کینیڈا میں اس وقت صبح کا وقت 13 اپریل 2024 ء بمطابق 04 شوال 1445 ہجری کی تاریخ اور سنیچر کا دن تھا سوشل میڈیا پر یہ المناک خبر موصول ہوئی کہ کینیڈا کے پروونس( صوبہ) انٹاریو میں گزشتہ دو دہائیوں سے مقیم اردو و انگریزی زبانوں پر یکساں مہارت رکھنے والے اہل قلم معروف صحافی فرزند علی گڑھ ادیب و شاعر سعودی عرب جدہ کے انگریزی روزنامے ” سعودی گزٹ” کے کئی دہائیوں تک مینیجینگ ایڈیٹر طارق حامد الانصاری غازی 83 برس کی عمر طبعی میں اس دار فانی کو داغ مفارقت دیتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
مرحوم سے جدہ ، مکہ مکرمہ اور انٹاریو کینیڈا میں گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے کے روابط وقتا فوقتا ٹیلیفون پر گفتگو ای میل پر رابطہ نیز موصوف کے نانا مرحوم ( قاری محمد طیب صاحب رحمۃاللہ متوفی 1983 ء) والد مرحوم ( حامد الانصاری غازی صاحب متوفی 1992 ء) اور ماموں مرحوم ( مولانا محمد سالم قاسمی صاحبؒ متوفی 2018 ء ) سے قلبی تعلق ہونے کی بنا پر قلب و ذہن حزن و ملال سے یقینا متاثر تھے لیکن احکم الحاکمین اللہ سبحانہ قدوس کی حکمت و مشیت کے پیش نظر صبر و شکیب کے ساتھ کل من علیھا فان اور کل نفس ذائقة الموت کی حقیقت کا اعتراف کرنا ہی اطاعت خداوندی اور ایک مومن کا شیوہ رہا ہے ۔ بیشک اس سانحہ ارتحال سے درس و عبرت اور حاصل کل یہی رہا کہ بے ثباتی زمانے کی ناچار —-کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے ( سودا) اور کسی شئے کو یہاں ثبات نہیں کون سا دن ہے جس کی رات نہیں ( جائسی ) بیشک دنیائے دنی محض ایک عارضی مستقر و دارالعمل ہے اور حیات جاوداں کے قلیل و محدود وقفے کے ہر لمحے کو اللہ رب العزت کی فرماں برداری و بندگی ہی میں گزارنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔
پہلی ملاقات اور خاندانی پس منظر :
یاد آتا ہے 28 جون 2003ء کی سہ پہر تھی جدہ کی ایک تقریب میں طارق غازی سے ناچیز کی یہ اولین ملاقات تھی مختصر سی گفتگو سے مثبت تاثر قائم ہوا کہ ایک انتہائی شریف النفس ، خلیق و ملنسار شخص سے سلسلہ کلام جاری ہے چند لمحات ہی میں ناچیز اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ موصوف عالم اسلام کی مشہور دانش گاہ دارالعلوم دیوبند میں منصب اہتمام و انصرام پر فائز سابق مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کے نواسے ، 1914ء -1915ء میں آزادی ہند میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کی ریشمی رومال تحریک کے روح رواں مولانا محمد میاں منصور انصاری کے پوتے ، مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃاللہ کے معاصرین میں سے ایک،اپنے دور کے اسلامی اسکالر معروف تصانیف ” اسلام کا نظام حکومت” و ” خلق عظیم ” ندوة المصنفین کے بانیوں میں سے ایک ، مدیر ماہنامہ ” مدینہ ” بجنور مجاہد آزادی مولانا حامد الانصاری غازی کے بیٹے ، سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند (وقف) مولانا محمد سالم قاسمی صاحب کے بھانجے ، ماہر تعلیمات و سابق ڈائریکٹر اقرا ایجوکیشن فاؤنڈیشن شگاگو عابد اللہ غازی رحمۃاللہ کے برادر خورد , مشہور مصنفہ شہناز کنول اور سلمان غازی ڈائریکٹر اقرا ایجوکیشن فاؤنڈیشن ممبئی کے برادر معظم اور اپنے دور کی معروف اصلاحی ناول نگار ہاجرہ نازلی صاحبہ (متوفی 2004 ء ) کے فرزند ارجمند محترم عالی جناب طارق غازی ہیں جن سے الحمدللہ ناچیز کو آج گفت و شنید کی سعادت حاصل ہو رہی ہے اور جو سر دست سعودی عرب کے انگریزی اخبار ” سعودی گزٹ ” کے مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے جدہ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ماضی کی چند یادیں طارق غازی ، علی ایم شمسی کے دیرینہ ساتھی : طارق غازی سے 2003 ء کی اس پہلی و یاد گار ملاقات کے نقوش ہنوز تازہ ہیں حسن اتفاق کہ اس ملاقات سے چند ماہ بعد ہی ممبئی سے خطیب کوکن اور سماجی خدمت گزار علی ایم شمسی کی عمرہ کی غرض سے اکتوبر 2003ء میں ناچیز کے حرم مکی شریف کے مطب پر تشریف آوری ہوئی دوران گفتگو جب جدہ سے نشر ہونے والے انگریزی اخبار سعودی گزٹ کے ایڈیٹر طارق غازی کا ذکر خیر آیا ، علی ایم شمسی کی کیفیت اس وقت قابل دید تھی 2003 ء میں آپ 1960 ء کے بیتے ہوئے ایام کا تذکرہ انتہائی فرحت و شادمانی سے کررہے تھے کہ وہ دور ہماری طالب علمی کے ثانوی درجات کا زمانہ تھا 1960ء میں اپنے چند دیرینہ ساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ریاض آفندی ( مقیم کراچی ) مرحوم تاجدار احتشام ( اعجاز صدیقی ایڈیٹر جریدہ ” شاعر” کے صاحبزادے ) رؤف آذر اور طارق غازی کے اسمائے گرامی آج بھی ذہن نشین ہیں ، آپ نے ماضی کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے اور سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان دنوں عموما” اہل شباب کا لباس کرتا پائجامہ ہی ہوا کرتا تھا ، ایک آنے کی قیمت کے ہم لوگ چنے خرید کر کرتے کی جیب میں بھر لیا کرتے تھے جے جے اسپتال ، بھنڈی بازار سے پیدل چلتے ہوئے اور خوش گپیوں میں مصروف ہمارے اس قافلے کا رخ چوپاٹی کی سمت ہوا کرتا تھا جہاں خواجہ احمد عباس کے گھر پر ہم سب اکھٹا ہو جاتے تھے اور شعر و سخن اور اردو زبان کی شیرینی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے بسا اوقات مختلف موضوعات پر ہمارے مابین سیر حاصل گفتگو بھی ہوا کرتی تھی ہماری اس محفل میں موجود بعض حضرات بعد ازیں اردو زبان و ادب میں عمودی حیثیت حاصل کر چکے ہیں اور الحمدللہ اسی علمی فکری و ادبی مجلس کے ساتھیوں میں سے ایک روشن مستقبل رکھنے والے ہمارے دیرینہ ساتھی جرنلسٹ ، مصنف و شاعر طارق غازی کا بھی شمار ہوتا ہے ، علی ایم شمسی نے حجاز مقدس کے اپنے اس سفر میں ایک خط اور مٹھائیوں کی امانت کا ایک پیکیٹ راقم السطور کے سپرد کیا تھااور یہ بھی کہا تھاکہ حسب سہولت جدہ میں مقیم جناب طارق غازی کے دولت کدے پر جاکر میرا سلام عرض کرنا اور یہ امانت بھی موصوف تک پہنچا دینا اللہ کے فضل و کرم سے ناچیز نے انتہائی ذمہ داری سے جدہ میں اس وقت شارع تہلیہ سے قریب واقع طارق غازی کی رہائش گاہ پر اس امانت کو پہنچا بھی دیا تھا لیکن علی ایم شمسی کی گفتگو سے تقریبا” پینسٹھ برس قبل نوجوان طبقے کی فکر ، طرز حیات ، لباس و سادگی اور فرصت کے لمحات کو کس طرح سے گزارا جاتا تھا کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کینیڈا میں طارق غازی سے ناچیز کی ملاقات :
2003 ء کے بعد طارق غازی جدہ سے ٹورنٹو منتقل ہوچکے تھے لہذا جدہ و مکہ مکرمہ میں ملاقاتوں کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا لیکن یہ سچ ہے کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے ، 2003 ء کے بعد ناچیز کی طارق غازی سے کینیڈا میں دوبارہ ملاقات ہوگی اس کا دور دور تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن دسمبر 2014 ء میں ناچیز کو انٹاریو کے ایک علاقے رچمنڈہل کے بے ویو کمیونٹی سینٹر میں الندوہ اسلامک سینٹر کے زیر اہتمام انگریزی میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے عنوان پر لیکچر کے لیے جب مدعو کیا گیا تو اس مجلس میں حرم شریف کی نسبت پر انتظامیہ مجلس نے راقم کے تعارف کے لیے سامعین میں اس وقت موجود محترم و مکرم طارق غازی ہی کو آواز دی ، ناچیز عالم استعجاب میں غرق تھا اور کبھی خود کو تو کبھی طارق غازی کو دیکھ رہا تھا کہ موصوف جیسی قد آور شخصیت کے توسط سے اس ناکارہ کا تعارف کیا جارہا ہے۔
مختلف عنوانات پر طارق غازی کے لیکچرز :
اس تقریب کے بعد سر زمین کینیڈا میں آپ سے روابط قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے، اللہ کے فضل سے بعد ازیں مختلف تقاریب میں ذاتی ملاقاتوں اور فون و ای میل سے بھی رابطہ قائم رہا ، الحمدللہ آپ کے تعمیری و فکری مزاج کے کئی لیکچرز کو نہ صرف سماعت کرنے بلکہ ماضی کے مشاہدات و تجربات سے مستفیض ہوتے ہوئے مستقبل کی خوب سے خوب تر تیاری کس نہج پر کی جائے جیسے اہم مشن کو بھی سمجھنے کے مواقع نصیب ہوئے، اللہ کے فضل سے طارق غازی اپنے دور کے اکابر علماء کے تربیت یافتہ تھے اور انگریزی سے بخوبی آشنا تھے لہذا مشرق و مغرب کی تہذیب و تمدن ، ان کے مثبت و منفی پہلو وغیرہ پر آپ کو خوب دسترس بھی حاصل تھی نیز مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے خوشہ چین ہونے کے ناطے ذہن میں وسعت النظری کا عنصر بھی غالب تھا صحافت آپ کی گویا گھٹی میں شامل تھی اور گھر آنگن کی سی بات تھی ، قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور ان کے سد باب سے آپ خوب واقف تھے، تاریخ اسلام ، سلطنت عثمانیہ ، تحریک آزادیء ہند میں خصوصا” علمائے کرام کا کردار ،حالات حاضرہ کے سلگتے مسائل اور انتہائی سنجیدگی و بردباری سے ان کا حل جیسے بیشتر اہم موضوعات پر محیط عموماََ” آپ کے لیکچرز ہوا کرتے تھے ، طارق غازی کے نزدیک اعلیٰ تعلیم سے اپنی شناخت کو قائم رکھنا ، اپنی اسلامی تہذیب و روایات کو برقرار رکھنا اصل حاصل تھا نہ کہ محض حصول زرو دولت اس کے علاوہ آپ سے گفت و شنید پر یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جا سکتا تھا کہ وہ ہمہ وقت آنے والی نسلوں کے لیے فکر مند رہتے تھے کیوں کہ ان کے نزدیک ذاتی مصروفیات میں ہمارا جس قدر وقت صرف ہوتا ہے اس سے زیادہ ہماری آنے والی نسلوں کی صحیح تربیت پر وہ وقت لگانے پر زور دیتے تھے کیوں کہ نسلوں کی اگر صحیح تربیت نہیں ہوئی تو ان کی دنیا و آخرت دونوں میں خسارے کے امکانات بڑھ جائیں گے آپ کی تربیت میں والدہ ماجدہ ہاجرہ نازلی کا خصوصی کردار :
آپ کی تربیت میں یقینا” آپ کے نانا مرحوم قاری محمد طیب صاحب ، والد مرحوم مولانا حامد الانصاری غازی اور ماموں مرحوم مولانا محمد سالم قاسمی کی شفقتیں شامل رہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے دور کی معروف اصلاحی ناول نگار آپ کی والدہ ماجدہ مرحومہ ہاجرہ نازلی کی خدمات اور تربیت کو ہر گز ہر گز فراموش نہیں کیا جا سکتا میری نگاہوں میں اس وقت آپ کی والدہ ہاجرہ نازلی صاحبہ کی تحریرکردہ ایک تصنیف ” انتظار سحر ” ہے جس کے سر ورق پر عالی جناب طارق غازی ہی کا ایک شعر رقم ہے:
جب بھی ہوتا ہے روایات کے سورج کا طلوع
حسن کی شمع سے ہلکا سا دھواں اٹھتا ہے
درج بالا شعر ہی سے طارق غازی کے شعری ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے شاعری کا آغاز آپ نے اٹھارہ برس کی عمر ہی سے کر دیا تھا پھر رفتہ رفتہ آپ کا شمار کہنہ مشق شعرا میں ہونے لگا۔
آپ کا صحافتی سفر :
صحافت آپ کے لیے گویا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا چنانچہ اس بات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ صحافت کے مشن میں آپ نے اپنے آپ کو دل و جان سے لگائے رکھا ، کبھی” ابوالکلام” ہفت روزہ ممبئی کی اشاعت میں تو کبھی” انڈو عرب نیوز لیٹر” ممبئی کی طباعت میں ، کبھی آپ کلکتہ سے روزنامہ ” عصر جدید ” کو شائع کررہے ہیں تو کبھی سری نگر کشمیر سے ” روزنامہ چنار” اور ” اکنامک ٹائمزکو نشر کرنے میں لگے ہوئے ہیں زندگی کی آخری چند دہائیوں کو جدہ سعودی عرب کے انگریزی روزنامہ ” سعودی گزٹ ” کے لیے آپ نے اپنی صحافتی خدمات کو وقف کر دیا تھا اس طرح سے کہ جب 1973ء میں سعودی گزٹ سے وابستگی اختیار کی تو اس وقت چند ہزاروں کی تعداد میں یہ اخبار شائع ہواکرتا تھا لیکن جب آپ سعودی گزٹ سے 2003ء میں سبکدوش ہونے لگےتو لاکھوں کی تعداد میں اس اخبار کی اشاعت پہنچ چکی تھی ۔
عوام الناس میں بالخصوص آپ کے ایڈیٹوریل سرخیاں اور حالات حاضرہ پر بیباک تبصرے انتہائی مقبول تھے یقیناََ ” ان چیزوں سے ایک صحافی کی کامیاب صحافت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ کی مختلف تصانیف :
طارق غازی جیسے مقبول صحافی کے قلم سے نکلے ہوئے رشحات قلم رفتہ رفتہ تصانیف کی شکل اختیار کرتے چلے گئے چنانچہ اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا کہ مختلف تصانیف بعنوان نظریۂ تہذیب ، تذکار الانصار ،مرج البحرین ، سدا مہاجر ،ذکر غازی ، فکر غازی ، خطابات غازی اور انگریزی میں ” دی کارٹونس کرائے ” ( یعنی اس بدبخت کے بنائے گئے کارٹونس کی چیخیں نکل رہی ہیں ) وغیرہ منظر عام پر آچکی ہیں انگریزی میں یہ کتاب امریکہ سے شائع ہوئی ہے جس میں ڈنمارک کے ایک اخبار رزیلہ جیلینڈس پوسٹن کے ایڈیٹر نے 2005 ء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کے تئیں نعوذ باللہ انتہائی بدبختی و بدتمیزی کا مظاہرہ کیا تھا محض اس مقصد سے کہ سارے عالم کے اہل ایمان کو تکلیف پہنچے اسی بدبخت ایڈیٹر کا آپ نے انتہائی فکر و تدبر سے منہ توڑ جواب دیا تھا۔
علاوہ ازیں مستقبل قریب میں آپ کی ایک اہم تصنیف بعنوان ” یکتا یکتا ” جلد ہی منطر عام پر آ رہی ہے جس میں شہر ممبئی میں 1960-1973 کے درمیان قریبی رفقاء، احباب و متعلقین کا تذکرہ مثلا” ظ انصاری ، جاں نثار اختر، راجندرسنگھ بیدی ، کرشن چندر ، عادل رشید، اکرم الہ ابادی ، مدن موہن ، شکیل بدایونی ، نجیب اشرف ندوی ، قاضی اطہر مبارکپوری ، سلامت رضوی وغیرہ جیسے تقریباََ ” چالیس افراد کے نہ صرف خاکے شامل ہیں بلکہ اس دور کے حالات ، معاملات و روایات کی چلتی پھرتی تصویروں اور ان کی تہذیب و تمدن کی بھر پور عکاسی بھی کی گئی ہے۔
انتقال سے تقریباََ ” دو ماہ قبل طارق غازی کے ایک اہم خواب کا تذکرہ جسےسیرت نبوی پر تحریر کردہ ایک تصنیف ذکرک صلی اللہ علیہ و سلم کی تکمیل پر دیکھا گیا۔ طارق غازی کے آباؤ اجداد کا تعلق میزبان رسول و صحابئ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ، بنی نجارکے سردار حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے ان تمام تفصیلات کے استفسار پر ناچیز نے جب ممبئی میں مقیم مرحوم طارق غازی کے برادر خورد ، برادر محترم سلمان غازی سے رجوع کیا تو ایک عجیب و غریب اور اہم خواب کا بھی تذکرہ سامنے آیا کہ سولہ برس کی محنت شاقہ کا ماحصل سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے عنوان پر طارق غازی کی ایک آخری تصنیف ” ذکرک صلی اللہ علیہ و سلم” کی تکمیل پر خواب کے متعلق انھیں طارق غازی رحمۃاللہ کا جو ای میل موصول ہوا اس کی چند سطور یہاں من و عن نقل کی جا رہی ہیں:
"بہرحال اللہ تعالی نے رہنمائی فرمائی اور یہ کتاب مکمل ہوگئی یہاں بطور تحدیث نعمت ایک بات بتا دیتا ہوں جب اس کتاب کا پہلا نسخہ پورا ہوا تو خواب میں حضرت اسعد ابن زرارہ انصاری رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوئی ۔ فرمایا تمہیں لینے آیا ہوں۔تمہاری کتاب کا اجراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمائیں گے اسی تقریب میں تمہیں لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی یہ خواب فجر کے وقت دیکھا تھا۔ وھٹبی ، کینیڈا
26 رجب 1445 ہجری / 7 فروری 2024 "طارق غازی کی زندگی میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت پر تحریر کردہ یہ آخری تصنیف ہے جس کے متعلق برادر محترم سلمان غازی نے کہا کہ سیرت کے عنوان پر یہ کتاب ” ذکرک صلی اللہ علیہ و سلم ” دیگر سیرت کی کتابوں سے مختلف ہے آپ نے مزید کہا کہ سولہ برس سے لکھی جانے والی اس کتاب میں ہر واقعے کے بعد تاریخی پس منظر پیش کیا گیا ہے اور سلمان غازی کے مطابق سیرت پر اس انداز میں کوئی اور کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔
ای میل میں خواب کا تذکرہ جو کیا گیا ہے اس پر 26 رجب 1445 ہجری بمطابق 07 فروری 2024ء کی تاریخ درج ہے اور 13 اپریل 2024 ء کو آپ کا انتقال ہوا بہرحال سیرت کی نسبت اس کتاب کی اشاعت کا مشن ابھی ہنوز باقی ہے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے دلچسپی رکھنے والے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت رکھنے والے ہر امتی کی اب یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ یہ تصنیف جلد از جلد منظر عام پر آجائے تاکہ عوام و خواص دونوں اس تاریخ ساز تصنیف سے مستفیض ہو سکیں۔
یاد رہے اللہ پاک نے قرآن کریم میں ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا ہے لہذا جو اللہ کے حبیب سرکار دو عالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر کو بلند کرنے کی مساعی جمیلہ کرے گا یقیناََ ” اللہ تعالی اسے بھی بلندی تک پہنچا دے گا ( آمین )
طارق غازی کی نماز جنازہ اور دعائیہ کلمات :
13 اپریل 2024 ء کو مسجد عثمان واقع پکرینگ انٹاریو میں بعد ظہر نماز جنازہ میں سینکڑوں کی تعداد میں سوگواران نے شرکت کی ، نماز ظہر میں اس قدر ہجوم تھا کہ گویا نماز جمعہ کا گمان ہورہا تھا آپ کی نماز جنازہ طارق غازی کے اکلوتے بیٹے منصور غازی نے پڑھائی بعد نماز جنازہ ناچیز نے اپنے چھوٹے بیٹے حافط اسمعیل میاں سلمہ کے ہمراہ جناب منصور غازی سے ان غمناک لمحات میں تعزیت بھی کی بعد ازیں مرحوم کی تدفین تھارٹن سیمیٹری ( قبرستان ) واقع آشواہ انٹاریو میں عمل میں آئی اور یہی جگہ آپ کی آخری منزل قرار پائی۔ بارگاہ رب العزت میں ہم سب دعاگو ہیں کہ اللہ پاک مرحوم طارق غازی کو اپنی جوار رحمت میں ڈھانپ لے ، اعلی علیین میں انھیں جگہ عنایت فرمائے نیز ان کے تمام متعلقین کو صبر جمیل دے اور قوم و ملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔
( آمین یا رب العالمین )