Home ستاروں کےدرمیاں استاد محترم مولانا ابوالوفا کی یاد میں- سہیل انجم

استاد محترم مولانا ابوالوفا کی یاد میں- سہیل انجم

by قندیل

جب 27 مارچ 2024 بروز بدھ آگرہ سے محمد انیس نے یہ اطلاع دی کہ ان کے والد مولانا ابوالوفا نے دنیائے فانی کو خیرباد کہہ دیا ہے تو جہاں ایک طرف انتہائی رنج ہوا وہیں دوسری طرف یادوں کے دریچے بھی کھل گئے۔ جب وہ شاعری کیا کرتے تھے تو انھوں نے کافی دنوں تک اپنا تخلص ’فانی‘ رکھا تھا۔ بعد میں وہ اپنے نام کے ساتھ ’زاہد‘ لکھنے لگے تھے۔ ان کا آبائی وطن موضع کوہنڑا ضلع بستی اترپردیش تھا لیکن انھوں نے آگرہ کو اپنا وطن ثانی بنا لیا تھا جہاں وہ 1990 سے مع اہل و عیال سکونت پذیر تھے۔ وہ آگرہ کی لوہار والی گلی میں واقع مسجد کے ایک زمانے تک خطیب جمعہ رہے۔ آگرہ میں بڑے اہلحدیث عالم دین کی حیثیت سے مشہور تھے۔ کئی برسوں سے وہ صحت کے مسائل سے دوچار تھے۔ وہ شوگر، بلڈ پریشر اور عارضۂ قلب میں مبتلا تھے۔ جب بھی فون کرتے تو سب سے پہلے اپنی بیماری کی کیفیت بتاتے اور دعائے صحت کی گزارش کرتے۔ وہ کئی برس سے مجھ سے کہتے رہے کہ آکر دیکھ جاؤ، میں پتہ نہیں کب تک رہوں گا۔ لہٰذا ہم اہلیہ کے ساتھ ستمبر میں آگرہ گئے اور ہم نے ان کے گھر ایک رات قیام کیا۔ ان کو دیکھ کر اور ان کی آواز سن کر کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتا کہ وہ سنگین امراض کی زد میں ہیں۔ بظاہر بالکل تندرست اور آواز میں وہی عالم شباب والا کڑک پن جو آخر تک قائم رہا۔ مجھے دیکھتے ہی بولے سہیل آپ تو بوڑھے ہو گئے۔ میں نے جواباً عرض کیا لیکن آپ اب بھی ماشاء اللہ بہت تندرست لگ رہے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ تھی کہ ان کا جسم تو بھاری ہو گیا تھا لیکن اندر سے کھوکھلا بھی ہو گیا تھا۔ خوراک بہت کم ہو گئی تھی اور چلنا پھرنا بند ہو گیا تھا۔ واکر کے سہارے بمشکل کمرے سے متصل بیت الخلاء تک جاتے اور اس وقت کوئی نہ کوئی ان کے ساتھ ہوتا کہ کہیں وہ گر نہ پڑیں۔ بیت الخلاء جاتے وقت بارہا لڑکھڑا کر گر گئے تھے۔ وہ اپنے بستر تک محدود ہو گئے تھے۔ وہیں ان کی اہلیہ یا گھر کا کوئی فرد برتن میں پانی لا کر وضو کراتا اور وہ وہیں بستر پر بیٹھ کر اور ٹانگ پھیلا کر پنج وقتہ نمازیں ادا کیا کرتے۔
ان کے انتقال کی خبر ملتے ہی میں ماضی کی یادوں میں کھو گیا۔ وہ 1975-76 میں ہمارے گاؤں کرنجوت بازار ضلع سنت کبیر نگر یو پی میں ہمارے والد حضرت مولانا حامدالانصاری انجم کے ہاتھوں قائم کردہ تعلیمی ادارے ”مدرسہ مدینۃ العلوم“ میں، جو کہ آج بھی علم کی روشنی بکھیر رہا ہے، بحیثیت مدرس خدمات انجام دے رہے تھے۔ ہم دونوں بڑے بھائیوں یعنی ابوالاثر حماد انجم (مرحوم) اور میرا بچپن سے ہی یہ وطیرہ تھا کہ ہم لوگ اسکول جانے سے قبل صبح کو ناشتے سے پہلے اور نماز مغرب کے بعد سے عشا کے وقت تک اسی مدرسے میں جزوقتی اور گرمیوں کی چھٹی میں کل وقتی طور پر دینی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ بعض اوقات ہم وہیں شب بسری بھی کر لیتے۔ یہ سلسلہ کم از کم 1978 میں میرے گریجویشن سے قبل تک جاری رہا۔ جب مولانا ابوالوفا بحیثیت مدرس ہمارے گاؤں میں آئے تو میں نے ان کے سامنے بھی زانوئے تلمذ طے کیا۔ انھوں نے مجھے دوسری کتابوں کے علاوہ فارسی شاعر شیخ سعدی کی شہرہ آفاق کتابوں ”گلستاں“ اور ”بوستاں“ کے چند اوراق پڑھائے تھے۔ مجھے ایک عرصے تک بوستاں کے شروع میں شامل حمد اور نعت کے چند اشعار ازبر تھے۔ اب بھی دو تین اشعار زبان زد ہیں۔ جیسے کہ:
بدوگفت سالارِ بیت الحرام، کہ اے حاملِ وحی برترخرام
چو در دوستی مخلصم یافتی، عنانم زصحبت چرا تافتی
اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ کے رسول کو معراج کرانے لے جاتے وقت جب سدرۃ المنتہیٰ تک جا کر رک گئے تو اللہ کے رسول نے پوچھا کہ اے وحی لانے والے برق رفتار! جب آپ نے دوستی میں مجھے مخلص پایا ہے تو پھر اب میرا ساتھ کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ اس پر جبرئیل نے کہا تھا:
اس سے آگے جانے کی میری تاب نہیں۔ کیونکہ اگر میں بال برابر بھی آگے گیا تو اللہ کی تجلی میرے پروں کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔ مولانا ابوالوفا جھوم جھوم کر گلستاں بوستاں پڑھاتے۔ ان کی آواز بلت بلند تھی لہٰذا دور دور تک پہنچتی۔ مدرسہ گاؤں کے کنارے کھیتوں کے پاس واقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بعض اوقات مزدور قسم کے لوگ خواہ مرد ہوں یا عورت وہاں رک کر ان کا درس سنتے۔ حالانکہ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا لیکن وہ محظوظ ہوتے۔ گوکہ انھوں نے مجھے چند روز ہی پڑھایا تھا لیکن اس کے باوجود میں ان کو استاد کا درجہ دیتا رہا ہوں اور اب بھی دیتا ہوں۔ میں ابھی مولانا محمد عبداللہ طارق کا احسان شناسی کے موضوع پر ایک کتابچہ پڑھ رہا تھا جس میں انھوں نے استاد کے مقام و مرتبے پر بھی چند باتیں کہی ہیں۔ انھوں نے حضرت امام ابو حنیفہ ؒکے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے استاد حضرت حماد ؒ کے متعلق فرماتے تھے کہ جب سے ان کا انتقال ہوا ہے کوئی نماز میری ایسی نہیں ہوئی کہ جس کے بعد میں نے اپنے والدین کے ساتھ ان کے لیے بھی استغفار اور دعا نہ کی ہو۔ سو میں بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے اپنے اس استاد کے حق میں دعائے مغفرت کرتا ہوں۔
بعد میں ہمارے والد سے ان کے بڑے قریبی مراسم ہو گئے تھے۔ دونوں اکثر و بیشتر بوقت ضرورت ساتھ ساتھ سفرکرتے۔ ہمارے والد کو بھی ان سے بہت لگاؤ ہو گیا تھا۔ جب میں اپنے والد پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ”نقوش انجم“ ترتیب دے رہا تھا تو انھوں نے میری درخواست پر ان پر ایک بہت اچھا مضمون لکھا تھا۔ وہ کتاب 2012 میں شائع ہوئی۔ حالانکہ اس وقت بھی وہ صاحبِ فراش تھے لیکن والد صاحب سے اپنے تعلق اور ہم بھائی بہنوں سے محبت کی وجہ سے انھوں نے ایک بہت اچھا مضمون سپرد قلم کیا۔ میرا خیال ہے کہ شاید ان کا تحریر کردہ وہ آخری مضمون ہے۔ وہ صرف میرے ہی نہیں بلکہ جماعت اہلحدیث کے ایک بڑے عالم دین اور ”مدرسہ زید بن ثابت“ سانتھا ضلع سنت کبیر کے بانی اور ہمارے خالہ زاد بھائی اور جواں مرگ مولانا ابوالمکرم سلفی کے بھی استاد رہے ہیں۔ مولانا ابولوفا اور ہماری والدہ دونوں ایک دوسرے کا بڑا احترام کرتے تھے۔ وہ مدرسے کے طلبہ و طالبات کے ساتھ بڑے شفیق و مہربان تھے۔ حالانکہ سبق یاد کرنے میں کوتاہی پر طلبہ کی خاصی مرمت بھی کرتے لیکن کلاس کے بعد ان پر اپنی شفقت نچھاور کرتے۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ دوپہر کی چھٹی کے دوران مدرسے کے صحن میں بچے کھیل رہے تھے کہ ایک آٹھ دس سال کی بچی صحن کے سرے پر واقع کنویں میں گر گئی۔ بچوں نے شور مچایا۔ وہ لنگی اور بنیان میں آرام کر رہے تھے۔ شور سنتے ہی کمرے سے آئے اور آؤ دیکھا نہ تاؤ جھمّ سے کنویں میں کود پڑے اور بچی کو گود میں لے لیا۔ وہ ’ارے مورے مولوی صاحب‘ کہہ کر ان سے چمٹ گئی۔ فوراً سیڑھی منگائی گئی اور وہ بچی کو لے کر اوپر آئے۔ اسی دوران ایک رات چاند گہن لگا۔ انھوں نے جامع مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کروا کر مسجد میں نماز کثوف ادا کرائی۔ دبنگ قسم کے آدمی تھے۔ کسی کی بات ادھار نہیں رکھتے۔ متوسط قد کے مگر انتہائی تندرست، چوڑا چکلا سینہ، بارعب چہرہ اور چہرے پر بھرپور ریش مبارک۔ کسی کی بات پر ناراض ہوتے تو بری طرح ڈانٹتے۔
ہمارے گاؤں کے بعد وہ دیوریا اترپردیش کے ایک تعلیمی ادارے میں پڑھانے لگے۔ اسی دوران ان کو مرکزی جمعیت اہلحدیث ہند کا آرگنائزر مقرر کیا گیا۔ اپنے دہلی کے ابتدائی سفر میں جمعیت اہلحدیث کے دفتر میں ان سے میری تجدید ملاقات ہوئی تھی۔ لیکن جب مولانا عبد الوہاب خلجی کو مرکزی جمعیت اہلحدیث کا جنرل سکریٹری مقرر کیا گیا تو حالات ان کے لیے سازگار نہیں رہے اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ وہ جامعہ رائے درگ (تیلنگانہ) کے قدیم فارغین میں سے تھے۔ استعفیٰ دینے کے بعد وہیں گئے اور وہاں کافی دنوں تک خدمات انجام دیتے رہے۔ چونکہ ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا لہٰذا وہیں انھوں نے دوسری شادی کی اور پھر بعد میں آگرہ آکر سکونت اختیار کی۔ لیکن رائے درگ کے لوگوں سے ان کا رابطہ مسلسل قائم رہا۔ اگر چہ وہ کئی برس سے صاحب فراش تھے لیکن مطالعے اور لوگوں سے بذریعہ فون رابطے کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ جب بھی انھیں کسی کے مضمون میں اردو کے کسی لفظ کے استعمال پر شکوک پیدا ہوتے تو وہ فوراً مجھے فون کرکے دریافت کرتے۔ اکثر یہ بھی ہوتا کہ کوئی شعر صحیح یاد نہیں آرہا ہے تو مجھ سے استفسار کرتے۔ میری جانب سے انھیں فون کرنے میں کوتاہی ہوتی لیکن انھوں نے مجھے کبھی فراموش نہیں کیا۔ ہمیشہ سہیل بیٹے کہتے۔ ان کی فرمائش پر میں ان کو اپنی کتابیں ارسال کرتا اور وہ مطالعے کے بعد اظہار خیال کرتے۔ کسی اخبار میں یا سوشل میڈیا پر میرا کوئی مضمون دیکھتے تو فوراً اطلاع دیتے۔ وہ تصنیف و تالیف سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کی تقریباً نصف درجن کتابیں دینی موضوعات پر شائع ہو چکی ہیں۔
بہرحال فروری میں محمد انیس نے فون پر بتایا کہ ابا کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔ اسپتال میں داخل ہیں۔ چند روز کے علاج کے بعد اسپتال سے انھیں یہ کہہ کر چھٹی دے دی گئی کہ ہفتے میں دو روز ڈائلسس ضروری ہے۔ جسمانی ضعف اتنا بڑھ گیا تھا کہ ڈائلسس کے بعد گھنٹوں تقریباً نیم بیہوش رہتے۔ اگلے دن طبیعت کچھ بحال ہوتی کہ پھر ڈائلسس کا وقت آپہنچتا۔ اب تو بیت الخلا جانے کی بھی سکت نہیں رہی۔ اسی عالم میں 27 مارچ کو وہ مالک حقیقی سے جا ملے۔

You may also like