کون تھے ناظر نعمان صدیقی جنہیں لوگ پیار اور احترام سے مانی بھائی کہتے تھے ؟ اس سوال کا جواب شاید اردو زبان و ادب سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والا ہر شخص دے دے کہ مانی بھائی اردو کے معروف ادبی رسالے ’ ماہنامہ شاعر ‘ کے ناشر تھے ۔ لیکن یہ جواب ادھورا سچ ہے ! مانی بھائی ’ ماہنامہ شاعر ‘ کے ناشر ہی نہیں مجسم ’ ماہنامہ شاعر ‘ تھے ۔ جن افراد نے انہیں ’ ماہنامہ شاعر ‘ کے لیے ، اس کے استحکام کے لیے ، اس کی نشر و اشاعت کے لیے اور اس کی بقا کے لیے دوڑتے بھاگتے ہوئے اور اس کے مدیر اور اپنے چھوٹے بھائی افتخار امام صدیقی کی ، جو ایک حادثہ کے بعد سالوں تک صاحبِ فراش تھے ، تیمارداری کرتے ہوئے دیکھا ہوگا ، انہیں میری اس بات سے اتفاق ہوگا ۔ ’ ماہنامہ شاعر ‘ ان دنوں بھی ، جب افتخار امام صدیقی کے لیے ہلنا ڈولنا ، چلنا پھرنا ناممکن تھا صرف اس لیے نکلتا رہا کہ مانی بھائی نے ہمت نہیں ہاری تھی ۔ مانی بھائی اور افتخار بھائی کو اللہ تعالیٰ نے کس قدر ہمت عطا کی تھی ، اور ان کے کیسے کیسے عزم تھے ! ان کا خواب تھا کہ ’ ماہنامہ شاعر ‘ اپنی عمر کے سو سال پورے کر لے ، یہ چاہتے تھے کہ سو سال کی تکمیل پر اس کا ایک شاندار جشن منایا جائے ۔ یہ سارے خواب پہلے تو افتخار امام صدیقی کی رحلت سے ٹوٹے ، پھر مانی بھائی کی صحت جواب دے گئی ، اور ایک رسالہ جو ساری اردو دنیا میں احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اس حال کو پہنچا کہ اس کی اشاعت میں تاخیر پر تاخیر ہونے لگی ، اور جب مانی بھائی بیمار ہوکر بستر پر پڑے تو ’ ماہنامہ شاعر ‘ کا تاخیر سے نکلنا بھی بند ہو گیا ، اور اب یہ نکلے گا ، نہیں نکلے گا اس سوال کا جواب صرف حامد اقبال صدیقی کے پاس ہے جو مانی بھائی اور افتخار بھائی کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ میرا صدیقی خاندان سے گہرا تعلق رہا ہے ، اس لیے مانی بھائی کے جانے کی خبر میرے لیے المناک ہے ۔ اردو زبان کے ایک بڑے شاعر سیماب اکبرآبادی کے بیٹے محترم اعجاز صدیقی نے ممبئی میں جدوجہد کے بعد اپنا ایک مقام بنایا تھا ، افتخار بھائی اور مانی بھائی ان کے بیٹے تھے ، حامد اقبال اور شعیب صدیقی ان کے بیٹے ہیں ، ایک بیٹے رئیس مغنی صدیقی تھے ، معروف آرٹسٹ جو عرصہ قبل مالک حقیقی سے جا ملے ہیں ۔ اب اس خاندان کی باگ دوڑ حامد اور شعیب کے کندھوں پر ہے ۔ دو باتیں کہنی ہیں ، ایک تو یہ سوال ہے کہ ’ ماہنامہ شاعر ‘ جب تک چلتا رہا اس میں شائع ہونے کے لیے ادباء و شعراء وہاں آیا جایا کرتے تھے ، اپنی تخلیقات کی اشاعت کے لیے خوشامدیں کرتے تھے ، کچھ لوگ تو روزانہ ہی دفتر پہنچ جاتے تھے ، وہ بھلا مانی بھائی کی بیماری کے دوران کہاں غائب ہو گیے تھے ؟ مزید ایک بات یہ کہ اردو زبان کے لیے مرنے مٹنے کی قسمیں کھانے والے کیوں ’ ماہنامہ شاعر ‘ کی اشاعت کو جاری رکھنے کے لیے آگے نہیں بڑھے ؟ شاید ان دونوں سوالوں کے جواب نہ مل سکیں کیونکہ اردو والے کہاں ایسے سوالوں کے جواب دیتے ہیں ! مانی بھائی اتنے دنوں تک منظرنامے سے غائب رہے لیکن کسی طرف سے بھی یہ سوال سنائی نہیں دیا کہ مانی بھائی کیوں نظر نہیں آتے ، کیا بیمار ہیں ؟ مانی بھائی جب تک جیے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا ، نہ ہی کسی کا احسان لیا ، محنت کی ، حلال کمایا اور حلال کھایا اور گھر والوں کو کھلایا ۔ اب اردو دنیا میں مانی بھائی جیسے لوگ شاید ہی بچے ہوں ۔ اللہ مانی بھائی کو کروٹ کروٹ جنت دے ، آمین ۔