’ کچھ لوگ ‘ مختار انصاری کو ’ دہشت گرد ‘ کہہ رہے ہیں ! یہ ’ کچھ لوگ ‘ وہ ہیں جن کے تار باپو مہاتما گاندھی کے قاتلوں سے جا کر مل جاتے ہیں ۔ میں نے صرف ناتھو رام گوڈسے کا نام نہیں لیا ہے ، کیونکہ گاندھی جی کے قتل میں ایک مخصوص نظریہ رکھنے والا ہر شخص ملوث تھا ۔ اور آج بھی اس مخصوص نطریے کے لوگ گوڈسے کو ، اور انہیں جو گاندھی جی کے قتل کے منصوبہ ساز تھے ، پوجتے ہیں ۔ یہ سب کون ہیں ؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے دھرم ، مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا جائز ہے ۔ اب یہ مرحوم مختار انصاری کے نام پر سیاست کر رہے ہیں ۔ مختار انصاری تقریباً ۱۹ سالوں سے قید میں تھے ، لیکن دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ پوروانچل میں ان کی دہشت تھی ! اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر خبریں دی جا رہی ہیں کہ ’ چار دہائیوں کی دہشت کا خاتمہ ہو گیا ہے ‘۔ لیکن کیا واقعی ایسا تھا ؟ مرحوم کے جنازے میں صرف مسلمان نہیں ہندوؤں کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھی ، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح کے دعوے کیے جا رہے ہیں ، بات ویسی نہیں تھی ۔ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ مختار انصاری کی دہشت تھی ، اور ہندوؤں پر ان ظلم تھا ، تو سوال یہ اٹھے گا کہ کیا مختار انصاری کی دہشت کا شکار ہوتے ہوئے بھی جنازے میں ہندو چلے آئے ؟ کچھ باتیں پروپیگنڈا کے لیے ہوتی ہیں ، اور کچھ باتیں لوگوں کو بدنام کرنے کے لیے ہوتی ہیں ، مختار انصاری کے معاملہ میں پروپیگنڈا بھی ہے اور بدنام کرنے کی کوشش بھی ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب ممبئی کے دو مرحلوں کے فسادات ہوے تھے ، اور اس کے بعد شہر ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں سے لرز اٹھا تھا ، تب شیو سینا کے اُس وقت کے پرمکھ بال ٹھاکرے نے ’ مسلم ڈان ‘ اور ’ ہندو ڈان ‘ کی اصطلاح گڑھی تھی ۔ ان کی نظر میں داؤد ابراہیم ’ مسلم ڈان ‘ تھا ، اور چھوٹا راجن ’ ہندو ڈان ‘ اور اس اصطلاح کی بنیاد پر انہوں نے کافی نفرت پروسی تھی ، اور فرقہ وارانہ پھوٹ کو پختہ کیا تھا ۔ حالانکہ داؤد ابراہیم کے لیے چھوٹا راج کام کرتا تھا ! اب کچھ ایسا ہی مختار انصاری کے معاملہ میں کیا جا رہا ہے ، بلکہ اس کی شروعات شہاب الدین ، اور عتیق احمد و اشرف سے ہی ہو گئی تھی ۔ مختار انصاری کو ایک ’ مسلم مافیا ‘ کے طور پر پیش کرنے کا کام کیا گیا ، جبکہ مختار انصاری کے ساتھ ’ مافیا ‘ کے کاروبار میں ’ ہندو مافیا ‘ بھی شریک تھا ۔ یقیناً مختار انصاری پر سخت قسم کی مجرمانہ وارداتوں کے لیے معاملات درج تھے ، جن میں قتل کے معاملات بھی تھے جیسے کرشنا نند رائے کا قتل ۔ لیکن قتل کی اس واردات کے ملزمان کی فہرست اگر دیکھیں تو ان میں مختار انصاری کے ساتھ منّا بجرنگی ، ابھے سنگھ اور راکیش پانڈے کا نام بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ دشمنی دھرم کی بنیاد پر نہیں تھی ، یہ ’ غیرقانونی کاروبار ‘ پر قبضے کا معاملہ تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کرشنا نند رائے بچ گیا ہوتا تو مختار انصاری پر قاتلانہ حملہ ممکن تھا ۔ لیکن اب اس ملک میں سیاست کے کھیل کا طریقہ بہت بدل گیا ہے ، اب جو سچ ہے اسے جھوٹ بنا کر کھیلا جا رہا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ غیر قانونی کاروبار اب بھی دھڑلے سے کیا جا رہا ہے ، اور یو پی ہی نہیں ملک بھر میں مافیا ڈانوں کی کمی نہیں ہے ، لیکن اب یہ مافیا ڈان اپنے دھرم اور ذات پات کی بنیاد پر جانے جاتے ہیں ، اور اپنے دھرم و ذات پات والوں ہی کے لیے کام کرتے ہیں ۔ مختار انصاری اس زمرے میں درست نہیں بیٹھتے تھے اس لیے وہ پہلے کی طرح ، اب کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے ’ لازمی ‘ نہیں رہ گئے تھے ۔ لیکن کتنا بھی پروپیگنڈا کیا جائے مختار انصاری نہ دہشت تھے اور نہ دہشت گرد ، ہاں انہیں مافیا سرغنہ کہا جا سکتا ہے ۔ اس ملک میں بہت سے مافیا سرغنہ ہیں لیکن مختار انصاری جیسا ، ہندوؤں اور مسلمانوں میں مقبول ، نہ کوئی پہلے تھا اور شاید نہ پھر کبھی ہوگا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)