سینئر صحافی ظفرآغا کے انتقال سے صحافتی اور ملی حلقوں میں سوگ کی لہر ہے۔ وہ ایک تجربہ کار، حساس،سنجیدہ اور سلجھے ہوئے صحافی تھے۔ انھوں نے اپنا کیریر انگریزی صحافت سے شروع کیا تھامگران کا انتقال ایک اردو صحافی کے طورپر ہوا۔انتقال سے پہلے تک وہ اردو نیوزپورٹل ”قومی آواز“ کے مدیر تھے، جس کا دفتر بہادر شاہ ظفرمارگ پر اسی’لنک ہاؤس‘ سے متصل واقع ہے، جہاں سے 1979میں انھوں نے ”لنک میگزین“ میں بطور انگریزی صحافی اپنا کیریرشروع کیا تھا۔ 45 برسوں پر محیط ان کی صحافتی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، لیکن انھوں نے صحافتی دیانت داری اورمعروضیت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صحافتی حلقوں نے ان کے انتقال پر گہرے سوگ کا اظہار کیا ہے۔نئی دہلی کی جورباغ کربلا میں ان کی تکفین اور ساکیت قبرستان میں تدفین کے موقع پر کثیر تعداد میں انگریزی اور اردو صحافی موجود تھے۔
ظفرآغا کا انتقال 22/مارچ 2024کی صبح پانچ بجے وسنت کنج،نئی دہلی میں واقع فورٹس اسپتال میں ہوا، جہاں وہ گزشتہ تین روز سے نمونیہ اور سینے میں انفیکشن کی وجہ سے زیرعلاج تھے۔ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ وہ کئی برس سے صحت کے مسائل کا شکار تھے۔دراصل وبائی دورمیں کوروناسے متاثر ہونے کے بعد ان کی صحت مسلسل خراب رہنے لگی تھی، لیکن قلم وقرطاس سے ان کارشتہ قایم تھا اور وہ کالم نویسی کے ذریعہ اپنی موجودگی کا مسلسل احساس دلارہے تھے۔کبھی کبھی کسی تقریب میں نظر آتے تو ان سے مل کر خوشی ہوتی تھی۔ کبھی زیادہ دل گھبراتا تو پریس کلب آجاتے اور پرانے دوستوں سے مل کر نہال ہوتے تھے۔ان سے گفتگو کرنا ہمیشہ اچھا لگتا تھا۔ وہ ملک کے موجودہ حالات سے خاصے تشویش میں مبتلا نظر آتے تھے۔
ہندوستان میں 1980-90 کی دہائی سیاسی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ اسی دور میں ملک کے اندر ایمرجنسی لگی اور اس کے بعد جنتا پارٹی کا دور آیا۔ ایودھیا آندولن بھی اسی دور میں شروع ہواجس نے ملک کا سیاسی منظرنامہ بدل کر رکھ دیا۔صحافت بھی اس کثافت سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ ظفر آغا اس نازک دور میں بھی اعلیٰ صحافتی اخلاقیات سے وابستہ رہے۔ وہ ان معدودے چند مسلم نوجوانوں میں شامل تھے، جنھوں قومی ذرائع ابلاغ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ظفرآغا کے علاوہ جو دیگرمسلم نوجوان اس قافلے میں شامل تھے، ان میں کچھ نام یاد آرہے ہیں۔فرازاحمد(’انڈین ایکسپریس‘)عسکری زیدی اوراسامہ طلحہ(’ٹائمز آف انڈیا‘)ضیاء حیدر رضوی(’پیٹریاٹ‘ اور ’مڈڈے‘)فرزند احمد(’انڈیا ٹوڈے‘)ایم جے اکبر، سیما مصطفی اور رشید قدوائی(’ٹیلی گراف‘ کلکتہ)پرویز حفیظ(’ایشین ایج‘ کلکتہ)اور قربان علی (’روی وار‘ کلکتہ‘)۔یہ سب وہ لوگ ہیں جنھوں نے قومی صحافت میں اپنا پرچم بلند کیا۔ان میں اسامہ طلحہ اور فرزند احمد دنیا چھوڑ چکے ہیں جبکہ باقی لوگ کسی نہ کسی صورت میں اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
ظفرآغا کا وطنی تعلق الہ آباد سے ضرور تھا،لیکن وہ عرصہ دراز سے دہلی میں مقیم تھے اور یہی ان کی صحافتی سرگرمیوں کا محور ومرکز بھی تھا۔ ان کے بڑے بھائی قمرآغا نیوزچینلوں کے تجزیہ نگار کے طورپر شہرت رکھتے ہیں۔ظفرآغا کی صحافتی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے نہایت سرگرم زندگی گزاری۔میری ان سے شناسائی کافی پرانی تھی۔جب بھی ملتے تپاک سے ملتے تھے۔حالانکہ کووڈ کے بعد ملاقاتیں کم ہوگئی تھیں، لیکن ہم دونوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ مضبوط تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ بیماری کے باوجود میرے بیٹے کے ولیمے میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے اور پرانے دوستوں سے مل کر بہت خوش ہوئے تھے۔
ظفر آغانے اپنا صحافتی کیریر 1979میں پیٹریاٹ گروپ کے ”لنک میگزین“ سے شروع کیا تھا۔بعد کو وہ انگریزی میگزین ”انڈیا ٹوڈے“ سے وابستہ ہوگئے اور یہیں ان کی صحافیانہ صلاحیتوں پر شباب آیا۔انھوں نے ہمیشہ ایک ایماندار اور سچے صحافی کے طورپر کام کیا۔بعد کووہ ”سنڈے آبزرور“ سے وابستہ ہوگئے۔ وہ کچھ عرصے ای ٹی وی (اردو)کے انٹرویوز کے پروگرام میں میزبان بھی رہے۔ سیاسی حالات کی تبدیلی کے ساتھ جب آہستہ آہستہ قومی ذرائع ابلاغ میں ان جیسے صحافیوں کے لیے جگہ تنگ ہونے لگی تو انھوں نے اردو صحافت کا رخ کیا۔سب سے پہلے حیدرآباد سے شائع ہونے والے روزنامہ ”سیاست“ کے سنڈے ایڈیشن میں کالم نگاری شروع کی۔ ”سیاست“میں وہ کئی برس تک کالم لکھتے رہے۔ اس کے ذریعہ اردو صحافت میں ان کی شناخت قایم ہوئی۔ انھوں نے روزنامہ ’انقلاب‘ممبئی اور ’صحافت‘کے دہلی ایڈیشن کے لیے بھی مسلسل کالم لکھے۔ 2008میں روزنامہ ”قومی آواز“ کی اشاعت بند ہونے کے کچھ عرصے بعدجب اس کا نیوزپوٹل شروع ہوا تو وہ اس کے پہلے ایڈیٹر بنے۔ اس دوران انھوں نے’نیشنل ہیرالڈ‘ سے مرنال پانڈے کی علاحدگی کے بعدہیرالڈ کی بھی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 2017 تک وہ نیشنل کمیشن برائے اقلیتی ادارہ جات کے رکن بھی رہے۔
ظفرآغا کی پیدائش 1954میں الہ آباد کے ایک معزز شیعہ خانوادے میں ہوئی۔ انھوں نے وہاں یادگار حسینی کالج اور الہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ وہ بنیادی طورپر انگریزی ادب کے طالب علم تھے۔دوران تعلیم ہی وہ ترقی پسند طلباء تحریک سے وابستہ ہوئے اورتاعمر بائیں بازو کے نظریات اور جمہوری قدروں سے وابستہ رہے۔وہ دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے)میں بھی سرگرم رہے۔ انھوں نے اپنا کیریر گجرات کے شہر سورت میں انگریزی ٹیچر کے طورپر شروع کیا تھا۔ انھیں انگریزی زبان وادب پر مکمل دسترس حاصل تھی، بعد کو جب انھوں نے اردو میں کالم نگاری شروع کو تو اس پر بھی عبور حاصل کرلیا تھا۔
کئی برس پہلے ظفرآغا اپنے وطن الہ آباد میں ایک فساد کی رپورٹنگ کے دوران زخمی ہوگئے تھے اور ان کی بائیں ٹانگ میں فریکچر ہوگیا تھا، جس نے انھیں کافی عرصے پریشان رکھا۔ اسی دوران وہ اپنی بائیں آنکھ سے بھی محروم ہوگئے اور مسلسل صحت کے مسائل سے جوجھتے رہے، لیکن بیماری اور آزاری کے باوجود انھوں نے صحافت سے اپنا رشتہ برقرار رکھا۔انھیں سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب2020میں ان کی اہلیہ کووڈ کی وبا کا شکار ہوکر مالک حقیقی سے جاملیں۔خود ان پر کافی عرصے کووڈ کے اثرات رہے اور وہ پوری طرح صحت یاب نہیں ہوسکے۔صحت کے ان ہی مسائل سے جوجھتے ہوئے انھوں نے گزشتہ روز داعی اجل کو لبیک کہا۔ خدا انھیں اپنے جواررحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
ظفرآغا کی یاد میں-معصوم مرادآبادی
previous post