اپنی ٹکڑے ٹکڑے لکھنے کی تکنیک میں بہترین ناول دیں گی ۔
اس ناول کو ساہتیہ اکیڈمی کا ایوارڈ ملا ہے ، صادقہ نواب سحر کو ایوارڈ مبارک ہو ، لیکن سچ کہیں تو ایوارڈ کی فہرست میں شامل ذکیہ مشہدی کا ناول ’ بلہا کہیہ میں جاناں کون ‘، خالد جاوید کا ناول ’ نعمت خانہ ‘ ، محسن خان کا ناول ’ اللہ میاں کا کارخانہ ‘ اور مرحوم شموئل احمد کا ’ چمراسر ‘ زبان و بیان اور انسانی وجود کے مختلف شیڈز کی پیش کش میں زیادہ کامیاب ہیں ۔ ناول ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، نئی دہلی سے شائع ہوا ہے ، صفحات 211 ہیں اور قیمت 250 روپے ہے ۔

You may also like