Home نقدوتبصرہ محبوب اصغرکی شاعری:انسانی وجود کی سائیکی اور شعور کا شناس نامہ-حقانی القاسمی

محبوب اصغرکی شاعری:انسانی وجود کی سائیکی اور شعور کا شناس نامہ-حقانی القاسمی

by قندیل

ہر شہر کی ایک سائیکی اور ثقافت ہوتی ہے اور اس کا اثر شاعری پر بھی پڑتا ہے۔ شہروں کے مزاج اور تہذیبی و معاشرتی رویے سے تخلیق متاثر ہوتی ہے اور اسی سے تخلیق میں مقامیت کا رنگ و آہنگ بھی پیدا ہوتا ہے۔ شاعری میں شہر کی سانسیں اور دھڑکنیں شامل ہو جاتی ہیں تو شہر کے آداب و اطوار سے آشنائی کی بہتر صورت نکلتی ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ شہر کا طرز فکر اور طرز احساس کیا ہے۔
محبوب اصغر کا تعلق مخدوم محی الدین، خورشید احمد جامی، سلیمان اریب، عزیز قیسی، شاذ تمکنت کے شہر حیدرآباد سے ہے جس کا اپنا ایک مخصوص لسانی اور تہذیبی مزاج رہا ہے اور اس شہر نے شاعری کی ثروت میں نہ صرف اضافے کیے ہیں بلکہ نئے تجربات کے ذریعے شاعری کو وسعتوں سے ہمکنار بھی کیا ہے۔ یہ شہر شاعری کے باب میں کئی اعتبارات سے امتیازات کا حامل ہے اور محبوب اصغر بھی اسی شعری کہکشاں اور تخلیقی ماحول کے فیض یافتہ ہیں۔ ان کی شاعری میں حیدرآباد کے اِن ممتاز معتبر شعرا کا عکس و رنگ تلاش تو کیا جا سکتا ہے مگر محبوب اصغر نے اپنی راہ قدرے جداگانہ رکھی ہے۔ اس لیے ان کے رنگ سخن میں امتزاجیت کے ساتھ انفرادیت کی جھلکیاں بھی ہیں۔ اُن کی شاعری کی خاص بات اُن کی نصب العینیت، مقصدیت اور سماجی افادیت ہے۔ اُنہوں نے اپنی شاعری میں معاشرتی احوال و اوضاع کو حقیقت پسندانہ انداز میں بیان کیا ہے اور معاشرے کے مکروہات اور معائب کی نقاب کشائی کی ہے۔ ان کی پوری شاعری منفی اوصاف و اقدار کے خلاف احتجاج اور مزاحمت سے عبارت ہے۔ یہ ایک مثبت، صحت مند، صالح، تعمیری ذہن کی شاعری ہے جس میں اقداری نصب العین سے قطعی انحراف نہیں کیا گیاہے۔
محبوب اصغر کی شاعری میں اپنے عہد کا آشوب اور انتشار بھی ہے۔ بے چہرگی، بیگانگی کا بیان بھی ہے اور عصری زندگی کے مسائل و موضوعات بھی ہیں۔ خاص طور پر ہر سطح پر جو تغیرات اور تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان تبدیلیوں کو انہوں نے تخلیقی سطح پر محسوس کیا ہے اس لیے اُن کے یہاں بدلتے منظرنامے کی حقیقت پسندانہ عکاسی بھی ملتی ہے۔ انہیں یہ احساس ہے کہ جدید دور کا مزاج تیزی سے بدل رہا ہے اور منفیت مثبت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ تقلیب بہت تشویش ناک ہے۔
انہیں دور حاضر کی منفی تہذیب اور میکانکی طرز حیات کا بھی شدت سے احساس ہے اس لیے انہوں نے اپنی شاعری میں اس منفیت کے خلاف آہنگ بلند کیا ہے۔ خاص طور پر معاشرے میں جس طور پر تدلیس و تلبیس، کذب و ریا، عیاری ومکاری، منافقت ومداہنت کا غلبہ ہو رہا ہے اس کے خلاف انہوں نے اپنی شاعری کو بطور حربہ استعمال کیا ہے۔ ’کذب‘ اُن کی شاعری میں ایک طرح سے کلیدی لفظ ہے۔ اسی لیے اُن کے شعروں میں کذب کا کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
اس کی تمام رفعتیں ہیں کذب کے سبب
اب چھوڑیے کہ قصہ ہے یہ بے شعور کا

کمال زندگی تو سادہ لوحی راست گوئی ہے
تکبر جھوٹ عیاری ہے ایوانوں سے وابستہ

کذاب کوفیوں کے فریب زباں کا بوجھ
مثل غم حیات اٹھانا پڑا مجھے

ہر نقش حقیقت کو کذاب مٹاتے ہیں
مکروہ شبیہوں کی تصویر دکھاتے ہیں

زینہ کذب سے اونچائی کو چھونے کا جنوں
نشہ آور ہے مگر فتنہ محشر بھی ہے
یہ اشعار پڑھ کر میر تقی میر کی ’مثنوی در بیانِ کذب‘ کی یاد آجاتی ہے :
اے جھوٹھ آج شہر میں تیرا ہی دور ہے
شیوہ یہی سبھوں کا یہی سب کا طورہے

اے جھوٹھ تو شعار کا ہوا ساری خلق کا
کیا شہ کا کیا وزیر کا کیا اہل دلق کا

اے جھوٹھ تجھ سے ایک خرابی میں شہر ہے
اے جھوٹھ تو غضب ہے قیامت ہے قہر ہے

اے جھوٹھ رفتہ رفتہ ترا ہوگیا رواج
تیری متاع باب ہے ہر چار سو میں آج
میر نے جھوٹ کی ساری صورتوں اور شکلوں کو شعری پیرائے میں بیان کیا ہے کہ یہی جھوٹ ہے جس کی وجہ سے معاشرہ اقدار کی زبونی اور زوال کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ وضیع و شریف سب اسی کے حکم کش ہیں۔صحت مند قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ رشتے ناطے ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ دراصل جھوٹ ہی تمام معائب اور مفاسد کی جڑ ہے۔مابعد صداقت عہد Post Turth Era کی جو تصویر میر نے بہت پہلے پیش کی تھی محبوب اصغر نے بھی اسی طرح پس صداقت سماجیات اور سیاسیات کی تفسیر اپنے اشعار میں پیش کی ہے کہ مابعد صداقت عہد میں کس طرح جھوٹ پر مبنی بیانیے وضع کیے جا رہے ہیں۔ معروضی حقیقتیں مسخ کی جا رہی ہیں۔ مفروضات حقیقی معروضات کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پروپیگنڈہ اور ڈس انفارمشین پر انحصار اس قدر بڑھ گیا ہے کہ Factual veracity کی قدرو قیمت کم ہوتی جا رہی ہے۔ مشاعر شخصیہ اور معتقدات خاصہ کی بنیاد پر بیانیوں کی تشکیل اور تشہیر نے پورے معاشرے کو دامِ فریب میں بدل دیا ہے۔ محبوب اصغر کی صداقت شعار شاعری میں تمام معاشرتی سچائیاں ہیں۔ اُنہوں نے نہایت بیباکی کے ساتھ اُن تمام مفاسد کو شعری پیکر عطا کیا ہے جن سے معاشرے کا حسن اور اعتبار مجروح ہوتا ہے۔ یہ اشعار دیکھیں جن سے محبوب اصغر کے صالح اور صحت مند زاویہ فکر اور طرز احساس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ہرطرح کی نفسیاتی، ذہنی منفیت کے سخت خلاف ہیں اور اُن کا ارتکاز منفی اوصاف و اقدار کی تردید و تقلید اور مثبت اوصاف کی ترویج و تبلیغ پر ہے۔ یہ اشعار دیکھیں:
مکر و حسد کا تیل جلاتا رہا جسے
ایسا ہر ایک چراغ بجھانا پڑا مجھے

فسادِ ذہن ہیں یہ حادثات جبر زماں
جہاں میں ذوق تشدد ہی اب روا ٹھہرا

عیار کا یقیں ہے کہ وہ سرخ رو ہوا
مکر و فریب کا جو کبھی داؤ چل گیا

میں اپنے ساتھ لے کے چلا ساری کائنات
وہ آتش حسد میں جھلستا رہا جناب

سانسوں سے جن کی آتی ہے بارود کی سی بو
لہجے بھی ان کے ہوتے ہیں ہتھیار کی طرح
محبوب اصغر نے تکاثر، خودنمائی اور شہرت کو بھی منفی اثرات میں شمار کرتے ہوئے یہ اشعار کہے ہیں:
تجھے کر رہا ہے رسوا تیرا ذوق خود نمائی
یہ روش اگر نہ ہوتی تو بھی شہریار ہوتا

حد سے زیادہ بڑھ گئی جو شہرتوں کی بھوک
درپر کتاب چہر کے جانا پڑا مجھے
محبوب اصغر کو یہ پتا ہے کہ جدید میکانکی اور مشینی تہذیب میں لفظوں کے معانی اور مفاہیم بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ علامتیں اور اصطلاحات بھی تبدیل ہوتی جا رہی ہیں۔ فاسد خیالات نے پاکیزہ تصورات کا روپ دھارن کر لیا ہے۔ عشق بوالہوسی میں بدل گیا ہے۔ انحطاط کو ارتقاء سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ شعر دیکھیے :
رہا ہے عشق صدہا سال دیوانوں سے وابستہ
مگر اب ہے ہوس کے مارے انسانوں سے وابستہ

گزر کے حد ضرورت سے وہ گدا ٹھہرا
حدیں پھلانگنا ہی ذوق ارتقاء ٹھہرا
تہذیب نو پر طنز کرتا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجیے:
جن رویوں کو دیا نام ہے تہدیب نوی
اہل اخلاص انہیں ذوق ریا کہتے ہیں
عہد جدید میں صرف انسانی تہذیب اور نفسیات ہی نہیں بدلی ہے بلکہ شہر کا نقشہ بھی تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور اسی کے ساتھ شہروں کی سائیکی اور ثقافت بھی:
یہ کوٹھیاں ہیں جیسے پہاڑوں کے سلسلے
اصغر یہ کیسا شہر کا منظر بدل گیا
اور اسی کے ساتھ رشتوں کی تہذیب بھی مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں:
تہذیب ربط و ضبط کی قیمت ہی گھٹ گئی
رشتوں کا رنگ رنگ تجارت میں ڈھل گیا

اغراض کے خطوط پہ چلتی ہے ہر گھڑی
تہذیب نے مٹا دیا ذوق ادب یہاں

قتل کرنے کی مساعی میں جو ناکام رہا
کیا بتاؤں تمہیں اس کا ہی تو میں بھائی ہوں
محبوب اصغر کی شاعری میں اس عہد بے اماں کا پورا منظرنامہ ہے۔ دہشت، خوف، جبر و ستم یہ ساری چیزیں بے امانی کا منظر بیان کرتی ہیں۔ اسی لیے محبوب اصغر کے یہاں اپنے عہد کی بے چینی، اضطراب، انتشار کے حوالے سے اس طرح کے شعر بھی ملتے ہیں:
نہ چراغ جل رہے ہیں نہ دہک رہا شرارا
مرا عہد بے اماں ہے صفِ غم کا استعارہ

ہے فضائے جبر ہر سو، ہے ستم کی بالادستی
میری بے بسی کو یارب ترے ہجر کا سہارا

یہ مہیب سرخ بادل یہ لہو لہو سی بارش
بھلا کیسے ارض جاں میں کوئی مرغزار ہوتا
یہ شہر بے اماں میں مہاجر کی طرح ہم
اصغر یہاں نہیں کوئی انصار کی طرح
محبوب اصغر کی شاعری میں طنز اور نشتریت بھی ہے اور اس کا مقصد ذہن و فکر کے فساد اور انسانی معاشرے کے دوغلے کردار کی چہرہ نمائی ہے:
جہل مبیں ہے منصب اعلیٰ پہ لب کشا
ہر احمقانہ قول بجا ہے حضور کا

ہر جا پس اخلاص دغاباز ملے گا
ہر قلب مکدر بڑا دمساز ملے گا

اکثر ہیں یہاں اپنے خدا اپنے پجاری
اس بھیڑ میں کس کو کہاں اعزاز ملے گا

جہالتوں کے بدن پر ہے آگہی کا لباس
ہوا کے جسم میں یہ ناگوار جو کیا ہے

وہ جو عادی ہیں جہنم کے کہا کرتے ہیں
ہم کو فردوس سی راحت تو یہاں پر بھی ہے

جہالتوں نے تراشی ہے اصطلاح نئی
فضائے سو کا تعفن بھی پُر فضا ٹھہرا

لوگ جو گہرے اندھیروں کو ضیاء کہتے ہیں
وہ بتائیں بھلا بینائی کو کیا کہتے ہیں
محبوب اصغر کی شاعری میں تلمیحات کا بھی بہت خوبصورت استعمال ہے:
سپاہ ابرہہ باور کرا رہی ہے مجھے
’’ہوا کی زد پہ لرزتا ہوا دیا ہوں میں‘‘

معیار ذوق، حرص و ہوس میں سمٹ گیا
جوش کلیم ہے نہ ہی قصہ ہے طور کا

وہ شہر بطحی شہ دو جہاں کا گھر ہے
چلے بھی آؤ اسی گھر کا راستہ یوں ہیں

حرا کی سمت سے آئی جو اک ندا اصغر
جو روح فرسا تھے لمحے وہ پاسبان ہوئے
محبوب اصغر نے آج کی زندگی اور معاشرے کے مسائل کو شعری پیکر عطا کیا ہے۔ اُن کی پوری شاعری میں عصری حسیت موجود ہے۔ وہ جو میر نے کہا تھا کہ:
نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
محبوب کی شاعری میں اب کی بات ہے اور بڑی بات یہ ہے کہ اُن کی شاعری میں کیف انگیزی بھی ہے۔ اُن کا کوئی بھی شعر شعریت اور مقصدیت سے عاری نہیں ہے۔ اس شاعری میں بھرپور شعری تخلیقیت ہے۔ محبوب اصغر کی مجلی و مصفی شاعری پڑھتے ہوئے طبیعت منغض نہیں ہوتی بلکہ ایک طرح کی شگفتگی کا احساس ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو محبوب اصغر نے عمومی مماثلت اور تکرار و یکسانیت سے گریز کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اُن کی شاعری کسی اور کی شاعری کی صدائے بازگشت نہیں ہے بلکہ یہ انہی کی شعری آواز ہے جس میں تحرک بھی ہے، توانائی بھی، طغیانی ہے، جولانی بھی اور وہ التہاب اور اضطراب بھی جو حساس ذہنوں کو مرتعش رکھتا ہے۔ ان کی شاعری کے بین السطور میں بہت کچھ وہ ہے جو قاری کو نئی کیفیات سے سرشار کر سکتا ہے۔ اُن کی شاعری عصری منظرنامے پر ایک روشن دستخط کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُن کے ہاں امکانات کے آفاق ہیں اور وہ عوالم جو انسانی ذہنوں کو مختلف احساسات، کیفیات، جذبات، مشاہدات اور تجربات سے روبرو کراتے ہیں۔

You may also like